سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پہ
پنجاب حکومت نے 2010ء میں ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے پنجاب میں ہیلتھ کیئر
کمیشن قائم کیا جسے پنجاب اسمبلی نے اکثریتی رائے سے منظور کیا جس سے ہیلتھ
کیئر کمیشن 2010ء نافذ ہو گیا جو پنجاب میں سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں
اور کلینکس کو ریگولیٹ کرے گا علاوہ ازیں ہیلتھ کیئر کمیشن مریضوں کی جانب
سے شکایات کے ازالہ کے لئے بھی اہم کردار ادا کرتے ہوئے غفلت اور لاپروائی
کرنے والے ڈاکٹرز کے خلاف کاروائی بھی کرے گا اس کمیشن کے پاس لوگ، ڈاکٹروں
کی غفلت، لاپرواہی اور علاج اچھے انداز میں نہ کرنے، مریضوں کا غلط علاج پر
ہلاکت کے حوالے سے درخواستیں دیتے ہیں ہیلتھ کیئر کمیشن 2010ء یہ بھی فیصلہ
کرے گاکہ کون سے ڈاکٹرز کس کیٹگری میں آتے ہیں اور وہ اپنے نجی ہسپتالوں
اور کلینکس میں مریضوں سے کتنی فیسیں لے سکتے ہیں نجی ہسپتالوں اور کلینکس
میں علاج معالجے کے آلات، حدود دربعہ کا تعین، صفائی کی کارکردگی پر کڑی
نظر رکھنا بھی اسی ہیلتھ کیئر کمیشن کی ذمہ داری میں شامل ہے ہیلتھ کیئر
کمیشن 2010ء کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جگہ جگہ عطائیوں نے
جو کلینکس کھول رکھیں ہیں ان کا بھی خاتمہ کیا جاسکے -
ہیلتھ کیئر کمیشن 2010ء اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب
میں پہلی مرتبہ قائم کیا گیاہے۔ باقی صوبوں میں ابھی اس نام کی کوئی چیز
دکھائی نہیں دیتی دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کی طرح دیگر صوبوں میں کب ہیلتھ
کیئر کمیشن قائم کئے جاتے ہیں پنجاب جو کہ آبادی کے لحاظ سے وطن عزیز کا سب
سے بڑا صوبہ ہے اس کے ہر شہرچاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا ،ہرگاؤں،ہر محلہ ،ہر
گلی میں موت کے سوداگروں ’’ عطائیوں ‘‘ نے موت بانٹنے کے دوا خانے اور شفا
خانے کھول رکھے ہیں جہاں موت سستے داموں بکتی ہے پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں
میں موت کے سوداگروں المعروف عطائیوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
کمیشن کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ جعلی حکیموں ، ڈاکٹروں اور
عطائیوں کے خلاف کمیشن کوسخت ترین ایکشن لینا چاہئے مزے کی بات تو یہ ہے کہ
یہ عطائی خود کو پروفیسر اور پتہ نہیں کیا کیا لکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ
ان ہومیو پیتھک ڈاکٹرز کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جانا چاہئے جو اپنے
کلینکس میں ایلو پیتھک ادویات استعمال کرتے ہیں ایسے ہومیو داکٹرز ہومیو
پیتھی کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکہ ہیں واضح رہے کہ اس وقت صرف پنجاب میں 65
ہزار سے زائد سرکاری، غیر سرکاری ہسپتال، ہیلتھ یونٹ، کلینک کام کررہے ہیں۔
ان میں ڈاکٹرز، ڈینٹل سرجنز ،حکماء، ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور عطائی سب شامل
ہیں۔ اب تک ہیلتھ کیئر کمیشن پنجاب میں صرف 600کے قریب ہیلتھ فراہم کرنے
والے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکس کو رجسٹرکرسکا ہے۔ابھی صرف
لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے صحت کی فراہمی کے ادارے رجسٹرڈ ہوئے
ہیں۔ کب پورے پنجاب کے ادارے رجسٹرڈ ہوں گے؟ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔
ہیلتھ کیئر کمیشن 2010ء کو بنے ہوئے تین برس گزر چکے ہیں اور چوتھا سال
جاری ہے اتنے عرصہ میں صرف 600کے قریب ہسپتال اور کلینکس رجسٹرڈ ہوئے ہیں
پورے پنجاب میں کتنا وقت لگے گا یہ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں اس
دوران موت کے سوداگروں کے ہاتھوں کتنے شہری لٹ جائیں گیاور کتنے معصوم اور
بے بس مریض موت کے منہ میں چلے جائیں گے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
ہیلتھ کیئر کمیشن 2010 ء کے مطابق صرف رجسٹرڈ ڈاکٹرز اور حکیم ہی پریکٹس کر
سکیں گے ایلو پیتھک ڈاکٹرز ، ہومیو پیتھک ڈاکٹرز اور حکیموں کی رجسٹریشن
فیس بھی الگ الگ رکھی گئی ہے اور ہیلتھ کیئر کمیشن 2010ء کی جانب سے جن
فیسوں کا اعلان ہوا ہے ان پہ ایلوپیتھک ڈاکٹرز، ہومیو پیتھک ڈاکٹرز اور
حکیموں کو شدید تحفظات ہیں اور انہوں نے مختلف شہروں میں اپنا احتجاج
ریکارڈ بھی کرایا ہے واضح رہے کہ ہومیو پیتھک ڈاکٹرز پنجاب کے دوردراز دیہی
علاقوں میں کم سہولتیں میسر ہونے کے باوجود کم نرخوں کے ساتھ دکھی انسانیت
کی خدمت کر رہے ہیں ہومیو پیتھک ڈاکٹر ز کے کلینکس کی رجسٹریشن
فیس50000ہزار روپے ہے جب ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر انتہائی نامساعد حالات میں
اپنے مریضوں سے دوا کے معمولی پیسے لیتا ہے ایسے حالات میں ہیلتھ کیئر
کمیشن کی جانب سے پچاس ہزار روپے کلینکس کی رجسٹریشن فیس ناصرف نامناسب ہے
بلکہ ہومیو پیتھی کا معاشی قتل بھی ہے یہ بھی واضح رہے کہ نیشنل کونسل فار
ہومیو پیتھی ڈاکٹرز سے 510روپے4سال کے لئے رجسٹریشن فیس وصول کرتی ہے ہومیو
پیتھک ڈاکٹرز کی تعداد 80ہزار سے زائد ہے جبکہ 25ہزار ہومیو پیتھک ڈاکٹرز
کی رجسٹریشن ہوئی ہے ان سب حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہیلتھ کیئر کمیشن کو
ہومیو ڈاکٹرز کے کلینکس کی رجسٹریشن فیس مقرر کرنی چاہئے-
چلتے چلتے ایک اہم بات بھی آپ احباب کے ساتھ ساتھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے نوٹس
میں لانا بھی نہایت ضروری ہے پنجاب کے ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا میں
ایک ایلو پیتھک ایم بی بی ایس جس کا تعلق ایک روحانی خانوادے سے بھی ہے وہ
کیبل نیٹ ورک پہ اور پبلک مقامات پہ پینا فلیکس کے ذریعے ہومیوپیتھک ڈاکٹرز
کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر رہا ہے جب نیشنل کونسل فار ہومیو پیتھی ڈی ایچ
ایم ایس کو ہومیوڈاکٹر مانتی ہے تو پھر کسی ایم بی بی ایس کو یہ حق نہیں
پہنچتا کہ وہ ہومیو پیتھک ڈاکٹرز پر انگلی اٹھائے اس ایم بی بی ایس کے منفی
پروپیگنڈے کے خلاف ’’ بورے والا ہومیو ڈاکٹرز ایسو سی ایشن بورے والا ‘‘نے
گزشتہ روز ایک ہنگامی اجلاس بلایا جس میں شہر کے نامور اور معروف ہومیو
پیتھک ڈاکٹرز نے شرکت کی اور شدید احتجاج کرتے ہوئے نیشنل کونسل فار ہومیو
پیتھی اور ہیلتھ کیئر کمیشن سے مطالبہ کیا کہ اس ایم بی بی ایس کے خلاف
اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قانونی کاروائی کی جائے بالکل اسی
طرح جیسے ایک عام مریض کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ڈاکٹرز و حکیم کے
خلاف علاج میں غفلت برتنے پر ہیلتھ کیئر کمیشن کو درخواست دے سکتا ہے اور
اس کی درخواست پہ ہیلتھ کیئر کمیشن اس ڈاکٹر کے کلینک کا لائسنس منسوخ کر
سکتا ہے اسی طرح ’’ بورے والا ہومیو ڈاکٹرز ایسو سی ایشن بورے والا ‘‘ بھی
مطالبہ کرتی ہے کہ اس ایم بی بی ایس کے خلاف بھی قانونی کاروائی عمل میں
لائی جائے۔ |