(پیدائش تا ۲۰۱۲ء)
سوچتا ہوں کہا ں سے شروع کروں، زندگی کی چو نسٹھویں بہار دیکھ رہا ہوں، سچ
بات تو یہ ہے کہ اب بہت ہوچکا، بہت کچھ کھا لیا، بہت کچھ دیکھ لیا، بہت کچھ
پڑھ لیا ، بہت کچھ لکھ بھی لیا اور چھپ بھی گیا۔ لائبریری میں کتابوں کی
درجہ بندی کے لیے ایک اسکیم رائج ہے جسے ایک امریکی ماہر لائبریری سائنس
میلول ڈیوی نے۱۸۷۶ء میں مرتب کیا تھا۔اس اسکیم میں کل علم کو دس درجوں میں
تقسیم کیا گیا ہے،علوم کی اوپر سے نیچے تقسیم کا فلسفہ ڈیوی نے یہ بیان کیا
ہے کہ پتھر کا انسان جیسے جیسے شعور کی دنیا میں قدم رکھتا چلا گیا، مختلف
علوم معرض وجود میں آتے گئے اِسی مناسبت سے اس نے علوم کی ترتیب مقررکی، یہ
اس کا اپنا فلسفہ ہے اس سے اختلاف کرنے کی گنجائش موجود ہے، اس کے خیال میں
پتھر کے انسان کا اولین عمل سوچنا تھا چنانچہ اس نے فلسفہ کوسرِ فہرست
رکھا، سوچنے کا یہ عمل جب آگے بڑھا تو پتھر کے انسان نے اپنے خالق کے بارے
میں سوچا اس کا یہ عمل اُسے مذہب کی جانب لے گیا چنانچہ مذہب کو دوسرے نمبر
پر رکھا، اب انسان کواپنے ہم جنسوں سے تعلقات استوار کرنے کی رغبت ہوئی،
اُس کا یہ عمل سماجی علوم کی ابتدا تھی،راہ و رسم قائم کرنے کے لیے زبان کی
ضرورت تھی ، اب زبان معرض وجود میں آئی،پتھر سے آگ اور پہیے سے گاڑی بنائی
، اس کا یہ عمل سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمرہ میں آیا، مصوری اسے فائن آرٹس
کی جا نب لے گی،اب حضر ت انسان کو شاعری کی سوجھی تو ادب معرض وجود میں
آیا۔ یہاں آکر انسان بوڑھا ہوچکا تھا، چل چلاؤ کا وقت قریب آیا تو اس نے
سوچا کہ اپنی زندگی کے حالات قلم بند کرے، زندگی میں جو تجربات و مشاہدات
ہوئے انھیں آئند ہ آنے والی نسل کی رہنمائی کے لیے قلم بند کرجائے ۔ میلول
ڈیوی کے فلسفے کے مطابق اب ہم بھی تمام تر مراحل طے کر چکے، لہٰذا اپنی آپ
بیتی یا خاکہ، تجربات و مشاہدات جیسے بھی ہیں اچھے یا برے انھیں اپنی آنے
والی نسل کے لیے چھوڑ جائیں ، اگر وہ مناسب جانیں تو رہنمائی حاصل کرلیں
ویسے سچ بات تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل نے موبائل ، کمپیوٹر ، انٹر نیٹ اور
آزاد میڈیا کے دور میں آنکھ کھولی ہے اسے ہم جیسے سیاہ وسفید ٹیلی ویژن
دیکھنے والوں ، بلیک رنگ کا لائن ٹیلی فون استعمال کرنے والوں، بسوں ، منی
بسوں،رکشا،سرکلر ریلوے ، گھوڑا گاڑی اور بیل گاڑی میں سفر کرنے والوں کے
تجربات و مشاہدات سے کیا لینا دینا،خاموشی سے کمپیوٹر آن کیا ، انٹر نیٹ کے
توسط سے جو مرضی چاہا دیکھ لیا، وہ چیز بھی جو ان کے کام کی ہے وہ بھی جو
ان کے کام کی نہیں۔میلول ڈیوی کا فلسفہ بیان کرنے کا مقصد اپنے بارے میں
لکھنے کا مدعا بیان کرنا تھا کہ اب ہمارا بھی چل چلاؤ ہے، نہیں معلوم کب
ہوا کا تیز جھونکا چلے اور چراغ گل ہوجائے۔ویسے بھی جب سے ہماری انجوپلاسٹی
ہوئی ہے، ہمارے دل نے ہمیں یہ احساس دلانا شروع کردیا ہے کہ وہ ہمارے جسم
میں موجود ہے، دھک دھک کر رہا ہے ، اسے اختیار ہے کہ وہ جب چاہے اپنی دھک
دھک بند کر سکتا ہے۔ویسے اختیار کا مالک تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے، اس کی
مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتاخواہ ہمارا دل ہمیں کتنا ہی ڈرائے ،دھمکائے
ہوگا وہی جو اﷲ چاہے گا۔ غالبؔ نے اپنی آپ بیتی میں اِسی بات کو اس طرح کہا
کہ ’’جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آگئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر
نظر آنے لگے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار
مِسّی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی‘‘۔ تو جناب ہماری داڑھی میں بھی چاندی
نمایاں ہو چکی ہے، گالوں پرچیونٹی کے انڈے بھی نظر آنے لگے ہیں البتہ ابھی
دانت ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئی۔ناصر کاظمی کے بقول
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
اپنا خاکہ لکھنا یا آپ بیتی قلم بندکرنا بڑا کٹھن کام ہے حالانکہ خا کہ
نگارپہلے ہی اپنے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوتا ہے۔اپنے خاکے میں ایک مشکل
یہ بھی ہوتی ہے کہ بندہ اپنی ذات سے متعلق اچھی باتیں لکھے تو اپنے منہ
میاں مٹھو والی مثال صادق آتی ہے،اچھا بھی نہیں لگتا، برائی لکھے، کیڑے
نکالے تو کیسے،ہم نے دوسروں کے خاکے لکھے ہیں، ہر صورت میں خاکہ اڑانے سے
احتراز کیا ہے، تو پھر اپنا خاکہ بھی ایمانداری سے لکھیں گے۔ مشتاق احمد
یوسفی کا کہنا ہے کہ’ آپ بیتی میں ایک مصیبت یہ ہے کہ آدمی اپنی بڑائی آپ
کرے تو خود ستائی کہلائے اور ازراہ کسر نفسی یا جھوٹ موٹ اپنی برائی خود
کرنے بیٹھ جائے تو یہ احتمال کہ لوگ جھٹ یقین کر لیں گے‘۔سچی بات تو یہ ہے
کہ خاکہ خواہ کسی کا ہو ، اپنا ہی کیوں نہ ہوہر صورت میں خاکہ نگار کو
سچائی اور ایمانداری کا دامن تھامے رہنا چاہیے ،اس کابنیا دی مقصد خاکہ
اڑانا نہ ہو بلکہ شخصیت کے باطن میں چھپے موتیوں کی تلاش ہونا چاہیے۔ سو ہم
نے بھی اپنی تلاش اور اپنے باطن میں چھپے رازوں کو افشاکرنے کا قصد کر لیا۔
نہیں معلوم اس میں کہاں تک کامیابی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی نے خاکے کو
’ایک ایسی صراطِ مستقیم قرار دیا ہے ، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے
زیادہ تیز ہے‘۔مجھے اپنے باطن میں جھانکنے یا اپنا خاکہ لکھنے کی ترغیب
’’خود ستائیاں‘‘ پڑھ کر ملی، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے اردو کے نادر و نایاب
خود نوشت خاکے جمع کر کے خود نوشت خاکوں کی دنیا میں قابل تعریف کام کیا
ہے۔
میرے پرکھوں کی سرزمین راجستھان تھی، اس حوالے سے میں بنیادی طور پر
راجستھانی یا راجپوت ہوں ،راجستھان آج کل آبادی کے لحاظ سے بھارت کا سب سے
بڑا صوبہ ہے، تقسیم سے قبل اس صوبے کانام راجپوتانہ تھااور یہ صوبہ بائیس
راجواڑوں (ریاستوں) کا مجموعہ تھا۔ راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا
کی ہیں، میرابائی، مہدی حسن اور ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی نے راجستھان کے
تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں حالانکہ وہ خود بھی
راجپو ت ہی ہیں۔بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر (یوپی )کے
قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔ ’ہمارے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ
الرحمتہ جو ہندوستان کے ایک حکمراں خاندان سے تھے انھوں نے سلطان محمود
غزنوی کے زمانے میں بہٹنیر(بیکانیر) سے دہلی ہجرت کی، اس وقت دھلی میں
مہاراجہ پال عرف جیون سنگھ تورمار خاندان کی حکومت تھی ، حکومت کی جانب سے
ہمارے خاندان کے جد امجد کو کہڈی (شکارپور) جو اس زمانہ میں ایک صوبے کی
حیثیت میں تھا دیوان مقررکیا گیا۔ شہاب الدین شاہجہاں کے عہد میں ہمارا
خاندان شکار پور سے منتقل ہو کر قصبہ حسین پور، ضلع مظفر نگر، یو پی میں
مقیم ہو ا ۔ میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ حسین پور سے پہلے فرید کوٹ
پھر بیکانیر منتقل ہوئے ۔ان کا یہ عمل ایسا ہی تھا کہ پہنچی وہیں پہ خاک
جہاں کا خمیر تھا، پردادا نے اپنے انتقال تک، دادا اور والد صاحب نے تقسیم
ہندوستان تک بیکانیر کو ہی آباد کیے رکھا۔ میرے منہ میں خاک اگر پاکستان نہ
بنتا اور اگر بنتا بھی تو دنیا کی سب سے بڑی ہجرت نہ ہوئی ہوتی تو آج ہم
راجپوتانہ کی سرزمین بیکانیر میں ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے۔
مظفر نگر ہندوستان کے شمالی مغربی اضلاع میں شمار ہو تا ہے۔یہ ایک ایسی
مردم خیز سرزمین ہے جس نے علمائے دین، صوفیا ئے کرام اور فقہا ئے اسلام کو
جنم دیا، اہل علم ودانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی ،ان شخصیات میں بعض احباب
کے نام فخر سے لیے جاسکتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اﷲکا مولد مظفر نگر کا موضع
’پھلت‘ تھا، اسے قریہ اولیاء بھی کہا جاتا ہے۔عالم دین مولانا اشرف علی
تھانوی ؒ ۱۲۸۰ھ میں بمقام قصبہ تھانہ بھون، ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔
پاکستان کے اولین وزیر اعظم شہید ملت خان لیا قت علی خان کا تعلق بھی مظفر
نگر سے تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، حاجی ولی اﷲ محمد احمد سراوے والے ،
زاہدحسین ، اولین گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان ،جسٹس (ر)نا صر اسلم زاہد،
محمد ابصار حسین قرنی عمر پور والے، مفتی و محدث مولانا عبدلمالک ، مولانا
عبد الخالق کاندھلہ والے، شیخ محمد ابراہیم آزادؔ،سابق چیف جسٹس ، بیکانیر
چیف کورٹ ،معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمدمرحوم، ڈاکٹرالطاف حسین قریشی
(اردو ڈائجسٹ )، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری،، مبشر احمد واحدی ، معروف شاعر
احسان دانش ، تابشؔ صمدانی اورافسانہ نگار اور ناول نگار شوکت تھانوی کا
وطن بھی تھا نہ بھون مظفر نگر تھا۔اس اعتبار سے مجھے ایسی متبرک سر زمین سے
نسبت حاصل ہے جس کی کوکھ نے عظیم ہستیوں کو جنم دیا۔ میرے خاندان میں اکثر
احباب تدریس اور شاعری سے شغف رکھتے ہیں،صاحب دیوان شاعر بھی ہیں اور بے
دیوان شاعر بھی، میَں شعرگھڑ لیتا ہوں، شاعر ی میرے خمیر میں تو ہے لیکن
تاحال باقاعدہ شاعری نہیں کی، اپنے موضوع پر لکھنے سے فرصت ہی نہیں
ملی،البتہ موقعہ محل یا ضرورت کے لیے شعر کہہ لیتا ہوں، جیسے یہ نثری شعر
مظفر نگر تری مٹی کی عظمت کو سلام
کیسے کیسے گوہر نایاب پیدا کیے تونے
میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب کا دیوان ۱۹۲۳ء میں آگرہ
سے’’ثنائے محبوب خالق: دیوان آزاد‘‘ کے نام سے شائع ہواتھا ، ۷۵ سال بعد اس
دیوان کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۶ء میں کراچی سے شائع ہوا، آزادؔ صاحب وکیل تھے،
بیکانیر میں جج اورچیف جج بھی رہے، نثر بھی لکھی، تصوف ان کا خاص موضوع
تھا، ان کے متعدد مضامین’’پیامِ اتحاد ‘‘ میں شائع ہوئے۔ دادا شیخ خلیل
صمدانی صاحبِ دیوان شاعر تھے ، ان کے بیٹے تابشؔ صمدانی کئی نعتیہ مجموعوں
کے خالق ہیں۔ میرے خاندان میں ادب سے تعلق کا یہ سلسلہ اﷲ کے فضل سے کئی
پشتوں سے جاری ہے۔کئی احباب شعر و ادب کا ذوق رکھتے ہیں۔ جنابِ آزادؔ استاذ
الشعراء افتخارالملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی کے شاگرد
تھے۔
ادب سے وابستگی میرے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے، صاحبِ دیوان اور بقول
ابن انشا بے دیوان شاعر ہوئے ہیں اس وجہ سے لکھنا ضروری سمجھااور لکھنا بھی
چاہیے، اپنے بزگوں کو یاد رکھنے اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا یہ بھی
ایک طریقہ ہے،اگر ہمارے پرکھوں میں صاحب دیوان اور بے دیوان شاعر نہ ہوتے
تو لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی، خاموشی سے گزرجاتے یا پھر ہم بھی ابن انشا
کی طرح لکھ دیتے کہ ’’ادب کے بازار میں جس کی تعریف پوچھوں اپنے کو فلاں
ابن فلاں اور موتیوں کا خاندانی سودا گر بتا تا ہے۔ ابن انشا کو بار ہا شکر
ادا کرتے دیکھا گیا ہے کہ اس کے خاندان میں کوئی صاحب دیوان یا بے دیوان
شاعر نہیں ہواورنہ یا تو اسے اس کے نام کا سہارا لینا پڑتا یاا س کی وجہ سے
شرمندہ ہونا پڑتا‘‘۔ ہمیں سہارے کی بھی ضرورت نہیں، شرمندگی بھی نہیں ،
ہمیں تو اپنے شاعراور ادیب پرکھوں پرفخر ہے۔
اس تمہید کے بعداب میری مختصر سی سر گذستِ حیِات سنیے اور خود میری ہی
زبانی۔ میری زندگی کا سب سے اہم اور منفردواقعہ خود میری پیدائش ہے۔ جی ہاں
یہی سچ ہے ، تو سنیئے یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ میرے والدین کی شادی قیام
پاکستان سے پانچ ماہ قبل مارچ ۱۹۴۷ء میں ہوئی تھی، میرے وجود کا خمیر
ہندوستان میں معرض وجود میں آچکا تھا، اسے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ میرے
والدین کو پاکستان ہجرت کا قصد کرنا پڑا،’ ’لے کر رہیں گے پاکستان بٹ کر
رہے گا ہندوستان ‘‘کی صدائیں میرے کانوں میں براہِ راست تو نہیں البتہ اپنی
ماں کے کانوں سے ہوتی ہوئی مجھ تک ضرور پہنچیں۔اس کا احساس میں آج بھی
محسوس کر سکتا ہوں، کیوں کہ میں اُس وقت شکم مادر میں رہتے ہوئے ہجرت کی
بہاروں کا لطف لے رہا تھا۔مجھے بروز پیر ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو یعنی قیام
ِپاکستان کے سات ماہ بعد اس دنیا میں آنا تھا اور آیا۔پنجاب کے ایک دیہات
نما شہر ’میلسی ‘میں اپنے ماموں جناب محبوب احمد سبزواری کے گھر پیدا
ہوا،اس کی وجہ یہ ہوئی کہ پاکستان کے قیام کا اعلا ن ہو ا تو میری والدہ
اپنے میکے مشرقی پنجاب کے شہر فرید کوٹ میں تھیں، والد صاحب بیکانیر میں
تھے،چنانچہ والدہ نے اپنے بھائیوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور پنجاب کی
سرزمین ان کی مستقر ٹھری جب کہ والد صاحب نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔
میلسی ہے ایک شہر ، پانچ دریاؤں کی سرزمین پر
میں ہوں رئیسؔ اُسی آسماں کا ایک ستارہ
یہ وہ زمانہ تھاجب عام طور پر بچوں کی پیدائش گھروں میں ہوا کرتی تھی،
محلوں میں بعض عورتیں بچوں کی پیدائش میں مدد گار کا کردار ادا کیا کرتی
تھیں، اُنھیں عرف عام میں ’دائی‘ کہا جاتا ہے۔ ’دائی‘ کوئی کوالیفائیڈ نرس
نہیں ہوتی تھی۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر زن ِحاملہ کا سہارا ہوا کرتی تھی۔
میری امی اور میَں بھی ایک دائی جس کا نام’ اَنسری‘تھاکے رحم و کرم پر تھے۔
میں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا۔اپنے دادا کا پہلا پوتا، اپنی پھوپھیوں
اور چچاؤں کا پہلا بھتیجا، یہی وجہ تھی کہ میری آمد پر میرے چاہنے والوں نے
کا ن لگا ئے ہوئے تھے کہ کیا خبرآتی ہے اب تو سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ
وقت سے پہلے ہی اطلاع آجاتی ہے کہ دنیا میں آنے والاابنِ آدم ہوگا یا وہ
بنتِ حوا ہو گی۔ اچانک یہ اطلاع ملے کے نومولود بابا آدم کے قبیلے سے تعلق
رکھتا ہے تو خوشی دوبالا ہوجاتی ہے۔ دنیا میں میری آمد متوقع ہی تھی کہ
’دائی ‘ نے اعلان کر دیا کہ اس دنیا میں آنے وا لے رئیسِ اعظم ہیں وہ سر کے
بل نہیں بلکہ پیروں کے بل اس دنیا میں آئیں گے۔زچگی کی اصطلا ح میں اِسے
بچے کا الٹا پیدا ہونا کہا جاتا ہے۔ دائی کی اس دیدہ دلیری نے گھر کے ماحول
کو یک سر بدل کے رکھ دیا، خوشی کا ماحول افسرد گی میں بدل گیا، موقع واردات
پر موجود چہرے کملا گئے، فضاء غمگین ہوگئی،اس خبر نے کراچی کو بھی اپنی
لپیٹ میں لے لیا جہاں پر میرے والد صاحب اپنے باپ بننے کی خبر سننے کے لیے
بے تاب تھے، میرے دادا کو اپنے دادا بننے کی خبر کا انتظار تھا اور میری
پھوپھیاں اور چچااپنے بھتیجے کا اس دنیا میں آنے کا انتظار بے تابی سے
کررہے تھے، وہ بھی اس خبر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اب مجھے ہی نہیں
بلکہ میری ماں کی زندگی کو بھی خطرہ تھا۔ گویا میَں نے دنیا میں آنے سے
پہلے ہی یہ کارنامہ انجام دیا کہ اپنی ماں کی زندگی کو داؤپر لگا دیا۔رہا
معاملا الٹے اور سیدھے کا ،تو بات یہ تھی کہ میَں نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ
میَں جوں ہی اس دنیا میں آؤں دائی صاحبہ میری گردن دبوچ لیں، میَں تو اُس
سے اپنی قدم بوسی کرانا چاہتا تھا،ایساہی ہوا، میَں دنیا میں چلتا ہوا ہی
آیا،گویا الٹا پیدا ہوا، اپنا اپنا طریقہ واردات ہے۔ بچے کا الٹا پیدا ہونا
بھی کیا چیز ہوتا ہے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں، میَں جوان ہوگیا تھا، کالج
میں پڑھا کرتا تھا،اُس وقت ہم آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے، چھٹی کادن
تھا ، صبح ہو چکی تھی لیکن میَں ابھی سو رہا تھا، ابا جان نے سوتے سے
اٹھایا کہنے لگے چلو ایک صاحب پڑوس سے آئے ہیں میرے دوست ہیں ان کی کمر میں
چُک آگئی ہے تم اُن کی کمر پر اپنے سیدھے پیر کی ایڑی رکھ دو، پہلے تو میَں
سمجھا ہی نہیں،میَں نے آنکھیں ملتے ہوئے ساتھ ہی ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ کیا
ہوا ہے ؟پاپا( والد صاحب کو ہم پاپا کہا کرتے تھے)، انہوں نے وہی جملہ پھر
دہرایا، میَں نے انتہائی ادب سے کہا کہ میں کوئی پہلوان، ہڈی جوڑ نے والایا
مالشیہ ہوں، کہنے لگے ،نہیں بھئی، بات یہ ہے کہ کیونکہ تم الٹے پیدا ہوئے
تھے اس لیے تمہارے پیر کی ایڑی میں یہ تاثیر ہے کہ اگر کسی کی کمر میں چُک
آ جائے تو تمہارے اس عمل سے اس کی تکلیف دور ہوجائے گی۔ ابا جان کا حکم
تھا،مجال نہیں تھی کہ چوں چراکی جاتی، خاموشی سے آنکھیں ملتا ہوا ڈرائنگ
روم میں گیا وہ صاحب فرش پراوندھے منہ پڑے تھے،میَں نے جاکر ویسا ہی کیا
جیساابا جان نے کہا۔بعد میں بھی اس قسم کے واقعات میرے ساتھ ہوئے۔ جس طرح
دنیا میں بے شمار قسم کی فضولیات اور تواہمات ہیں، یہ بھی انھی میں سے ایک
ہے۔
چار سال کی عمر سے پہلے کی باتوں کا مجھے ہوش نہیں ہے۔ ایک خواب کا سا خیال
ہے کہ میَں اپنے دادا کے ساتھ بہار کالونی کی جامع مسجد میں نماز پڑھنے گیا
تھا، ایک دن دادا نماز پڑھنے میں مصروف تھے میَں مسجد کی چھوٹی سے دیوار پر
چڑھ کر بیٹھ گیااور بلند آواز سے اُس زمانے کا ایک مشہور گانا ’’اے میرے دل
کہیں اور چل اس دنیا سے دل بھر گیا‘‘ گانے لگا، دادا کو میری یہ حرکت بری
نہیں لگی بلکہ انہوں نے گھر آکر خوش ہو ہو کر سب کو میری اس حرکت کے بارے
میں بتا یا، اس زمانے کا ایک اور واقعہ جو میری نظروں کے سامنے کبھی کبھی
آجاتا ہے وہ میرے دادا کا اس دنیا سے رخصت ہونا ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان
کا انتقال ہوا تو انھیں بہار کالونی والے گھر ہی میں پلنگ کھڑے کرکے ان پر
چادریں ڈال کر غسل دینے کی جگہ بنائی گئی تھی ،میَں بار بار اس جگہ آجایا
کرتا لوگ مجھے وہاں سے بھگا دیا کرتے۔ کچھ بڑا ہوا توبہار کالونی والے گھر
سے آگرہ تاج کالونی والے جھونپڑی نما گھر منتقل ہونا یاد ہے، ایک چھوٹا سا
کمرہ جس کی چھت ایس بسٹاس کی شیٹوں کی تھی، صحن کی چار دیواری سرکنڈوں کی،
بارش میں چھت درمیان سے ٹپکا کرتی اور ہم اپنے پلنگ کبھی اِدھر کبھی اُدھر
کرلیا کرتے ۔ غسل خانہ علیحدہ ،لازمی اثاث البیت Toilet) (قدیم طرز کا جس
کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا ، رفتہ رفتہ گھر پکا ہوتا گیا لیکن تمام
کمروں کی چھت ایس بسٹاس ہی کی تھیں، سردیوں میں سرد،گرمیوں میں گرم
اوربرسات میں اﷲ کی رحمت اندر آیا کرتی لیکن گھراپنا تھا، یہی خیال ہم سب
کو خوش و خرم رکھا کرتا، اسی گھر اوراسی ماحول میں ہم سب بہن بھائی پروان
چڑھے اور بڑے ہوئے۔
بچپن میں خاموش طبع تھا،مجال ہے کہ کسی کے سامنے کوئی بات کرلوں، مجھے
گونگے شاہ کا خطاب بھی ملا ہوا تھا۔میٹرک کے بعد جوہر کھلے ، اسٹیج پر
بولنا ، مجمعے کے سامنے تقریر کرنا ، پروگراموں کی کمپیر نگ کرنا، اس کا
چسکا کیسے لگا اس کی تفصیل میَں نے نیچے بیان کی ہے ۔پڑھائی میں مشکل سے
پاس ہونے والا،کھلنڈرا قسم کاتھا، عام طور پر احباب کا خیال یہی تھا کہ یہ
مشکل سے میٹرک کر لے تواسے کسی ٹیکنیکل کام میں لگا دیا جائے ، ہوا بھی
ایسا ہی ،ابھی انٹر ہی کیا تھا یار لوگوں نے پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں
اپرنٹس شپ میں بھرتی کرادیا،اس کا قصہ کچھ اس طرح ہے ،۱۹۶۸ء کی بات ہے میں
انٹر کر چکا تھا، میرا تعلیمی ریکارڈ بہت نمایاں نہیں تھا ، بس نارمل تھا۔
ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ فیصلہ ہواکہ میں کوئی
ٹیکنیکل لائن اختیار کروں، ساتھ ہی اپنی پڑھائی بھی جاری رکھوں۔چنانچہ میں
نے عبداﷲ ہارون کالج میں شام کی شفٹ میں داخلہ لے لیا ۔ہمارے رشتہ کے ما
موں لئیق احمد مرحوم پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں ملازم تھے، انہوں نے مجھے
فیکٹر ی میں شروع ہونے والی اپرنٹس شپ (Apprenticeship)میں بھر تی کرادیا۔
یہ خالصتاً ٹیکنیکل کام تھا۔ شروع کے دو ماہ لوہے کے ٹکڑوں کوبنچ (Bench)
پر فِٹ کر نے کے بعد لوہے کی فائل کے ذریعہ مخصو ص طریقے سے گھسنا ہو تا
تھا ۔ دو ماہ کے بعد کارکردگی کی بنیاد پر کوئی مشین مین بن جاتا ، کوئی
خراد مشین(Lathe Machine) کا کاریگر تو کوئی بنچ فٹر ہی رہتا، اس وقت ہم
آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے، ہر روزفجر کے وقت گھر سے نکلتا، بس کے
ذریعہ سٹی اسٹیشن پہنچتا اور وہاں سے مہران ایکسپر یس کے ذریعہ جو ۶ بجے
چلا کرتی تھی مشین ٹول فیکٹر ی پہنچا کرتا۔ مرَپِٹ کر میں نے دو ماہ
گزارلیے اس کے بعد مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ میں اسے جاری رکھ سکتا
،چنانچہ میَں تو دوماہ بعد ہی بھاگ کھڑا ہو ا،یہ نرم و نازک ہاتھ تو قلم
چلانے کے لیے تھے، ان سے لوہا کس طرح گھسا جا سکتا تھا، لئیق ماموں کیوں کہ
آفس میں تھے اس وجہ سے میری جاں بخشی ہوگئی ورنہ شاید پو لیس کے ذریعہ
بلوالیا جاتا۔یہ میری زندگی کی اولین ملازمت یا ایسی پڑھائی تھی کہ جس کے
بعد روزگار کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ لئیق ما موں اکثر کہا کرتے تھے کہ تمہارا
بیج ٹول فیکٹری کا اولین بیج تھا، کافی ترقی ہوتی ، لیکن اس قدر سخت محنت
کا کام میرے بس کی
بات نہیں تھی۔ مجھے تو قلم چلانا تھا اور تعلیم کے میدان میں رہنا تھا خراد
مشین کا’’خرادیہ‘‘ کیسے بن سکتا تھا۔
حساب کتاب سے مجھے شروع ہی سے الجھن تھی،یہی وجہ ہے کہ میٹرک میں حساب کا
پرچہ مشکل سے پاس کیا تھا۔مرزا غالب کا بھی حساب سے جی گھبراتا تھا ، ان کا
کہنا تھا کہ’ انہیں جوڑ لگا نا نہیں آتا‘۔میٹرک پیلے اسکول سے کیا،وہ دور
پیلے اسکولوں ہی کا تھا،اُس وقت تعلیم کو لوگوں نے تجارت نہیں بنا یا
تھا۔سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا بڑا نام تھا، لوگ فخر سے کہا کرتے تھے کہ
ہم نے کوتوال بلڈنگ، جیکب لائن، وسطانیہ، لیاری کواٹر، این جے وی میں پڑھا،
ڈیجیرین ہونا بڑا اعزاز تھا، عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگ ڈیجیرین
ہیں۔میرا سرکاری اسکول کراچی میں پی اے ایف ماری پور اب اِسے’ بیس مسر ور
‘کہتے ہیں کہ کیمپ نمبر ۲ میں تھا۔ میرے گھر سے خاصا دور تھا،پیدل جانا
مشکل ہو ا کرتا تھا، لفٹ لے لیا کرتے یا پھر سرکاری بسیں ہمارا مقدر ہوا
کرتی تھیں۔اسکول کا ماحول صاف ستھرا نیم فوجیانہ تھا،اکثر اساتذہ کیمپس ہی
میں رہا کرتے تھے، سول ادارے ہوتے ہوئے بھی فوجی ڈسیپلن تھا۔۱۹۶۵ء کی پاک
بھارت جنگ ہوئی تو میں نویں جماعت میں تھا، ایوب خان کی تاریخی تقریر’’دشمن
نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ ہم نے اپنے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے آفس کے
ریڈیو پر سنی تھی۔ کیمپس میں کرکٹ گراؤنڈبہت عمدہ تھے، کرکٹر امتیاز احمد
کو اسی جگہ کھیلتے دیکھا تھا، اسکول کے دوست فوجیوں کی اولادیں ہی تھیں،
یقینا ان میں سے اکثریت نے فوجی ملازمت اختیار کی ہوگی۔بہت کم سے ملاقات
ہوسکی۔ چند نام ہی ذہن میں ہیں ریاض، اختر، افتخار،اظہر، شمیم،ظفراﷲ نیازی
طالبات بھی کلاس میں تھیں لیکن ان میں سے کسی کانام ذہن میں نہیں۔
اساتذہ سب ہی محنتی، قابل اوراچھا پڑھانے والے تھے، جی چاہتا ہے کہ ان سب
کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھوں پر طوالت ایسا کرنے سے روک رہی ہے،ان سب کے
لیے محبت بھرا سلام عقیدت جو نام اب ذہن میں ہیں ان میں محمداحمد قریشی
صاحب ، کلیم صاحب، محمد ظہیر صاحب ، امیر الہدیٰ صاحب،محمد احمد صدیقی
(علیگ )،افسر صاحب، افسر صاحب ڈی ای او(DEO) بھی ہوئے ،فیض احمد شاہ صاحب ،
سلیم صاحب، زرین صاحب، اکرام صاحب ان کا جوانی میں ہی انتقال ہوگیا تھا
،مسیز مرتضیٰ اور مسیز شمیم شامل تھیں۔ظہیر صاحب اور امیر الہدیٰ صاحب ایجو
یشن سپروائیزر ہوگئے تھے، ۱۹۷۶ء میں شہناز کا تبادلہ حیدر آباد سے کراچی
ہوا تو دونوں احباب نے ہماری بہت مدد کی اور گھرکے نزدیک تر اسکول میں
تبادلہ کردیا۔
ایف ایس سی سندھ مسلم کالج سے کیا،یہاں پروفیسر کوہاٹی پرنسپل ہوا کرتے
تھے، لحیم شحیم، صحت مند اور با رُعب انسان تھے، ان کے سامنے کوئی پرندہ پر
نہیں مارسکتا تھا، جوں ہی ان کی گاڑی کالج گیٹ کے سامنے آکر رکا کرتی نیچے
سے اوپر تک سناٹا چھا جا یاکرتا ، کالج کے اساتذہ میں پروفیسر اویس احمد
ادیب معاشیات کے استاد تھے، قابل اور اپنے موضوع پر مکمل دسترس،اویس صاحب
سے متاثر ہوکر ہی میں نے معاشیات میں ایم اے کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
پروفیسر اسحاق اور پروفیسر چودھری صاحب اردو کے استاد ہوا کرتے تھے،پروفیسر
سید لطف اﷲ صاحب تاریخ اسلام پڑھا یاکرتے تھے، یہ بعد میں میرے ساتھی اور
دوست بھی ہوئے، جماعت اسلامی سے تعلق تھا، فلاحی ادارے جمعیت الفلاح کے
سیکریٹری بھی رہے، مجھے جمعیت الفلاح میں سرگرم کرنے کی کئی سال کوشش کرتے
رہے، ان کے کہنے پر میَں نے جمعیت کی لائبر یری کواز سر نو تر تیب دینے کا
کام بھی کیا۔ سراج الدولہ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، اچھے
اور نیک انسان تھے۔ بی اے عبد ا ﷲ ہارون کالج سے کیا، یہاں ہمارے پرنسپل
فیض احمد فیضؔ صاحب تھے۔ فیض صاحب کو بطور اپنے پرنسپل کے خاکے میں متعارف
کرایا ہے ۔یہ خاکہ میری اِسی کتاب میں شامل ہے۔ دھیمے لہجے کے ساتھ ساتھ
دھیمہ پن ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ یہاں میرے اساتذہ میں
پروفیسر یونس صدیقی ، پروفیسراحمد حسین، پروفیسر بشارت کریم ، پروفیسر ریاض
الحسن قدوائی، پروفیسرشفیق رحمانی اور عبد الرشید راجا صاحب تھے۔ ۱۹۷۴ء میں
جب میرا تبادلہ اسی کالج میں ہو ا تو یہ تمام اساتذہ میرے ساتھی ہوئے،طویل
عرصہ ہم ایک ساتھ رہے۔اساتذہ اور بھی تھے ، یہ داستان طویل ہے کسی اور موقع
کے لیے اٹھا رکھی ہے۔
گریجویشن کے بعد اکنامکس میں ماسٹر کرنے جامعہ کراچی کی دہلیز پر قدم رکھا
،معلومات حاصل کرنے کے چکر میں ہم پہنچ گئے اپنے چچا کے شعبے میں، انھوں نے
سبز باغ دکھایا اپنے سبجیکٹ کا ،ہم سیدھے سادھے تو تھے ہی آگئے ان کے چکر
میں اور اکنامکس کے بجائے لائبریری سائنس کے شعبے میں داخل کرلیے گئے۔ ثابت
قدمی اور مستقل مزاجی تو دیکھیے وہ دن اور آج کا دن اسی پروفیشن کے ہوکر رہ
گئے۔ شادی ہوئی، تین بچے بھی ہوگئے پر ہم نے اپنی پڑھنے کی ڈگر نہ بدلی،
شادی کے۱۰ سال بعد ایک ایم اے علمِ سیاسیات میں اور کر ڈالا،ہماراخیال تھا
کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اگرعملی سیاست میں حصہ لینے کی ضرورت ہوئی تو سیاست کے
یہ رموز کام آئیں گے لیکن نوبت ہی نہیں آئی، سیاست دانوں کے رنگ ڈھنگ دیکھ
کر صبح و شام کانوں کو ہاتھ لگا تے ہیں،اب تو سیاست نام ہے ایک دوسرے پر
کیچڑ اچھالنے کا،
پیسے بنانے کا، کرپشن کرنے کا اور جان سے مار ڈالنے کا، ٹی وی پر جو روز
سیاسی دنگل سجا ہوتاہے وہی کافی ہے عبرت والوں کے لیے۔
پڑھائی کا بھوت بدستو رہمارے سر پر سوار رہا، کہتے ہیں چور چوری سے جائے
ہیرا پھیری سے نہ جائے،ہم مسلسل اس چکر میں رہے کہ کسی طرح پی ایچ ڈی کرنے
کا موقع مل جائے، نہ معلوم کیوں جیسے جیسے ہمارے مضامین اور کتابیں منظر
عام پر آرہی تھیں پی ایچ ڈی کرنے کی ہوس بڑھتی ہی جارہی تھی، یہاں آکر
دوستوں نے ہری جھنڈی دکھا دی، وہ دوست جواس پوزیشن میں تھے کہ ہمارا ہاتھ
تھام لیتے ، تیرنا تو ہم نے خود ہی تھا، بس ڈوبتے کو تنکے کے سہارے والی
بات تھی ، انہوں نے ایسی کنی کاٹی کے خود تو تیر کر ساحل پر جالگے، ہم رہ
گئے وہیں پرکھڑے کے کھڑے، پرہمارے باطن میں جو دیا روشن ہوا تھا اس کی
روشنی ماند نہیں پڑی،ہم نے بھی ہمت نہیں ہاری، ایک جانب عمر کے ماہ و سال
ہمیں تیزی سے بڑھاپے کی جانب رواں دواں کیے ہوئے تھے دوسری طرف خواہش تھی
کہ اس میں ذرہ برابر کمی نہیں آرہی تھی بلکہ روزبہ روز جوان ہی ہورہی تھی،
با لآخِر ۲۰۰۶ء نے دستک دی، میرا ہمدرد یونیورسٹی میں جانا ہواہی کرتا
تھا،بیت الحکمہ(ہمدرد لائبریری) کے ڈائریکٹرپروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری
جوہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیزاینڈ ریسرچ کے ڈائریکٹر اور جامعہ
ہمدرد کے ’لائف پروفیسر‘ بھی تھے،میری ان سے مراسم کی نوعیت قدیمی تھی، عمر
کے فرق کے باوجود دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دن ان سے تحقیق پر گفتگو ہوئی ،
میَں نے ایک موضوع کا اظہار کیا کہ اس موضوع پر کام کیا جاسکتا ہے،ساتھ ہی
یہ بھی کہا کہ پی ایچ ڈی سے نیچے بات نہیں ہوگی یعنی ایم فل نہیں کروں گا،
انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور مجھے اس موضوع پر synopsisتیار کرنے کو
کہا، میَں تو تیار ہی بیٹھا تھا اور ٹاپک بھی اپنی پسند کا، پھر کیا تھا،
رات دن لگا کرایک خاکہ تیار کیا اوران کے پاس لے گیا۔ انہوں نے معمولی سی
کانٹ چھانٹ کی اور پی ایچ ڈی کا پہلا پتھر رکھ دیا گیا، داخلے سے پہلے ہی
کام بھی شروع ہوگیا، جب بھاری بھر کم سپر وائیز رہنمائی کے لیے تیارہو تو
پھر کیا چاہیے تھا، ہم نے کام شروع کردیا۔
موضوع کے انتخاب کی داستان کچھ اس طرح ہے کہ مجھے زندگی میں ایک شخص نے بہت
زیادہ متا ثر کیا جو خون کے آخری قطرہ تک محب وطن تھا ،وہ جب تک جیازندگی
کو سعی پیہم اور جہد مسلسل سمجھ کر جیا ، اس مرد آہنگ کو آپ سب جانتے
پہچانتے ہیں،وہ ہے شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید۔میَں نے انھیں قریب سے
دیکھا ، کتب خانوں کے فروغ و تر قی کے لیے انہوں نے ۱۹۶۰ء میں ایک انجمن
’’انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات‘‘(SPIL,Society for the Promotion &
Development of Libraries)بنائی تھی جس کے وہ تادم شہادت صدر رہے، جب ان کی
شہادت ہوئی وہ اس کے صدر اورمیَں اس کا جوائنٹ سیکریٹری تھا۔ تحقیق کے لیے
جو موضوع منتخب کیا گیا تھا وہ حکیم محمد سعید کی کتب خانوی خدمات سے متعلق
تھا، مقالے کا عنوان’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی
ترقی میں شہید حکیم محمد سعید کاکردار‘‘تھا۔ تحقیق کا بنیادی مقصد پاکستان
میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں شہید حکیم محمد سعید
اور انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات ، اسپل کے کردار اور کارناموں کاجائزہ
لینا تھا۔پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری میرے تھیسس سپر وائیزر اور ڈاکٹر
غنی الا کرم سبزواری معاون سپر وائیزر مقرر ہوئے ۔جون ۲۰۰۶ء میں کام شروع
کر دیا گیا، میَں نے فیصلہ کیا کہ دو سال میں کام مکمل کر لونگا، یہی ہوا،
میَں رات رات بھر کام میں لگا رہتا،مجھے مواد کے حصول میں مشکل پیش نہیں
آئی، میری ذاتی لائبریری میں اس موضوع پر وافر مواد موجود تھا، دوستوں نے
بھی بھر پور تعاون کیا، حکیم محمد سعید کے قریبی ساتھیوں، ہمدر لائبریری
میں کام کرنے والوں اورلائبریری سائنس کے ماہرین کے انٹر ویوز میری تحقیق
کا اہم حصہ تھا، کراچی کے علاوہ میں کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد، حیدر آباد
بھی گیا اور احباب کے انٹر ویوز کیے۔ دو سال بعد تھیسس تو مکمل ہوگیا لیکن
جاتے جاتے مجھے ایک ایسا تحفہ دے گیا جو میری باقی ماندہ زندگی میں میرے
ساتھ رہے گا وہ ہے میرے کمر کے مہروں کی تکلیف ، مسلسل اور زیادہ کمپیوٹر
پر کام کرنے کے نتیجے میں میَں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا مریض بن چکا تھا
،کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی، پی ایچ ڈی میں دو مراحل ہوتے ہیں ایک تو کام
جسے محقق کو ہی کرنا ہوتا ہے دوسرا مرحلہ جو بد قسمتی سے پاکستان کی جامعات
میں زیادہ اہم ہے وہ ہے انتظامی مراحل کی پیچیدگیاں اور مشکلات۔ ہمارے ملک
کی جامعہ سرکاری ہویا پرائیویٹ حال سب کا ایک جیسا ہے،اس کی وجہ غالباً یہ
ہے کہ پرائیویٹ جامعات میں پروفیسران اور دیگر عملہ زیادہ تر سرکاری جامعات
سے جان چھڑا کر یہاں آتا ہے۔جامعہ ہمدرد کا بھی یہی حال ہے۔جامعہ ہمدرد کے
’بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ‘(Board of Advanced Studies &
Research ,BASR) نے مجھے ایم فل سے پی ایچ ڈی میں منتقلی کی حتمی منظوری
دینا تھی، بورڈکے بعض کرم فرما پروفیسرحضرات زبیری صاحب سے زیادہ ہی محبت
کیا کرتے تھے، وہ بورڈ کی میٹنگ میں کوئی نہ کوئی نکتہٗ اعتراض کھڑا کر دیا
کرتے، جس کے باعث ایم فل سے پی ایچ ڈی میں منتقلی کا معاملہ التوا کا شکار
ہوتا رہا، زبیری صاحب مسلسل کوشش کرتے رہے، اپنے سپر وائزر کی ہدایت پر
میَں نے تھیسس بھی جمع کرادیا، مہربان حضرات اپنی روش پر ڈٹے رہے، اسی
کشمکش میں ایک سال گزر گیا،با لآخِر فتح حق کی ہوئی، بقول میری ایک کلاس
فیلو عذرا قریشی ’’محنت رنگ لاتی ہے‘‘ ، سو میری محنت رنگ لائی، مہربانوں
کو اﷲ نے ہد ایت دی، بورڈنے ایم فل سے پی ایچ ڈی میں منتقلی کی منظوری دے
دی، تھیسس کی کاپیاں انڈیا بھیجی گئیں، رپورٹس مثبت تھیں، وائیوا ہوا، ،
اپریل ۲۰۰۹ء میں نوٹیفیکشن جاری ہوا کہ ہمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ کر
دی گئی، مارچ ۲۰۰۹ء میں میَں ریٹائر ہو گیا ، اس طرح مجھے دونوں اعزاز ساتھ
ساتھ حاصل ہوئے۔تجربہ ہوا کہ انسان اگر کچھ حاصل کرنے کی ٹھان لے بہ شرطِ
کہ مقصد نیک ہو، اﷲ پرمکمل بھروسا، صدق دل سے محنت کرے تو کامیابی قدم چوما
کرتی ہے۔
لباس انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ میَں نے کالج میں ملازمت کے
دوران کبھی شلوار قمیض نہیں پہنی، ہمیشہ پینٹ شرٹ، سوٹ یا سفاری سوٹ
پہناکرتا، یہ نہیں کہ شلوار قمیض میں کوئی برائی ہے بس یہ میرا مزاج
تھا،میرے گھر کا لباس کرتا شلوار ہی ہے، پینٹ شرٹ کے نیچے چپل پہنے ہوئے
لوگ اچھے نہیں لگتے، کھانے میں ہرشے کھالیتا ہوں، لیکن چاول اور کالی مسور
کی دال جسے کھڑی مسور کی دال بھی کہا جاتا ہے ،ہری مرچ اور پودینے کی چٹنی،
اچار اور سلاد کے ساتھ پسندیدہ ڈش ہے، سبزیوں میں بینگن سخت نا پسند ہیں،
پھلوں میں کینو پسندیدہ ہیں، مٹھائی میں کچھ بھی پسند نہیں، بس جو سامنے
آجائے چکھ لیتا ہوں، کھانے کے دوران چپَ چپَ کی آواز نکالنے والوں کا گلا
کاٹنے کو جی چاہتا ہے، چائے پیتا ہو ا وہ شخص بھی اچھا نہیں لگتا جو سڑپ
سڑپ کر کے چائے پیے،کھانا کھانے کے دوران اس بات کا خیال نہ رکھنے والے کہ
ان کے منہ کے اطراف خصو صاً داڑھی یا مونچھوں پر کچھ لگ گیا ہے،ایسے لوگ
سامنے والے کا کھانا بد مزہ کردیتے ہیں ۔بچپن میں ہم نے ایک اصطلاح ایجاد
کی تھی وہ یہ کہ جب ہم سب مل کر کھانا کھارہے ہوتے اور کسی کے منہ پر کچھ
لگ جاتا تو اس وقت کہا جاتا ’شاخ پے اُلو‘، یہ جملہ سن کر ہر شخص اپنا اپنا
منہ صاف کرنے لگ جاتا۔جس کسی کے منہ پر کچھ لگاہوتا وہ خود بہ خود صاف ہو
جاتا، اس طرح بات بھی بن جاتی کسی کو برا بھی نہیں لگتا تھا۔مسجد میں
باجماعت نماز کے دوران بعض نمازی حضرات قیام ، رکوع و سجود میں دل ہی دل
میں پڑھنے کی بجائے اتنی بلند آواز سے پڑھتے ہیں کہ ان کے دائیں اور بائیں
موجود نمازی مشکل میں آجاتے ہیں، ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ صاف سمجھ
میں بھی نہیں آتے صرف ان کے منہ سے ہوا کے ساتھ پھُس پھُس سنائی دیتا
ہے،اسلام میں تو پڑوسیوں کے بہت حقوق ہیں، ہمارے مولوی صاحبان کو ایسی
چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی نشان دہی کرنی چاہیے۔ ایسے نمازیوں سے صرف یہی
کہا جا سکتا ہے’شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات‘۔
کسی کی دل آزاری مجھے منظور نہیں ،کوشش ہوتی ہے کہ میرے عمل سے کسی کو
تکلیف نہ پہنچے۔بر داشت اور درگزر کا مادہ مجھ میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے،
میں اپنی زندگی میں ا پنوں اور غیروں کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ،
کڑوی کسیلی حتیٰ کہ تیر و نشتر اپنے اندر خاموشی سے محفوظ رکھتا رہا
ہوں،مجھے اپنی حیثیت و مقام کا ہمیشہ احساس رہایہی وجہ ہے کہ میَں ساری
زندگی زبان بندکیے رہا، اپنے لبوں کو سیے اور منہ کو تالا لگائے رہا، میرے
صبر کو بارہا آزمایا گیا،میری خاموشی کو توڑنے کے لیے ہزار حربے استعمال
کیے گئے، پر میَں نے چپ کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا، اس کا نقصان بھی ہوا
لیکن فوائد زیادہ حاصل ہوئے، معدہ خراب نہیں ہوا، بد ہضمی نہیں ہوئی، جگر،
گردے، پھیپڑے سب کچھ ہی
ٹھیک رہابس ایک دل نے آخر میں آکر گڑ بڑ کردی۔
قدرتی حسن اور نزاکت کا قدر دان ہوں، میک اپ زدہ کو دیکھ کر دل خراب ہونے
لگتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ موٹاپے سے اﷲ بچائے۔ خواتین پردے میں بھلی لگتی
ہیں،سعودی عرب میں خواتین کو عبایاپہننا لازمی ہے ، وہ اس میں اچھی بھی
لگتی ہیں۔ زیادہ آزادی خرابی کا با عث ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں بہت سی
برائیاں اسی وجہ سے ہیں۔ شہروں میں اپنے کراچی کی کیا بات ہے، کبھی یہ
روشنیوں کا شہر ہواکرتا تھا، اب تو سیاست نے اس شہر کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ
دیا ہے، لاہور بھی کم اچھا نہیں، اب تو مجھے سرگودھا بھی اچھا لگنے لگا
ہے۔اسلام آباد میں مصنوعیت اور دکھاوانمایاں ہے۔ پاکستان سے باہر سعودی عرب
کی کیا بات ہے، مکہ دل کا سکون ہے تومدینہ راحتِ جان ، جی چاہتا ہے کہ دن
مکّہ میں گزرے تو رات مدینے میں وہ بھی روضہ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کے سا
منے یہ سب نصیب کی بات ہے جسے چاہا در پہ بلا لیا ، جسے جاہا اپنا بنا لیا،
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے ، یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
بات سعودی عرب کی چلی تو جناب میَں۲۹ مئی ۲۰۱۱ء کو سعودی عرب پہنچا اورپانچ
ماہ(جون تااکتوبر۲۰۱۱ء) یہاں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی،خانہ کعبہ کو پہلی
بار اپنی آنکھوں سے دیکھاکعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر کو کبھی بھلایا نہیں
جاسکتا، کس قدر حسین منظر تھا،کیا خوبصورتی تھی، نور ہی نور، میَں اس کے
بعد بے شمار مرتبہ خانہ کعبہ گیا، بہت بہت دیر سامنے رہا ، کئی فرض نمازیں
اس طرح ادا کیں کہ میرے اور خانہ کعبہ کے بیچ کچھ نہیں ہوتا تھا اور فاصلہ
مشکل سے دو گز، یعنی اول صف میں، کعبہ شریف کو بالکل قریب سے دیکھا،
چھوا،چمٹا،لپٹا،التجائیں کیں، حرم کی چوکھٹ کو پکٹر کر روتا رہا ،گِریَہ و
زاری کرتا رہا، اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا رہا،حرم کی چوکھٹ کے
بالکل نیچے کھڑے ہوکر مسلسل آنکھیں ٹھنڈی کرنے کی سعادت نصیب ہوئی،
حجرِاسود کے کئی بوسے لینے کی سعادت ملی، لیکن پہلی نظر کا منظر بھلائے
نہیں بھولتا، جب بھی کعبہ شریف کا خیال آتا ہے وہی پہلی نظر کا منظر نظروں
کے سامنے گھوم جاتا ہے، رہی بات مانگنے اور دعا کی، تو اپنی اس کیفیت کو
اشعار میں
میَں نے اس طرح بیان کیا ہے
مانگنے تو بہت کچھ گیا تھا ، پر ہوا عجب حال
تھے اشک جاری ، اندر تھا ایک تلاطم بر پا
سوچتا ہی رہا کروں پیش اپنی سیاہ کاریاں
نہ دل نے دیا ساتھ نہ زباں پہ ہی کچھ آسکا
میرے محترم بزرگ دوست جمیل نقوی مرحوم کے یہ اشعار بھی میری اس کیفیت کی
صحیح تر
جمانی کرتے ہیں، میں نے جمیل نقوی صاحب کا خاکہ بھی لکھا تھا جو میری کتاب
’یادوں کی مالا ‘ میں شامل ہے
کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
یوں ہوش و خرد مفلوج ہوئے دل ذوق تماشا بھو ل گیا
پہنچا جو حرم کی چوکھٹ تک اِک ابر کرم نے گھیر لیا
باقی نہ رہا یہ ہوش مجھے، کیا مانگ لیا کیا بھول گیا
یہ بات حقیقت ہے کہ خانہ کعبہ پر جب پہلی نظر پڑتی ہے تو انسان کے ہوش و
خرد مفلوج ہوجاتے ہیں، اول تو یہ یقین ہی نہیں آتا کہ ہم جیسا گناہ
گاراوریہ سعادت، صرف اور صرف آنکھوں سے ندامت اور توبہ کے آنسو رواں ہوتے
ہیں۔اﷲ ہماری توبہ قبول کرنے والا ہے،
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
مجھ سے گناہ گار پر یہ بارش ِکرم
منہ دیکھتا ہوں ، رحمت ِپروردگار کا
میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ جو الحمد اﷲ صاحب دیوان شاعر تھے۔آپ کو
نعتیہ کلام بہ عنوان ثناء محبوب خالق: دیوان آزاد پہلی بار ۱۹۲۳ء میں آگرہ
سے شائع ہوا، اس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۵ء میں کراچی سے شائع ہو چکا ہے۔ آپ جب
روضہ اقدس پر حاضر ہوئے تو اپنی
دلی کیفیت کو نظم میں بیان کیا اس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں
شکرِ خدا غلام ہے آقا کے سامنے
پہنچا دیا ہے پیاس نے دریا کے سامنے
کیا دیکھتی ہیں آنکھیں میں قرباں اے خدا
جانم فدا ہے کیا دلِ شیدا کے سامنے
دل سے زباں یہ کہتی ہے تو خود ہی عرض کر
میری مجال کیا ترے مولا کے سامنے
میَں نے پہلا عمرہ اپنی شریکِ حیات شہناز، بیٹے عدیل اور نبیل، اپنی چھوٹی
بہو ثمرا نبیل کے ہمرہ جمعہ ۳ جون۲۰۱۱ء یکم رجب ۱۳۳۲ھ کوکیا، میری
انجوپلاسٹی کو ابھی ڈیڑھ ماہ ہی ہوا تھا ، مجھ میں اتنی طاقت اور حوصلہ
نہیں تھا کہ طواف کے سات پھیرے اور صفا و مروا کے ساتھ چکراز خود چل
کرکرسکتا ،ان دنوں حرم شریف میں رش بھی زیادہ تھا، چنانچہ وہیل چیٔر لے لی
گئی ، خانہ کعبہ کے سات طواف عدیل نے وہیل چیٔر چلائی اور صفا و مروا کے
درمیان سات پھیروں میں چھوٹے بیٹے نبیل نے مجھے کھینچا، دونوں بیٹوں کو
اپنے عمرہ کا ثواب تو ملا ہی، ساتھ ہی میری ویل چیٔرچلانے کا ثواب بھی حاصل
ہوا ہوگا۔ اس دوران میَں دیگر دعاؤں کے ساتھ یہ بھی دعا کرتا رہا کہ
پروردگار جب تو نے مجھے یہ سعادت عطا کی کہ اپنے گھر بلالیا تو مجھے یہ بھی
توفیق عطا فرما کہ آئندہ میں خود چل کر یہ سعادت حاصل کرسکوں، اﷲ نے میری
یہ دعا قبول فرمائی اور میَں نے بعد میں کئی عمرے اور متعدد طواف خود چل کر
کیے۔ زیادہ قیام جدہ میں بڑے بیٹے عدیل کے پاس تھا، شروع میں تو عدیل اپنے
ساتھ حرم شریف لے جاتا رہا لیکن پھر ہم دونوں نے سوچا کہ ہمیں از خود ہی
ہمت کرنی چاہیے اور ایسا ہی ہوا، دونوں میاں بیوی جدہ سے مکہ جانے لگے،
کعبہ شریف کے خوب خوب پھیرے لیے، مقام ملتزم، مقامِ ابراہیم ،میزابِ رحمت
پر دعائیں کیں،حَطِیم میں نمازیں ادا کیں، صفا و مروہ کے چکر کیے ، حجر
اسود کے خوب خوب بوسے نصیب ہوئے، آب زم زم جتنا پی سکتے تھے پیا۔ کعبہ شریف
کی قربت کا خوب خوب موقع ملا ، حسرت پوری کی، انسان اور اﷲ کا معاملہ ایسا
ہے کہ دل ہی نہیں بھر تا،ہم طواف کرکے گھر پہنچتے اور آئندہ جانے کی باتیں
شروع کردیا کرتے ۔
مدینے میں بھی حاضری ہوئی،مدینے کی ٹھنڈک کا کیا کہنا، سعادت اور نصیب کی
بات ہے۔اپنی اس کیفیت کو میَں نے اس طرح بیان کیا ہے
کچھ ایسی تصویر بس گئی ہے دل میں کعبہ شریف کی
آنکھوں میں ہر دم رہتی ہے تصویر کعبہ شریف کی
پیاس بجھی ہے ، نہ بجھے گی یہ تو ہے مجھے معلوم
پھر بھی اک چاہت سی لگی رہتی ہے کعبہ شریف کی
ایک باراور جاؤں ، پھرجاؤں اور جاکرواپس نہ آؤں
بس یہی اک تدبیر سی لگی رہتی ہے کعبہ شریف کی
حر م کے میدان میں باب الفتح کے سامنے، باہر کی جانب ،پہاڑ کے دامن میں
قائم اپنے پیارے نبی کی پیدائش گاہ ( مَو لِدُ النبِی) صلی اﷲ علیہ و سلم
کو دیکھا، اس گھر کی تعمیر نو کر کے یہاں اب ایک عوامی کتب خانہ (مکتبہ مکہ
المکرمہ)قائم کردیا گیا ہے۔ یہ جگہ مولدِ نبی کے نام سے ہی جانی جاتی ہے،’
الکردی خاندان‘ کے ’ماجد کرد‘ سے ’’مجیدیہ لائبریری‘‘ جو ان کی ذاتی
لائبریری تھی خریدی گئی، یہ لائبریری نایاب اور قیمتی کتب پر مشتمل ہے۔
کتابیں سلیقے سے دیدہ زیب الماریوں میں ترتیب وار رکھی ہیں۔ کتب خانے کے
مدیرکا کمرہ(آفس) وہی جگہ ہے جہاں پرہمارے نبی حضرت محمدصلی اﷲ علیہ و سلم
کی دنیا میں آمد ہوئی، یہ بات مجھے مدیر مکتبہ (لائبریرین) یَسلم بن
عبدالواحد بن یَسلم بَاصَفَارنے ہی بتائی، الحمد اﷲ مجھے اس کمرے میں
بیٹھنے اور کچھ وقت گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی ، یسلم صاحب سے جب میَں نے
اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے مجھے خصوصی توجہ دی، اپنے آفس میں لے گئے،
قہوا پلایا، کتب خانے میں موجود قدیم اور نادر کتب کے بارے میں بھی معلومات
فراہم کیں۔ یَسلم بن عبدالواحد بن یَسلم بَاصَفَار اہل بیت میں سے ہیں،
جامع مسجدامام البخاری کے امام وخطیب بھی ہیں ۔ جدہ میں ا ماں حوا کے مقبرہ
پر بھی حاضری کا موقع ملا، قدیم قبرستان کو مقبرہ حوا کا نام دیا گیا ہے اس
میں اور بھی بے شمار قبریں ہیں، قبروں پر نمبر بھی ڈلے ہوئے ہیں لیکن اماں
حوا کی قبر کا کوئی مخصوص نشان نہیں، نہ ہی یہاں کے ملازمین کے علم میں ہے
کہ اماں حوا کی قبر کون سی ہے۔سعودی عرب میں قبروں کے نشانات کہیں بھی
نہیں، جنت المعلیٰ، جنت البقیع اور دیگر قبرستانوں میں کسی بھی قبر پر کوئی
نشان نہیں ملتا ۔
میری بیٹی فاہینہ، عاصم مشکور ، نواسی نیہا اور نواسے ارحم بھی سعودی عرب
آئے انہوں نے بھی ۱۷ جون کو عمرہ کی سعادت حاصل کی، میرا پوتا صائم اور بڑے
بہو مہوش عدیل ایک ماہ قبل ہی سعودی عرب سے واپس کراچی آ گئے تھے، انہوں نے
بھی عمرہ کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ الحمد اﷲ میَں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں
کہ میری شریک حیات، بیٹے،بہوؤیں، پوتا صائم ، نواسی نیہا اور نواسہ ارحم
عمرہ کی سعادت حاصل کرچکے ہیں، یہ میری خواہش بھی تھی جو الحمد اﷲ پوری
ہوئی، اپنے پروردگار کا جس قدر شکر ادا کروں کم ہے۔
سعودی عرب میں قیام کے دوران مجھے شہر اور دیہات دونوں طرح کے ماحول کو
نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مکّے و مدینے کے علاوہ میرا قیام مستقل طو ر
پر جدہ میں رہا، یہاں جدید شہری سہو لتیں میسر ہیں۔ ترقی کا سفر جاری و
ساری نظر آتاہے،کشادہ صاف ستھری شاہراہیں، میلوں لمبے پل، ہر طرف سبزہ ہی
سبزہ، بڑے بڑے مال(شاپنگ سینٹر)، جدید یت کا منہ بولتا ثبوت۔لوگوں میں
شہنشاہوں اور نوابوں والی صفات نمایاں ، سعودیوں کو کریز(Crease) فوبیہ بھی
ہے، صاف ستھرا تُوپ (جُبہ) ، عام طور پر سفید وہ بھی بہترین کپڑے کا استری
شدہ جس پر کریز نمایاں ، مجال ہے کہ کسی جگہ کوئی نشان نظر آجائے یا اس میں
سلوٹیں پڑی ہوئی ہوں، سر پر بڑا مخصوص صاف ستھرا کریز شدہ رومال
(غنترہ؍شماغ) رومال کے درمیان والی کریز ان کے سر سے ناک کی جانب کھڑی ہوئی
ہوتی ہے اور وہ بار بار اس کریز کو اپنی ناک کی سیدھ میں کرتے رہتے ہیں سر
پر کالا گول رِنگ‘(خاطم)،خوشبو میں بسے ہوئے ، ہاتھ میں تسبیح، منہ میں
مسواک، ٹیکسی چلانے والے سے لے کر بادشاہ وقت تک اسی وضع قطع میں رہتے ہیں،
خواتین عبایا پہنے نظر آتی ہیں ، منہ بھی ڈھکا ہوا، شادیوں کے شوقین ہیں،
نماز کے پابند، ہر گلی محلے میں اذان کے فوری بعد بڑی تعداد میں سعودی مسجد
کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ نماز کے اوقات میں کاروبار زندگی خواہ وہ کچھ بھی
ہو بند ہو جاتا ہے۔ ان کی مسجدیں صرف اور صرف عبادت گاہیں ہیں، جمعہ کے
خطبہ میں سیاست پر کوئی بات نہیں ہوتی، مسجدوں میں قرآن کریم کپڑے کے
جذدانوں میں لپٹے ہوئے نہیں ہوتے، بلکہ عام کتابوں کی طرح اوپر اور نیچے
شیلفوں میں سلیقے سے رکھے ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے مکے میں حرم شریف
اور مدینے میں مسجد نبوی میں رکھے ہوئے ہیں۔ اکثر سعودیوں کو نماز سے پہلے
یا بعد میں قرآن کریم پڑھنے کی عادت ہے ، چاہے ایک صفحہ ہی کیوں نہ پڑھیں ۔
خلوص سے ملتے ہیں، باہم مصافحہ کرتے ہیں،ارضِ مقدس میں معانقہ اور تقبیل کی
روایت پائی جاتی ہے، اَلسلامُ علیکم کے بعد مصافحہ کرتے ہیں ، بغل گیر ہوتے
ہیں اور ایک دوسرے کی پیشانی یا سر پر تین بوسے لیتے ہیں۔ اﷲ کی خصو صی نظر
کرم اس سرزمین پر، یہاں کے مکینوں پر ۔ کبھی یہاں سواری کے لیے اونٹ اور
دیگر جانور ہوا کرتے تھے آج دنیا کی قیمتی ترین گاڑیاں سڑکوں پردندنا تی،
لشکارے مارتی نظر آتی ہے۔ ہر گھر مکمل ائرکنڈیشن، لو ڈ شیڈ نگ کیا ہوتی ہے
یہاں کے لوگ اس سے لاعلم ہیں،پٹرول سستا البتہ پانی مہنگا ہے۔ملاوٹ، دھوکہ
دہی ،چوربازاری،مال کا دو نمبر ہونا ، ان سب باتوں کا یہاں تصور ہی نہیں،
صفائی نصف ایمان ہے اس کااندازہ یہاں آکر ہوا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رشوت
نہیں لی جاتی، جدہ شہر میں غیر سعودی ٹیکسی ڈرائیور نظر آتے ہیں، جدہ سے
مکہ اور مکہ سے مدینہ صرف سعودی ٹیکسی ڈرائیور ہی جا سکتا ہے، عام طور پر
جمعرات ، جمعہ، رمضان اور حج کے ایام میں یہ سعودی ٹیکسی ڈرائیور مکہ اور
مدینہ جانے والے زائیرین سے خوب خوب رقم وصول کرتے ہیں، یہی صورت حال ایئر
پورٹ سے شہر میں جانے کی بھی ہے۔ یہاں بھی غیر سعودی ٹیکسی ڈرائیور سواری
ایئر پورٹ لے جا سکتا ہے لیکن ایئر پورٹ سے اندرون شہر مسافروں کوصرف سعودی
ٹیکسی ڈرائیور ہی لے جاسکتے ہیں اور وہ مسافروں کی خوب کھال اتار تے
ہیں۔جدہ میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور خاصی تعداد میں نظر آئے، بقالوں (جنرل
اسٹور) ، اسپتالوں میں پیرا میڈیکل اسٹاف بنگلہ دیشی اور ہندوستان کے شہر
کیرا لا کے لوگ (ملباری) زیادہ تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔پاکستانی
ڈاکٹر وں کی بڑی تعداد سعودی اسپتالوں میں کام کررہی ہے۔
پہاڑی آبادی کی صورت حال قدرِ مختلف ہے،مجھے سعودی عرب کے صوبے جذان جسے
وادی جذان بھی کہا جاتا ہے کے ایک پہاڑی علاقہ فیفاء میں رہنے کا موقع ملا،
اسے جبال (پہاڑ) فیفاء (Jibal Fayfa) بھی کہا جاتا ہے ، یمن کے نزدیک ہونے
کی وجہ سے یہاں یمنی رسم و رواج کا غلبہ نظر آتا ہے۔ جذان سے صبیاء،
العیدابی، عیان، الدائر ،پھر پہاڑوں کے درمیان اوپر کی جانب سفر کرتے ہوئے
فیفاء پہنچتے ہیں۔راستے سنسان ، دور دور تک نہ آدم نہ آدم زاد ، میدان ،
پہاڑ ہی پہاڑ، لیکن مجال ہے کہ کسی بھی قسم کا ڈر یا خوف محسوس ہوتا ہو۔
جذان میں جزیرہ فراسان (Farasan Island)بھی ہے،یہ بحر الا حمر (Red Sea)میں
ہے۔ جذان یونیورسٹی حال ہی میں قائم ہوئی ہے جو ہر اعتبار سے مثالی ہے۔
جذان میڈیکل کالج ،جذان میوزیم اور مکتبہ جذان العامہ(Jazan General
Library)بھی قائم ہے۔جذان ائیرپورٹ پر جذان کی ثقافت کی خوبصورتی سے تشہیر
کی گئی ہے۔اسے دیکھ کر پنجاب کی ثقافت نظروں میں آجاتی ہے۔
فیفاء میں میرا چھوٹا بیٹا نبیل فیفاء جنرل اسپتا ل میں ڈاکٹر ہے، محسوس
ہوتا تھا کہ پاکستان کے علاقے مری، ایوبیہ، نتھیا گلی، بارہ گلی میں آگئے
ہیں، اسپتال بھی پہاڑ کی چوٹی پر ، اس کا گھر بھی پہاڑ کی چوٹی پر، ہم گھر
سے باہر نکلتے یا ٹیکسی سے اتر کر گھر میں جاتے تو ہماری چال اے آر
وائی(ARY) کے ڈرامے ’’بلبلے ‘‘ والی’ مومو‘ کی طرح ہوا کرتی تھی، پہاڑی
علاقوں کا موسم عام طورپر سر د ہی ہو ا کرتا ہے، فیفاء کا موسم بھی سرد،
خوش گوار اور صحت افزا تھا،بارش کا ہونا معمول تھا، اکثر بارش کے ساتھ
اُولے بھی گرا کرتے، یہاں ائیر کنڈیشن کی ضرورت نہیں ہوتی، اسے میَں نے
دیہات لکھا ہے، اس کی وجہ یہ کہ یہاں کے مکینوں کی اکثریت وہ لوگ ہیں جن کا
لباس سعودیوں سے مختلف ہے، ہمارے دیہاتیوں کی طرح یہ دھوتی(فوطہ) پہنتے
ہیں، وہ بھی رنگ برنگی، آدھی پنڈلیاں کھلی ہوئی ،اوپر قمیض اس پرکوٹ، دونوں
بے رنگے اور بے ڈھنگے ، دھوتی کو کمر پر خوب اڑسا ہوا کہ یہاں موٹی تہہ بن
جاتی ہے،کمر پر ایک چوڑی بیلٹ بندھی ہوتی ہے، عام طور پر عمرہ یا حج کے
دوران جو بیلٹ استعمال ہوتی ہے یہ اُسی طرح کی بیلٹ (عصال )ہوتی ہے، اس
بیلٹ کے بالکل سامنے ناف پر ایک خنجر یا چاقو(سکِن) جس کا دستہ اوپر کی
جانب واضح نظر آرہا ہوتا ہے لگائے رکھتے ہیں، سر پر ٹوپی کے بجائے رسی لپٹی
ہوئی ہوتی ہے، اس میں درخت کی چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں جس میں پتے اورپھول لگے
ہوتے ہیں لگائے رکھتے ہیں۔یہ لباس بوڑھے اور جوان دونوں کا ہوتا ہے ۔ ’گات
‘ کھانا ان کا محبوب مشغلہ ہے ،یہ سارے ہی سعودی بڑے شوق اور اہتمام سے
کھاتے ہیں، گات پودینا یا ہرا دھینے یا پودینے کی طرح ٹہنی میں لگے پتے
ہوتے ہیں،گات، کھجور اور گہوہ(ایک طرح کا قہوا) چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں
پینا تمام سعودیوں کی روایت ہے۔گھروں، دفتروں، دکانوں میں لوبان کی طرح کسی
چیز کی دھونی دینابھی سعودی تہذیب کا حصہ ہے، اس مقصد کے لیے لوبان دان یا
بجلی کے لیمپ نما لوبان دان استعمال کیے جاتے ہیں۔خوشبو کے لیے لوبان کی
جگہ کوئی خاص لکڑی یا اس کا برادہ استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس کی خوشبو
لوبان کی طرح کی نہیں ہوتی ۔دیہات کی خواتین زیادہ پردے میں رہتی ہیں۔
سعودی اپنی زبان تک محدود ہیں، انگریزی کے بغیر ان کی تمام ضروریات احسن
طریقے سے پوری ہورہی ہیں۔
دوست بنا نے کا قائل ہوں، دوستی بگاڑنے کا قائل نہیں ، میَں نے زندگی میں
اپنے دوستوں کو ممکن حد تک کانچ کے گلاسوں کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھا ہے
، جس کسی سے تعلقِ دوستی قائم ہوگیا اس سے ناتاجوڑے رکھا، بے شمار دوستوں
کی ناپسند باتوں اور عادتوں کو محض اس وجہ سے درگزر کیاکہ تعلق دوستی جڑا
رہے۔دوستی کے بارے میں میرا فلسفہ یہ ہے کہ ’’دوستی قربانی چاہتی ہے‘‘۔
دوستوں کی کڑوی کسیلی باتیں ، کسی حد تک نا پسندیدہ باتوں کو اس وجہ سے
درگزر کیا جائے کہ دوستی کا بندھن قائم رہے۔ کچھ دوست اپنے مزاج میں
انتہائی کڑوے، کسیلے، بد مزاج بھی ہیں ان کی بدمزاجی اورتیزابیت کو برداشت
کیے رہا ، ان سے دوستی قائم ہے۔
بعض دوستوں سے دوستی کی نصف سنچری ہوچکی ہے، خیال ہے دوستی کی گولڈن جوبلی
تقریب کا اہتمام کروں،یہ وہ دوست ہیں جن سے۱۹۵۰ء کی دہائی میں تعلق دوستی
قائم ہوا اور آج تک مراسم دوستانہ ہیں، گویا ان کے ساتھ بچپن گزرا، جوانی
ایک ساتھ بسر ہوئی اور اب بڑھاپے کے شب و روز میں بھی ساتھ ہیں۔چند کا ذکر
ضروری سمجھتا ہوں ، ان میں ظفر احمد صدیقی ، احمد حسین،سید اختر حسین شاہ،
شکیل احمد صدیقی عرف پیارے، سید محمد سبطین رضوی ،قاضی محمد
ارشاد،ابرارحسین، یونس،سعید جعفری شامل ہیں،بعض سینئردوست بھی تھے جو عمر
میں توہم سے بڑے تھے لیکن ہم سب دوستی کے بندھن میں ایک ہی تھے۔سینئردوستوں
میں سید جمال احمد، سید ممتازعلی زیدی، سید حیدر رضاء،شیث صمدانی، انیس
فاروقی صاحب، مظہر الحق صاحب،چودھری محمد اشرف ،منظور احمد بٹ،زماں صاحب،
مغیث صمدانی، ظفر احمد صدیقی شامل ہیں، بعض ساتھی اب اس دنیا میں نہیں رہے
انھیں یاد کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے ان میں محمد وسیم نظامی، جوانی میں
موٹر سائیکل کے حادثے میں اﷲ کو پیارا ہو گیا، منظور احمد بٹ، فیاض صاحب،
اطہر مرزا، محمود احمد صدیقی، عارف احمدصدیقی، جلیس احمد صمدانی، سراج الحق
اورمحمد ربانی خان ،شامل ہیں، اﷲتعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔ان میں سے
اپنے دوست منظور احمد بٹ کا خاکہ لکھا تھا جو میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘
میں شامل ہے۔ ان سب دوستوں میں شکیل جسے اس کے گھر والے اور ہم بھی ’پیارے‘
کہتے تھے حا ل آں کہ وہ پیاراتھا نہیں ، انتہائی شریر، چُلبلا، راہ چلتے
ہوؤں کو بِتکا دینے والوں میں سے تھا، اس نے اپنی شرارتوں سے معمولی جھگڑے
ہی نہیں بلکہ تصادم کرائے کہ نوبت تھانے اور کچہری تک پہنچ گئی ،یہ با ت جب
کی ہے جب آتش جوان تھا ، اب واقعی یہ پیارا ہوچکا ہے۔احمد حسین خاموش اور
سنجیدہ رہتے ہوئے بات میں مزاح پیدا کرنے والوں میں سے تھا۔ اب وہ بھی
سنجیدہ ہوگیاہے، کالے رنگ پر سفید داڑھی بھلی لگتی ہے، ظفر سدا بہار ہے،
نانا دادا بن گیا پر دیکھنے میں وہی نوجوان ،چھوٹا سا۔سید جمال احمدفٹبا ل
کے بہترین کھلاڑی تھے، انھوں نے جوان رہنے کا رازکسی کو نہیں بتا یا، ممتاز
زیدی صاحب پیشے کے اعتبار سے استاد تھے، اب کسی رسالے سے منسلک ہیں،قلم کار
،قناعت پسند،برد بار، سنجیدہ اورمتین،زندگی لوگوں کی خدمت کرتے گزار دی،
شادی نہیں کی، لوگوں کی خدمت میں ہی مگن رہے جب ٹھان لی کہ شادی کرناہے تو
ایک نہیں لگا تار دو چھکے لگادیے ، سنجیدہ مزاق اچھا کرتے ہیں۔ ان کی باغ و
بہار شخصیت بے شمار خوبیوں سے مزین ہے۔ ان کی زندگی لگے بندھے انداز سے
نہیں گزری، نہ ہی یہ اکہرے اور سپاٹ لوگوں میں سے ہیں، ان کی زندگی کے بے
شمار پہلو ہیں اور خاکہ نگار کا موضوع بن سکتی ہے، زندگی نے وفا کی تو
انشاء اﷲ زیدی صاحب کا خاکہ قلم بند کرونگا۔سید اختر حسین شاہ کا تعلق
بنیادی طور پر کہروڑ پکہ سے تھا، یہ روزگار کی تلاش میں کراچی آنکلے، اس کے
دو بھائی بھی اس کے ہمراہ تھے، بے بہا خوبیوں کے مالک، پرائمری اسکول میں
ٹیچر رہے، پھر فزیکل ایجوکیشن میں ڈپلومہ کرلیا، اسٹیل مل کے اسکول میں
اسپورٹس ٹیچر ہوگے، انتہائی ہنس مکھ، ہر زبان پر عبور، ہم انھیں شاہ جی کہا
کرتے تھے، ان کے والد پیری مریدی سے تعلق رکھتے تھے، ایک بار میں میلسی گیا
تو واپسی پر کہر وڑ پکہ بھی چلا گیا، اس قدر میٹھی زبان اور پیار کرنے والے
لوگ ، کچھ عرصہ ہوا انھوں نے کراچی کو خیر باد کہا، اور وہاڑی میں سکونت
اختیار کی، ایک ہی بیٹا تھا وہ کسی بنک میں ملازم ہے ،شاہ صاحب نے داڑھی
رکھ لی ہے اور کسی مسجد میں امامت بھی کرتے ہیں۔اُن کی اس خصوصیت کا ہمیں
اندازہ نہیں تھا۔ابرار لندن میں اور سعید امریکہ میں ہیں۔ابرار سے فیس بک
پر رابطہ رہتا ہے، سعید نے اپنی دنیا الگ بسا لی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ہمارے گھر کے سامنے ’والی بال‘ کا میدان تھا، شام کے
اوقات میں والی بال کھیلا کرتے تھے، میں دیگر کے مقابلے میں چھوٹا تھا،
چنانچہ کسی ایک جانب نیٹ پر کھڑا کر دیا جاتا، تمام دوستوں میں ربانی خان
سب سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور تھے، قد کاٹھ میں بھی ماشاء اﷲلمبے چوڑے تھے
، وہ میرے سامنے والی ٹیم میں تھے اور سینٹر میں تھے، ایک بال پر انہوں نے
پوری شدت کے ساتھ شارٹ لگائی گیند اوپر جانے کے بجائے نیٹ کے نیچے سے ہوتی
ہوئی میرے سینے پر لگی، اس شارٹ میں اس قدر شدت تھی کہ میرا سانس بند
ہوگیا، منہ کھلا ہوا تھا، گرنے ہی والا تھا کہ لوگوں نے فوری زمین پر لٹا
دیا، ان میں کوئی عقلمند بھی تھا اس نے میرے دونوں پیر سائیکل کے پیڈل کی
طرح چلا نا شروع کیے، کسی نے میرے منہ میں اپنا منہ ڈال کر سانس اندر داخل
کیا، تب کہیں جاکر میرا سانس شروع ہوا۔ اسی طرح ہاکی کھیلتے ہوئے قاضی
ارشاد کی ہاکی میرے منہ پر لگی جس سے ہونٹ پھٹ گیا۔ ٹانکے لگنے کی نوبت
آگئی۔ تمام کھیلوں میں کر کٹ سب سے زیادہ کھیلی، ٹیم کی کپتانی بھی کی۔
ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن ،گلُی ڈنڈا، کنچے، چُھپن چھپائی، پٹھوگرم، چَررا،کیرم
،لیڈوالغرض کوئی کھیل ایسا نہیں جو نہ کھیلا ہو۔اسی لیے تو میِں نے اپنے آپ
کو کھلنڈرا کہا۔تاش کھیلنے کا شوق نہیں تھا پر کھیل لیا کرتے تھے۔ تاج
ویلفیئر سینٹر جس کا میَں نے اوپر ذکر کیا میں بلیک کوئن کا ٹورنامنٹ منعقد
ہوا، ہمارے بعض سینئر دوست خصو صاً محمود صاحب، حیدر بھائی، اطہر مرزا،
عثمان صاحب، فیاض صاحب، اقبال بھائی، جلیس چچا تاش کھیلنے کے ماہر اور
دیوانے تھے، بلیک کوئین کی جو ٹیم بنی اس میں میرے ساتھی ظفر صدیقی تھے،
میچ ہوتے رہے، ہم
یکے بعد دیگرے میچ جیت کر فائنل میں پہنچ گئے اور فائنل بھی جیت گئے۔
سینما میں فلم دیکھنے کا شوق کبھی نہیں رہا، شادی کے بعد بیگم کے ساتھ صرف
ایک بار سینما میں فلم دیکھنے گیا،کلاسیکل میوزک پسند ہے، غزلیں سننا اچھا
لگتا ہے، مہدی حسن، گلشن آرا سید،منی بیگم،تصور خانم،اقبال بانوکی گائی
ہوئی غزلیں روح کو تسکین پہچاتی ہیں۔ تاش تو کھیل لیا کرتا ہوں لیکن
برج،پچیسی، شطرنج کھیلنا ہی نہیں آتی اور نہ ہی کبھی کھیلی۔ جب سے ہوش
سنبھالا ایک بار رمضان کے روزے نہیں رکھے، وہ بھی اس وجہ سے کہ یکم رمضان
کو عین تراویح پڑھنے کے دوران گردے کا دردشروع ہوا جواس قدر شدید تھا کہ
مجھے تراویح میں نیت توڑنا پڑی، بہ مشکل گھر اورپھر اسپتال پہنچا یاگیا،
جمعہ کی نماز نہیں چھوڑتا، نماز یں پڑھیں لیکن پنچ گا نہ نمازی نہیں رہا،
اب کوشش ہوتی ہے کہ پابندی ہوجائے۔گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کر کے خوشی
محسوس کرتا ہوں، جھاڑو دینا اچھا نہیں لگتا، برتن دھولیتا ہوں، صفائی بھی
کرلیتا ہوں، اپنی کتابوں کی صفائی ستھرائی از خود کرتا ہوں۔ جب بیٹی گھر پر
تھی تو وہ کام کرنے نہیں دیا کرتی تھی اب بہوؤیں موجود ہوں تو کام کرنا
ممکن نہیں، جب دونوں گھر پر نہ ہوں تو بیوی کا ہاتھ بٹادیاکرتا ہوں۔بیوی پر
رُعب نہیں جماتا، کوشش کرتا ہوں آواز دھیمی رہے اور بات بنی رہے۔ آہستہ
چلتا ہوں، قدم چھوٹے اُٹھاتا ہوں ، اکثر بیوی کے ساتھ چلتے ہوئے بیوی کو
ٹوکنا پڑتا ہے کہ وہ بھی آہستہ چلے۔ہنستا ہوں قہقہا نہیں لگا تا، ہنستے
ہوئے آواز بلند نہیں ہوتی، وقت کی پابندی کی کوشش کرتا ہوں، کیا ہوا وعدہ
پورا نہ کرسکوں تو کئی دن پریشان رہتا ہوں۔محبت کس نے نہیں کی، میَں نے بھی
کی ،بہت ہی حسین چیز سے جس کا نام ہے لکھنا اور پڑھنا، محبت ہے کتابوں سے ،
لکھاریوں سے اور کتابوں سے محبت
کرنے والوں سے۔
قلم کار یا لکھا ری بھی اداکار ہوتا ہے ،ہمارے صدرِ مملکت قبلہ آصف علی
زرداری صاحب نے سیاسی اداکار کی اصطلاح ایجاد کی ،لیکن انھوں نے کبھی وضاحت
نہیں کی کہ سیاسی اداکار ان کی نظر میں در اصل ہیں کون، سیا ست داں ، ٹیلی
ویژن کے اینکر پرسن ،گفتگوکا سیاسی دنگل سجانے والے یا سیاسی موضوعات پر
کالم لکھنے والے صحافی،عام طور پر ٹی وی کے اینکر اور صحافی اپنے آپ کو
سیاسی اداکار ہی سمجھنے لگے ہیں۔ قلمی اداکاروں میں شوکت صدیقی، اشفاق
احمد، شاعرو ں میں میرؔ،غالبؔ، اقبالؔ، فیضؔ ،فرازؔ،پروین شاکر، سنجیدہ
لکھاریوں میں ممتاز مفتی، خاکہ نگاروں میں حالیؔ، رشید احمد صدیقی، مولوی
عبدالحق، فرحت اﷲ بیگ، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر سلیم اختر، مبین مرزا، انور
سدید، پروفیسر صابر لودھی ، مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی ،ابن انشاء
،ڈاکٹر یونس بٹ ،کالم نگاروں میں زاہدہ حنا ، عطا ء الحق قاسمی ،الطاف حسن
قریشی، سیاست دانوں میں قائد اعظم محمد علی جناح، ذوالفقار علی
بھٹو،سائنسدانوں میں ڈاکٹر عبد القدیر خان ،ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی
،اداکاروں میں شمیم آ را، دلیپ کمار، گلوکاروں میں مہدی حسن،نور جہاں، گلشن
آرا سید، ایسے اداکار ہیں جنھیں پڑھ کر، دیکھ کریا سن کر طبیعت پر خوش گوار
اثرات مرتب ہوتے ہیں۔زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں میں عبد
الستار ایدھی، حکیم محمد سعید،ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر عبد المعید، ڈاکٹر
طاہر تونسوی ،سے متاثر ہوں۔
میَں پیدائشی لکھاری نہیں، مجھے لکھنے کی جانب راغب کرنے میں میرے
استادڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری صاحب کا پورا پورا ہاتھ ہے، اگر وہ مجھے اس
جانب مائل نہ کرتے ،مجھے لکھنے اور چھپنے کا چسکا نہ ڈالتے تو شاید میَں اس
جانب نہ آتا، انھوں نے میرے گردایسا گھیرا تنگ کیا کہ میَں اس بھنور میں
پھنستا ہی چلا گیا، حتیٰ کہ اسی کا ہی ہوکر رہ گیا، رہی سہی کسر میرے
دوستوں نے پوری کردی۔ لکھنا اور چھپنا بھی ایک طرح کا نشہ ہوتا ہے، جس طرح
سگریٹ، پان، شراب نوشی، افیون،بھنگ،ہیروئن اورگھات کے عادی اپنی جان لاکھ
چھڑائیں ان کے لیے مشکل ہو جا تا ہے اس سے آزاد ہونا اسی طرح لکھنا اور پھر
چھپنا بھی ایسا ہی نشہ ہے جس کو لگ جاتا ہے اس سے آزاد نہیں ہوپاتا۔
میَں بعض لکھاریوں کی طرح ہر چیز ایک ہی نشست میں لکھنے کا عادی نہیں بلکہ
لکھنے کے معاملے میں قدرِے مختلف واقع ہوا ہوں، ایک وقت میں کئی کئی مضامین
بشمول کتاب کا لکھنا جاری رکھتا ہوں، جب لکھنے کے لیے قلم کاغذ استعمال
ہوتا تھا،اس وقت کئی کئی فا ئلیں کھلی ہوا کرتی تھیں، جب سے کمپیو ٹر سیکھ
لیا اور انگریزی اور اردو لکھنا شروع کرد ی، تو قلم ہاتھ سے جاتا رہا، اب
ایک فولڈر میں کئی کئی موضوعات کی فائلیں بنی ہوتی ہیں۔ گویا اب کمپیوٹر ہی
قلم ہے اور کمپیوٹر ہی کاغذ، کسی بھی ایک موضوع پر میَں زیادہ دیر تک نہیں
لکھ سکتا، طبیعت جلد اکتا جاتی ہے۔ بعض لکھاری ایک مضمون شروع کرتے ہیں اور
اسے ختم کرکے ہی دم لیتے ہیں، اپنا اپنا طریقہ واردات ہے۔لکھنا کب شروع کیا
یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، جامعہ کراچی میں ایم اے(۷۱ء۔۱۹۷۲ء) کرنے کے
دوران باقاعدہ لکھنے کی جانب رغبت ہوئی، ۱۹۷۵ء میں میری پہلی کتاب جو ایک
کتا بیات تھی شائع ہوئی ، یہ میرا ایم اے کا مقالہ تھا، ۱۹۷۷ء میں کتب
خانوں کی تاریخ پر دوسری کتاب ’’کتب خانے تاریخ کی روشنی میں ‘‘ شائع ہوئی،
پہلامضمون اسلامی کتب خانوں کے بارے میں تھا جو کراچی کے ایک ماہ نامہ
’’ترجمان‘‘ میں جنوری ۱۹۷۸میں شائع ہوا۔ سوانحی مضامین لکھنے کی ابتدا
بھی۱۹۷۸ سے ہوئی، پہلا سوانحی مضمون خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ
عنہا پر تھا جو ماہ نامہ ’ترجمان‘ کی اگست ۱۹۷۸ کی اشاعت میں شامل
ہوا۔سوانحی مضامین سے میَں خاکوں اور رپوتاژ کی جانب آیا۔ پہلی رپوتاژ اپنی
بیٹی’ سحر‘کے انتقال پر ۱۹۸۰ء میں لکھی جو ’ادب و کتب خانہ‘ میں شائع
ہوئی،یہ میری کتاب ’یادوں کی مالا‘ میں بھی شامل ہے۔ اِسی سال اپنے جد امجد
شیخ محمد ابرہیم آزادؔ پر میرا مضمون قصور سے شائع ہونے والے رسالے
’انوارالصوفیہ‘ میں شائع ہوا،۱۹۷۸ء ہی میں لائبریری سائنس کے موضوع پر پہلا
مضمون ’پاکستان لائبریری بلیٹن‘ میں شائع ہوا، اسی سال میَں اس رسالے کا
ایڈیٹر مقرر ہوا ، اس رسالہ سے وابستگی کو آج ۳۳ سال ہوگئے ہیں ، میرے سب
سے زیادہ مضامین اسی رسالے میں شائع ہوئے۔ بس اس طرح لکھنے اور چھپنے کی یہ
گاڑی چلنا شروع ہوئی جو گزشتہ ۳۵ برس سے رواں دواں ہے۔ میری کتابوں کی
تعداد۳۲ ہوچکی ہے جب کہ ۲۵۰کے قریب مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ عطا ء الحق
قاسمی نے اپنے ایک کالم ’’پچاس سالہ قلمی سفر‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ایک
لکھنے والے کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے جو اس کی لکھنے پڑھنے میں گزرتی ہے‘‘،
میری اولین کاوش
۱۹۷۵ء میں منظر عام پر آئی تھی، اس طرح میراقلمی سفر ۳۴سالوں پر محیط ہے،
اب آپ کو میری عمر کا بھی اندازہ ہو گیاہوگا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ نکما آدمی قلم کار کیسے بن گیا؟ کسی نے سچ کہا ہے
کہ نکما آدمی ہی قلم کار بنتا ہے۔ اچھا، تو ہمارے ملک میں استاد کون بنتا
ہے؟ کبھی کسی کے والدین نے یہ خواہش کی کہ ان کا بیٹا یا بیٹی بڑے ہوکر
استاد بنے، ہر گزنہیں، ڈاکٹر اور انجینئر سے نیچے کوئی آتا ہی نہیں۔ حال آں
کہ معلم کا کا م ، مرتبہ اور شان ہم سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ہمارااستاد
تو حادثاتی استاد ہوتا ہے، اسی طرح قلم کا ر بھی حادثاتی ہوتے ہیں، میَں
بھی حادثاتی قلم کار ہوں، حادثہ یہ ہوا کہ قلم کاروں کے بیچ پھنس گیا،مجھے
لکھنے والوں کی صحبت و دوستی میسر آگئی اور میَں نے بھی اس دوستی سے فائدہ
اٹھا یا ، لکھاریوں کی صف میں اپنے آپ کو بالکل پیچھے کھڑا پاتاہوں۔ نکما
ہونے کی وجہ سے میَں نے ڈاکٹریا انجینئر بننے کا خواب دیکھا ہی نہیں،
والدین نے یہ معاملہ مجھ پر چھوڑدیا تھا ، میَں نے یہ معاملہ اپنے اﷲ پر
چھوڑ دیا ، بس اﷲ نے جو بنا نا تھا بنا دیا، اب صبر شکر کرتا ہوں، کہ اس نے
لکھنے پڑھنے کی توفیق عطا کی، ایک عدد سلیقہ مند استاد بیوی، بیٹے، بیٹی،
گھر گھرستی، سب کچھ عطا کیا میرے مولا کا شکرہے ۔لکھنے کے ساتھ ساتھ بولنا
بھی آگیا، مجمعے میں بولنا، تقریر کرنا، اس کے پیچھے بھی میرے دوستوں کا ہا
تھ ہے۔ میَں کراچی کی ایک غریب آبادی لیاری میں آگرہ تاج کالونی میں رہا
کرتا تھا،وہاں کے نوجوانوں نے جو عمر میں مجھ سے بڑے ہی تھے علاقے کی فلاح
و بہبود کے لیے ایک سماجی ادارہ ’’تاج ویلفیئر سینٹر‘‘ قائم کیا تھا، یہ
بات ہے ۱۹۶۰ء کی، جہاں اہل محلہ چھو ٹے بڑے کھیل کودکے علاوہ فلاحی کاموں
میں مصروف رہا کرتے تھے ۔ بہت ہی اچھا ماحول تھا، بڑے اپنے چھوٹوں کا حد
درجہ خیال کیا کرتے ، چھوٹے اپنے بڑوں کے احترام کے ساتھ ان کے شریک رہا
کرتے، گویا چھوٹوں کے لیے یہ ایک تر بیت گا ہ تھی۔تاج ویلفئر سینٹر ایک
ایسا فلاحی ادارہ تھا جس نے اپنے اراکین میں خدمت خلق کا مثالی جذبہ پیدا
کردیا تھا، مختلف سیاسی نظریات کے حامل،مختلف زبانیں بولنے والے،مختلف
قومیتوں سے تعلق اور مختلف مذہبی عقائد رکھنے کے با وجود اس ادارے سے منسلک
لوگ اپنے آپ کو ایک ہی خاندان کا فرد تصور کیا کرتے تھے۔ ہر ایک کے دکھ،
درد خوشی یاغمی میں عزیز رشتہ داروں سے بڑھ کر شریک رہا کرتے۔خلوص، محبت،
ہمدردی،با ہمی شفقت، اخوت، بھائی چارے کے اس ماحول کو کبھی بھلا یا نہیں
جاسکتا۔ شاید ہم میں سے کسی کو بھی وہ ماحول زندگی میں دوبارہ نہیں مل سکا
۔ در حقیقت میں نے اس ماحول سے بہت کچھ سیکھا، محفل میں گفتگو کرنا، مجمعے
کے سامنے اسٹیج پر تقریر کرنے کا حوصلہ مجھ میں اسی دور میں پیدا ہوا۔ میر
ا بچپن اور جوانی اسی جگہ گزری، میں نے اسی علاقے کے اسکولوں پہلے قومی
انجمن پرائمری اسکول بعدہ غازی محمد بن قاسم ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم
حاصل کی ،ایس ایم کالج اورعبدا ﷲ ہارون کالج سے انٹر اوربی اے کیا، اس
ماحول سے میں تہذیبی اور تمدنی زندگی کی اعلیٰ قدروں سے واقف ہوا، یہی وجہ
ہے کہ لڑکپن کے یہ تہذیبی نقوش میرے ذہن و دل پر آج بھی مرُ تسم ہیں۔
جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۵۱ء کی بات ہے، میری چھوٹی خالہ ذکیہ خاتون کے ہاں شام پانچ
بجے کراچی سے سیکڑوں میل دور اندرون سندھ ’تھاروشاہ‘ میں پہلی لڑکی کی
ولادت ہوئی، نام ’شہناز‘ رکھا گیا، میرے والد صاحب نے پانچ بج کر پانچ منٹ
پر ریڈیو پر اعلان کردیا، اس وقت ٹی وی تو تھا نہیں وگر نہ جیو پر اعلان
ہوتا کہ ’یہ لڑکی میری ہوئی‘،اس وقت میری عمرپونے تین سال تھی،میَں حیرت و
یاس کی مورت بنا اپنے ابا کی بات کو غور سے سن رہا تھا ، میری قسمت کا
فیصلہ بغیر مال دیکھے کس بے باکی اور دھڑلے سے کر رہے تھے، کہتے ہیں کبھی
زبان سے نکلی کوئی خواہش اﷲ تعالیٰ سن لیتا ہے، شاید یہ بھی قبولیت کی گھڑی
تھی،اﷲ نے میرے اباکی یہ خواہش سن لی،فرشتوں نے پکے رجسٹر میں ہمارے نام
لکھ کر مہر ثبت کر دی ، میَں نے بھی بڑے ہوکر اپنے والدین کے فیصلے کو خوش
دلی سے قبول کیا اس دوران نظریں اِدھر اُدھر بہکی بھی خاص طور پر جامعہ
کراچی کی چکا چوند روشنی نے متاثر بھی کیا لیکن اﷲ نے ثابت قدم رکھا ،۲۸
سال بعد ۱۹۷۵ء میں میَں اور شہناز شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ چوتھی دھائی
آدھی گزر چکی ہے بندھن قائم ہے، کب تک قائم رہتا ہے ، یہ خدا کو معلوم،
مختلف جہات سے مکمل شریک سفرہیں ،مزاج شناس، ہم نوا اور ہم قدم بھی، ہم
مکہ، مدینہ، جدہ ، فیفا (جیذان) کے پھیرے ساتھ ساتھ کرچکے ہیں۔اﷲ نے
دوبیٹوں
عدیل اور نبیل ، ایک بیٹی فاہینہ سے نوازا، پوتا صائم عدیل، نواسہ ارحم اور
نواسی نیہا میری کل کائینات ہے۔
بچپن ہی سے میَں پان اور سیگریٹ سے دور رہا، حال آں کہ میری امی اور ابا
خوب خوب پان کھا یا کرتے تھے،بلکہ پان میں تمباکو بھی نوش کیا کرتے تھے،
گھر میں باقاعدہ پان دان تھا، پان کی ڈبیا اور بٹوے کا بول بالا تھا۔ میَں
پان، چھالیہ، تمباکو، کتھا اور چونا خرید کر لا یا کرتا تھا لیکن خود اس
لَت سے دور ہی رہا، سیگریٹ البتہ کبھی دوستوں کے ساتھ وہ بھی پکنک پر ، یا
پھر کسی کانفرنس کے موقع پر ہوٹل میں قیام کے دوران کش لگا لیا کرتا
ہوں۔زندگی میں کبھی بقول سعادت حسن منٹو ’کڑوا شربت‘ (شراب) نہیں پیا، پینا
تو دور کی بات چھوا تک نہیں۔ایک مرتبہ ایک دوست عباس کو اپنے دوسرے دوست
شاہ جی کے گھر پیتا دیکھ کر طبیعت خراب ہونے لگی تھی۔ کتابوں سے محبت اور
انھیں سلیقہ سے رکھنے کی عادت شروع ہی سے ہے، ذاتی لائبریری دو ہزار کتب پر
مشتمل ہوگی، یہ کتابیں مختلف موضوعات پر ہیں، ان میں لائبریری سائنس، اسلام
کے علاوہ سوانح حیات ، خاکے اور خود نوشت کا بڑا ذخیرہ ہے، خاکوں کی کتاب
جب اورجہاں سے ملے خریدلیتا ہوں، جون ۲۰۱۱ء میں میَں سعودی عرب آیا تو میرے
سامان میں کتابوں کا ایک علیحدہ سے کارٹن تھا ، اس میں خاکوں کے مجموعے
زیادہ تھے،مجھ سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ میَں نے لیپ ٹاپ کے خالی کارٹن میں
کتابیں رکھ لی، اس کارٹن کے اوپر لیپ ٹاپ کی رنگین تصویر بنی ہوئی تھی،
مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ تصویراس کارٹن کے گم ہو جانے کا سبب بن جائیگی،
دیگر سامان کے ساتھ یہ کارٹن بھی لگیج میں جمع کرادیا گیا، جب ہم جدہ ائر
پور ٹ پر اترے تو تمام سامان تو آگیا، کتابوں کا یہ کارٹن غائب تھا، بہت
انتظار کیا، متعلقہ کارندوں سے خوب خوب بحث و مباحثہ کیا، تو تو میں میں
بھی کی ، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، آخر کار اس کی رپورٹ ہوئی، کاغذی کاروائی
کے بعدمتعلقہ حکام نے یقین دلایا کہ آپ فلاں نمبر پر رابطہ کیجیے گا، اگر
مل گیا تو آپ کو اطلاع کردی جائے گی، گھر آکر ایسا لگا کہ جیسے میں خالی
ہاتھ ہی آیا ہوں، پروگرام تو یہ تھا کہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد کچھ لکھنے
کا کام کروں گا، چند احباب کے خاکے سر گودھا میں رہتے ہوئے شروع کیے تھے
انہیں مکمل کرونگا،کتابیں نہ ملنے کے باعث طبیعت لکھنے کی جانب مائل ہی
نہیں ہوئی، وقت گزرے نہیں گزررہا تھا، اپنے بیٹے عدیل کو یہ ذمہ داری سونپی
کہ وہ ائیر پورٹ پر معلومات کرتا رہے شاید کچھ اچھی خبر سننے کو مل جائے،
جدہ آئے ہوئے ایک ماہ ہونے کو تھا ہر طرح کی کوشش بے سود رہی، ایک دن ائر
پورٹ سے فون آیا کہ کارٹن مل گیا ہے آکر لے جائیے عدیل ائر پورٹ گیا ، تلاش
کیا پر نا امید ہوکر واپس آگیا ، رابطہ مسلسل جاری رکھا، چند دن بعد پھر
اطلاع ملی کہ پیکٹ آکر لے جائیں، اس بار میرے ایک دوست عبد الطیف جو ان
دنوں جدہ کے ایک اسکول میں استاد ہیں مجھے اپنی کار میں ائیر پورٹ لے گئے،
وہ اپنے کسی ساتھی کو رخصت کر نے ائیر پورٹ جارہے تھے، ازراہ عنایت مجھے
بھی ساتھ لے لیا، کیونکہ میَں ان سے اس بات کا ذکر کر چکا تھا، ہم دونوں
ائیر پورٹ پی آئی اے آفس گئے میری کتابوں کا پیکٹ آفس میں موجود تھا، جان
میں جان آئی ، اﷲ کا شکر ادا کیا، آفس حکام نے بتا یا کہ یہ پیکٹ آپ کے
سامان کے ساتھ ہوائی جہاز میں رکھا ہی نہیں گیا، شایدکسی مہربان نے لیپ ٹاپ
سمجھتے ہوئے اسے اپنی حفاظت میں لے لیاتھا، جب یہ راز افشا ہوا کہ اس میں
تو کتابیں ہیں تو واپس ائر پورٹ پر چھوڑ دیا۔پی آئی اے کے حکام نے بتا یا
کہ یہ چندروز قبل اکیلا ہی کراچی سے آیا ہے۔کسی نے درست کہا کہ’اصل چیز
معیار ہے۔ ایک چیز جو آپ کی نظر میں بے قیمت ہے وہی دوسرے کے لیے بیش قیمت
ہے‘۔ یہ پیکٹ جو چند کتابوں پر مشتمل تھا میرے لیے اس کی بہت اہمیت تھی
لیکن دوسروں کے لیے یہ چند کتابیں ہی تھیں۔ پیکٹ ملنے کے بعد میَں لکھنے کا
سلسلہ شروع کر سکا۔ علامہ شبلی نعمانی کے صندوق کی چوری کا واقعہ میَں نے
حکیم ڈاکٹر سید محمود احمد برکاتی کی کتاب ’’جادۂ نسیاں۔ بھولتی یادیں‘‘
میں پڑھا ، دلچسپ ہے،آپ بھی سنیے ،اس سے کتاب کی وقعت عیاں ہوتی ہے ۔علامہ
شبلی نعمانی مولوی عبد الغفور ، جو اکبری مسجد (درگاہ خواجہ صاحب،
اجمیر)میں صدر مدرس تھے سے ملاقات کے لیے اجمیر گئے اور درگاہ خواجہ صاحب
پہنچ کر وہاں ایک حجرے میں اپنا سامان رکھ دیا جو صرف ایک صندوق پر مشتمل
تھا، مولوی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ یہ صندوق رکھ کر مجھے تلاش کرنے نکلے۔
مجھ سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنے گھر قیام کے لیے اصرار کیا اور سامان
یہاں منتقل کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ اس حجرے تک آیا، یہاں آکر معلوم ہوا
کہ وہ صندوق غائب ہے، چوری ہوگیا، پولیس میں رپورٹ لکھوادی، اس زمانے کی
پولیس فرض شناس ہوتی تھی، چنانچہ پولیس کا سپاہی بار بار یہ پوچھنے کے لیے
آتا کہ اس صندوق میں کیا کیا تھا۔علامہ صاحب ہر بار یہی جواب دیتے کہ چند
کپڑوں کے علاوہ فلاں فلاں کم یاب اور نایاب کتابیں تھیں۔ آخر وہ سپاہی مجھے
الگ لے جاکر کہنے لگا کہ ایک صندوق تو ہم نے دریافت کر لیا ہے مگراس میں تو
نقد رقم بھی ہے اور آپ کے مہمان اس رقم کا تذکرہ ہی نہیں کرتے، اس لیے خیال
ہوتا ہے کہ یہ صندوق ان کانہیں ہے،میں نے مولانا شبلی سے دریافت کیا کہ اس
صند وق میں کیا کیا تھا؟ تو انھوں نے پھر یہی جواب دیا کہ فلا ں فلاں کم
یاب و نایاب کتابیں تھیں۔ میں نے پوچھا ، کوئی رقم بھی تھی؟ توجواب دیاکہ ،
ہاں رقم تھی مگر اصل سرمایہ تو وہ کتابیں ہیں، میں نے پوچھا کہ وہ رقم کتنی
ہے تو جواب دیا کہ پانچ ہزارروپے۔اس پر میں نے جھنجلاکر کہا ، کئی روزسے ہم
پریشان ہیں اور پولیس بھی اورآپ نے اب تک کتابوں ہی کتابوں کا نام لیا ہے،
رقم کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔چنانچہ میں نے غصے میں چیخ کر کہا ’اب تک کیوں
نہیں بتایا کہ اس میں پانچ ہزار روپے بھی تھے‘، پھر میں نے پولیس کو بتا یا
کہ اس صندوق میں پانچ ہزار روپے بھی تھے، پولیس نے وہ صندوق مولاناکے حوالے
کردیا ۔ علامہ شبلی نعمانی نے صندوق کھول کر سب سے پہلے اپنی کتابوں کو
سنبھالااور رقم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی‘۔یہ واقعہ آج سے سو سال پہلے کا
ہے ، پانچ ہزار کی رقم اس زمانے میں ایک حیثیت رکھتی تھی لیکن اہمیت کی بات
ہے،علامہ شبلی نعمانی کے نزدیک بھاری رقم کی اہمیت نہیں تھی بلکہ وہ نایاب
و نادر کتابیں اہمیت رکھتی تھی۔
عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کالج میں ہمارے ایک ساتھی تھے عبدالباری سراج احمد،
یہ ایک پرائیویٹ کالج ’بلوچ انٹر میڈیٹ کالج‘ کے پرنسپل تھے، جب کالجوں کو
قو می تحویل میں لے لیا گیا تو انھیں لیکچرر بنا کر اس کالج میں ٹرانسفر
کردیا گیا، سیاسیات ان کا مضمون تھا، سیدھے سادھے بھلے آدمی تھے، حیدرآباد
دکن سے ان کا تعلق تھا۔ انھیں سونے کے بسکٹ جمع کرنے کا شوق تھا، گلشن
اقبال میں رہا کرتے تھے بس سے اتر تے تو راستے میں صرافا بازار پڑتا یہ
وہاں سے اکثر سونے کی اشرفیاں خرید کر لاتے اور اسٹاف روم میں ان کی تشہیر
کرنے کے علاوہ چائے میں ان اشرفیوں کو ڈال کر چمچے سے ہلایا کرتے ان کا
خیال تھا اس طرح سونا ان کے جسم میں جارہا ہے جو باعث تقویت ہے، ایک دن
ہمارے ایک ساتھی غلام اصغر صاحب نے کہا کہ باری صاحب مجھے بھی یہ اشرفیاں
دیں میں بھی چائے میں ڈال کر ان کی طاقت حاصل کرلوں انھوں نے وہ دو اشرفیاں
اصغر صاحب کو دے دیں انھوں نے بھی انھیں اپنی چائے کی پیالی میں ڈالا ،
چمچے سے ہلایا اور چائے پینے لگے، چائے پیتے پیتے انھوں نے وہ اشرفیاں چھپا
لیں اور باری صاحب سے کہا کہ باری صاحب یہ تومیرے پیٹ میں چلی گئیں، باری
صاحب نے جب یہ سنا تو ان کی ہوائیاں اڑگئیں، بیس گرام سونے کا معاملہ تھا،
یہ ایک اچھا مذاق تھا، باری صاحب اکثر نئے نوٹوں کی گڈیاں بھی کالج لایا
کرتے اور اسٹاف روم میں نکال کر ان کی تشہیر کیا کرتے ، یہ ان کی عادت تھی،
ایک دن کپڑے کے تھیلے میں نئے نوٹوں کی کئی گڈیاں تھیں ، ان کے کہنے کے
مطابق ایک ایک ہزار کے سو نوٹ تھے، جاتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے کہ مجھے کہیں
جانا ہے پیسو ں کا یہ تھیلا آپ لے جائیں کل مجھے لاکر دے د یجیے گا، میَں
کالج سے نزدیک ہی رہا کرتا تھا،اعتماد کی بات تھی، میَں نے وہ تھیلا لے لیا
اور اپنے ساتھ گھر لے گیا اگلے دن وہ تھیلا لاکر باری صاحب کے حوالہ کردیا،
انھوں نے گھر جاکر نوٹ گنے تو وہ ایک سو ایک تھے یعنی ایک لاکھ ایک ہزار
روپے تھے،جب کہ انھوں نے اپنے طور پر سو نوٹ گن کر اس میں رکھے ہوں گے،
اگلے روز کالج آئے مجھ سے کہنے لگے کہ صمدانی صاحب آپ نے نوٹ گنے تھے ، میں
نے کہا کہ نہیں مجھے ضرورت نہیں تھی نوٹ گنے کی، اب تو جناب انہوں نے اسٹاف
روم میں میری ایمانداری کا خوب خوب پرچار کیا، کئی دن تک وہ اس بات کا ذکر
کرتے رہے۔باری صاحب اور اصغر صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے اﷲ تعالیٰ ان کی
مغفرت فرمائے، آمین۔میَں ۲۳ سال چھ ماہ عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کالج میں رہا
پھر میرا تبادلہ گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد میں ہوگیا جہاں ۱۲ سال
خدمت انجام دیں۔
سرگودھا یونیورسٹی میں گزارے ہوئے میرے روز و شب یاد گار اور میری زندگی کا
سرمایا ہیں۔سر کاری عہدہ ملازمت ختم کر چکا تھا، ڈاکٹر محمد فاضل صاحب
جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے چیٔر مین تھے جن سے
میرے مراسم کی نوعیت برادرانہ تھی، انھوں نے ازراہ عنایت میرا تقرر بحیثیت
ایسو سی ایٹ پروفیسر کے اپنے شعبہ میں کرادیا، یہ ان کی عنا یت اور مجھ سے
محبت تھی، میں نے بھی سرگودھا جانے کا فیصلہ کرلیا۔مئی ۲۰۱۰ء کے ابتدائی
دنوں میں مجھے سرگودھا یونیورسٹی کی جانب سے تقرر نامہ موصول ہوا، میں اس
کے لیے پہلے سے تیار تھا چنانچہ میں نے کراچی سے رختِ سفر باندھا۔جنت نگاہ
شہر کراچی کو جہاں میرا سنہرا بچپن گزرا ، رسیلی جوانی کی بہاریں پھلی
پھولیں اور پھر بڑھاپے کی دہلیز پر بھی اسی شہر میں قدم رکھا۔ اس کی رونقوں
کو ، بہاروں اور محفلوں کو ، دوستوں کو، عزیزوں کو، پیاروں کو الغرض ہر ایک
کو چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا۔ محسوس ہوتا ہے شہر سرگودھا میں کچھ خاص کشش تھی
جس نے مجھے اتنے بڑے فیصلے پر آمادہ کرلیا ۔
ہے عجب کشش اے سرگودھا تیری شام و سحر میں
کہ میں کراچی کی حسین رنگینیوں کو چھوڑ آیا
۱۲ مئی کی خوش گوار صبح سر گودھا میں ہوئی، ڈیوو بس اسٹاپ پر سرگودہ
یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسزکے چیر مین پروفیسر ڈاکٹر
محمد فاضل اور شعبے کے ایک سینئر استاد میاں محمد اسلم بھٹی جو میرے ایم اے
کے کلاس فیلو بھی تھے مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔بس اسٹاپ سے جامعہ مشکل سے دس
منٹ کے فاصلے پر ہے، فیصلہ ہوا کہ پہلے شیخ الجامعہ سے ملاقات کی جائے،
چنانچہ ہم تینوں شیخ الجامعہ کے دفتر پہنچے، شیخ الجامعہ پروفیسر
ڈاکٹرچودھری محمد اکرم سے ملاقات ہوئی،خوش ہوئے اور خوش اخلاقی سے ملے،
فاضل صاحب کو میرے قیام کے بارے میں کچھ ہدایات دیں، پھرہم نے ایڈیشنل
رجسٹرار چودھری اظہارالحق صاحب سے ملاقات کی ۔
جامعہ سر گودھا کا ٹیچرز ہاسٹل کا کمرہ نمبر ۵ میرے لیے مختص کیا گیا تھا۔
میں بائیلوجی کے استاد ڈکٹر ظفر اقبال کا روم میٹ تھا، ڈاکٹر ظفر اچھے
انسان تھے، تحقیق کے آدمی تھے، لکھنا اور چھپنا ان کا محبوب مشغلہ
تھا،ہاسٹل میں ٹیچرس کو انٹر نیٹ کی سہولتیں میسر تھیں،ظفر صاحب جتنی دیر
کمرے میں ہوتے لیپ ٹاپ پر سرچنگ کرتے اور مضامین لکھتے رہتے، میَں اپنے لیپ
ٹاپ پر مصروف رہا کرتا ، دونوں اپنے اپنے بیڈ پر لیپ ٹاپ پر مصروف عمل رہا
کرتے۔ خاموش طبع تھے، کم سے کم گفتگو کیا کرتے تھے، اتفاق سے میَں بھی ان
کا ہم مزاج تھا، ہم دونوں کے درمیان بہت کم جملوں کا تبادلہ ہواکرتا،لیکن
دونوں کوایک دوسرے سے کبھی شکایت نہیں ہوئی،وہ اردو کم سرائیکی زیادہ بولا
کرتے تھے، ان کی فیملی جھنگ میں تھی، وہ ہر جمعہ کی دوپہر اپنے گھر چلے
جایا کرتے اور پیر کی صبح واپس آیاکرتے تھے، اس دوران میَں کمرے میں تنہا
ہی ہوا کرتا۔ شہر نیا ، لوگ نئے، ماحول اجنبی‘ البتہ خالصتاً علمی۔ زندگی
کا پہلا تجربہ تھا گھر سے باہررہنے کاوہ بھی ہاسٹل لائف۔اکثر احباب سے سنا
کرتا تھا کہ ہاسٹل لائف عام زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔ میَں شام پانچ بجے تک
شعبہ میں رہتا ، عصر کے وقت شعبے سے واپس ہاسٹل آتا اور عصر کی نماز کے لیے
مسجد چلاجاتا اور پھر کیمپس کے پر فضا ماحول میں کھو جایا کرتا۔ جامعہ
سرگودھا کا عین وسطی حصہ خوبصورت منظر پیش کرتا ہے ‘ اس میں وسیع و عریض سر
سبز کھیل کے میدان، جن کے گرد لہلہا تے درخت حسین نظارہ پیش کرتے اور شام
کے اوقات میں ان میدانوں میں طلباء ہر قسم کے کھیلوں میں مصروف نظر آتے۔ ان
میدانوں کے چاروں اطراف صاف ستھری سڑکیں صبح و شام جاگنگ ٹریک بنی ہوتی
ہیں‘جہاں ہر عمر کے لوگ دوڑتے اور چہل قدمی کر تے نظر آتے ۔ میَں بھی اس
حسین منظر نامے کا حصہ بن گیا تھا۔ ٹیچرز ہاسٹل میں زمینی منزل پر ہمارے
علاوہ کمرہ نمبر ۲ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب ہو ا کرتے تھے، سرگودھا میں
رہتے ہوئے تونسوی صاحب میرے قریبی دوست بن گئے۔
جامعہ کے ٹیچرز ہاسٹل میں میس کا انتظام ہاسٹل کے مکینوں کو از خود کرنا
ہوتا تھا، جامعہ کی طرف سے ڈائننگ روم ، کچن اور ایک عدد ککُ کی سہولت
فراہم کی گئی تھی۔ نذر حسین ہمارا ککُ تھا، سابق فوجی تھا، برد بار اور
اچھی عمر تھی، کھانا ٹھیک ہی پکا یا کرتا تھا۔خاص طور پر مکس
سبزی،کڑھی،کریلے جن میں کڑاوہٹ نام کو بھی نہ ہوتی تھی اور آلو بھرے
پراٹھے، میس سیکریٹری شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر شاہد راجپوت تھے، ان
کاگھر اسلام آباد میں تھا وہ اکثر جمعرات کو اپنے گھر اسلام آباد چلے جاتے،
اسی طرح وہ احباب جن کی فیمیلیز سرگودھا کے قرب و جوار میں تھیں وہ بھی
اپنے اپنے گھروں کو سدھار جایاکرتے، ہاسٹل میں میرے اور ڈاکٹر طاہر تونسوی
صاحب کے علاوہ شاید ہی کوئی اور ہوا کرتا، شاہد راجپوت صاحب کی غیر موجودگی
میں ہمارا ککُ یہ سمجھتا کہ اب اس کی بھی چھٹی ہے وہ ان احباب سے پہلے اپنے
گھر روانہ ہوجاتا، گویا ہفتے کے تین دن جمعہ ، ہفتہ اور اتوار ہمارے میس
میں کھانے کی چھٹی ہونے لگی، ہمارے لیے یہ مشکل تھا کہ کیمپس کے باہر کھانا
کھانے جایا کریں وہ بھی سخت سردی میں۔اس حوالے سے ڈاکٹر خالد ندیم اور طارق
کلیم کی محبت اور خبر گیری کو کبھی بھلا یا نہیں جا سکتا، سخت سردی میں یہ
دونوں صا حبان موٹر سائیکل پر رات گئے کھانا لیے آیا کرتے، ان کے مزے دار
کھانے بہت یاد آتے ہیں،خاص طو پر ساگ کا لطف میَں آج بھی محسوس کرسکتا ہوں۔
ڈاکٹر خالد ندیم شعبہ اردو ، جامعہ سرگودھا میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، تخلیقی
سوچ رکھتے ہیں، لکھنا پڑھنا ان کا محبوب مشعلہ ہے،متعدد مضامین ادبی رسائل
میں شائع ہوچکے ہیں، انہوں نے اپنی ایک کتاب ’’مکاتیبِ ابنِ فرید بنام رفیع
الدین ہاشمی‘‘ بھی مجھے عنایت فرمائی،لکھاریوں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے
ہیں۔سر گودھا میں قیام کے دوران خاکہ نویسی پر میری خاص توجہ رہی، شاید
ماحول کا اثر تھا، ڈاکٹر طاہر تونسوی اور عبد الوہاب خان سلیم پر ہاتھ صاف
کیا اور ان کے خاکے قلم بند کیے ، دونوں خاکے شائع ہوچکے ہیں۔تیسرا خاکہ
اپنی ہم پیشہ فرخندہ لودھی کا لکھنا شروع کیا، جو اردو و پنجابی ادب کی
معروف لکھاری بھی تھیں، مجھے فرخندہ لودھی پرمواد درکار تھا، یونیورسٹی کے
مرکزی لائبریری سے مجھے کچھ نہ مل سکا، ایک دن میَں نے ڈاکٹر خالد ندیم کو
فون کیا اور مدعا بیان کیا، لمحے بھرکو سوچا اور گویا ہوئے ، کچھ کچھ ذہن
میں آرہا ہے، میں آپ کو ابھی تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں۔ مشکل سے پانچ منٹ
بھی نہ گزرے ہوں گے میرے موبائل پر گھنٹی بجی، ڈاکٹر خالد ندیم گویا ہوئے
آپ کا مطلوبہ مواد مجھے مل گیا، میں کچھ ہی دیر میں آپ کے ہاسٹل آتا ہوں۔
میں نے کہا میں آپ کا انتظار کررہا ہوں۔ فروری کا مہینہ سردی اپنی بہاریں
دکھا رہی تھی، سورج غروب ہونے کے بعد تو سردی زیادہ ہی شدید ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب سردی کی پروا نہ کرتے ہوئے میرے کمرے میں آموجود ہوئے۔ کہنے لگے
لیجیے آپ کی مشکل انشاء اﷲ آسان ہوجائے گی، یہ کہہ کر انہوں نے بڑے سائز کا
ایک ضحیم مجلہ میرے ہاتھ میں تھمایا،یہ تھا ’’مجلہ راوی ۲۰۱۰ء‘‘جی سی
یونیورسٹی لاہور کا خصوصی مجلہ،اس مجلہ میں گوشہ میرتقی میرؔ، گوشہ
ن۔م۔راشدؔ، گوشہ ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، گوشہ ڈاکٹر وزیر آغا کے علاوہ
’’گوشہ فرخندہ لودھی ‘‘ بھی تھا۔اس لمحے میری خوشی کی انتہا نہ رہی، میری
ایک ہم پیشہ کے بارے میں یہ گوشہ مرحومہ کی علمی و ادبی خدمات کا کھلا
اعتراف تھا، ا ُسیلمحے مجھے احسا س ہوا کہ اب میَں یقینا فرخندہ کو خراجِ
تحسین پیش کر سکوں گااور ایسا ہی ہوا، میَں نے فرخندہ پر اپنا خاکہ مکمل
کرلیا۔ ڈاکٹر خالد ندیم کی عنایتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔
اس موقع پر طارق کلیم کی محبتوں اور عنایتوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی،
یہ ڈاکٹر تونسوی صاحب کے ایم فل کے شاگرد تھے انھوں نے تونسوی صاحب کے ساتھ
ساتھ میرا اتنا ہی خیال رکھا جتنا وہ ڈاکٹر تونسوی کا رکھا کرتے تھے،گویا’
تمہیں چاہیں تمہارے چاہنے والوں کو چاہیں والی صورت تھی ‘ ۔ خوب اچھے اچھے
اور لذیز کھانے کھلائے، یہ بھی سخت سردی میں موٹر سائیکل پر رات گئے آیا
کرتے تھے، اسکول میں استادتھے، اکیڈمی میں بھی پڑھاتے تھے، صحافت سے بھی
منسلک تھے، شاید اے آر وائی سے وابستہ تھے، مصروفیات کے با وجود اس قدر
خیال ۔ طارق کلیم کے ایک اور عمل کو میَں کبھی بھلا نہیں سکو نگا ، اپنے
استاد ڈاکٹر تونسوی کے تابع دار تو تھے ہی اپنے استاد کے دوست کے ساتھ بھی
ان کی مہر بانیاں اس بات کا واضح ثبو ت تھیں کہ ان کی تربیت اچھے ہاتھوں
میں ہوئی ہے، ہوا یہ کہ سرگودھا میں قیام کے دوران میرے دانت میں تکلیف
شروع ہوگئی جو بڑھتی ہی گئی، تونسوی صاحب نے طارق کلیم سے کہا کہ وہ مجھے
ڈاکٹر کے پاس لے جائیں، طارق کلیم نے اگلے ہی دن آنے کے لیے کہا، وہ طے شدہ
وقت پر آگئے مجھے اپنے ہمرہ ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے، انھوں نے دانت دیکھا
اور کہا کہ اس کا علاج یہی ہے کہ اسے نکال دیا جائے ورنہ یہ آپ کو مسلسل
پریشانی میں مبتلا رکھے گا، تین دن کی دوا لکھ دی، اب مجھے تین دن بعد پھر
ڈاکٹر صاحب کے پاس جانا تھا، طارق کلیم پھر طے شدہ وقت پر میرے شعبے میں
آموجود ہوئے، وہ مجھے پھر ان ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے، میرا دانت نکال دیا
گیا، ڈاکٹر صاحب نے نہ تو پہلے فیس لی اور نہ ہی دوبارہ حالانکہ میَں نے
طارق کلیم کو اشارہ بھی کیا جسے ڈاکٹر صاحب نے محسوس کر لیا کہنے لگے اشارے
نہیں چلیں گے، بس ٹھیک ہے، ڈاکٹر صاحب طارق کلیم کے دوستوں میں سے
تھے،جماعت اسلامی سے تعلق تھا ، طارق کلیم نے بتا یا کہ انہوں نے گزشتہ
انتخابات میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر سرگودھا سے الیکشن بھی لڑا تھا اور کم
ووٹوں سے ہار گئے تھے۔اچھے ڈاکٹر تو ہیں ہی ساتھ ہی نیک انسان بھی ہیں ،
انھیں جب یہ معلوم ہوا کہ میں جامعہ سرگودھا میں استاد ہوں تو زیادہ محبت
سے ملے۔
حیات ہوٹل سرگودھا کے شاعروں اور دانشوروں کا مرکز بھی ہے، غالباً اس کے
مالک ادبی ذوق رکھتے ہیں اور ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے قدر داں ہیں،
یہاں ادبی محفلوں کا انعقاد بھی ہو تا ہے۔ ایک دن ڈاکٹر تونسوی صاحب نے کہا
کہ آج محفل مسالمہ ہے اس میں جانا ہے، کہنے لگے کہ اگر آپ نے امام حسین کی
شان بھی کچھ کہا ہے تو آپ کو بھی موقع مل سکتا ہے، میَں نے کہا کہ میَں صرف
آپ کو اور دیگر احباب کو سنوں گا، مغرب کی نماز کے بعد ہم حیات ہوٹل پہنچ
گئے، ایک چھوٹے سے کمرے میں محفل مسالمہ کا اہتمام کیا گیا تھا، شاعر حضرات
پہنچ گئے، سب نے امام عالی مقام کی شان میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، ڈاکٹر
طاہر تونسوی صاحب ، عابد خورشید نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ دیگر کے علاوہ
صاحبزادہ پروفیسر محمد عبد الرشید صاحب بھی موجود تھے انھیں پہلی بار قریب
سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، سر گودھا کی تاریخ پر ان کی تحریر کردہ کتاب سے
میَں استفادہ کرچکا تھا۔
جامعہ سرگودھا سے میری واپسی ایک ماہ قبل ہی طے ہوچکی تھی،کنٹریکٹ کے مطابق
میَں نے ایک ماہ قبل انتظامیہ کو مطلع کردیا کہ ۲۸ فروری ۲۰۱۱ء جامعہ میں
میرا آخری ورکنگ ڈے ہوگا، ایسا ہی ہوا، یہ بات عام ہوئی کہ میَں جامعہ چھوڑ
کر جارہا ہوں تو میرے کرم فرماؤں نے مجھے روکنے کی کس کس طرح کوشش نہیں کی،
میرے دل میں ان سب کے لیے بہت احترام ہے، میرے عزیز طلباء نے اجتماعی طور
پر اورفرداًفرداً مجھ سے کہا کہ میَں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کروں ، میَں
ان سب کو اپنی مجبوریاں بتا تا رہا، میرے بعض طلباء نے پروگرام بنا یا کہ
وائس چانسلر صاحب کے پاس جاکر احتجاج کیا جائے ، یہ بات میرے علم میں آئی
تو میَں نے ان طلباء کو بہت سمجھا یا اورانہیں ایسا نہ کرنے کی تاکید کی،
یہ مجھ سے محبت تھی، جمعے کی نماز میں وائس چانسلر صاحب کے پی اے مقصود
صاحب سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس بعض لوگوں کے فون آئے
ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم صمدانی صاحب کو نہ جانے دیں اور ان کی خواہش کے
مطابق انھیں فیمیلی رہائش فراہم کریں، یہ میرے چاہنے والوں کی مجھ سے محبت
تھی، احمد شاہ صاحب جو لائبریری میں تھے انھوں نے بھی مجھے بار ہا فیصلہ پر
نظر ثانی کرنے کی درخواست کی، جب میَں نے انھیں اپنی مجبوری بتائی تو وہ
مجھے سرگودھا شہر میں کئی مکان کرائے کے دکھانے کے لیے لے گئے، میَں ان کی
اس محبت کو کبھی نہ بھلا سکوں گا، میَں نے وائس چانسلر صاحب کے پی اے سے
کہا کہ یہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی مجھ سے چاہت ہے، میَں اس کی قدر کرتا
ہوں، میرا نوٹس پیریڈ چل رہا تھا،انھی دنوں وائس چانسلر صاحب اچانک
لائبریری اور شعبے میں آگئے، فاضل صاحب چھٹی پر تھے اور میَں قائم مقام
چیٔر مین تھا، وائس چانسلر صاحب نے شعبے کے مختلف حصے اور وہ کمرے دیکھے جو
میڈیکل کالج کے لائبریری بلڈنگ سے منتقل ہوجانے کی صورت میں خالی ہوئے تھے،
میَں وائس چانسلر صاحب کو تفصیل بتا تا رہا، وائس چانسلر صاحب کے علم میں
یہ بات تھی کہ فاضل صاحب چھٹی پر بہاولپور گئے ہوئے ہیں۔ جب وائس چانسلر
صاحب واپس جانے کے لیے لائبریری سے باہر آئے تو میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف
لے گئے، کہنے لگے ۲۸ فروری کو آپ جارہے ہیں، اگر آپ رہائش کی وجہ سے جارہے
ہیں تو ہم آپ کو رہائش فراہم کردیتے ہیں، پھر انھوں نے اپنے پی اے کو اشارہ
کیا اور کہا کہ صمدانی صاحب کو رہائش فراہم کریں،جب وہ یہ سب کچھ کہہ چکے،
میَں نے احترام سے عرض کیا کہ سرمجھے بعض مجبوریوں کے باعث جانا ہی ہوگا،
آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میَں جامعہ میں آسکا، آپ
کی اس عنایت کا بھی شکریہ۔
جامعہ سرگوھا کے شعبہ اردو نے سر گودھا جیسے شہر میں عالمی اردو کانفرنس کا
انعقاد کیا، جس میں پاکستان ہی نہیں ‘ ہندوستان، بنگلہ دیش ، مصر، امریکہ
سے دانشوروں نے بھر پور شرکت کی۔ کراچی سے سحر انصاری اور جامعہ کراچی کے
ڈاکٹر ظفر اقبال نے شرکت کی، ان احباب سے ملاقات بھی ہوئی، سرگودھا کہنے کو
تو شاہینوں کا شہرہے ‘لیکن عوام الناس کے لیے ائیر پورٹ کی سہولت سے محروم
ہے، یہاں پہنچنے کے لیے اسلام آباد ، لاہور، فیصل آباد سے تین گھنٹے کی
مسافت طے کر نا پڑتی ہے۔اس مشکل کے باوجود عالمی اردو کانفرنس میں مندوبین
نے بھر پور شرکت کی، مجھے بھی اس کانفرنس میں شریک ہونے کاموقع ملا،کئی
سیشنز ہوئے جن میں ماہرین نے مقا لات پیش کیے، مشاعرہ بھی ہوا، شاعروں نے
خوبصورت کلام پیش کر کے داد وصول کی۔پروفیسرڈاکٹر محمد اسلمؔ انصاری کے دو
خوبصورت شعریاد رہ گئے
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہر ا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھُلا یا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تونے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
میں پیدائشی بیماری کی پوٹلی رہا ہوں، پیدا ہونے کا وقت نزدیک آیا تو دائی
نے اعلان کیا کہ نو مولود کو الٹا پیدا ہونا ہے ، اس اطلاع نے دو زندگیوں
کو خطرے میں ڈال دیا، خوشی افسردگی میں بدل گئی، لوگ خوشی کے ترانے گانے کے
بجائے دو زندگیوں کی دعا کرنے لگے۔گویا دنیا میں آنے سے پہلے ہی میَں نے یہ
کارنامہ انجام دیا کہ اپنی ماں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔ا ﷲ نے دونوں
زندگیوں کو سلامت رکھا اور میَں اس دنیا میں آگیا۔یہ تھا دنیا میں میری
زندگی کا آغاز ۔ زندگی کے اس طویل سفر میں مجھے متعدد بار مختلف بڑی
بیماریوں نے آدبو چا ،نوبت اسپتال میں داخل ہونے اور سرجری کی آگئی ، اﷲ کے
فضل و کرم سے میَں ہر بار صاف بچ نکلا۔ گویا مجھ پر اﷲ کا خاص کرم بھی رہا
اور میری ماں کی
دعائیں بھی میرے شامل حال رہیں۔بقول سورج نرائن
غموں کی دھوپ مجھے راکھ کس طرح کرتی
میں اپنی ماں کی دعاؤں کے سائباں میں تھا
میَں منتوں اور مرادوں سے تو نہیں ہوا تھا البتہ اپنے والدین کی پہلی اولاد
تھا،یعنی پہلوٹھی کا تھا۔ بتانے والوں نے بتا یا کہ ابھی میں نے چلنا بھی
شروع نہیں کیا تھاکہ میرے بدن پر آبلے نمودار ہوگئے،امی نے بتا یاتھا کہ
ہمارے ہی خاندان کی کسی مہربان نے جو اولاد سے محروم تھی کچھ کارستانی مجھ
پر کرادی تھی، ایک دن میری بنیان خون میں لت پت ملی، کسی بڑی بزرگ کے کہنے
پر امی نے اس بنیا ن پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا دی، امی نے بتا یا کہ
جیسے جیسے وہ بنیان جل رہی تھی اور شعلے فضا میں بلند ہورہے تھے،ساتھ ہی
میرا بدن آبلوں سے بھر تا جارہا تھا۔اس بیماری نے مجھے اور میرے والدین کو
کافی عرصے مشکل میں مبتلا رکھا، ڈاکٹر ی علاج کے ساتھ ساتھ روحانی علاج بھی
ہوا تب جاکر مجھے اس بیماری سے نجات ملی،اس بیماری کی باقیات آج بھی میرے
بدن پر موجود ہیں۔اﷲ تعالیٰ کسی کو بلاوجہ پریشانی میں مبتلا کرنے والوں کو
نیک ہدایت دے۔ عام طور پر بچے ایک سال کی عمر میں کھڑا ہونا یا قدم اٹھانا
شروع کردیتے ہیں کہتے ہیں کہ میَں دو سال کا ہوگیا تھا قدم اٹھ کر ہی نہیں
دے رہے تھے، گمان گزرا کہ کہیں پیروں کی کوئی تکلیف تو نہیں،اصلی گھی کی
خوب خوب مالش کی گئی تب جاکرمیرے قدم اُٹھے۔کوئی سات آٹھ سال کا ہوا تو
کانوں میں تکلیف شروع ہوگئی، بہت علاج ہوا لیکن افاقہ نہیں ہوا، ڈاکٹر نے
آپریشن تجویز کیا، سول اسپتال میں ایک ڈاکٹر جاننے والا تھا اس کے توسط سے
آپریشن ہوا، تب جاکر اس مرض سے نجات ملی۔ بواسیر کا مرض لاحق ہو گیا، اس کا
ڈاکٹری علاج کے ساتھ روحانی علاج بھی ہوا ، تب اس مرض سے نجات مل ،بڑا ہوا،
گردے میں پتھری ہو گئی پھر مثانے میں پتھری ہوگئی،عباسی شہید اسپتال میں
ڈاکٹر انور سہیل کے توسط سے کیتھیڈر پاس کر کے پتھری کو باہر نکالنے کی
تدبیرکی گئی لیکن پتھر نے باہر آنے سے صاف انکار کردیا ، پھر آپریشن کی
تاریخ طے ہوئی ،پتھرخوف سے خود بہ خود باہر آگیا۔ اگست ۱۹۸۲ء کی بات ہے
مجھے فسچیو لا (Fistula)ہو گیا، آپریشن ہوا، کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اسپتال میں
جو کیماڑی میں ہے آپریشن ہوا، ڈاکٹر رضا نے یہ آپریشن کیا، میَں کوئی ۱۹ دن
اسپتال میں رہا،مجھے یہ سہولت مغیث چچا کی وجہ سے میسر آئی، اس وقت وہ کے
پی ٹی میں ملازم تھے اور وہاں کی یونین میں سرگرم عمل بھی، یہ وہ وقت تھا
جب حمیرا چچی حیات تھیں، اسپتال کے نزدیک ہی وہ رہا کرتے تھے ،دونوں نے
میرا بے انتہا خیال رکھا، اﷲ تعالیٰ حمیرا چچی کی مغفرت فرمائے، بہت نیک
اور ہمدرد خاتون تھیں۔
پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کے دوران میَں رات دن کمپیوٹر پر کام کرتا رہا ،
کام تو ہوگیا،ڈگری بھی مل گئی لیکن یہ ڈگری مجھے تحفے میں کمر کی تکلیف دے
گئی، اب میں کمر کے مہروں کی تکلیف میں متبلا ہوچکا تھا،ہر طرح کا علاج ہوا
لیکن یہ تکلیف میری زندگی کی ساتھی بن چکی ہے۔ میَں ان بیماریوں سے بچتا
بچاتا ،زندگی کے نشیب و فراز سے ہوتا ہوا عمر کے ۶۳ ویں سال میں پہنچ
گیا،مارچ ۲۰۰۹ء میں کالج کی ملازمت سے ریٹائر ہوکر ایک سال سرگودھا
یونیورسٹی میں پڑھا کر واپس کراچی آگیا ،خیال یہ تھا کہ بہت کمالیا، بہت
ملازمت کرلی، کام بھی بہت کر لیا، لکھنے لکھانے کا عمل جاری رکھوں گا، اﷲ
کے گھر ’خانہ کعبہ‘ حاضری دونگا، اپنے گناہوں کی معافی طلب کر وں گا، سرکار
دو عالم سر ور کائینات حضرت محمد صل اﷲ علیہ و سلم کے روضہ اقدس پر سلام
عرض کرنے مدینہ منورہ جاؤں گا، الحمد اﷲ یہ سب کچھ ہوا، آج یہ تحریر میں
سعودی عرب کی سرزمین پر ہی لکھ رہا ہوں لیکن یہاں حاضری سے قبل مجھ پر کیا
گزری ، میرے دل نے میرے ساتھ کیا تماشا کیا، یہ قصہ دلچسپ بھی ہے، سبق آموز
بھی،اس میں مزہ بھی ہے ، سنجیدگی بھی، اﷲ پر بھروسا اور ایمان کی مثال بھی۔
میَں دردِجگر، دردِ کمر کے ساتھ ساتھ دردِ ددل کا مریض بن
چکا ہوں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا
ایک دکھ ہو تو کوئی اس کا مداوا بھی کرے
دردِدل ، دردِ جگر، دردِ کمر تینوں ہیں
میَں کالج کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد ۱۱ مئی ۲۰۰۹ء کوجامعہ
سرگودھا سے منسلک ہوگیا،میرے سرگودھا چلے جانے کے ایک ماہ بعد ہی میرے بڑے
بیٹے عدیل نے خوش خبری سنائی کہ اس کا بلا وا سعودی عرب سے آگیا ہے، کچھ دن
بعد میری بڑی بہو مہوش اور پوتا بھی سعودی عرب چلے گئے، ابھی چند ماہ ہی
گزرے ہوں گے کے شہناز نے اطلاع دی کہ نبیل کو سعودی عرب سے ملازمت کا
پروانہ آگیا ہے اور وہ دونوں یعنی نبیل اور ثمرا نے بھی رخت سفر باندھا ،
میَں دونوں کو الودع کہنے کراچی آتا رہا۔ اب میرا گھر میرے بچوں سے خالی
ہوچکا تھا، بیٹی کی شادی تو کئی سال قبل ہی ہوچکی تھی۔اب دونوں بیٹوں کی
جانب سے تقاضا ہوتا رہا کہ ہم دونوں سعودی عرب آجائیں، ہم نے جانا تو تھا
ہی اب ہمارے جانے کی صورت بدل گئی تھی۔ میَں مارچ ۲۰۱۰ء کوسر گودھا سے
مستقل کراچی واپس آگیا۔اب مجھے کسی بھی وقت سعودی عرب جانا تھا، ویزے کا
انتظار تھا، تیاریاں شروع ہوچکی تھیں، دوسری جانب میرا دل اندر ہی اندر
تماشا کرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا، اپریل ۲۰۱۰ء کے پہلے ہفتے میں اچانک
میرے الٹے ہاتھ میں درد ہوا، جس نے شدت اختیار کرلی، نوبت عام ڈاکٹر سے
کارڈک سینٹر تک پہنچ گئی۔ ۱۲ اپریل کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈزیزز(KHID)
اسپتال میں داخل ہوا،پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق نے انجو گرافی (Angiography)
تجویز کی ،اگلے ہی دن میَں آپریشن ٹیبل پر تھا، میرے دائیں جانب ڈاکٹر اور
دیگر عملہ اپنے تمام تر ساز و سامان کے ساتھ ہرے رنگ کے ایپرن اور ٹوپی
پہنے مجھ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کررہے تھے، میرے بائیں جانب اوپر
اسکرین لگی تھی، اس کے نیچے ایک کمپیوٹر رکھا تھا ،پیرا میڈیکل اسٹاف نے
میری دائیں ٹانگ کے اوپر کی جانب سے کارستانی شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے
ان کا پاس کیا ہوا کیتھیڈرمیرے دل میں پہنچ گیا، اوپر اسکرین پر میرا دل
واضح طور پر لشکارے مار رہا تھا، مشکل سے پندرہ منٹ بعد کام تما م ہوا،
مجھے آپریشن بیڈ سے اسٹریچر پر منتقل کردیا گیا، رپورٹ یہ دی گئی کہ دل کی
ایک شریان بند ہے ، فوری طور پر انجو پلاسٹی (Angioplasty) کرکے شریان
Arteryمیں ا سٹینٹ (stent)ڈالنے کی ضرورت ہے، میرے تینوں بھائی اور مغیث
چچا جو آپریشن تھیٹر کے باہر موجود تھے انہوں نے ڈاکٹر کو گرین سنگنل دے
دیا، کچھ دیر بعد مجھے دوبارہ آپریشن ٹیبل پر منتقل کردیا گیا،وہی عمل پھر
سے شروع ہوا، اس بار کیتھڈر کے ذریعہ اسٹینٹ بند شریان تک پہچاناتھا،ڈاکٹر
کے ہاتھ میری دائیں ران پر حرکت کرتے محسوس ہورہے تھے جب کہ اس کی نظریں
اُسی اسکرین پر تھیں ، میَں بھی اپنے دل اور اس کے اندر ہونے والی کیفیت کو
مسلسل دیکھ رہاتھا۔ بیچ میں ایک وقت ایسا آیا کہ میرے دل میں شدید درد ہونے
لگا، میری شکایت پر ایک نرس نے میری زبان کے نیچے اسپرے کیا، جس سے درد
فوری طور پر ختم ہوگیا، اس بار یہ عمل آدھے گھنٹے کا تھا، ڈاکٹر محمد اسحاق
نے یہ عمل کیا، اس طرح آناً فاناً میں میَں عام انسان سے کارڈک پیشنٹ بن
گیا۔ہندوستان کے ایک شاعر اقبال اشعر کا
ؔخوبصورت شعر
وہ شخص ایک لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا
جسے تراش رہا تھا میں ایک زمانے سے
بیماریوں کے حوالے سے اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ
میری پوری زندگی بیماریوں سے لڑتے جھگڑتے ہی گزری لیکن یہ بھی نہیں کہ ان
بیماریوں نے مجھے کچھ کرنے نہیں دیا ، میَں نے اپنی ز ندگی بھر پور انداز
سے گزاری، بیماریاں آتی رہیں اور علاج
کے بعد میَں نارمل لائف شروع کردیا کرتا تھا
عمر توبیماریوں سے کھیلتے ہی گزری اپنی رئیسؔ
ایک دل ہی بچا تھا سو وہ بھی کرلے کسر پوری
دل کی تکلیف کیوں ہوئی؟ میَں تو عام زندگی میں بہت محتاط رہا تھا، خوش
خوراک بھی نہیں ہوں، مرغن کھانے بھی نہیں کھائے، پھر میرے دل کو یہ کیا
ہوا، کیوں اس نے اس عمر میں مجھے پریشان کیا، یہ راز اﷲ کے سوا کسی کو نہیں
معلوم، بیماری بھی اﷲ کی طرف سے آیا کرتی ہیں، لگتا یہی ہے کہ مجھ سے ہی
کوتاہی ہوئی اور میَں ہی اس کی صحیح دیکھ بھال نہ کرسکا ، بہ قول سیماب
اکبر آبادی
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
دل کی بیماری بھی کیا خوب ہوتی ہے، ہر دم ہر لمحے اسی کے خیال میں گم،
انسان ایک ایک قدم احتیاط سے اور پھونک پھونک کر اٹھانے لگتاہے، اس کی سوچ
کا محور وہ از خود ہو کر رہ جاتا ہے۔ جس لمحے دل ذرابے چین ہوتا ہے دنیا کی
ہر شے بیمار محسو س ہونے لگتی ہے۔یہی صورت میری بھی ہے،لیکن یہ دل ہی تو ہے
جو مجھے جینے کا حوصلہ دیتاہے، مجھ سے یہ کہتا ہے کہ انسان کے تمام اعضاء
بیمار ہوسکتے ہیں تو دل کیوں نہیں ، تمہارے ساتھ تو یہ ہوچکا ہے، کیا
تمہاری آنکھیں آج بھی وہی ہیں ، کیا تمہارے کان خراب نہیں ہوئے، کیا تمہیں
پتھری کی تکلیف نہیں ہوئی، کیا تم بواسیر کے مرض میں مبتلا نہیں ہوئے، کیا
تمہاری کمر نے تمہارا ساتھ نہیں چھوڑا، اب اگر میں کمزور پڑ گیا ہوں،تو اس
میں میرا کیا قصور ہے، میں بھی تو آخر تمہارے جسم کا ایک ادنیٰ ساعُضوہوں،
میں نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا ہے، تمہیں حوصلہ دیا ہے، تمہیں برائی سے، غلط
کاموں سے بچائے رکھا ہے،تمہیں بہکنے سے بچا ئے رکھا ہے، اب میں بھی تمہاری
طرح چونسٹھ برس کا ہوگیا ہوں، میرے اعصاب بھی کمزور پڑ چکے ہیں، مجھے بھی
سہارے کی، حوصلے کی ضرورت ہے، چلو اب ہم مل کراﷲ کا شکر ادا کریں، اﷲ ہمیں
ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے اور ہم اپنی باقی ماندہ زندگی کو حوصلے اور ہمت
کے ساتھ گزار دیں۔ رضی اختر شوق نے کیا خوب کہا ہے
یہ کیا اس دل کو بیماری لگی ہے
لگے ہے شہر سب بیمار ایسا
میَں فلاحی، سماجی ، نیم سیاسی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ہمیشہ سرگرمی
سے حصہ لیتا رہا ہوں، سرکاری ملازمت سے قبل سیاست میں بھی سرگر می سے حصہ
لیا، فلاحی ادارے تاج ویلفیئر سینٹر کے پرچم تلے بے شمار فلاحی کام کیے،
کالج میں ملازم ہوجانے کے بعد پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،
پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن سندھ کا صدر، سیکریٹری کی حیثیت سے کئی سال
مصروف عمل رہا، پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کا ۱۹۷۴ء سے سرگرم کارکن
ہوں، اسکول آف لائبریرین شپ کے تحت سرٹیفیکیٹ کورس سے مسلسل منسلک رہا ۔ اب
اس کا ڈائریکٹر ہوں، لائبریری پروموشن بیورو کے تحت کتابوں کی اشاعت اور
رسالے کی تدوین و اشاعت کا فریضہ بھی ۱۹۷۸ء سے انجام دے رہا ہوں، بزم اکرم
، سندھ پروفیسرز ایند لکچرر ایسو سی ایشن کا کارکن ہی نہیں رہا بلکہ سندھ
کی سطح پر کئی سال الیکشن آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا رہا۔فلاحی،
ادبی ، ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کرنے میں پیش پیش رہا ہوں۔
خاکے میں عام طور پر خاکہ نگار شخصیت کی شکل وصورت کے بارے میں یہ بھی
بتاتا ہے کہ چہرہ کتابی ہے یا گول ، نقشہ پتلا ہے یا نقوش تیکھے ہیں ،
داڑھی ہے توکیسی ہے،پیشانی کشادہ ہے یاآنکھوں سے لگی ہوئی ہے ، آنکھوں میں
سوجھ بو جھ کی چمک ہے یا وہ کوری ہیں ، ناک ستواں ہے یا پھیلی ہوئی ، بال
کالے گھنے ہیں یا چٹیل میدان ہے، رنگ کالا ہے یا گورا، قد لمبا ہے یا
چھوٹا،جسم فربا ہے یا سیخ سلائی ، مقصد شخصیت کے ظاہری نقوش کی تصویر کشی
ہوتی ہے تاکہ پڑھنے والوں کو اندازہ ہوسکے کہ زیر مطالعہشخصیت چہرے مہرے سے
کیسی ہے۔تو جناب اپنی شکل وصورت بس گزارے لائق ہے،غالبؔ کا یہ شعر ہی کافی
ہے
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
میَں اعتدال پسند واقع ہوا ہوں، کبھی اپنی بساط سے بڑھ کر کوئی خواہش نہیں
کی، ہمیشہ چادر کو دیکھ کر پیر پھیلا ئے ہیں، سادہ زندگی بسر کی ہے، فلیٹ
خریدنے کی استعداد تھی سوفلیٹ ہی میں رہا، گاڑی کبھی بہت اچھی نہیں رکھی
مہران پر اکتفا کرتا رہا، جب تک صحت اچھی تھی موٹر سائیکل استعمال کرتا
رہا،زندگی کا زیادہ سفر موٹر سائیکل پر ہی بسر ہوا، میری شریک سفر بھی
قناعت پسند اور میری ہم خیال ہیں،انھوں نے ہمیشہ میری خوشیوں کا خیال رکھا،
میری سوچ اور خواہش کو ترجیح دی، میرے بچوں نے بھی مجھ سے کبھی ایسی فرمائش
نہیں کی جو میرے بس میں نہیں تھی ،میرے بیٹے عدیل اور نبیل میری سوچ کے
مطابق میرے ہم قدم رہے، تعلیم حاصل کی اور ا پنے پیروں پر کھڑے ہوگئے۔میری
دونوں بہوؤیں مہوش اور ڈاکٹر ثمرا سادگی پسند ہیں ، کم کو زیا دہ جانتی
ہیں، میری بیٹی فاہینہ بھی صابر اور قناعت پسند ہے،تھوڑے کو بہت جانتی ہے،
شادی عاصم مشکور سے ہوئی، خوش و خرم ہیں، عاصم ایک خود دار اور محنت کرکے
آگے بڑھنے والوں میں سے ہے، میری نواسی نیہا، نواسہ ارحم اسکول جانے لگے
ہیں۔ میرا پوتا صائم میری جان ہے، اسے دیکھ کر میری روح خوش ہوتی ہے،اﷲ
تعالیٰ ان سب کی عمر دراز کرے۔
میرے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر نبیل کو اﷲ تعالیٰ نے ایک پھول عطا کیا تھا، میَں نے
اس کے کانوں میں آزان بھی دی اور اس کا نام محمد سبحان تجویز کیا۔ افسوس
میرا یہ پوتا صرف چھ دن دنیا میں رہ کر دینا سے رخصت ہوگیا۔ مجھے اس کا بہت
ملال اور دکھ ہے۔ معصوم بچے اپنے والدین کی بخشش کا ذریعہ بنے گے۔
زندگی میں جِنّاَت کے حوالے سے بھی تجربات ہوئے، جِن انسانی روپ میں مجھ سے
مخاطب بھی ہوئے، ڈانٹ ڈپٹ بھی کی لیکن نقصان نہیں پہنچایا۔ جِنّاَت کی
موجودگی ٍسے ا نکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اچھے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کو
پریشان کرنے والے بھی، ہماری امی پر ایک جِن صاحب آگئے تھے، کافی پریشانی
ہوئی،اس کی تفصیل میَں نے امی کے خاکے میں تفصیل سے بیان کی ہے۔ یہاں ایک
اور واقعہ بیان کروں گا ۔میرے ایک دوست کی بیوی (وہ بھی پروفیسر ہے ) اس
مشکل سے دو چار ہوئی۔پروفیسرنی صاحبہ کی بعض حرکات ایسی تھیں جن سے یہ ظاہر
ہوتا تھا کہ معاملہ جِنّاَت کے اثر وغیرہ کا ہے۔ اسے کسی عامل کے بارے میں
معلوم ہوا ،سردیوں کا زمانہ تھا میرے دوست نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں
مجھے کسی نے ایک عامل کے بارے میں بتا یا ہے جو ڈیفنس کے پاس کسی کچی بستی
میں رہتا ہے اس کے پاس بیگم کو لے جانا ہے اچھا ہے ایک سے دوہوں گے ، نہ
معلوم کیا صورت ہو، میں تیار ہو گیا، اس کی طبیعت واقعی خراب تھی ، میں اس
کے ساتھ ہو لیا، مغرب کے بعد وہ عامل مریضوں کو دیکھا کرتا تھا، ہم بعد
نماز مغرب وہاں پہنچ گئے۔کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے ان کو فارغ کر نے کے
بعد اس عامل نے پروفیسرنی صاحبہ کو اپنے دائیں جانب بٹھا دیا، اس کے برابر
میرا دوست بیٹھا تھا ، عامل نے تفصیل معلوم کی اور عمل شروع کردیا، خاتون
کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا ،بڑی بڑی آنکھیں باہر کی جانب، ہم سب کوگھور گھو ر
کر دیکھنے لگی، عامل نے یہ محسوس کیا کہ جِن آسانی سے نہیں جائے گا چنانچہ
اس نے اپنے کارندوں کو کوئلے دہکانے کے لیے کہا ، کمرے کی لائٹ مدھم کردیں
، عامل بہت زیادہ موٹے دانے والی تسبیح لے کر کھڑا ہو گیا اور تسبیح پڑھنے
لگا ، اتنے میں کوئلے دھک گئے، عامل نے دھکتے کوئلوں کو ایک مخصوص بر تن
میں ڈال کر پروفیسرنی صاحبہ کی ناک کے نیچے کیا اور ان پر چھوٹی سرخ مرچیں
جن پر اس نے تسبیح پڑھنے کے بعد پھونک ماری تھی کوئلوں پر ڈال دیں، مرچوں
کی دھونی سے ہم سب کا برا حال لیکن وہ خاتون جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا ، اس
عامل نے ایک ہاتھ سے اس کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے مرچوں کی دھونی اس
کی ناک میں زبر دست طریقے سے دی ، کافی دیر کے بعد اس پر کچھ اثر ہوا ،
عامل اس سے مخاطب ہوا ، پوچھا کہ ’بتا تو کون ہے‘؟ مردانہ آواز میں جواب
دیا کہ’ میں جن ہوں‘، تعداد کیا ہے، اکیلا ہوں، اس عورت کو چھوڑدے ، کہنے
لگا کہ یہ میری بیوی ہے میں نہیں جاؤں گا وغیرہ وغیرہ ،عامل نے یہ عمل
دہرایا ، مرچوں کی دھونی نے اس کمرے میں بیٹھے تمام لوگوں کا برا حال کر
دیا تھالیکن وہ عورت اطمینان سے تھی، آخر کار عامل نے ’جن‘ کو جانے پر
مجبور کر دیا ، اس نے جانے کا وعدہ تو کرلیا لیکن فوری طور پر نہیں گیا ،
ہم یہ سمجھے کہ وہ چلا گیا، واپسی کاسفر شروع ہوا، میرا دوست پہلے ہی بیمار
تھا اس صورت حال کے بعد اسے سردی اور بخار ہوگیا، ڈیفنس سے گلشن اقبال تک
کا سفر خاصا طویل تھا، میرے دوست کے لیے گاڑی چلانا ممکن نہیں تھا، اس نے
مجھ سے گاڑی چلانے کے لیے کہا ، یہ کوئی خاص بات نہیں تھی، وہ جب اگلی سیٹ
پر بیٹھنے لگا اور بیوی کو پیچھے سیٹ پر بٹھا نے کے لیے دروازہ کھولا تو اس
کی بیوی نے مر دانہ آواز میں کہا ’’ ہٹو میں آگے بیٹھوں گا‘‘،میں گاڑی
اسٹارٹ کرچکا تھا، میں نے جب یہ جملہ سنا تو میرے ہوش گم ہو گئے میں سمجھ
گیا کہ ابھی وہ یعنی ’جِن ‘ اس عورت میں موجودہے، اب کیا ہوسکتا تھا، میرا
دوست پیچھے بیٹھ گیا، اس کے ساتھ اس کی کوئی۱۲ سال کی بیٹی بھی پچھلی سیٹ
پر تھی، اﷲ کا نام لے کر ہم روانہ ہوئے، وہ عورت نظر نیچی کیے خاموش بیٹھی
تھی، گاڑی میں مکمل خاموشی تھی، میں گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ راز داری کے
ساتھ اس عورت پر نظر رکھے ہوئے تھا، میں بھی یہ چاہتا تھا کہ خاموشی ٹوٹے،
اسی لمحے میرے دوست نے اس کی خیریت پوچھی، شاید وہ بھی چاہتا تھا کہ خوف کا
ماحول خوش گوار ماحول میں بدل جائے ، اس کے بولتے ہی وہ عورت مردانہ آواز
میں چلائی ’’خاموش بیٹھا رہے‘‘ ، اس کے بعدوہ میری جانب مخاطب ہوئی ، کہنے
لگی’’ تو خاموشی سے گاڑی چلا‘‘، میں نے اپنے دوست سے کچھ کہا ، اس کے جواب
میں وہ عورت مردانہ آواز میں مجھ پر برس پڑی، بولی ،’’ خاموش نہیں رہے گا،
ابھی گاڑی سے نیچے پھینک دوں گا‘‘، اس کے اس جملے نے میرے ہوش گم کردیے،میں
اس خوف میں مبتلا ہو گیا کہ اگر اس نے چلتی گا ڑی سے دھکا دے دیا تو کیا ہو
گا، میرے بدن کا ایک ایک رُواں کھڑا تھا، بدن کپکپا نے لگا، وہ یہ جملہ کہہ
کر خاموش ہوگئی، میں بدستور گاڑی چلاتا رہا، جس قدر قرآنی آیات یاد تھیں وہ
تمام مسلسل پڑھتا رہا اور دعا کر تا رہا کہ کسی بھی طرح منزل آجائے، جب ہم
شہید ملت روڈ کے پل پر پہنچے تووہ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی ، کہنے لگی’’ پان
کھلااورسگریٹ پلا‘‘، میں نے جواب دیا کہ میں دونوں چیزیں نہیں استعمال کرتا
اپنے میاں سے کہووہ کھلائے گا، اب تو جناب وہ زور سے دھاڑی کہنے لگی ’سگریٹ
کی دکان پر گاڑی روک ، سنا نہیں تونے، میں نے کہا کہ اچھا دکان آجائے تو
روکتا ہوں لیکن میں نے گاڑی کی اسپیڈ کم نہیں کی، وہ بھی اس کے بعد خاموش
ہورہی، گھر آگیا ، خدا کا شکر ادا کیا، چابی اپنے دوست کے حوالے کی اور
اپنے گھر کی راہ لی۔میرے دوست نے بتا یا کہ وہ رات بھر سوتی رہی، صبح اٹھی
تو اسے ان تمام باتوں کا علم نہیں تھا کہ اس نے رات میں دو مردوں کو کس
قدرخوف میں مبتلا کیا، اس نے بتا یا کہ اس عمل کے بعد اس کی بیوی ٹھیک
ہوگئی۔یہ میری زندگی کا نہ بھو لنے والا واقعہ ہے،جب کبھی مجھے اس کا خیال
آجاتاہے ’ جِن‘ سے ہو نے والی گفتگو تازہ ہو جاتی ہے۔ اس واقعہ سے جِنّاَت
پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا ۔
خطوط نویسی کو ادبی صنف میں ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔ کمپیوٹر اور انٹر
نیٹ کے عام ہونے سے قبل تک خطوط ہی ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنے او
رمعلومات کے تبادلے کا اہم ذریعہ تھے، برقی ڈاک (E-Mail)نے خطوط نویسی کو
تہس نہس کردیا۔ ماضی میں لکھاریوں نے خطوط کے ذریعہ اپنے ادبی جوہر دکھائے،
کتابی شکل میں شائع ہونے والے خطوط ادبی تاریخ میں امر ہوچکے ہیں۔ غالب
علامہ اقبال، شبلی نعمانی ،ابن انشا کے خطوط ادب میں خاص مقام رکھتے
ہیں۔میَں نے جب سے لکھنے کی دنیا میں قدم رکھا ، اس بات کی عملی کوشش کی کہ
میرے نام لکھی گئی ہر ہر تحریر خواہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو محفوظ کرلوں
اور میَں نے ایسا ہی کیا،میرے علمی ذخیرہ میں ایک ہزار کے قریب خطوط محفوظ
ہیں، یہ خطوط و تحریریں تمام طرح کے احباب کی ہیں جن سے میرا خط کتابت کا
تعلق رہا۔بعض اہم شخصیات جن کے خطوط میرے نام آئے اور وہ میرے پاس محفوظ
ہیں ان میں حکیم محمد سعید، ڈاکٹرعبد المعید، ڈاکٹر انیس خورشید، محمد عادل
عثمانی، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری، الحاج محمد زبیر، میاں الطاف شوکت اور
دیگر شامل ہیں۔
اپنی تلاش کی یہ کوشش کس حد تک کامیاب رہی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ
سکتا، کوشش کی ہے کہ اپنی زندگی کی کہانی کو اختصار سے خاکے کی صورت میں
قلم بند کر سکوں تاہم بعض موضوعات طویل ہوگئے انہیں مختصرکر نے سے بات مکمل
طو پر واضح نہ ہوپاتی،بہت سی باتیں ذہن سے محو ہو چکی ہیں۔اپنی تلاش کی
کوشش میَں نے اپنے سعودی عرب میں قیام کے دوران ہی کی، جس کی بنیادی وجہ
وقت اور کراچی کے ہنگاموں اور روز مرہ کے معمولات اور جھمیلوں سے بے فکری
تھی، آخر میں اپنی روداد حیات کو سیماب اکبر آباد کے اس شعر پر ختم کرتا
ہوں
مری روداد‘ رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اُسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
جدہ، سعودی عربیہ۲۳اکتوبر ۲۰۱۱ء، مطابق ۲۵ ذیعقد ۱۴۳۲ھ
(مصنف کی کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ ۲۰۱۲ء میں شامل) |