پرانے وقتوں میں عاشق اپنے معشوق
کو جب دل کا حال بتانا چاہتے تھے تو ان کے لئے بہت مشکلات ہوتی تھیں،
خواتین (جو عام طور پر معشوق ہوتی تھیں) وہ گھروں سے کم کم باہر نکل سکتی
تھیں کیونکہ ان زمانوں میں نہ سکول تھے، نہ کالج نہ یونیورسٹیاں چنانچہ
عاشق قسم کے حضرات اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دل کا حال ان تک پہنچایا
کرتے تھے اور اپنا پیار بھرا خط یا ”لو لیٹر“ کبھی کسی بچے کے ہاتھوں اور
کبھی کبوتر کے سہارے اپنے معشوق تک پہنچاتے۔ سائنس نے جیسے جیسے ترقی کی
عاشقوں نے بھی ویسے ویسے اس سے فوائد حاصل کئے اور رفتہ رفتہ زمانے کا ساتھ
نبھاتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق اپنے دل کا حال ڈاک کے ذریعے
پہنچانے لگے لیکن اس میں بھی خطرہ تھا کہ جس کے لئے وہ خط یعنی پریم پتر
لکھا گیا ہے اس کو ملے گا یا کسی ”اور“ کو جو اس عاشق کی عاشقی نکالنے کے
لئے جوابی خط کا نہیں بلکہ ”خط“ بنانے والے ”استرے“ کا استعمال کرنے کو
ترجیح دے۔ عاشقوں کے لئے زیادہ آسانی تب ہوئی جب ای میل اور ایس ایم ایس کا
رواج شروع ہوا۔ ہمارے ملک کے لوگ ہر چیز کا غلط استعمال کرکے ویسے ہی بہت
خوشی محسوس کرتے ہیں، اسی طرح ای میل اور ایس ایم ایس کا بھی کچھ عرصہ پہلے
تک بہت ہی خوبصورت استعمال ہوتا رہا جس کے تحت عاشق اپنے ”یکطرفہ“ معشوقوں
کو پیار بھرے خطوط اور پیغامات ارسال کر کے” ثواب دارین“ حاصل کرتے رہے۔
ایس ایم ایس اور ای میل والا سلسلہ ایسا تھا جس سے حکومت( جو اکثر
پاکستانیوں کی معشوقہ ہی ہوتی ہے) اور اس کے زعماء کے بارے میں بھی کچھ
”زیبا“ اور ”نازیبا“ پیغامات بہت بڑی تعداد میں ارسال کئے جاتے تھے لیکن
بھلا ہو اپنے رحمان ملک صاحب کا جو کافی عرصہ ترقی یافتہ ممالک کی سیاحت
میں گزار چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ حکومتی زعماء کے بارے میں اس طرح کے
”عشقیہ“ خطوط اور پیغامات کیسے روکے جاسکتے ہیں، لہٰذا کچھ عرصہ تک یار لوگ
اشاروں کنایوں میں بات کرنے پر مجبور رہے اور پیغام کے آخر میں نوٹ لکھتے
کہ پابندیوں کو آپ جانتے ہیں اس لئے امید ہے کہ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے اور
کتنی خوشی کی بات ہے کہ اکثر لوگ واقعی ”سمجھ “ بھی جاتے تھے۔ انہی دنوں کی
بات ہے کہ ایک ایسا ہی پیغام ایک دوست کی طرف سے موصول ہوا جس کے آخر میں
ایسا ہی نوٹ شامل تھا اور اس سے اگلا جو ایس ایم ایس آیا وہ کچھ اس طرح تھا۔
”2 قیدی، ایک ڈاکو، قید سات سال، دوسرا عام آدمی، قید 14 سال، جرم؟ ہاں وہی
ایس ایم ایس والا“! چنانچہ امید ہے کہ آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے....!
پاکستانی عاشقوں کا ایک گروپ ایسا بھی ہے جو اعلیٰ حکومتی اور پارٹی عہدوں
پر متمکن خوبصورت خواتین کے ساتھ اکثر و بیشتر پیار بھری ”چھیڑ چھاڑ“ کرتا
رہتا ہے۔ اسی گروپ کے ایک ”نمائندے، مجاہد اور بہادر“ کا ایک تازہ ترین
کارنامہ منظر عام پر آیا ہے اور اخبارات کی زینت بنا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ
سندھ کی صوبائی وزیر ثقافت سسی پلیجو کو محکمہ زراعت کے گریڈ سترہ کے ایک
نوجوان افسر جن کا نام محمد الیاس معلوم ہوا ہے، نے سینکڑوں نہیں بلکہ
ہزاروں ”پیار بھری“ ای میلز ارسال کیں، نہ صرف ای میلز بلکہ اس عاشق نامراد
نے ہر وہ فنکشن اور میٹنگ بھی اٹینڈ کی جس میں سسی صاحبہ شامل تھیں۔ اب
انہیں کون سمجھائے کہ یہ سسی وہ والی ”سسی“ ہرگز نہیں اور نہ ہی موصوف آج
کے دور کے ”پنوں“ ہیں جو اس طرح کی ”حرکات“ کررہے ہیں بلکہ اگر آج کے دور
میں سچ مچ کا پنوں بھی ہوتا تو روزانہ ایک صد ای میلز نہ کرپاتا کیونکہ اسے
آخر اپنی روزی روٹی کی بھی فکر کرنا پڑتی ورنہ آٹے اور چینی کی لائن میں لگ
کر اس کا برا حال ہوجاتا اور وہ عشق کرنا ہی بھول جاتا لیکن موصوف چونکہ
محکمہ زراعت میں گزیٹڈ آفیسر ہیں اس لئے وہ ایسے شوق بصد خوشی پال سکتے ہیں۔
الیاس صاحب شائد سچے عاشق ہیں جنہوں نے آخری محبوبانہ حرکت یہ کی کہ سسی
صاحبہ کو ایسے خطوط بھی ارسال کئے جو انہوں نے اپنے دعوے کے مطابق اپنے خون
سے لکھے تھے (ان کا دعویٰ یہی ہے لیکن آج کے دور میں Test کرکے اس کی حقیقت
بھی معلوم کی جاسکتی ہے کہ واقعتاً ان کا اپنا خون تھا یا کسی بیچارے پرندے
یا ننھے منھے جانور کی جان سے کھیل کر ایسا کیا گیا ) اگر وہ اوراق ( خطوط)
واقعی خون سے تحریر شدہ ہیں تو وہ ہمارے خیال میں ”خونی ورقے“ ہوئے! اور تو
اور وہ روزانہ کی سینکڑوں ای میلز کرنے کے بعد جب سسی صاحبہ کا کوئی جوابی
خط پتر نہ پا کر مایوس ہوئے تو اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور پہنچ گئے
وزیر صاحبہ کے دفتر کہ سو ای میلز کے جواب میں کم از کم ایک ای میل تو
روزانہ ان کا بھی حق بنتا ہے۔ لیکن برا ہو وزیر صاحبہ کے عملے کا کہ انہوں
نے ایک ”ہومیو پیتھک“ اور بے ضرر سے عاشق کو پکڑ کر پولیس کے ہی حوالے
کردیا، بھلا ایسا کرنا کہاں کا انصاف ہے کہ ایک عاشق نامراد (مہربانی فرما
کر نامراد کو ”الف“ کے بغیر مت پڑھا جائے) جو پہلے ہی کسی قسم کا جواب نہ
پاکر مایوس اور دل گرفتہ تھا اسے پولیس کے حوالے کردیا گیا، عاشق کے گھر
والوں کا بیان بھی یہی ہے کہ ان کا معصوم بچہ پولیس کے پاس ہے اور اس کا
موبائل بھی بند ہے جبکہ اس کے برعکس وزیر صاحبہ کا بیان ہے کہ انہوں نے اس
”عاشق“ کو پکڑنے کے لئے پولیس کو ہرگز نہیں کہا اور نہ ہی ایسی سفارش کی
گئی ہے! اس سے پہلے بھی وزیر صاحبہ کی شکایات پر پولیس پوش علاقوں سے بہت
سے نوجوانوں کو گرفتار کرچکی ہے جو انہیں ایسے ہی تنگ کرتے تھے لیکن حیرت
اس بات پر ہے کہ ان نوجوانوں کی شکایت کرواکر انہیں پکڑوایا گیا تھا تو
موجودہ الیاس کی گرفتاری کی سفارش کیوں نہیں کی گئی؟ اگر مدعیہ نے ایسی
کوئی سفارش نہیں کی تو ”بیچارے“ کو پکڑا کیوں گیا اور معطل کیوں کیا گیا؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ وزارت میں موجود کسی اور ”پنوں“ کو یہ حرکت بری لگی
ہو اور اس نے سمجھا ہو کہ اس کا حق مارا جارہا ہے....! میرا دوست اشرف اسی
بارے میں کہتا ہے کہ اگر اسی طرح خوبرو نوجوان وزیرنیاں بھرتی ہوتی رہیں تو
عنقریب ایسی نوبت بھی آجائے گی کہ ”اینٹی نارکوٹکس فورس“، ”اینٹی ٹیررسٹ
فورس“ اور ”اینٹی کرپشن“ کی طرز پر ایسی وزیرنیوں کی حفاظت کے لئے ”اینٹی
ٹھرک فورس“ بھی قائم کرنی پڑ جائے جو نہ صرف وزیرنیوں کی ای میلز وغیرہ پر
نظر رکھے گی بلکہ جلسوں اور جلوسوں میں بھی وزیرنیوں کی حفاظت کیا کرے گی
لیکن ایک بات سے وہ پریشان بھی ہوجاتا ہے کہ اگر اپوزیشن کی خواتین جلسوں
اور جلوسوں میں جائیں گی تو وہاں ان کی بچت کیسے ہوپائے گی کیونکہ پوری
دنیا جانتی ہے کہ جب لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی حرکات تب بھی
مانیٹر کی جاتی ہیں حتیٰ کہ یو ٹیوب جیسی ویب سائٹس پر بھی آجکل کے اعلیٰ
حکومتی عہدیداروں کی ویڈیوز اب تک موجود ہیں جو کبھی اپوزیشن میں ہوتے تھے
اور بڑے زور و شور سے، ہاتھ ہلا ہلا کراور مکے لہرا لہرا کر ”گو مشرف گو“
کے نعرے لگایا کرتے تھے....! |