23 مارچ ٬1940 پسِ منظر اور چند حقائق

23 مارچ 1940 وہ یادگار دن جب مسلمانانِ برصغیر نے الگ وطن کے خواب کو ایک تحریری شکل میں پیش کردیا جس کو قرار دادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان کہا جاتا ہے۔ اگرچہ برصغیر میں انگریزوں سے آزادی کی تحریک تو 1770ء کے لگ بھگ شروع ہوچکی تھی، جب شیر میسور ٹیپو سلطان شہید نے انگریزوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ اس کے بعد بھی برصغیر کے مختلف خطوں میں مزاحمتی تحریکیں اور بغاوتیں اٹھتی رہیں مثلاً 1804؁ میں مدراس میں انگریزوں نے ہندستانی سپاہیوں کے پر پریڈ کے دوران تلک لگانے اور صافہ باندھنے پر پابندی لگائی، اس حکم پر ہندو سپاہیوں میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے بغاوت کردی، 1824؁ میں بیرک پور میں بغاوت برپا ہوئی ،اسی طرح 1842؁ میں بنگال کی چار رجمنٹوں نے سندھ جانے سے انکار کردیا،1849؁، راولپنڈی اور پنجاب میں جبکہ 1852؁ میں بنگال میں فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ 1857 ء میں ایک بار پھر مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان ایک معرکہ پیش آیا، اس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی ، برصغیر میں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج ڈوب گیا، مغلیہ دور حکومت کا خاتمہ ہوا، بوڑھے کمزور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی نظروں کے سامنے اس کے تین بیٹوں کو گولی مار کر شہید کردیا گیا،بادشاہ کو رنگون کے قلعے میں قید کرلیا گیا اور غاصب قوم نے ہندستان پر اپنے قبضے کو مستحکم کرلیا۔

چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اس لئے وہ بجا طور پر مسلمانوں کو اپنا حریف سمجھتے تھے۔اسی وجہ سے 1804 تا 1852 کے دوران ہونے والی فوجی بغاوتوں میں صرف بغاوت میں ملوث فوجیوں کو سزائیں سنائی گئیں لیکن1857؁ میں مسلمان فوجیوں کی جانب سے ہونے والی بغاوت کے بعد انگریزوں نے صرف فوجیوں کو نہیں بلکہ عام مسلمانوں کا قتل عام کیا، مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں جلا ڈالے گئے۔دوسری جانب انگریزوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کو نوازنا شروع کیا۔ اگرچہ برصغیر میں مسلمانوں کا دور اقتدار قریباً ایک ہزار سال پر محیط تھا اور اس ایک ہزار میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ رواداری اور محبت کا سلوک روا رکھا لیکن ہندو ہمیشہ مسلمانوں کو غاصب اور حملہ آور سمجھتے رہے ، اسی لیے جب انگریزوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کو نوازنا شروع کیا تو ہندوؤں نے اس کو مسلمانوں سے بدلہ لینے کا موقع جانا اور انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا عمل شروع کردیا۔
 

image


سرسید احمد خان نے 1857 ؁ کے بعد مسلمانوں کو بیدار کرنے اور ان کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا شروع کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سر سید احمد خان کا تحریک پاکستان میں ایک بہت بڑا حصہ ہے کیوں کہ تقریباً چالیس سال بعد جب مسلمانوں نے علیحدہ وطن کی تحریک شروع کی تو اس کے قائدین میں اکثریت علی گڑہ کے فارغ التحصیل تھے، علی گڑھ کے طلبہ نے قیام پاکستان کے لیے جدو جہد کی اورعلامہ اقبال ؒ ، قائد اعظمؒ و دیگر قائدین اگرچہ علی گڑھ سے فارغ التحصیل نہیں تھے لیکن درحقیقت یہ سر سید احمد خاں کا کارنامہ تھا کہ مسلمان انگریزی اور جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے تیار ہوئے اور یہی چیز بالآخر ان کے کام آئی ۔

1857؁ کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں نے اور ہندؤں نے مشترکہ طور پر انگریزوں کے خلاف جہدوجہد کرتے رہے لیکن بعد میں جلد مسلمانوں پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ ہندومسلمان کا خیر خواہ نہیں بلکہ وہ انگریزوں کو برصغیر سے نکالنے کے بعد ہندو راج کے خواب دیکھ رہا ہے۔ 1885؁میں ایک انگریز لارڈ ہیوم کی ایما ء پر آل انڈیا کانگریس قائم کی گئی ۔ہندوؤں نے کانگریس کے ذریعے اپنی سیاسی جدو جہد کا آغاز کیا اور مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دینی شروع کی ، مسلمانوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار بھی کی اور کئی نامور مسلمان رہنماؤں کا تعلق آل انڈیا کانگریس سے تھا ۔بہت جلد مسلمانوں پر یہ واضح ہوگیا کہ کانگریس صرف ہندوؤں کے مفاد دات کا تحفظ کرنے کے لیے قائم کی گی ہے ۔ جولائی 1903میں مسلمانوں نیاپنے مسائل کے حل اور حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جماعت محمڈن پالیٹیکل ایسوسی ایشن کے قیام کا اعلان کیا اور یہ تنظیم ایک حد تک مسلمانوں کے حقوق کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہی، بعد میں اس تنظیم کا نام محمڈن نیشنل یونین کرلیا گیا۔مارچ 1906 ؁ میں مسلم لیگ کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا اور مسلمانوں نے اپنی سیاسی جدجہد کا باقاعدہ آغاز کرلیا۔

1857 سے 1937 کے درمیان ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ برصغیرسے صرف انگریزوں کے جانے بعد انہیں ہندوؤں کے زیر نگین رہنا ہوگا۔ان میں چند قابل ذکر یہ ہیں، ہندی ( دیو ناگری ) رسم الخط کی تحریک، تقسیم بنگال کے خلاف ہندوؤں کی تحریک، شدھی سنگھٹن تحریک وغیرہ لیکن 1937 کے عام انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کے بعد جب انہیں حکومت بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے کھل کھلا مسلمانوں کے خلاف اقدامات کیے۔جن کو مختصراً ذیل میں بیا ن کیا جارہا ہے۔
 

image

1 ۔انتظامی امور میں مداخلت: کانگریس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سرکاری انتظامیہ کو یہ ہدایت کی وہ تمام امور کانگریس کے عہدے داروں اور کارکنوں کے مشورے سے انجام دیں۔
2۔ہندو مسلم فسادات کو ہوا دی گئی ۔
3۔بندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دیا گیا اور اسکول کی اسمبلی میں اس کا پڑھنا لازم قرار دیا گیا۔
4۔ مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیا گیا۔
5۔مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروزے بند کیے گئے۔
6 ۔ گائے کے ذبیحے پر پابندی عائد کی گئی۔
7۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی کرکے نصاب میں ہندو دویو مالائی قصے کتابوں شامل کردیئے گئے۔
8 ۔واردھا تعلیمی اسکیم کے نام پر مسلمانوں پر نظریاتی حملے شروع کیے گئے اور بھگت کبیر، گرونانک، اکبر بادشاہ، داراشکوہ کے مذہبی خیالات کو بڑی اہمیت دی گئی اور ہندو اور اسلامی تعلیمات کو ملا کر ایک درمیانی راہ نکالی گئی ۔
9 ۔ ودیا تعلیمی مندر اسکیم : اس اسکیم کے تحت مسلمان طلبہ کو ہندؤں جیسا لباس پہننے اور سرسوتی دیوی کے بت کے سامنے ہاتھ جوڑ کر دعا میں شریک ہونے پر مجبور کیا جاتا۔ السلام علیکم کے بجائے نمستے اور جے رام جی کو فروغ دیا گیا۔
10 ۔مورتی پوجا: کانگریس کے دور اقتدار میں تعلیمی اداروں میں کاندھی جی کی مورتی لگائی گئی اور مسلمان طلبہ کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اس مورتی کو پرنام کریں۔
11۔ ہندو ثقافت اور ہندو تہواروں کی سرپرستی کی گئی جبکہ اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جاتا، مساجد کے سامنے بینڈ باجے بجائے جاتے ، کئی مقامات پر اذان دینے پر بھی پابندی لگائی گئی۔

مذکورہ بالا تمام اقدامات کے باعث مسلمانوں دو قومی نظریہ کو فروغ حاصل ہوا، اور ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ یقین ہوگیا کہ ہندو کبھی بھی ان کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتے۔ اس لیے مسلمانوں نے اب زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ آزادی کی تحریک شروع کردی۔

1940 میں 22, 23,24 مارچ کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس تاریخی اجلاس میں مسلمانوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ ایک قرار داد کی صورت میں پیش کیا جسے قرار دادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان کہا جاتا ہے۔22 مارچ کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے صدارتی خطبے میں دو قومی نظریئے کی وضاحت کرتے ہوئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ ’’ہندو اور مسلمان دو جداگانہ مذہبی فلسفوں سے ، سماجی رسم ورواج اور علمی و ادبی ورثے سے تعلق رکھتے ہیں ، نہ تو وہ آپس میں شادیاں کرسکتے ہیں اور نہ مل کر کھا سکتے ہیں۔ درحقیقت وہ دونوں مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان تہاذیب کے افکار و نظریات بھی ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔۔۔۔۔ مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں اس کے لئے چاہے قوم کی کوئی بھی تعریف کی جائے اس کے تحت یہ ایک قوم ہیں، اس لیے ان کا اپنا الگ وطن ہونا چاہیے، ان کا اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے۔‘‘

23 مارچ کو کھلا اجلاس منعقد ہوااور اس اجلاس میں قرار دادِ لاہور (قرار دادِ پاکستان ) پیش کی گئی ۔ اس قرار داد کی تیاری میں سر سکندر حیات خان، ملک برکت علی ، نوابزادہ لیاقت علی خان چوہدری خلیق الزماں اور مولانا ظفر علی خان نے حصہ لیا۔شیر بنگال مولوی فضل الحق نے یہ قرار داد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔قرار داد درج ذیل ہے
 

image

۱۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غور و فکر کے بعد اس ملک میں صرف اسی آئین کو قابل عمل اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول قرار دیا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل ریجنوں کی صورت میں حد بندی کا حامل ہو اور بوقت ضرورت ان میں اس طرح رد و بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو ٗ انہیں آزاد ریاستوں کی صورتوں میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خود مختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔
2۔ ان وحدتوں اور ہر علاقائی آئین میں اقلیتوں کے مذہبی ٗاقتصادی ٗ سیاسی اور ثقافتی مفادات اور حقوق کے تحفظ کی خاطر ایسی اقلیتوں سے مشورے کے بعد مؤثر تحفظات شامل ہوں اور ان ہندوستان کے ان تمام حصوں میں جہاں مسلمان آبادی کے اعتبار سے اکثریت میں نہیں انہیں تحفظ کا یقین دلا یا جائے۔
3۔ یہ اجلاس مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ ان تمام اصولوں پر مبنی آئین کا لائحہ عمل مرتب کرے جس میں دونوں خطوں کے تمام اختیارات اور دیگر اہم امور کو سنبھالنے کا انتظام کیا جائے۔

یہ وہ تاریخی قرار داد تھی جس کے باعث مسلمانان برصغیر پاکستان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کیوں کہ اس قرار داد کے بعد کے مسلمانوں کی جدو جہد کا ایک واضح رخ متعین ہوگیا اور اس قرارداد کی روشنی میں مسلمانوں نے منظم انداز میں قیام پاکستان کی جدو جہد کی جوکہ 1947 میں قیام پاکستان کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

74برس قبل مسلمانان ہند نے ہندوؤں کی سازشوں کو سمجھنے اور 1937 میں کانگریسی حکومت کے مسلم مخالف رویے کو دیکھتے ہوئے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمان متحد ہوئے اور انہوں نے اپنے ذاتی،، لسانی ، سلکی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الگ وطن کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر عطا کی۔23مارچ کا دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ آج ہم پھر اسی جذبے کو بروئے کارلائیں اور اپنے تمام تر اختلافات کو پس پشت رکھتے ہوئے پاکستان کی ترقی کے لیے کام کریں۔74 سال قبل قیام پاکستان کے لیے اکھٹے ہوئے تھے ، آج استحکام پاکستان کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

FROM March 22 to March 24, 1940, the Quaid-i-Azam is presiding over the session while Chaudhry Khaliquzzaman is seconding the Resolution. All India Muslim League held its annual session at Minto Park, Lahore. This session proved to be historical.