بدامنی، دہشت گردی، قتل اور غارت
گری کی آکاس بیل قومی زندگی کی نرم و نازک شاخوں سے زندگی کا رس چوس کر
تباہی و بربادی کی پت جھڑ پیدا کررہی ہے، یوں لگتا ہے کہ خوف و دہشت اور بے
یقینی کے ماحول میں زندگی گزارنا اب قوم کا مقدر بن چکا ہے، انجانے خوف، دل
کو ڈرا دینے والے وسوسے اور قلب و روح کو دہلا دینے والے ڈر نے زندگی کا
آرام و سکون چھین لیا ہے، کچھ پتہ نہیں کہ کب کون سے حادثے اور سانحے سے
واسطہ پڑجائے، اور کب کون سی روح فرساء خبر سننے کو مل جائے، حادثات ہیں کہ
سر اٹھائے کھڑے ہیں، صفحہ قرطاس پر وقت تباہی و بربادی کی داستان لکھ رہا
کہ مالاکنڈ، دیر، بونیر، مینگورہ، شانگلہ، باجوڑ تباہی و بربادی کی کہانی
سنارہے ہیں تو سوات سے دیر اور بونیر سے صوابی تک عذاب دربدری اور بے گھری
کے نوحے بکھرے پڑے ہیں ۔
عجب حال ہے کہیں بم دھماکے، تو کہیں خود کش حملے، کہیں دہشت گردوں کی جانب
سے جلسے، جلوس اور عبادت گاہوں پر حملے، تو کہیں قانون نافذ کرنے والے
اداروں اور سیکورٹی فورسز کے ٹھکانوں پر حملے، اب ہماری روز مرہ زندگی کا
معمول بن چکے ہیں، دہشت گردی کے خوں آشام عفریت نے ملک و قوم کی دیوار کو
اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، گاؤں ہو شہر، قریہ ہو یا بستی، صوبہ ہو یا مرکز۔
اب کوئی جگہ ایسی نہیں، جو اِن ناگہانی حادثات سے بچی ہوئی ہو، سارے کا
سارا ملک کرچی کرچی، زخم زخم ہے اور بے گناہ انسانوں کے لہو نے پورے ملک کو
آفت زدہ بنادیا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ شاید پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک
ہے جہاں حجا م اور قصاب تو ناغہ کرسکتے ہیں لیکن بم دھماکوں، بمباروں، خود
کش حملوں اور ڈرون حملوں کا کوئی ناغہ نہیں تو قطعی غلط نہ ہوگا، ادھر ڈرون
حملہ تو ادھر خود کش دھماکہ، کہیں بمباری تو کہیں فائرنگ کا تبادلہ،
اخبارات ہوں یا ٹی وی، خبرنامہ سے زیادہ وحشت نامے کا منظر پیش کرتے ہیں۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی زندگی کے اس خوفناک منظر نامے میں ہمارے
حکمران اور حکومتی ذمہ دار ہیں کہ ایک ہی راگ الاپ رہے ہوتے ہیں’’ہم دھماکے
کی شدید مذمت کرتے ہیں، حکومت نے شر پسند عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے
کا فیصلہ کرلیا ہے، دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا
جاسکتا، حکومت نے سیکورٹی کیلئے فول پروف اقدامات کیے ہیں، مٹھی بھر دہشت
گردوں کے ہاتھوں قوم کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا، آخری دہشت گرد کے
خاتمے تک جنگ جاری رہے گی اور یہ کہ اس قسم کی کاروائیاں دہشت گردی کے خلاف
جنگ لڑنے کے ہمارے عزم پر اثرانداز نہیں ہوسکتیں، وغیرہ وغیرہ ‘‘ روز
بیانات کی پٹاری میں سے عملی اقدامات سے محروم ایک نیا اور تازہ بیان سامنے
آجا تا ہے اور بے یقینی اور مایوسی کی پت جھڑ کو کچھ اور بڑھا دیتا ہے، اب
تو یہ حال ہوگیا ہے کہ امید اور آس کے سارے شجر اپنے پتوں سے محروم ہوتے
جارہے ہیں اور خزاں رسیدہ درختوں کی ننگی شاخیں دہشت گردی کے سورج کی زہر
آلود کرنوں کو نہیں روک پارہی۔
جس کی وجہ سے قومی وجود کے مسام سلگ رہے ہیں، جسم جل رہے ہیں، لیکن دہشت
گردی کا دائرہ ہے کہ پھیلتا ہی چلا جارہا ہے، وطن عزیز کا ہر شخص سہما اور
دبکا ہوا ہے، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے
والا ہے، کون اِن واقعات کا ذمہ دار ہے، وہ کون سی پس پردہ قوتیں ہیں جو
اِن واقعا ت کو بڑھاوا دے رہی ہیں، دہشت گرد کون ہیں، کہاں سے آتے ہیں اور
وہ کون سی سلیمانی ٹوپی ہے جسے پہن کر وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی
آنکھوں میں دھول جھونک کر غائب ہوجاتے ہیں۔
مقام حیرت ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے
مگر آج تک ہمارے کسی انٹیلی جنس ادارے نے اِس حوالے سے کوئی خاص کارکردگی
نہیں دکھائی، بس ہر واقعہ کے بعد وہی رٹا رٹایا بیان سامنے آجاتا ہے کہ
دہشت گرد کا سر مل گیا ہے یا اس کی ٹانگیں مل گئیں ہیں، تفتیش کیلئے خصوصی
کمیٹیاں بنتی ہیں، کمیشن قائم کیے جاتے ہیں، خصوصی فورس تشکیل دی جاتی ہے
اور انسداد دہشت گردی کے سیل بنائے جاتے ہیں، مگر اُس کے بعد کیا پیش رفت
ہوئی۔
قوم آج تک اس حوالے سے ہونے والی تمام تحقیقات سے لاعلم ہے، یوں لگتا ہے کہ
ملک میں ایسا کوئی ادارہ اور قانون نہیں جو مملکت کی جڑی کھوکھلے کرنے والے
اِس کینسر کی روک تھام کرے اور اسے عضو معطل کی طرح کاٹ کر باہر نکال
پھینکے، امن و امان کی غارت گری کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جانے کب تک جاری
رہے گا، کوئی نہیں جانتا، اب تو قوم اس لگے بندھے فارمولے ’’بھیانک ورادات،
رسمی بیانات، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اعلانات اور پھر گہری
نیند کے ایک طویل وقفہ جو دوسری واردات سے پہلے نہیں ٹوٹ پاتا ‘‘ کی تقریباً
عادی ہوچکی ہے ۔
آج وطن عزیز میں امن و امان کی اس گھمبیر صورتحال سے ہر محب وطن پاکستانی
شدید فکر اور اضطراب میں مبتلا ہے، آئے روز کے خود کش دھماکوں نے وہ غیر
یقینی صورت حال پیدا کردی ہے کہ کسی شخص کی زندگی محفوظ نہیں رہی اور یوں
لگتا ہے کہ پورے ملک میں خود کش حملہ آوروں کی فصل بڑھتی چلی جارہی ہے، جس
کے سامنے حکومت کے تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس و لاچار نظر آتے
ہیں، ایک ایسے وقت میں جبکہ دہشت گردوں کے حملوں میں تیزی آگئی ہے ۔
امریکی کمانڈر جنرل پیٹریاس کے ایک سابق مشیر ڈیوڈ کیلون پیش گوئی کررہے
ہیں کہ ’’پاکستان میں جاری مزاحمت کے نتیجے میں پاکستان چھ مہینے میں ٹوٹ
جائے گا‘‘ جس تسلسل اور منظم پلاننگ کے ساتھ ملک میں بے چینی اور مایوسی
پھیلائی جارہی ہے، اس سے صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستان دشمن طاغوتی طاقتیں
پاکستان کا مستقبل کیا دیکھنا چاہتی ہیں ۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ سب کچھ 9/11کی اُسی آسیبی رات میں طے پایا تھا جس
میں عوام کو مکے دکھانے والے ایک فوجی آمر نے اپنے اقتدار کو طول دینے
کیلئے امریکی رعونت کے سامنے سر تسلیم خم کرکے افغانستان پر لشکر کشی کیلئے
اپنا کاندھا پیش کیا تھا، یہی وہ قیامت کی گھڑی تھی جس نے ہمارے مقدر میں
ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی لکھ دی، وقت نے ثابت کردیا کہ ترقی و
خوشحالی کیلئے دکھائے گئے سارے خواب جھوٹے تھے، امریکی عنایات و نوازشات کے
سارے دعوے غلط تھے ۔
آج یہ حال ہے کہ امریکی خوشامد، چاپلوسی اور کاسہ لیسی میں فرنٹ لائن اسٹیٹ
کا کردار ادا کرنے اور امریکی جارحیت کی رضاکارانہ وکالت کے باوجود ہم کسی
بند گلی میں کھڑے ہیں اور ہماری آواز گنبد کی دیواروں سے ٹکرا کر گونج رہی
ہے، چنانچہ اس خطرناک صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈالروں کی امداد
سے بہلنے، امریکی دوستی کے بیانات سے خوش ہونے اور بارک اوباما، رچڑد
ہالبروک، جنرل پیٹریاس سے ہاتھ ملانے کو اپنی خوش بختی سمجھنے والوں کو یہ
جان لینا چاہیے کہ Do more اور Batter more کی تگ و دو میں بدامنی اور دہشت
گردی کی تیز دھوپ اب ہمارے گھروں کے آنگنوں میں اتر چکی ہے۔
جس کی حدت سے ملک و قوم کا حساس وجود جھلسا جارہا ہے اور ان حالات میں عوام
میں نہ صرف حکومتی کارکردگی پر عدم اطمینان بلکہ خود جمہوری عمل سے مایوسی
میں اضافہ ہورہا ہے، کچھ لوگ مایوس ہوکر تشدد اور خونی انقلاب کا راستہ
اختیار کررہے ہیں تو کچھ بد دل ہو کر مایوس ہو بیٹھے ہیں، حالانکہ کہ یہ
وقت قومی احتساب، نئی سوچ و بچار، مملکت کو درپیش خطرات کے صحیح ادراک،
اصلاح احوال کیلئے درست حکمت عملی اور قوم کو متحد، منظم اور متحرک کرنے کا
ہے۔
یہ ملک اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم عطیہ ہے جس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ
داری ہے، جبکہ دوسری طرف سامراجی قوتوں کا اصل ہدف پاکستان کا اسلامی تشخص
اور اِس کی نیوکلیئر صلاحیت ہے، یہ راز اب ڈھکا چھپا نہیں کہ امریکہ اور
اُس کے حواری بھارت اور اسرائیل اس علاقے کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے کے
مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہیں، یہ وقت صرف قیادت کا ہی نہیں پوری قوم کیلئے
امتحان کا وقت ہے ۔
اس وقت ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ بحیثیت قوم، پاکستان کو
درپیش خطرات اور چیلنج سے نبرد آزما ہونے کیلئے کمر بستہ ہوجائیں، قومی
زندگی کے اس نازک موڑ پر ہمارے ارباب اختیار یقیناً اس حقیقت سے آگاہ ہونگے
کہ کمزور سے کمزور قومیں بھی اپنے اندر کچھ نہ کچھ دفاعی صلاحیت رکھتی ہیں
اور بے بس و مجبور لوگ بھی زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر پورے اعتماد اور
بھروسے کے ساتھ ظالم و جابر قوت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور
کہہ گزرتے ہیں کہ ’’بس اب بہت ہوگیا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوسکتا‘‘
چنانچہ غیرت و حمیت، عزت نفس اور آزادی و خوداری کا تقاضہ اب اِس بات کا
متقاضی ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار وطن عزیز کی سالمیت بقاء اور استحکام اور
ملک و قوم کو مزید تباہی و بربادی سے بچانے کی خاطر وار آن ٹیرر کی پالیسی
پر نظر ثانی کریں اور امریکہ کی مزید کاسہ لیسی سے گریز کرتے ہوئے ایک زندہ
و باوقار قوم کی طرح اپنے فیصلے خود کرنے کا حوصلہ اپنائیں، کیونکہ اب
ہماری بربادیوں کے مشورے سرگوشیوں سے نکل کر کھلے اعلانات تک آچکے ہیں ۔
مقدر ہوچکا ہے بے درو دیوار رہنا
کہیں طے پا چکا ہے شہر کا مسمار رہنا |