اب فیصلہ ہونا چاہیے

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔

سب سے پہلے تو اﷲ کا شکر ہے کہ طالبان نے اپنے ضد کو پس پُشت ڈال کے ایک مہینہ کے لئے جنگ بندی کا اعلان کر دیا اور حکومت نے بھی رد عمل کے طور پر جوابی حملے بند کر دیے اور اپنی ناکارہ کمیٹی کو اگلے مذاکراتی مرحلے کے لئے زمہ داری سونپ دی ۔اگر دونوں کمیٹیاں اب کی بار سنجیدہ ہو کر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گئیں تو کچھ مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے جو ان سیکولر اور ملک دشمن عناصر کے لئے باعث تکلیف ہوگا ۔اعلانیہ جنگ بندی کے ایک روز بعد ہی ان ملک دشمن عناصر نے اسلام آباد کچہری کو اپنا ٹارگٹ بنایا اور ۱۱ بے گناہ مسلمانوں کو شہید کردیا جس کی ذمہ داری ـــ احرارالہند نامی نئی نویلی تنظیم نے قبول کر لی اور مذاکراتی عمل کو خراب کرنے اور سیکولر قوؑتوں کو بولنے کا موقع فراہم کردیا۔

یہ سارا معاملہ گمبھیر ضرور ہے لیکن قابل حل ہے ۔تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام معاملات کا حل مذاکرات ہی رہے ہیں اور ریاستی تمدن مذاکرات سے ہی قائم رہا ہے۔جنگ وجدل سے صرف خون ریزی ہو سکتی ہے امن نہیں۔دونوں مذاکراتی ٹیمیں آج کافی روز کے بعد دوبارہ ایک ساتھ بیٹھی ہیں اور مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا ہے اور کچھ تحفظات و خواہشات کا اظہار بھی کیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے ابھی تک اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا ۔آپریشن کرنے سے ملک کو کوئی فایدہ نہیں بلکہ جانی و مالی نقصان ہوگا جو ان سیاستدانوں کا نہیں بلکہ اس ملک کی غریب عوام کا ہوگا جو پہلے سے غربت اور مہنگائی سے پریشان ہے۔ آپریشن میں نہ تو ان سیاستدانوں کے بچے شہید ہوتے ہیں اور نہ ان سیکولر طبقہ کے بچے جو صبح شام ٹی وی چینلز اور میڈیا کے ذریعے آپریشن کی رٹ لگاتے رہتے ہیں۔

پاکستان کے آئین کو طالبان کے کچھ گروہ نہیں مانتے اور کچھ اس کے حق میں ہیں۔طالبان کہتے ہیں آئین کو مکمل اسلامی آئین بنایا جائے حالانکہ ہمارا آئین پہلے سے ہی اسلامی ہے اور آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو اسلام کے خلاف ہو کیونکہ ۱۹۷۳؁ء کے آیئن میں اس وقت کے مستند علماء کی حمایت سے بنا ہے۔طالبان کو چاہئے کہ آئین پاکستان کا مکمل جائزہ لیں اگر اس میں کہیں ترمیم کی ضرورت ہے تو حکومت کو بتائیں لیکن آئین کا مکمل کفر قرار دینا بھی جہالت ہے۔ہمارا آئین تو پہلے ہی شراب،سود،زنا اور بدکاری سے ممانعت کرتا ہے لیکن بدقسمتی ہماری کے ہمارے کچھ ممبران اسمبلی بھی ان گندگیوں کے دلدادہ ہیں جن کا پول کھولنے کے لئے ان کا اپنے کولیگ جمشید دستی میدان میں آ چکے ہیں ہاں اگر اس آئین کا پابند کرنے کے لئے کچھ کیا جاسکے تو ہمارے ملک کی خوش قسمتی ہوگی جس سے سیکولر اور لبرل طبقہ کو تکلیف پہنچے گی جو اسلام سے پہلے بھی بہت سہمے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ سیکولر طبقہ تو پاکستانی آئین کامنکر ہے اور جو علی الاعلان اسلام،اسلامی آئین اور نطریہ پاکستان کا انکار کرتے ہیں اور بابائے قائد محمد علی جناح کو سیکولر ثابت کرنے میں گھناؤنے جھوٹ باندھتے رہتے ہیں۔یہ لوگ اسلام پسند تنظیموں کو ساتھ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہیں مگر بلوچ انتہا پسند وں کی حمایت کرتے ہیں جو ملک دشمن ہاتھوں کا شکار بنے ہوئے ہیں۔

گزشتہ عام انتخابات میں عوام نے امن حاصل کرنے کے لئے اسلام پسند جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کو اس لئے ووٹ دیا اورلبرل جماعتوں کو شکست دی تاکہ ملک کو ان مختلف بحرانوں سے نکالا جا سکے اب ان دونوں جماعتوں کا حق ہے کہ ملک و قوم کی امیدوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔نواز حکومت نے تو کسی حد تک ابتدا کی ہے لیکن عمران خان اور اس کی کے پی کے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ اس سارے معاملے میں بالواسطہ و بلاواسطہ شرکت کرے۔دونوں جماعتوں مین طالبان حمایتی لوگ موجود ہیں ان کو بھی چائیے کہ ٹی وی پر شوز کرنے کی بجائے اس معاملے میں شریک ہوں تاکہ ملک اس بدترین دہشت گردی سے بچ سکے ۔وزیراعظم میاں نواز شریف بھی ان مذاکرات کے ذریعے امن کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے نئی مذاکراتی کمیٹی بنانے کا عندیہ دے چکے ہین جو بہت ہی خوش آئیند ہے۔ دونون مذاکراتی کمیٹیاں بھی اپنی تازہ ترین پریس کانفرنس میں پہلے سے کچھ مزید سنجیدہ نظرآئیں۔مولانا سمیع الحق کی حب الوطنی اور قبائلی لوگوں سے محبت پر شق نہیں کیا جا سکتا ۔ مولانا صاحب بھی تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں کہ کچھ بڑی طاقتیں ملک عزیز میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ان دہشت گردوں کی سرپرستی میں امریکہ،بھارت ،اسرائیل کا ہاتھ بھی ہے۔روس بھی اپنا بدلہ لینے کے لئے ہتھیار دے رہا ہے۔بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بھارت کا ہاتھ موجود ہے جسے سابقہ حکومت بھی اپنی نااہلی کے باوجود بھی اظہار کرچُکی ہے۔ ۳ مارچ کو کرکٹ کے میچ میں بھارت کو شکست اور اگلے دن اسلام آباد میں دھماکے اور فائرنگ اس میں انڈین ایجنسی را کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 44852 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.