دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں اور
تاریخ میں اپنا نام پیدا کرتی ہیں جو اپنی قومی غیرت خودداری کا سودا نہیں
کرتی ہیں۔ جو اپنی آزادی کی قدر کرتی ہیں اور جو دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ
معاملات میں اپنا قومی مفاد سب سے مقدم رکھتی ہیں۔ تاریخ نے ان قوموں کو
ہمیشہ یاد رکھا ہے۔ ویت نام ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس نے اپنی آزادی پر
حملہ کرنے والے امریکہ کو ایسا سبق سکھایا کہ وہ آج تک یاد کرتا ہے اور وقت
کا مؤرخ جب بھی ویت نام کا ذکر کرے تو یہ ضرور لکھے گا کہ اس چھوٹے سے ملک
نےاپنے سے کئی گنا زیادہ طاقت ور ملک کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ جب
ویت نام کا ذکر چل پڑا ہے تو بر سبیل تذکرہ یہ بھی واقعہ سناتے چلیں کہ ویت
نام سےامریکی فوجوں کی شرمناک پسپائی کے کافی عرصہ بعد ویت نام کے صدر ہوچی
منہ سے ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ جناب
امریکہ کے صدر کہتے ہیں کہ ویت کا صدر بہت گندے جوتے پہنتا ہے۔ اس پر ہوچی
منہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اس میں ان کا قصور نہیں ہے بلکہ ویت نام
میں امریکیوں کو اتنے جوتے پڑے ہیں کہ اب ہر امریکی کی نظر سب سے پہلے
ہمارے جوتوں پر ہی جاتی ہے۔ خیر یہ تو ایک تمہید تھی اب ہم اصل موضوع کی
طرف آتے ہیں-
ستمبر ١٩٦٥ بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب ایک جارح پڑوسی ملک بھارت نے بلا کسی
جواز کے رات کی تاریکی میں اچانک پاکستان پر حملہ کردیا تھا اور انکا خیال
تھا کہ رات کو ہم حملہ کریں گے اور ناشتہ لاہور جیم خانہ میں کریں گے۔ لیکن
پھر چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ ایک چھوٹے اور کمزور ملک نے اپنے سے کئی
گنا بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبا دیئے، اس کی آرزؤں کو خاک میں ملا دیا۔ نہ
صرف یہ کہ اس کے حملہ کو پسپا کردیا بلکہ دشمن کو رگیدتے ہوئے اس کو کئی
کلو میٹر تک اس کی سرحد کے اندر گھس گئے اور اس “ سورما “ کو لینے کے دینے
پر گئے تھے۔
اس وقت کی جنگ میں کامیابی کا تجزیہ کیا جائے تو دو عوامل واضح نظر آتے ہیں
اول یہ کہ اس موقع پر پوری قوم تمام اختلافات بھلا کر یکجان ہوگئی تھی، اور
سب ایک جارح دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے تھے۔ دوسری بات یہ
کہ اگر چہ اس وقت بھی ایک آمر کی حکومت تھی لیکن اس نے دشمن کے ساتھ کسی
بھی ڈیل کے بجائے اس کو اس کی زبان میں جواب دیا جو اس ہندو بنئے کو بخوبی
سمجھ میں آگیا کیوں کہ یہ ہندو بنیا صرف دو زبانیں سمجھتا ہے یا تو مایا کی
یا جوتوں کی ! اور اس وقت کے ہمارے حکمران صدر ایوب خان نے اس کو جوتوں کی
زبان میں سمجھا کر یہ بات ثابت کردی تھی کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں
مانتے اور ہم اپنی آزادی و خودمختاری کا سودا نہیں کریں گے اور اپنی سرحدوں
کی حفاظت ہم اپنی جان پر کھیل کر بھی کریں گے۔
آج تقریباً تینتالیس سال بعد جو ستمبر آیا ہے تو صورتحال بہت تشویش ناک ہے-
کل جو قوم ایک متحد قوم تھی آج اس کا اتحاد پارہ پارہ ہے، کل قوم ایک نکتے
پر متفق تھی تو آج قوم کا ذہن بٹا ہوا ہے قوم کی یکسوئی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔
کل یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ بھارت ہمارا دشمن تھا اور ہے، آج اس معاملے
پر بھی قوم کو الجھا دیا گیا ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ قوم کی یکسوئی ختم کردی
گئی ہے۔ کل کےحکمران کم از کم کسی نہ کسی حد تک ملک کے مفاد کے لئے اقدامات
اٹھاتے تھے لیکن آج ہمارے حکمرانوں کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ
گزشتہ دس سال سے ہمارے حکمرانوں نے ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد اور
سامراجی طاقتوں کے مفاد کا زیادہ تحفظ کیا ہے۔
سات ستمبر کو یوم فضائیہ منایا جاتا ہے، آج بھی سات ستمبر ہے لیکن آج کیا
صورتحال ہے کل ہم نے ایک جارح دشمن کو اس کی ناپاک جسارت کا مزہ چکھایا تھا
اور آج یہ حال ہے کہ آئے دن امریکی میزائل، ڈرون حملے ہورہے ہیں لیکن شائد
حکمرانوں نے اس کو اب ایک روٹین کی بات سمجھ لیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اب
امریکی اور نیٹو افواج ہماری سرحدوں میں ہیلی کاپٹر لیکر آجاتے ہیں انکے
سپاہی ہمارے دیہاتوں میں اتر کر لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور اطمینان سے
انہیں ہیلی کاپٹروں میں فرار ہوجاتے ہیں۔ ابھی چار ستمبر ہی کی خبر ہے کہ
نیٹو کے طیارے چمن بارڈر سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اندر گھس
آئے اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک موجود رہے اور واپس چلے گئے؟؟؟؟ یہ واقعہ
ستمبر ٢٠٠٩ میں پیش آیا ہے اور ستمبر ١٩٦٥ میں ایک جانباز سپاہی ایم ایم
عالم نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے سات بھارتی طیاروں کو مار
گرایا تھا۔ میں نے جب یہ خبر سنی تو مجھے وہ جانباز سپاہی بہت یاد آیا۔ ایم
ایم عالم تو نہ رہے لیکن ایم ایم عالم کی تربیت کرنے والی پاک فضائیہ کہاں
گئی وہ تو موجود ہے اس کے باوجود یہ نیٹو، یہ امریکی ڈرون ہماری سرحدوں کو
روندتے ہوئے آتے ہیں اور ہماری غیرت اور خودمختاری کو پامال کرتے ہوئے واپس
چلے جاتے ہیں۔
کل ستمبر ١٩٦٥ میں جب بھارتی فوج نے اپنے ٹینک آگے بڑھائے تو ہماری فوج سے
پہلے ہمارے عوام نے، ہمارے محب وطن لوگوں نے جسموں پر بم باندھ کر ان
ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر جام شہادت نوش کیا اور دشمن کی پیش قدمی روکی تھی۔
لیکن! لیکن آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج دیکھا جائے تو یہاں بھی صورتحال انتہائی
تشویشناک ہے۔ اول تو آج قوم کے اتحاد کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور
اس میں دشمن کافی حد تک کامیاب بھی ہے، سرحد میں ہماری فوج اپنے ہی لوگوں
سے برسرپیکار ہے، ہمارے بلوچ بھائی بھی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اب ریاست ہی
سے ناراض ہیں۔ سندھ میں بھی قوم پرستی کا زور چل رہا ہے اور سندھ اور
بلوچستان میں سر عام سندھو دیش، اور آزاد بلوچستان کے نعرے لگ رہے ہیں۔
سندھ کے شہری علاقوں میں ایک ایسا گروہ موجود ہے جو سامراجی طاقتوں کا
پرجوش حامی ہے۔ پنجاب میں بھی سرائیکستان، اور الگ صوبے کے نعرے لگ رہے ہیں۔
اس کے باوجود بھی جب یہ دیکھا گیا کہ ابھی بھی اس قوم میں ایسی چنگاریاں
موجود ہیں جو کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہیں تو پھر ہماری عوام کو آٹا، چینی،
بجلی، اور ایسے ہی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے کہ اب ان ساری جدوجہد نان
شبینہ اور بچوں کا دوا دارو کا انتظام کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ تاکہ وہ
حکمرانوں سے یہ نہ پوچھ سکے کہ جناب یہ جو ڈرون حملے ہورہے ہیں انکو روکا
کیوں نہیں جارہا ہے؟ آئے دن یہ امریکی اور نیٹو افواج ہماری سرحدوں کیخلاف
ورزی کرتی ہیں تو ان کو روکا کیوں نہیں جارہا ہے؟ یہ امریکی بکتر بند
گاڑیاں آرہی ہیں ان کا کیا جواز ہے؟ امریکی سفارت خانے کی توسیع، اور وہاں
سینکڑوں امریکی سپاہیوں کی موجودگی کا جواز ہے؟ بھارت ہمارے پانیوں پر کیوں
قبضہ کرتا جارہا؟ سیکورٹی کے نام پر بلیک واٹر کا فحش گروہ ہمارے ملک میں
کیوں موجود ہے؟ (یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ بلیک واٹر کے ارکان کی اکثریت
امریکہ کی سڑکوں پر پھرنے والے ( ناجائز ) نوجوانوں اور فحش ہم جنس پرتوں
پر مشتمل ہے) امریکی اہل کار ہمارے ہی ملک میں ہمارے ہی لوگوں کی تذلیل
کیوں کررہے ہیں؟
آج سمتبر دو ہزار نو میں ایک بار پھر اسی جذبہ کے ضرورت ہے جو ستمبر ١٩٦٥
میں تھا تاکہ ہم دشمن کی سازش کا مقابلہ کرسکیں اور ارض وطن کی حفاظت
کرسکیں۔ آج ضرورت اسی بات کی ہے کہ ہم ملک میں بڑھتے ہوئے امریکی اثر نفوذ
کے خلاف پر زور احتجاج کریں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنی
خودمختاری کا سودا نہ کریں اور نہ ہی اپنے ذات مفادات کی خاطر ملک کی
سالمیت کو سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں گروی نہ رکھیں بلکہ ملکی مفادات میں
فیصلہ کریں اور بڑھتی ہوئی غیر ملکی مداخلت کو ختم کریں |