ادب میں خلاصہ نگاری کی روایت

خلاصہ یا تلخیص ادب کی ایک اہم صنف اور تحقیقی مقالے یا تحقیقی مضمون کی بنیاد ہوتا ہے۔ تحقیقی مضمون شروع میں اگر خلاصہ نہ ہوتو وہ مضمون تحقیقی مضمون کے زمرے میں نہیں آتا، اسی طرح تحقیقی مقالات کے ابتدا میں تحقیق کا خلاصہ دینا تحقیقی ضرورت ہے۔ ’خلاصہ ، تبصرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ خلاصے میں مضمون یا دستاویز کی وسعت اور متن کا لب لباب مختصر یا تفصیلی بیان کیا جاتا ہے کہ قاری خلاصہ پڑھ کر یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے اب اصل دستاویز یا مضمون پڑھنا چاہیے یا نہیں تاہم خلاصہ اصل مضمون یا دستاویز کا نعم البدل ہر گز نہیں ہوتا البتہ فوری اور مختصر وقت میں معلومات فراہم کرنے سبب ضرور ہوتا ہے۔ عطش درانی کے خیال میں’ تلخیص کسی عبارت کو کم از کم الفاظ میں اس طرح لکھنا کہ اس عبارت کا تاثر برقرار رہے اور کوئی بات محل نظرنہ ہو‘ تلخیص نگاری کہلاتی ہے‘۔اس کے برعکس تبصرے میں کتاب کے مندرجات اور اسلوب ِ بیان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مواد کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔ تبصرہ قاری کو کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اس کی بنیاد پر قاری اس دستاویز یا کتاب کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے قابل ہوجاتاہے۔

مغربی مصنف جنیفیر ای راؤلی نے اپنی کتاب ’خلاصہ نگاری اور اشاریہ سازی‘ میں خلاصہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’خلاصہ دستاویز کے متن کو مختصر اور صحیح طو پر اس انداز سے بیان کرنا کہ وہ اصل دستویز معلوم ہو‘۔ گویا خلاصہ اس مختصر تحریر کو کہتے ہیں جو اصل مضمون یا مسودہ کا نچوڑ ہو یعنی کسی بھی دستاویز (مضمون یا مقالہ) کا نچوڑ یا حاصل خلاصہ کہلاتا ہے۔جامعہ اللغات میں خلاصہ کے معنی ’اختصار، کسی چیز کا بہترین حصہ، نچوڑ، جوہر، نتیجہ، حاصل کے بیان کیے گئے ہیں۔خلاصہ کی دو اقسام بیان کی گئیں ہیں ایک ’معلوماتی‘(Informative) اور دوسری’ بیانی یا وضاحتی‘ (descriptive)۔ معلوماتی خلاصہ قاری کو ماخذ کے بارے میں اساسی اطلاعات فراہم کرتا ہے جب کہ بیانی یا وضاحتی خلاصہ پڑھ کر قاری اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ یہ ماخذاس کے لیے مفید ہے اور مضمون یا کتاب کا مطالعہ اس کے لیے کارآمدہوگا۔

خلاصہ نگاری کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ خیال ہے کہ کتاب مٹی کی تختیوں ، پیپائرس، پارچمنٹ اور پھر کاغذ پر تیار کی گئی قلمی کتب کے سر ورق پر کتاب کے بارے میں مختصر لکھنے کا رواج تھا یہی خلاصہ نگاری کی ابتدا تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ فن بھی بہتر سے بہتر صورت اختیار کرتا چلا گیا۔انیسویں صدی کے آغاز میں علمی مواد برق رفتاری سے منظر عام پر آنا شروع ہوا تو مواد کے اس اشاعتی سیلاب نے محققین اور لکھنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کردیں کہ وہ اپنے مطلوبہ موضوعات پر شائع شدہ مواد کے بارے میں کس طرح آگاہ ہوں۔ اس اشاعتی سیلاب پر قابو پانے کے لیے تحقیق و جستجو اور منصوبہ بندی کی گئی چناچہ کتابیات، اشاریہ جات کے ساتھ ساتھ خلاصہ نگاری کو ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہوئے خلاصہ نگاری کا رواج عام ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ۱۸۰۳ء میں اولین خلاصہ بعنوان (Chemischer Information Sdiensts)شائع ہوا۔ انگریزی زبان میں متعدد خلاصے شائع ہورہے ہیں بلکہ ہر مضمون کے علیحدہ علیحدہ خلاصے شائع ہوتے ہیں۔

ابنِ ندیم(محمد بن اسحاق ابن ندیم) جو پیشے کے اعتبار سے وراق تھے نے ’’الفہرست‘‘ کے عنوان سے کتابیات مرتب کی جو قدیم عربی کتابوں کی تو ضیحی کتابیات ہے۔ اس میں چوتھی صدی ہجری کے آخر تک کے علوم وفنون کی کتب کاتفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس تو ضیحی کتابیات میں کتاب جس موضوع پر ہے اس کے ساتھ ساتھ مصنفین کے بارے میں بھی معلوت درج کی گئی ہیں۔ کتاب کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس میں موجود خامیوں کی بھی نشاندھی کی ہے۔ اس کتابیات کو قدیم کتب کا خلاصہ کہا جاسکتا ہے۔ کتابیات کا اردو ترجمہ مولانا محمد اسحاق بھٹی نے کیا جسے ۱۹۶۳ء میں لاہور سے ادارہ ثقافت اسلامیہ نے شائع کیا۔ معروف مصنف رابرٹ بی ڈاؤنز(Robert B. Downs) کی مرتب کردہ ’کتابیں جنہوں نے دنیا بدل ڈالی‘ Books that changed the world، مَعرَکَتہُ الا ٔراکتب پر تبصرہ و تخلیص کا مثالی مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’عظِیم کتابیں: جنہوں نے دنیا بدل ڈالی‘ کے عنوان سے غلام رسول مہر نے کیا اور فکشن ھاؤس نے ۲۰۰۶ء میں شائع کیا۔

اردو ادب میں خلاصہ نگاری ، تبصرہ اور دیباچہ نگاری کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہے۔ تصانیف پر اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرنا کہ مصنف اپنی تصنیف کی اشاعت سے قبل ازخود کسی ماہر فن سے درخواست کرے تو یہ عمل دیباچہ یا تقریظ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح کے اظہاریے میں کتاب پر تنقید نہیں ہوتی البتہ کتاب کو مزید بہتر بنانے کی کوئی تجویز ہو سکتی ہے۔ خلاصہ مصنف از خود تحریر کرتا ہے چنانچہ اس میں اختصار کے ساتھ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس میں کیا کچھ ہے، تبصرہ کتاب کی اشاعت کے بعد کوئی بھی کرسکتا ہے یہ ثنائی اور تنقیدی ہو سکتے ہیں۔ اردو ادب میں خلاصہ نگاری کا کوئی ماخذ تو نہیں ملتا البتہ بعض مصنفین نے منفرد انداز سے کتابوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے انہیں ہم خلاصہ نگاری کے زمرے میں شامل کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں توضیحی کتابیات میں کتب پر مختصرتبصرے بھی ہوتے ہیں انہیں بھی خلاصہ نگاری کے ذیل میں رکھا جاسکتا ہے۔

بی بی سی اردو سروس کے حوالے سے ایک معروف نام رضاعلی عابدی کا ہے۔۱۹۷۵ میں بی بی سی لندن کی اردو سروس سے ایک پروگرام بعنوان ’’کتب خانہ‘ شروع ہوا اور کوئی سال بھر سے زیادہ نشرہوا، اس پرگرام کا بنیادی مقصد پرانی اردو کتابوں کو جو مختلف عوامی کتب خانوں اورمختلف علمی و ادبی شخصیات کے ذاتی ذخیر ہ میں محفوظ تھیں متعارف کرانا تھا۔اس پروگرام میں کتابوں کے ساتھ ساتھ کتب خانوں کا ذکر آجانا یقینی تھا۔اس پروگرام کو ترتیب دینے کی غرض سے رضاعلی عابدی نے کوچہ کوچہ ،قریہ قریہ سفر کیا، برطانیہ کے علاوہ برصغیر پاک و ہند کے مختلف شہروں میں گئے ، بقول عابدی صاحب ’اس پروگرام کا مقصد یہ تھا کہ موقع پر جاکرتحقیق کی جائے اوردیکھا جائے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی پہاڑیوں سے لے کرمدراس کے ساحل تک اور بنگال کے سبزہ زاروں سے راجستھان کے ریگ زاروں تک قدیم کتابیں کہاں کہاں ہیں ، اور کس حال میں ہیں‘۔ عابدی صاحب اپنے اس مقصد میں کامیاب رہے ، ان علاقوں میں موجود نایاب و نادر کتابوں کاحال اور ان کی خستہ حالی کی د استان اس خوبصورت انداز سے ریڈیوپر بیان کی کہ اس
وقت کے سنے والے جو کتاب و ادب اور کتب خانوں سے دلچسپی رکھتے تھے عابدی صاحب کو جی بھر کر داد دینے میں پیچھے نہ رہے۔

عابدی صاحب کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے دوران انہوں نے بہت کونے جھانکے ۔کسی میں نور بھر اتھا اور کہیں اندھیروں کا راج تھا۔ کہیں کتابیں بچائی جارہی تھیں اور کہیں کیڑوں کی غذا بن رہی تھیں‘۔یہ جستجو تو تھی ریڈیو کے لیے پروگرام ترتیب دینے کی جو کامیاب رہی ، اس سے بھی بڑی بات یہ ہوئی کہ عابدی صاحب کو اپنی اس تحقیق کو کتابی شکل دینے کا خیال آیا اور اس نے عملی جامہ بھی پہن لیا جس کا نام ہے ’’برصغیر میں قدیم کتابیں کہا ں کہاں اور کس حال میں ہیں۔ کتب خانہ‘‘ ہے اور یہ جو ۱۹۸۵ء میں منظر عام پر آئیَ ۔اس عمل سے کتاب اور کتب خانوں کے بارے میں کی گئی تحقیق جو ریڈیو پر نشر ہوئی ہواؤں میں بکھر نے کے ساتھ ساتھ صفحہ قرطاس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئی۔ وہ پروگرام جو آج سے تین دھائی قبل نشر ہوا، جو لوگ پروگرام نہ سن سکے تھے وہ اس کتاب کے ذریعہ سالوں پرانی پھیلنے والی خوشبوں کو محسوس کرسکتے ہیں۔

رضاعلی عابدی کی مرتب کردہ ایک اور اہم کتاب جسے خلاصہ نگاری کی ذیل میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ ان تصانیف کے بارے میں بقول عابدی ہمارے بزرگوں نے پڑھی تھیں اور جو یورپ میں محفوظ رہ گئی ہیں۔یہ وہ تصانیف ہیں جنہیں قدیم کتب کہا جاسکتا ہے۔ ان کتابوں کے بارے ہی
میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا ؂
خزانے علم و حکمت کے ، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو پورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

رضاعلی عابدی کی مرتب کردہ اس کتاب عنوان ’کتابیں اپنے آباء کی: گزرتے وقت‘ بدلتی تہذیب ، زبان کے ارتقاء اور تاریخ کی کروٹوں کی داستان قدیم کتابوں کی زبانی‘‘ ہے۔اس تصنیف میں پہلی کتاب جس کا ذکر کیا گیا ہے ۱۸۰۳ء میں شائع ہونے والی میر بہادر علی حسینی کی ’’اخلاقِ ہندی ‘‘ہے جو قدیم داستانوں کا مجموعہ ہے۔ دوسری کتاب میر امن دہلوی کی ’قصہ باغ وبہار ‘ ہے جو ۱۸۰۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اسی طرح سرسید احمد خان کی’ آثار الصنادید‘ اور ’آئین اکبری‘ وغیرہ کے بارے میں خوبصورت اور منفرد انداز سے کتابوں کا تعارف کرا یا گیا ہے۔

پاکستان سائنس ایبسٹریکٹ(Pakistan Sciecne Abstract, PSA) آن لائن ماخذ ہے جو حکومت پاکستان کا ادارہ پاکستان سائنٹفک اینڈ ٹیکنالوجیکل انفارمیشن سینٹر (PASTIC) شائع کرتا ہے ۔ اس خلاصے میں سائنسی و فنی رسائل ، کانفرنسیز کی روداد اور سائنسی موضوعات پر مضامین کے خلاصے شامل ہوتے ہیں۔

اردو زبان میں اس قسم کے ماخذات کی روایت خال خال ہی پائی جاتی ہے۔ کتب پر تبصروں پر مشتمل ایک ماہنامہ ’اردو بک ریویو ‘ کے نام سے دریا گنج دہلی،بھارت سے شائع ہوتا ہے۔اس جریدے میں اردو و انگریزی کی کتب پر تبصرے شائع ہوتے ہیں۔اسے خلاصے کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹدیز کے زیر اہتمام نئی کتابوں کے تعارف اور تبصرہ پر مشتمل ششمائی مجلہ ’نقطۂ نظر ‘ ۱۹۹۶ء سے شائع ہورہا ہے ۔ اس کے مدیر ڈاکٹر سفیر اختر ہیں۔ موجودہ شمارہ ۳۱( اکتوبر ۲۰۱۱ء سے مارچ ۲۰۱۲ء) تک کے دور پر مشتمل ہے۔ تقریباً تمام ہی ادبی جرائد کتابوں پر تبصرہ شائع کرتے ہیں۔ انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ او ر اخبار’ ڈان ‘ کتابوں پر تبصرے شائع کرتے ہیں روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں برس ہا برس سے کتب پر تبصرے شائع ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے شین عین ( شفیع عقیل مرحوم )کی علمی خدمات قابل ذکر ہیں۔ انہیں تبصرے کا
فن خوب آتا تھا۔خلاصہ کے بارے میں مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ :
خلاصہ قاری کا وقت بچاتا ہے
خلاصہ ماضی میں شائع شدہ مواد کا جائزہ پیش کرتا ہے
خلاصہ پڑھنے والے کی زبان کی مشکل کا حل ہے یعنی اصل دستاویز یا مضمون کسی ایسی زبان میں ہے جس سے پڑھنے والا واقف نہیں
خلاصہ جو عام طور پر انگریزی میں ہوتا ہے اس مشکل کا حل ہوتا ہے۔
خلاصہ یا تخلیص طویل مضمون اور ضخیم تحقیقی مقالے کو اختصار سے بیان کرنے کا ذریعہ ہے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279636 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More