کتاب‘ زندگی کا اہم ترین لازمہ اور لوازمہ ہے۔ یہ جہاں
انسان کی زندگی کے تجربات کا تحریری ریکارڈ ہے‘ وہاں اس کے مختلف شعبہ ہا
میں رویوں اور اختیاری حکمت عملی کو‘ بھی واضح کرتی ہے۔ اس کی کامیابیوں
اور ناکامیوں کی وجوہ کی بھی‘ نشان دہی کرتی ہے۔ جو قومیں کتاب دوست ہوتی
ہیں‘ ان کی فکر میں فراخی آتی چلی جاتی ہے۔ فراخ فکر کی حامل قومیں‘ زندگی
کو بہت کچھ مہیا کرتی ہیں۔ ان کی ترقی کا دائرہء اثر‘ پیٹ تک محدود نہیں
ہوتا۔ وہ قومیں‘ آتی نسلوں کو بہت کچھ دے جاتی ہیں۔ آتی نسلیں‘ ان کی تعین
کی ہوئی راہوں سے مستفید ہوتی ہیں اور اپنے سفر کا آغاز‘ جہاں چھوڑا گیا
ہوتا ہے‘ وہاں سے کرتی ہیں۔
پیٹ سے سوچنے والی قوموں کے سفر کا آغاز ہی نہیں ہوا ہوتا‘ اس لیے ان کے دم
توڑنے میں‘ زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہ ہی نہیں‘ ان کی زیست کے آخری لمحے‘ بڑے
تکلیف دہ اور عبرت ناک ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس‘ اول الذکر قومیں‘ زندگی کے
ہر موڑ پر‘ موت کو‘ موت کے گھاٹ پر اتارتی ہیں۔ کامیاب قوموں کے لفظ کاغذ
پر ثبت ہو کر‘ آتے وقتوں میں بھی‘ اپنے ہونے کی گواہی دیتے رہتے ہیں۔ وہ
ناصرف اپنے خطہ کے معاملات کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں‘ بلکہ ان میں عالمگیر
سماج کی‘ کسی ناکسی صورت میں کہانی موجود ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر‘ پیٹ نواز
قوموں کی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے‘ کہ ان کے ہونے کا سراغ‘ غیروں کے ہاں
سے دستیاب ہوتا ہو اور ان کا لکھا سند کا درجہ رکھتا ہو۔
اس قوم کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہو گی‘ کہ اس کے ہیروز اور دشمن
غیر طے کریں اور یہ طے کیا‘ قبولیت کی سند حاصل کر لے۔ ایک ہزار سال کی
چوپڑی‘ تاج محل سی رہائش گاہیں اور دیدہ لباس‘ لفظ سے بڑھ کر‘ قیمتی نہیں
ہو سکتے۔ یہ سب‘ ان کی قومی شناخت کا ذریعہ نہیں بنتے۔ ان کی شناخت لفظ
بنتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ زندہ قومیں‘ ان کی حفاظت کرتی ہیں۔ وہ بھوک
برداشت کر لیتی ہیں‘ لیکن لفظ کو مرنے نہیں دیتیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے‘ کہ
لفظ کی موت‘ ان اپنی موت ہے۔
لفظ آگہی سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ آگہی ہی تو‘ سفر کی سمت اور منزل کا تعین
کرتی ہے۔ لفظ سے پورے وجود کی دیانت داری سے انسلاک اور اس ذیل میں عصبت کی
سطع پر آ جانا‘ خودی کو پا لینے کے مترادف ہے۔ یہ عنصر‘ آتی نسلوں کی خودی
کو بھی‘ ترقی کی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ خودی‘ در حقیقیت ذات کی پہچان ہے
اور ذات میں پوشیدہ خوبیوں اور کمالات کو دریافت کرنا ہے۔ پیٹ کی آگ‘ ذات
میں موجود کمالات تک رسائی حاصل نہیں کرنے دیتی اور شخص کو‘ بندءمفادات بنا
کر رکھ دیتی ہے۔ اس کا سفر ذات سے ذات تک محدود رہتا ہے۔ لفظ کا سفر‘ ذات
کو دریافت کرکے‘ کائنات کی طرف مراجعت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ‘ کائنات اس کی
ذات میں مدغم ہو کر‘ اپنی شناخت کھو دیتی۔ کائنات کی شناخت‘ شخص کی شناخت
سے‘ مشروط ہو جاتی ہے۔ لفظ سے رشتہ ختم ہونا‘ گویا اپنی شناخت سے محروم
ہونا ہے۔ جب شناخت ہی باقی نہ رہے‘ تو اسے کس بنیاد پر قوم کا نام دیا جا
سکتا ہے۔ لفظ سے محرومی یا اس کی حرمت کی پامالی‘ زوال کی طرف پھرنا ہے۔
لفظ کی‘ اس کے مخصوص مروجہ کلچر‘ اس کی تاریخی اور ادبی حیثیت کی حفاظت‘
جہاں شخص انفرادی سطع پر کرتا آیا ہے‘ وہاں اداروں کا کردار بھی‘ بڑی اہم
حیثیت کا حامل رہا ہے۔ اس ذیل میں اداروں پانچ امور انجام دئیے ہیں۔
١- اشخاص کی کتب کو اپنے ذخیرہ میں رکھا ہے۔
٢- اشخاص کی غیر مطبوعہ تحریروں کو‘ تلاش کرکے ان کو کتابی شکل دی ہے۔
٣- تحریروں پر‘ تحقیق اور تنقید کا کام کروایا ہے۔
٤- تحقیق کرنے والوں کو‘ کتب فراہم کرکے‘ ان کے تخقیقی کام کو‘ ممکنہ اور
آسان بنانے میں‘ اپنا کردار ادا کیا ہے۔
٥- نئی اور عصری سوچ سے متعلق‘ تحریروں کو شائع کرکے‘ لفظ کو عصری مفاہیم
کے ساتھ محفوظ کرکے‘ لفظ کو اس کے عہد میں مخفوظ کیا ہے۔
برصغیر میں‘ لفظ کی حفاظت میں‘ ادارے اپنا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ لٹ پٹ
کے‘ آیے دن کے عمل کے باوجود‘ برصغیر کبھی تہی دست نہیں رہا۔ آج بھی‘
سیکڑوں ادارے‘ لفظ کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان اداروں کی‘
اس کارگزاری کا اگر جائزہ کیا جائے‘ تو مایوسی نہیں ہو گی۔ اس ذیل میں صرف
ایک ادارے کی کارگزاری بطور نمونہ درج کر رہا ہوں۔
گورنمنٹ اسلامیہ کالج‘ قصور بہت پرانا نہیں۔ یہ ١٩٥٦ میں قیام میں آیا۔ اس
کے پہلے سربراہ پروفیسر غلام ربانی عزیز تھے۔ وہ یقینا ادب اور کتاب دوست
تھے۔ ان کے عہد میں ہی‘ کتب جمع کرنے کا آغاز ہو گیا تھا۔ اکبر راہی‘ کالج
لائبریری کے پہلے انچارج تھے۔ ان کے دور کی کتب دستیاب ہیں۔ کتب کا اندراج‘
کتب بر نمبر شمار اور متعلقہ معلومات کا اندراج‘ اس عہد کے سلیقے کے مطابق
موجود ہے۔ پاک بھارت جنگوں میں‘ نقصان ہوا‘ تاہم نئی عمارت میں کالج کی
شفٹنگ سے‘ لائبریری متاثر ہوئی۔ ابتدا میں کالج کی عمارت مختصر تھی۔ اس لیے
لائبریری کے لیے بھی‘ جگہ حصہ کی آئی۔ یہ پہلے سٹاف روم سے گھومتی پھرتی‘
موجودہ عمارت میں چلی آئی۔ اکبر راہی کے بعد‘ محمد بلال اور ان کے بعد محمد
آفاق بطورلائبریری انچارج فرائض انجام دیتے رہے۔
موجودہ لائبریرین‘ محمد یونس انصاری کالج ہی کے گولڈ میڈل لسٹ طالب علم ہیں
اور اکتوبر ١٩٩٦ سے‘ لائبریری کے امور انجام دے رہے ہیں۔
پروفیسر راؤ اختر علی نے‘ جہاں کالج کے دیگر امور سے دل چسپی لی ہے‘ وہاں
لائبریری کو بھی اپنی خصوصی توجہ میں رکھا ہے۔ اس کی بہتری اور تزئین و
آرائش کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ وہ باقائدگی سے لائبریری کے امور کو
نپٹاتے رہتے ہیں۔ اس کی صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ‘ ٹائلنگ کا کام بھی کیا
گیا ہے۔ ٹائلنگ پر پانچ لاکھ سے زائد خرچ کیا گیا۔ ٢٠١١-١٢ میں پانچ لاکھ
سے زائد کا فرنیچر خریدا گیا۔ پنکھے اور مناسب روشنی کے انتظام پر الگ سے
خرچ کیا گیا۔ دو ہال کو نام دیے گیے۔ ایک حال کو علامہ سعید ہال‘ جب کہ
دوسرے کو مقصود حسنی ہال نام دیا گیا۔ ہفتے کو اوپن شلف ڈے قرار دیا گیا۔
یہ امور یقینا پروفیسر اختر علی کی علم دوستی اور علم پروری پر دلالت کرتے
ہیں۔ جناب محمد یونس انصاری بھی محنت اور کوشش کے حوالہ سے تحسین کے مستحق
ہیں۔
موجودہ لائبریری میں
١٥ لوہے اور لکڑی کی الماریاں ہیں۔
٧٥ آرم جبکہ ١١٠ سٹوڈنٹ چیرز ہیں۔
١٧ بڑے چھوٹے میز ہیں۔
٢١ ریفرنس اور سرکولیشن ڈیسک ہیں۔
٣ کمپیوٹر ہمہ وقت مصروف کار رہتے ہیں۔
فی میل اور میل طلبا کے لیے‘ الگ الگ ریڈنگ روم ہیں۔ محمد آصف خاں‘ طلبہ
وطالبات کی خدمت کے لیے موجود رہتے ہیں۔ اس ذیل میں کسی قسم کی کوتاہی نظر
انداز نہیں کی جاتی۔
ریسرچ اسکالرز کے لیے الگ سے کمرہ مخصوص ہے۔
کمپیوٹر شیکشن میں‘ علی رضا کام کرتے ہیں۔ وہ اس میں ممکنہ مہارت کے حامل
ہیں۔ کتب دینے کا کام محمد اکرم کرتے ہیں۔ معراج دین عملے کی خدمت‘ صفائ
ستھرائی کے علاوہ‘ کتب کے بارے اچھی خاصی معلومات رکھتے ہیں۔ انہیں ایک ایک
کتاب کے بارے میں معلوم ہوتا ہے‘ کہ وہ کہاں پڑی ہے۔ اب تک یعنی پچھلے دو
سالوں میں ٥٤٧٥ کتب کمپیوٹررایزڈ ہو چکی ہیں۔
لائبریری میں تین ہزار سے زائد ریفرنس بکس ہیں۔ان میں انسکلوپیڈیز اور لغت
معنی سے متعلق کتب ہیں۔
اسلامی ادب میں‘ دنیا کی تمام معروف تفاسیر اور سیرت سے متعلق کتب موجود
ہیں۔
اردو‘ انگریزی‘ ریاضی اور اکنامکس سے متعلق کتب کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود
ہے۔ ان میں‘ جدید ترین کتب شامل ہیں۔
لائبریری میں ٢٧٧٧٥ کتب خرید کی گئیں۔
عطیہ میں ٢٥٧٥ کتب موصول ہوئیں۔
علامہ محمد سعید عابد ٢٠٠٠ کتب لائبریری کو ڈونیٹ کر گیے تھے۔
ہانچ ہزار سے زائد‘ ریسرچ اسکالرز‘ اس لائبریری سے استفادہ کر چکے ہیں‘ جب
کہ ١٥٠ کتب کا روزانہ لین دین ہوتا رہتا ہے۔ ان دنوں‘ کالج کے ہر شعبے سے
متعلق‘ متعدد اساتذہ‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان سب کا‘ کالج
لائبریری سے روزانہ واسطہ رہتا ہے۔ اتنی کثیر آمد ورفت کے باوجود‘ فرش صاف
اور چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جالا اور گرد و غبار ڈھونڈھے سے نہیں ملتا ہے۔
دیکھنے والا اسے‘ کوئی فوجی لائبریری سمجھتا ہے۔ محمد یونس انصاری بتا رہے
تھے‘ کہ پنجاب یونیورسٹی والوں نے‘ اسے پنجاب کی صاف ستھری لائبریری قرار
دیا۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے‘ کہ اگر اہل اقتدار کتاب گاہوں پر توجہ دیں‘
تو آتی نسلوں کو‘ ناصرف تریبیت یافتہ بنایا جا سکے گا‘ بلکہ کتابی صورت میں
اچھا خاصا موجودہ عہد کے معاملات کا‘ ذخیرہ میسر کیا جا سکے گا۔ |