شیڈولڈ رشوتی نظام کے قیام کی ضرورت

ایک چرسی نے پاس سے گزرتے شخص سے ٹائم پوچھا‘ اس شخص نے کہا پانچ بج کر بیس منٹ۔ اس پر چرسی بولا‘ اس ملک نے خاک ترقی کرنی ہے۔ صبح سے پوچھ رہا ہوں‘ ہر کسی کا اپنا ٹائم ہے۔ بات تو ہنسی والی ہے‘ لیکن ذرا غور کریں گے‘ تو اس بات کو معنویت سے تہی نہیں پائیں گے۔

اس ملک میں‘ ہر کسی کا شیڈول اپنا ہے۔ معاملات کو اپنے مطلب کے معنی دے رکھے ہیں اور اس ذیل میں دلائل بھی گھڑ رکھے ہیں۔ یہی منڈی کے بھاؤ کی صورت ہے۔ ایک ہی چیز کے مختلف بھاؤ سننے کو ملیں گے۔ بازار چلے جائیں‘ اشیائے خوردنی کے‘ ایک سے‘ نرخ سننے کو نہیں ملیں گے۔ کپڑا خریدنا ہو یا سلوانا‘ ہر کسی کے اپنے نرخ ہوتے ہیں۔

سیاستدار ہو یا سیاست پرداز‘ صبح کو کچھ‘ اور شام کو کچھ کہتا ہے۔ بعض تو اگلے لمحے ہی‘ شخص اور موقع کی مناسبت سے‘ بات کو بدل دیتے ہیں۔ پہلی کہی کے برعکس‘ کہنے میں کوئ عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ واپڈا والے ہوں‘ اکاؤنٹس آفس ہو‘ گیس والوں کے ہاں چلے جائیں‘ خدا نخواستہ نادرہ والوں سے کام پڑ جائے‘ جو عوما نہیں‘ اکثر پڑتا ہی رہتا ہے۔ یہ تو خیر مقامی دفاتر ہیں‘ بڑے دفاتر‘ یہاں تک کہ‘ مہا منشی ہاؤس کے دفاتر‘ جن سے دادرسی کی امید رکھی جاتی ہے‘ کے بھاؤ ایک نہیں ہیں۔ ایک ہی کام کے‘ مختلف نرخ ہیں۔ اپنا یا بیگانہ کی تخصیص موجود نہیں۔ یہاں کوئ اپنا یا پرایا نہیں۔ مفتے‘ کسی سطع یا کسی حوالہ سے‘ فیض حاصل نہیں کرپاتے۔ پلہ ہر کسی کوجھڑنا ہی ہوتا ہے۔ بہوتا اوکھا فنی خرابیوں سے عمر بھر نبردآزما رہتا ہے۔

مجھے بھتہ لینے یا دینے پر کؤئی اعتراض نہیں۔ دنیا لین دین پر استوار ہے۔ بھتہ خور‘ حالات کے ہاتھوں خود مجبور ہیں۔ تنخواہ میں وہ کچھ چل ہی نہیں سکتا‘ جو بھتہ شریف کی برکت سے چلتا آ رہا ہے۔ تنخواہ سے‘ دو انچ زمین خرید کر دیکھا دیں۔ کار تو بڑی دور کی بات‘ تنخواہ میں‘ سائیکل کا ایک پیڈل خریدا نہیں جا سکتا۔ بھتہ خوری‘ دراصل خانگی مجبوری ہے۔ گھر میں سکون ہو گا‘ تو پورے معاشرے میں سکون ہو گا۔ ۔ بھتہ سیاسی مجبوری بھی ہے۔ لفافہ کلچر‘ سیاسی لوگوں کی عطا ہے۔ عطا بری نہیں ہوتی‘ ہاں کچھ کو ماش موافق اور کچھ کو بادی۔

یقین مانئیے‘ میں اس سیاسی عطا کے خلاف نہیں ہوں‘ ہاں میرا موقف یہ ہے‘ کہ اسے فکس ہونا چاہیے۔ یہ کیا‘ ایک ہی کام کے‘ ایک سے دس‘ دوسرے سے پندرہ اور کسی پر آٹھ ہزار میں مہربانی کر دی جائے۔ ساتھ میں‘ روٹی کی جگہ‘ چائے‘ بسکٹ‘ کیک پیس اور نمکو پر ہی‘ کام چلا لیا جائے۔ یہ انداز اور رویہ کسی طرح درست نہیں۔ اس انداز و رویہ کے حوالہ سے بے چینی پھیل رہی ہے۔ چرسی غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ پوری قوم‘ خصوصا دفاتر کو‘ بےٹائمی کے اندھے کنویں سے نکالا جائے۔ بالکل اسی طرح‘ نرخی نظام کا قیام‘ وقت کا تقاضا ہے۔

کچوپیے تو خیر اس ذیل میں نہیں آتے۔ ہمارے پاس‘ یک نرخی کی ایک قابل تقلید مثال موجود ہے۔ کسی بھی نیٹ ورک کا‘ سو روپیے کا لوڈ کروایں‘ بیاسی روپیے اور کچھ پیسے کا بیلنس لوڈ ہوتا ہے۔ کہیں ایک پیسے کا فرق نہیں آتا۔ اس یک نرخی کا فایدہ یہ ہے‘ کہ پاکستان میں‘ پاکستانی روپیے کی حقیقی قیمت اور اوقات کا‘ اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ دیکھنے میں‘ سرخ نوٹ سو روپیے کا ہوتا ہے‘ لیکن اس کی اپنے ہی دیس میں‘ قیمت بیاسی روپیے اور کچھ پیسے ہوتی ہے۔

حکومت کا‘ اصولی اور اخلاقی فرض بنتا ہے‘ کہ وہ تمام دفتر سے‘ ہر قسم کے‘ چھوٹے موٹے کاموں کی فہرست طلب کرے۔ روییےکی عصری پاکستانی قدر کے مطابق‘ اپنا جگا ڈال کر ریٹ طے کرے۔ یہی نہیں‘ اسے بینکنگ نظام سے وابسطہ کر دیا جائے۔ سائلوں کو‘ دفاتر کے دھکوں سے نجات مل جاءے گی اور ہر کسی کو‘ بینک چالان پر‘ طے شدہ کوڈ کے مطابق‘ حصہ مل جائے گا۔ سائل چالان کی نقل پاس رکھ کر‘ اصل متعلقہ دفتر میں جمع کرا دے گا۔ مقررہ تاریخ کو‘ چند روپیے کچوپیے کے ہاتھ پر رکھ کر‘ اپنے کاغذ پتر‘ خوشی خوشی گھرلے جائے گا۔ اس سے‘ رشوت اصطلاح کو‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طلاق ہو جاے گی۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190963 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.