انسان کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو وہ تو ہر دور
میں انمول رہا ہے انسان ایک عظیم مخلوق ہے جسے اشرف المخلوقات سے تعبیر کیا
گیا ہے اور فرشتوں نے بھی اسے سجدہ کیا۔ ان تمام تر اعلٰی وارفع اقدار کے
باوجود اس ذی روح کو اس مادی دنیا کی سختیوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑ رہا
ہے۔ اس جستجو میں وہ اپنی تقدیر کو بھی داوَ پر لگا دیتا ہے اور اس کا تن
خاکی ٹکرے ٹکرے ہو کے اس کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت بن جاتا ہے اور وہ بے
اختیار اس بے چارگی میں بقول ارشاد احمد خاں ارشدؔ کہہ اٹھتا ہے۔
میری آنکھوں سے اشکوں کی روانی دیکھتے جاوَ
دمِ رخصت ہماری بے زبانی دیکھتے جاوَ
تخلیق کائنات اﷲ تبارک تعالیٰ کے فقید المثال معجزہ جات میں سے ایک ہے جس
کا اہم ترین کردار حضرت انسان ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ اسی انسان نے جہاں
عجزوانکساری کی تابندہ مثالیں قائم کیں وہیں ظلم وبربریت کی لازوال
داستانوں سے تاریخ کو خون آلود کر دیا۔
جب ہم تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو حضرت آدم سے لے کر آج تک انسان کی مالک
حقیقی سے محبت اور عقیدت اس بات کا بار بار ثبوت دیتی ہے وہ کہ رب العزت کی
بندگی اور باتعداری میں فرشتوں کو بھی مات کر جاتا ہے اور رضائے الٰہی کے
آگے تسلیم خم کرتے ہوئے ابراہیم سے لے کر حسین تک صبرووشکر کا پیکر بن جاتا
ہے کیونکہ وہ اس کا بندہ ہے اور اسے اس کے بندوں سے پیار ہے ۔ اس کے دل میں
درد ہے اور روح میں ولولہ جو اسے عقل کی قید سے نکال کر عشق کی لا محیط
بلندیوں کی طرف پرواز کرادیتا ہے اور کسی لمحے بھی مالک حقیقی کے احکامات
کی بجا آوری میں کوئی کسرروا نہیں رکھتا۔ وہ اسی عشق حقیقی کا پر تو آتش
نمرود میں کود کر دکھا دیتاہے۔ جس کے لئے شاعر مشرق بے اختیار کہہ اٹھتے
ہیں۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
انسان کی وفا اور مالک حقیقی سے عشق اسے فانی دنیا میں جہاں سرفرازیوں سے
ہمکنار کرتا ہے وہاں تضحیک اور تزلیل کی المناک داستانوں کا لافانی کردار
بھی بنا دیتا ہے بنیادی طور پر وہ محبت اور وفا کا پتلا ہے مگر شیطان کی
تعلیمات کو اپنا اوڑھا بچھونا بنا کر اگر وہ شیطانیت پر اتر آئے تو شیطان
بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔
زندگی کے بنیادی اصولوں کا پر تو اس کی شخصیت کا اہم حصہ ہے مگر حالات سے
مجبور ہو کر اپنی ضرورتوں اور خواہشات کے تعاقب میں وہ کوئی بھی قدم اٹھانے
سے گریز نہیں کرتا۔محبت وعشق کی کہانیوں کا وہ کردار بن کر خطۂ ارض کے ہر
ملک میں ان داستانوں میں اپنا نام لکھوا دیتا ہے۔ بیشک وہ ہیر رانجھاکی
صورت میں ہو ۔شیریں فرہاد یا پھر رومیو جولیٹ انسان اپنی باکمال صلاحیتوں
کی بدولت تسخیر کائنات کی ہر اہم تخلیق کو دنیا میں رونق اور حسن کا با عث
بناتاہے ۔ اس دوران وہ زمانے کی سختیوں اور مصیبتوں کا تن تنہا مقابلہ کرتا
رہتاہے۔ ایسے میں اسکے ضمیر کے خلاف اور اس کی شخصیت کے برعکس نت نئے
امتحانوں کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی عظمت اور بزرگی جو اسے اشرف المخلوقات
بنا دیتی ہے کا سرعام مذاق اڑاتی ہے کہ اے اشرف المخلوقات تجھے تو فرشتے
بھی سجدہ کرتے ہیں لیکن میں تو اس مادی دنیا میں اپنے ہی انسانوں کے ہاتھوں
ذلت ورسوائی کی علامت بن چکا ہے۔ اس کو تقدیر یا قسمت کا نام دے دیا جاتا
ہے اس کو مقدر کا لکھا کہا جاتا ہے ۔کیونکہ ہاتھ کی لکیریں دیکھنے والے اور
ستاروں کا حال بتانے والے بھی تو انسان ہی ہیں۔ وہ زمانے کی ٹھوکروں،مقدر
کی رسوائیوں اور حالات کے تپھڑوں سے بحر ظلمات میں خس وخاشاک کی طرح بہہ
جاتا ہے ۔ ان نامسا عدحالات میں بھی انسان مردمومن بن کر یقین کی منازل طے
کرتے ہوئے خودی کا پیغام،آپس میں بھائی چارے، محبت اور اخوت کا درس دیتے
ہوئے شاعر مشرق کی زبان سے ببانگِ دھل یول اٹھتا ہے۔
یقین محکم محل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
ؑحضرت انسان جب مرد مومن کا لبادہ اوڑھتا ہے تو تقدیر بھی اس کے سامنے
سرنگوں ہو جاتی ہے اور وہ دنیائے فانی میں یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اگر عزم
جوان ہو، ارادوں میں استقامت ہو تو راہ کی مشکلات بے معنی ہو جاتی ہیں اور
وہ انسانی تاریخ کی ہولناک مثالوں، خوفناک واقعات اور تزلیل ہونے والے
حالات کو مسخر کرتے ہوئے اپنی الولعزمی کا نقارہ بجاتے ہوئے یہ بقول سردار
خاں باور کرتا ہے کہ
العولعزمان دانش مند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر چیرتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں
انسان کی عزت جسے انمول جانا گیا ہے جب بکنے پہ آئے تو حضرت یوسف کی طرح اس
کا مول ہی نہیں پڑتا۔ یہ سب کچھ ہمیں برداشت کرنا ہے اور اپنے عزت،کردار
اور شخصیت سے عزت ووقار کی منزلوں کو طے کر کے عشق حقیقی کی طرف گامزن ہونا
ہے کیونکہ تخلیق کائنات کا مقصد انسان کا انسان کے کام آنا ہے۔ وہ محبت
وخلوص کے اس لازوال جذبے کے باعث اپنی تمام تر مصیبتوں اور تکلیفوں کو بھول
جائے اور عزم مصمم سے وہ مخلوق خدا کی خدمت میں سبقت لے جائے تاکہ اس کا
نام بھی ابو بن عدم کی طرح سر فہرست ہو جائے کہ اﷲ رب العزت انہیں لوگوں سے
محبت کرتا ہے جو مخلوق خدا سے محبت کرتے ہیں وہ اس بات کا مصمم ارادہ کر لے
کہ میری اپنی حقیقت ایک خاکی پتلے کی ہے اوراُس کا وجود فانی ہے لیکن وہ
اپنے آپ کو مٹا کر دوسروں کے لئے ایثاروقربانی کی زندہ مثال بن جائے
گا،بقول فراز
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پر اتر جائے گا |