نہ رہے گی بجلی نہ باجے گی ٹنڈ

ہم میں یہ عادت‘ بڑی شدت اور تیز رفتاری سے پروان چڑھی ہے‘ کہ ہماری معاملے کے منفی پہلو یا پہلوں پر فورا سے پہلے‘ نظر جاتی ہے اور پھر لایعنی اور بےسروپا کہانیاں گھڑتے چلے جاتے ہیں‘ حالاں کہ مثبت پہلو بھی تو سامنے رکھے جا سکتےہیں۔ مثبت پہلو نظر میں رکھنے سے‘ خرابی جنم نہیں لے پاتی۔ منفی کی سرشت میں ہی خرابی موجود ہوتی ہے۔ بجلی کے مسلے ہی کو دیکھ لیں‘ عوام تو عوام‘ سیاسی حلقوں نے بھی‘ اسے ایشو بنا لیا ہے‘ حالاں کہ یہ معاملہ‘ کوئ اتنا بڑا مسلہ نہیں‘ بلکہ معمولی سی مسلی ہے‘ جو اس قابل نہیں کہ اسے بہت بڑا مسلہ بنا کر‘ توڑ پھوڑ کی جائے ۔ یا پھر بےکار میں‘ رولے رپے سے کام لیا جائے۔
آخر اتنا واویلا کرنے کر ضرورت ہی کیا ہے۔ کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ہمارے باپ دادا‘ کب بجلی کے عادی تھے۔ بجلی امیر کبیر لوگوں کا چونچلا تھی۔ آج بھی‘ ان ہی لوگوں کی عیاشی کا ذریعہ ہے۔ پہلے وقتوں کے لوگ بھلے تھے‘ ریس کرنے کی عادت سے دور رہ کر‘ سکھ چین کی گزارتے تھے۔ اس ریس کی عادت نے‘ ہر کسی کا دماغ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ روشنی بڑے بڑے ایوانوں کا مقدر تھی۔ روشنی بڑے ایوانوں کا‘ فطری اور اصولی حق ہے۔ آج ایک معمولی مزدور بھی‘ روشنی کی ڈیمانڈ کرنے لگا ہے۔ قوم کا‘ کھیلنے کے لیے چاند مانگنا‘ نادانی نہیں‘ تو پھراور کیا ہے۔ جب کوئ اپنی اوقات سے باہر نکلتا ہے‘ تو اوکھت اس کا مقدر ٹھرتی ہے۔

موجودہ عہد کی تیز رفتاری اور چمک دھمک نے‘ زندگی کو‘ انتہائ مشکل اور تکلیف دہ بنا دیا ہے۔ شخص کچھ کہنا چاہتا ہے‘ لیکن کہہ نہیں پاتا۔ اس کی زبان پر‘ مجبوریوں کے چائینہ لاک ثبت ہیں۔ جو چونچ کھولے گا‘ حضرت زوجہ ماجدہ کے‘ پولے کھائے گا۔ اگر بچ رہا‘ تو اولاد کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو گا اور پھر متواتر ہوتا رہے۔ چونچ کھولنے والوں کے ساتھ‘ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے۔ امید واثق ہے‘ یہی ہوتا رہے گا۔ ہمارے مدبر لیڈران‘ اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں‘ تب ہی تو‘ انھوں نے فساد کی جڑ کو ختم کر دینے کا‘ پکا پیڈا ارادہ باندھ لیا ہے‘ کہ نہ رہے گی بجلی اور نہ میاں کی باجے گی ٹنڈ۔ لوگوں کے اگلے وقتوں کے‘ خوبصورت اور آسان ہونے کا خواب‘ شرمندہء تعبیر ہو سکے گا۔

لوگ غاروں میں منتقل ہو جائیں گے۔ اس طرح‘ بے فضول اونچی اونچی عمارتیں بنانے کا‘ رواج دم توڑ دے گا۔ غار کے اقامتی‘ سیدھے سادے لوگ تقریبات کے تکلفات سے آزاد ہو جائیں گے۔ آبادی بڑھ جانے کے باوجود‘ ہریالی‘ جو ککڑیانی سے کم نہیں‘ پیٹ بھر نوش جان کر سکیں گے۔ بڑ کے درخت‘ افادیت کے حوالہ سے‘ کس مقام پر فائز ہیں‘ کسی حکیم سے پوچھیے' لباسی عشرت کا درجہ حاصل کر لیں گے۔

ہمارے لیڈر‘ بڑے سیانے ہیں اور جانتے ہیں‘ کہ امریکہ غصے کا سوئر ہے۔ وہ عزم کیے ہوئے ہے‘ کہ پوری دنیا کو کھنڈر بنا کر رکھ دے گا۔ ہمارے لیڈر بڑے ہمدرد لوگ ہیں‘ وہ اپنی غلام رعایا کو‘ بے بسی کی موت مرتے‘ نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہ اپنے مجبور اور بےبس غلاموں کو‘ امریکہ کی غلامی میں نہیں دیکھ سکتے۔ وہ عوام کے بدلے‘ خود یہ صعوبت برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے‘ کہ ان میں سے کوئ غدار نکل آئے اور اپنے ہمدرد لیڈر صاحبان کی‘ باطنی خباثت اگل نہ دے۔ آمدہ خطرات سے مقابلہ کرنے کے لیے‘ انھوں نے اس ملک کو کھنڈر اور عوام کو غار اقامتی بنانے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ کملے عوام‘ شور مچا رہے ہیں‘ لیکن کل کلاں‘ ان کو اپنے لیڈر صاحبان کی بلند پایہ فراست اور دور اندیشی کا علم ہو جائے گا۔ لیکن اس وقت یہ نہ ہوں گے۔ وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔ پھر ان کی تعریف کرنے کا کیا فائدہ ہو گا۔ آج وقت ہے‘ انھیں اپنے محسنوں کی قدر کرنی چاییے۔ انسان کی اصل بھی تو غار ہے۔ اس نے زندگی کا آغاز غار سے کیا ۔ اس ترقی یافتہ عہد میں بھی‘ غار باسی اسے خوش آتی ہے۔ بعد از موت‘ اس کا اصل ٹھکانہ غار ہی تو ہے۔

تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی سطع پر رواج کب تھا۔ خاص طبقے کے لوگ‘ اس پرخار میدان میں قدم رکھتے تھے۔ عام لوگوں کو‘ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انھوں نے کون سا جہان بانی کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ نمبردار کا پسر ناہنجار ہی‘ نمبردار بنتا ہے۔ اسی طرح بادشاہ کا ناخلف بیٹا‘ بادشاہ بنتا ہے۔ اگرچہ مورکھ‘ انہیں باانصاف‘ صاحب کردار اور اعلی پائے کا قرار دیتا ہے۔ ساری خوبیاں‘ اس سے مخصوص کر دیتا ہے۔ ہر نتھو خیرے کو‘ بادشاہی کے خواب دیکھنے کی‘ اجازت نہیں مل سکتی۔

اگلے وقتوں کے لوگ‘ اپنے اپنے آبائی پیشے میں‘ کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ بلکہ علاقہ میں نام پیدا کرنے کے لیے‘ عمر گزار دیتے تھے۔ ان کا مجوزہ پیشہ‘ ان کی ذات اور پہچان ٹھرتا تھا۔ وہ اس ذیل میں‘ فخر محسوس کرتے تھے۔ آج بڑے بڑے افسر اور لیڈر‘ اپنی ذات اور شناخت چھپاتے ہیں لیکن ان کی بعض حرکتیں‘ اور کام ان کی ذات اور شناخت کھول دیتی ہیں۔ حالاں کہ اس میں چھپانے والی کوئ بات ہی نہیں۔
ہمارے محترم اور معزز لیڈر صاحبان‘ لوگوں کو ان کی اصل کی جانب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بجلی صرف خاص طبقے کے لوگوں کو میسر آ سکے‘ تاکہ وہ پڑھ لکھ کر حکم رانی کا معزز فریضہ انجام دے سکیں۔ عام آدمی‘ بڑے آدمیوں کا گولا ہوا کرتا تھا۔ اس کی چلمیں بھرتا تھا۔ ان کے جوتے سیدھےکیا کرتا‘ آج عام آدمی‘ اپنا ماضی بھول کر‘ تعلیم حاصل کرکے‘ کچھ بننے کی سعی میں مصروف ہے۔ یہ رویہ‘ کسی طرح درست نہیں۔ بجلی نہ ہونے کے سبب‘ تعلیم حاصل کرنے کے میلان کی‘ حوصلہ شکنی ہو گی اور بڑے آدمیوں کی آنکھ میں انکھ ملا کر‘ بات کرنے کا خواب‘ تعبیر کی منزل چھو نہ پائے گا اور لوگ اپنی اوقات کی جانب پھر کر‘ بہتر طور پر کام کر سکیں گے۔

تعلیمی بورڑوں کی مالی حالت مستحکم سہی‘ اس کے باوجود‘ انھیں مزید بےتحاشا مالی معاونت درکار ہے‘ تا کہ وہ لوگوں کا بہتر طور پر‘ استحصال کرنے کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔ طلبہ کو بار بار فعل کرنے کے لیے‘ حساب اور انگریزی مضامین‘ آرٹس کے لیے لازم کر رکھے ہیں۔ انگریزی کا مضمون‘ اس لیے لازمی قرار دیا ہے‘ کہ عین ممکن ہے‘ ان میں سے کوئی‘ اوباما کے تخت پر جا بیٹھے۔ آج تک ہوا تو نہیں‘ لیکن وقت کی گرداش اور قسمت کا لکھا‘ کون جان سکتا ہے۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ تجربے میں آیا ہے‘ پھر بھی کچھ‘ ناکچھ طلبہ بدقسمتی سے کامیاب ہو ہی جاتے تھے اور یہ صورتحال‘ بڑی مایوس کن اور تشویش ناک رہی ہے۔ اس مایوسی سے نجات کا واحد یہی ذریعہ رہ گیا تھا۔ اب کوئ طالب علم کامیاب ہوکر دکھائے گا تو مانیں گے۔

مغرب کی پیروی میں‘ بےلباسی ہمیں خوش آتی ہے۔ غالبا صلاح الدین ایوبی کا قول ہے‘ کہ گربت میں مرد کی غیرت اور عورت کی عزت‘ سستی ہو جاتی ہے۔ لوڈشیڈنگ سے بےروزگاری میں خوف ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بھوک نے جینا مشکل کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں‘ مغرب کی پیروی میں‘ بےلباسی معیوب نہیں رہے گی۔ مغرب کی بےلباسی اور جنسی آزادی‘ تاریخی وجوہ رکھتی ہے۔ یہاں کی بےلباسی میں بھی‘ حالات کا جواز پیدا ہو جائے گا۔ امرا‘ وزرا اور اہل ثروت پہلے ہی‘ جنسی عیاشی کرتے ہیں‘ اس طرح مزید تر مال میسر آ سکے گا۔

گربا ہوتے ہی امرا کی غلامی کے لیے۔ آج تک گربا کے پاس صرف اور صرف عزت باقی تھی‘ ہمارے مدبر قوم دوست قائدین‘ اس کو بھی بازار میں لانے کی‘ پوری پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں‘ کہ قوم مغرب کی جنسی پیروی کرکے‘ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ بنیاد پرستوں نے‘ آج تک اس ذیل میں اخلاقیات کے نام پر‘ ٹانگ اڑائے رکھی ہے۔ گویا پہلوں کے اخلاقی اصول وضوابط‘ آج کسی کام کے نہیں رہے
درج بالا معروضات کے تناظر میں‘ لوڈشیڈنگ کو ملاحظہ فرمائیں گے تو‘ اس کی مزید برکات گربا اور پریشان حضرات پر کھلتی جائیں گی اور سارا رولا رپا‘ سمجھ میں آ جاءے گا۔ یہ بھی پوشیدہ نہیں رہے گا‘ کہ اس سازش کے پیچھے شرپسند‘ مفاد پرست اور حکومت دشمن لوگوں کا دایاں ہاتھ ہے۔ وہ سب عوام دوست نہیں ہیں‘ اور ناہی عوام کو ہزاروں سال پیچھے لے جانے کے حق میں ہیں۔ اس ملک کے عوام نہ آگے بڑھ رہے ہیں اور ناہی برق رفتاری سے‘ ماضی کا رخ کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے پلٹنے کی رفتار حوصلہ شکن ہے اس لیے راہ میں پڑنے والی ہر دیوار کو‘ گرانا حکومت کے قومی تنزلی ایجنڈے کے ساتھ مخلصی ہو گی۔ ان کا اخلاص‘ حکومت دوست مورخ‘ آب زر سے رقم کرے گا۔

کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے‘ کہ ایک ایم پی اے صاحب بڑی دھواں دھار تقریر فرما رہے تھے۔ انھوں نے بڑے پرعزم انداز میں فرمایا‘ ہم ناخوندگی بڑھانے کی ان تھک کوشش کر رہے ہیں۔ مدبرین کی سرتوڑ کوشش ہے‘ کہ کوئ طالب علم میٹرک کراس نہ کر پائے۔ ایف اے میں حساب فارغ ہو جاءے گا‘ اس طرح تعلیم کی حوصلہ شکنی کے لیے‘ صرف اور صرف انگریزی باقی رہ جاءے گی۔ انگریز کا کندھا اتنا مضبوط نہیں‘ جو تعلیم شکنی میں ہمارے پرعزم لیڈران کی مدد کر سکے۔ حساب سے زیادہ کوئ مضمون بہتر ہو ہی نہیں سکتا۔ لوڈ شیڈنگ اس تعلیم دشمنی کے معاملہ میں‘ جلتی کے لیے آکسیجن کا کام دے گی۔ اس مثبت پہلو کے پیش نظر‘ لوڈ شیڈنگ کو منفی مفاہیم دینے والے‘ ایوان دشمن ہیں۔ ایوان دشمنی کبھی بھی‘ کمزور طبقے کے لیے صحت مند نہیں رہی.

بجلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے‘ کہ یہ مختلف حوالوں سے آگہی عام کرتی ہے۔ آگہی ے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔ کوئ اخبار‘ کسی بھی دن کا اٹھا کر دیکھ لو‘ خیر کی خبر پڑھنے کو نہیں ملے گی۔ ٹی وی سچی باتیں سامنے لا کر‘ بےچینی کا سبب بنتا ہے۔ بعض اوقات تو‘ ٹی وی سازشی عنصر محسوس ہونے لگتا ہے۔ لوگ انٹرنیٹ پر تصاویر‘ تقاریر‘ کارٹون شائع کرکے‘ اور تحریریں لکھ لکھ کر‘ بڑے آدمیوں کو پوری دنیا میں ذلیل وخوار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں‘ وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ کوئ بھی بڑا آدمی‘ اس وقت بےعزت ہو گا‘ جب اس کی جنتا میں عزت ہو گی۔ دوسرا وہ تسلیم کریں گے‘ تو ہی‘ ذلت کا کوئ پہلو نکلے گا۔ جو بھی سہی‘ میڈیا جھوٹا سچا کردار ادا کرنے کی ناکام سعی تو کر رہا ہے.

میڈیا کے حوالہ سے‘ انھیں یاوہ گوئ پڑھنے سننے کو مل رہی ہے۔ بڑے لوگ‘ سچ پڑھنے سننے کے عادی نہیں ہوتے۔ میڈیا کی وجہ‘ کمی کمین بھی‘ جو تعداد میں سب سے زیادہ ہیں' بات کرنے کی جرات کریں گے۔ بجلی نہ رہی‘ تو ٹی وی انٹرنیٹ وغیرہ‘ صفر ہو کر رہ جاءیں گے۔ اگلے زمانے میں‘ آگہی کے دروازے بڑے تنگ اور محدود تھے‘ اسی لیے‘ امن وامان میں کسی طرح کا نقص نہیں آتا تھا۔

پانی بڑی قیمتی چیز ہے۔ بجلی کے دور میں‘ سرکاری اور گھریلو موٹروں کا پانی‘ بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا تھا۔ انھیں کبھی احساس تک نہیں ہوتا تھا‘ کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بجلی کی بندش سے‘ بڑے لوگوں نےاپنے پیارے پیارے عام کو‘ ظلم کبیرہ سے بچا کر‘ اربوں کی تعدد میں نیکیاں کما لی ہیں۔ قوم شکریہ ادا کرنے کی بجائے‘ سڑک پر آ جاتی ہے۔

ٹیشو پیر کی صنعت خسارے میں تو نہیں تھی‘ لیکن عام آدمی ٹیشو پیر بنا ہوا تھا. عام آدمی‘ اس ترقی یافتہ چیز سے‘ استفادہ نہیں کرتا تھا‘ لیکن پانی کی خطرناک قلت کے سبب‘ یہ طہارت کے حوالہ سے‘ ایک عام آدمی میں بھی‘ شرف قبولیت حاصل کر لے گا۔ لوگ پانی کو صرف پینے کے لیے‘ محفوظ کیا کریں گے اور یہ بڑے فخر اور اعزا والی بات ہو گی۔

پاکستان کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ محکمہ منصوبہ بندی نے‘ آبادی کےحوالہ سے‘ وہ نام نہیں کمایا اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ جو کام محکمہ منصوبہ بندی نہیں کر سکا وہ کام بجلی کی بندش سے باآسانی ہو سکے گا۔ اس کی کئ صورتیں سامنےآ سکیں گی۔ مثلا
ہسپتا ل میں پڑے مریض‘ اپریشن نہ ہونے کے باعث دم توڑ دیں گے۔

کام نہ ملنے کی وجہ سے بھوک میں اضافہ ہو گا۔ کچھ لوگوں کو بھوک کھا جائے۔ بہت سے لوگ بھوک کی سختی کے باعث خود کشی کر لیں گے۔

بھوک‘ چوری چکاری میں اضافے کا باعث بنے گی۔ ڈاکے پڑیں گے۔ ڈاکو برسرعام لوگوں کو لوٹیں گے۔ اس چھینا جھپٹی کے عالم میں‘ قتل وغارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ اس طرح‘ اچھی خاصی آبادی زندگی کی ظالم سختیوں سے‘ مکت ہو جاءے گی۔

بجلی کی قیمتوں میں‘ جس قدر اضافہ ہوا ہے‘ اس سے روح بھی کانپ رہی ہے۔ بجلی نہ ہوئ تو‘ بجلی کی قیمت بل میں اندراج نہ ہو سکے گی۔ صرف اضافی چارجز کا بل آیا کرے گا‘ جو پہلے سالوں میں باآسانی ادا ہو سکے گا۔ بجلی فراہم ہونے کی صورت میں‘ لوگ آغاز عشق میں ہی‘ میٹر کٹوانے چل پڑیں گے۔ اس طرح بجلی والوں کے کام میں‘ خواہ مخواہ کا اضافہ ہو جاءے گا‘ جو کسی طرح مناسب نہیں لگتا۔

مزدور صدیوں سے‘ مشقت کا شکار ہے۔ آج ہر کام بجلی سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح مزدور کو وافر آرام دسیاب ہو سکے گا۔ صدیوں کے تھکے ماندے مزدور کو‘ آرام ملنا شر پسند عناصر کو‘ ناجانےکیوں برا لگ رہا ہے۔

دفاتر آرام گاہیں بن گئی ہیں' سائلین سولی پر ہیں۔ بجلی کی بندش سے‘ کمپیوٹر ٹھپ ہو جاءیں گے۔ لوگ ناامید ہو کر‘ گھربیٹھ جاءیں گے۔ اس سے دفاتر شاہی کو‘ سائلین کی اہمیت کا احساس ہو سکے گا۔ دستی کام کرنے کے لیے آوازیں لگائی جاییں گی۔ چلو دفاتر شاہی کو کچھ تو کام کرنے کی عادت پڑے گی۔

غرض ایسی اور بھی چیزیں ہیں‘ جو لوڈشیڈنگ کی برکات اور نادر فوائد کو واضح کرتی ہیں جن کے عام کرنے سے‘ پتھر کے سے‘ زمانے کا پرسکون‘ بےچنت‘ آزاد اور فطری ماحول میسر آ سکے گا۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 177244 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.