شخصی خاکہ
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میَں یکم اپریل ۱۹۷۵ء کو گورنمنٹ پریمیئر کالج
ناظم آباد سے حاجی عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کا لج ٹرانسفر ہو کر آیا ۔ اس وقت
پروفیسر جمیل واسطی سید کالج کے پرنسپل تھے۔ جمیل واسطی صاحب سندھ
یونیورسٹی سے منسلک تھے، جب فیض احمد فیض اس کالج کے پرنسپل تھے توواسطی
صاحب سندھ یونیورسٹی کو خیرباد کہہ کرعبد اﷲ ہارون کا لج آگئے تھے۔ انگریزی
کے استادتھے، ۱۹۷۲ء میں فیض صاحب نے تعلیمی اداروں کو قو میائے جانے کے بعد
سرکاری ملازمت اختیار نہیں کی اوروہ کالج سے رخصت ہوگئے ان کے بعدپرورفیسر
م۔ر۔حسان کالج کے پرنسپل ہوئے ان کا تبادلہ اردو کالج میں ہوگیا توپروفیسر
جمیل واسطی سید کالج کے پرنسپل ہوگئے۔ واسطی صاحب انتہائی نفیس انسان
تھے۔خوش پوش و خوش گفتار ،ہمیشہ سوٹ وہ بھی ٹائی کے ساتھ زیب تن کیے رہتے۔
گفتگو اور وضع قطع سے نستعلیق تھے، کسی کے دکھ تکلیف کو دل سے محسوس کرتے
اور ٹھندی آہ بھر کر افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے۔مجھ سے گرم جوشی سے ملے،
گھنٹی بجائی چپراسی سے کہازیدی صاحب کو بلا ئیے ،کچھ ہی وقفے کے بعد زیدی
صاحب آگئے، یہ آفس سپرنٹنڈنٹ تھے، اچھے آدمی تھے، اﷲمغفرت فرمائے۔انھوں نے
میری جوائیننگ کی کاروائی مکمل کی۔تھوڑی ہی دیر میں ایک صاحب کمرہ میں داخل
ہوئے ،کالی شیروانی اور علی گڑھ پیجامہ میں ملبوس ، دراز قدہرے رنگ کا گاؤن
پہنے ہوئے، بغل میں حاضری رجسٹر ،دونوں ہا تھ چاک میں لت پت، ہنستے مسکراتے
ہوئے کمرہ میں داخل ہوئے، السلام علیکم کے بعدواسطی صاحب کی طرف استفسارانہ
نظروں سے دیکھا ، واسطی صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا، یہ ہیں صمدانی
صاحب ہمارے نئے لائبریرین گورنمنٹ پریمئر کالج سے ٹرانسفر ہوکر آئے ہیں،
پھر واسطی صاحب نے ان صاحب کا مجھ سے تعارف کراتے ہوئے کہا آپ ہیں انیس
الرحمٰن قریشی ہمارے میتھ کے استاد،جن کا علی گڑھ سے تعلق ہے،انیس الرحمٰن
صاحب مجھ سے گرم جوشی سے ملے،اس لمحے ان کے چہرے پر خو بصورت مسکراہٹ
تھی۔بعد میں انیس صاحب کالج کے پرنسپل بھی ہوئے اور کالج میں میرے سب سے
قریبی دوست بھی۔ابھی انیس صاحب سے ملاقات ہوہی رہی تھی کہ ایک اور صاحب
کمرے میں داخل ہوئے ، یہ تھے شمشاد احمد خان صاحب،گٹھا ہوا بدن، چوڑا سینا،
چھوٹی چھوٹی آنکھیں، کلین شیو، سنجیدہ اور متین، ان سے بھی تعارف ہوا،
شمشاد صاحب بھی بعد میں پروفیسر ہوئے اورپرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
کمرے میں داخل ہونے والے تیسرے ایک نوجوان تھے، کم عمر، خو بصورت، چھوٹا
قد، گندمی رنگ، چشمہ لگا ہوا،کلین شیو، پینٹ شرٹ پہنے ہوئے ،سنجیدہ اور
بردباری نمایاں تھی، میرا خیال تھا کہ یہ اس کالج کے بی ایس سی کے طالب علم
ہوں گے، سلام کے بعدوہ اِدھر اُدھر دیکھے بغیر واسطی صاحب سے سنجیدگی سے
مخاطب ہوئے اور لیب کے بارے میں کوئی مشکل بیان کی ، واسطی صاحب نے ’ٹھیک
ہے ٹھیک ہے‘ کہا ا ور پھر میرا تعارف ان سے کرایااور ان کے بارے میں مجھ سے
کہا کہ یہ ہیں جناب راشد حی ٔ صاحب، فزکس کے استاد ہیں، اب راشد صاحب سے
مصافحہ ہوا، راشد صاحب کالج کے سب سے کم عمر استاد تھے،کچھ دن بعد میرے ایک
عزیز کی شادی میں نظر آئے، میں نے پوچھا آپ یہاں کیسے، انہوں نے بھی یہی
جملہ مجھ سے دوہرایا، گفتگو کے بعد یہ راز افشاں ہوا کہ راشد حی ٔ اور میَں
ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔تقریبات میں ملتے رہے ہوں گے لیکن تعارف
نہیں ہوا، اب ہم کالج کے ساتھی ہی نہیں تھے بلکہ عزیز بھی۔اب میَں اسٹاف
روم میں گیا جہاں دیگر اساتذہ موجود تھے ، ان میں شعبہ اردو میں یونس صدیقی
صاحب اور فضل الہی صا حب ، شعبہ سیاسیات میں اقبا ل صاحب اورعبدا لباری
سراج صاحب ،شعبہ اسلامیات میں عبد الرشید راجا صاحب ، نظام سحرائی سندھی کے
استاد تھے، شعبہ فزکس میں راشد حیٰ اوراشفاق احمد خان ، بوٹنی میں شمشاد
احمد خان صاحب ، زولوجی میں انور محمد شاہ،شعبہ کیمسٹری میں ذکی صاحب اور
غلام اصغرصاحب۔ میرے وہاں آجانے کے بعد کئی ساتھی آئے سب سے بہت اچھے قریبی
دوستی رہی، بہت اچھا وقت گزرا۔ میرا تعلق کیونکہ لائبریری سے تھا اور حاجی
عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کا لج صبح و شام کی شفٹ میں تھا، صبح میں سائنس ،
آرٹس فیکلٹی تھی اور شام میں آرٹس و کامرس فیکلٹی ، لائبریری ایک ہی
تھی،پرنسپل بھی ایک لیکن اساتذہ الگ الگ تھے، میری ذمہ داریوں میں شام کی
شفٹ میں لائبریری کی نگرانی بھی قرار پائی۔ اب مجھے صبح ہی نہیں بلکہ شام
میں بھی کالج آنا تھا۔میرا گھر کالج سے نزدیک تھا، نئی نئی نوکری ملی تھی
وہ بھی گریڈ۱۷ کی، جوانی کا خمارتھا ، جوش و جذبہ تھا، گھر کی ذمے داریاں
نہیں تھیں ، میَں نے شام میں بھی کالج آنا قبول کر لیا۔
حاجی عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کا لج میرے لیے نیا نہیں تھا، میں نے بی اے اِسی
کالج سے کیا تھا،اس زمانے میں فیض صاحب کالج کے پرنسپل تھے، کچھ اساتذہ سے
سلام دعا تھی، آفس کے کچھ لوگ بھی واقف تھے، علاقہ بھی دیکھا بھالا تھا۔اس
زمانے میں میری رہائش کالج کے نزدیک آگرہ تاج کالو نی میں تھی،میںَ زمانہ
طالب علمی سے ہی لیاری کی سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں سرگرم تھا۔ اس وجہ سے
میَں نے اپنے آپ کو اس کالج میں اجنبی محسوس نہیں کیا۔ اگلے ہی دن شام کی
شفٹ میں چلا گیا، شام کی شفٹ میں جوائننگ رپورٹ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔اس
وقت شام کی شفٹ کا سربراہ’ انچارج‘ کہلا تا تھا جو کے پرنسپل کو جوابدہ ہو
اکرتا تھا۔ اب شام کی شفٹ کومکمل کالج کا درجا حاصل ہو چکا ہے ، شام کی شفٹ
کا انچارج پرنسپل ہو تا ہے۔ میَں سیدھا انچارج کے کمرے میں داخل ہوا،سلام
کیا، انچارچ کی کرسی پر جوصاحب براجمان تھے انہوں نے کرسی سے اُٹھ کر ہاتھ
ملایااور مجھے بیٹھنے کو کہا،میں نے اپنی جوائننگ کا بتا یا جس پروہ خوش
ہوئے، جو اساتذہ ان کے سامنے بیٹھے تھے ان سے میرا تعارف کرایا، ان اساتذہ
میں پروفیسر ریاض الحسن قدوائی، احمد حسین صاحب، عبد الرحیم میمن، سید نسم
حسین زیدہ افتخاریوسف زئی ، میرمحمد شوروشامل تھے، بعد میں پروفیسر شفیق
رحمانی صا حب سے بھی تعارف ہوا، رحمانی صاحب اسی کالج میں میرے استاد رہے
تھے، انہوں نے سیاسیات پڑھائی تھی، ریاض الحسن قدوائی صاحب بھی
میرے استاد تھے،وہ تاریخِ اسلام پڑھایا کرتے تھے،اکثر میرے ساتھی اور دوست
بن چکے تھے۔
پروفیسر محمد احمدشام کی شفٹ کے انچارج اور پروفیسر جمیل واسطی سید کالج کے
پرنسپل تھے۔ میَں بدستو ر صبح وشام کالج آیا کرتا تھا، واسطی صاحب بہت نیک
انسان تھے البتہ اپنے اصولوں میں سخت گیر، اس زمانے میں تعلیمی اداروں میں
بیرونی عناصر، طلباء تنظیموں کا عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا تھا، خاص طور پر
ستر(۷۰)کی دھائی میں طلباء تنظیموں کے نام سے سیاسی لوگوں نے تعلیمی اداروں
میں بے جا مداخلت بہت زیادہ شروع کردی تھی، حاجی عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کا
لج جس علاقے میں قائم تھا وہاں پاکستان پیپلز پارٹی کا طوطی بولا کرتا تھا
اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF)کااس علاقے میں غلبہ تھا، کچھ اثر بلوچ
اسٹو ڈنٹس فیدریشن (BSO)کا بھی تھا، بعض ایسے عناصر بھی تھے جو نہ تو پی
ایس ایف کے تھے اور نہ ہی بی ایس او کے وہ دونوں ہی تنظیموں سے فائدہ اٹھا
یا کرتے تھے، انھوں نے کالج کو اپنے ناجائز کاروبار کا ذریعہ بنا یا ہوا
تھا، یہ عناصر فیض صاحب کے زمانے سے ہی کالج میں موجود تھے۔طلباء تو وہ
ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر امتحان پاس کرکے، ڈگری لینے کے بعد
اپنے اپنے پیشوں میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں ، یہ لوگ تو برس ہا برس سے اسی
کالج میں نظر آرہے تھے، جب میَں ۱۹۶۸ء میں اس کالج کا طالب علم تھا تو میَں
نے ایک لڑکے شوکت بلوچ کو دیکھا تھاجو اپنے آپ کو شوکت کامریڈ کہلوایا کرتا
تھا،جب ۱۹۷۴ء میں میَں اس کالج میں تبادلہ ہوکر آیا تب بھی یہ اس کالج میں
موجود تھا اور جب میَں ۲۳ سال اس کالج میں گزار نے کے بعد۱۹۹۷ء میں گورنمنٹ
کالج برائے طلباء ناظم آباد جارہا تھا تب بھی یہ شخص اسی کالج کی سیاست سے
وابستہ تھا۔ اب یہ لڑکا نہیں رہا تھا بلکہ عمر رسیدہ شخص ہوچکا تھا لیکن اس
کے روز وشب اسی کالج سے وابستہ تھے۔امتحانات کے دنوں میں اس کی اور اس کے
ساتھیوں کی منفی سرگرمیاں عروج پر ہوا کرتی تھیں،کبھی کبھی ہمیں اپنی بے
بسی کا شدت سے احساس ہوا کرتا تھا ، بس صبر کرکے رہ جایا کرتے تھے،جمیل
واسطی سید صاحب نیک اور سیدھے سادھے آدمی تھے، غلط کام نہ کرتے اور نہ ہی
کر نے دیا کرتے، چنانچہ کالج کے حالات بگڑ تے چلے گئے ، ایک طرف واسطی صاحب
بیرونی عناصر سے نبرد آزمأ تھے دوسری طرف نہیں معلوم کیا غلط فہمیاں ہوئیں
کہ ان کی پروفیسر محمد احمد صاحب سے ٹھن گئی، حالانکہ وہ تو صبح میں ہوا
کرتے تھے اور محمد احمد صاحب شام میں ، کیونکہ پرنسپل پورے کالج کاایک ہی
ہوا کرتا تھا، محمد احمد صاحب کو ہر بات کے لیے پرنسپل سے ہی رابطہ کر نا
ہوتا تھا، پرنسپل کو شام کے انچارج کی سالانہ خفیہ رپورٹ ACRبھی لکھنا ہوا
کرتی تھی , دونوں انگریزی کے پروفیسرتھے، خوب خوب انگریزی کے جوہردونوں نے
دکھائے ، نوبت یہاں تک آ گئی کے معاملہ ڈائریکٹر یٹ تک پہنچ گیا، واسطی
صاحب نے محمد احمد صاحب کی ACR بھی خراب کردی تھی، محمد احمد صاحب نے بعد
میں جب وہ پرنسپل ہوگئے واسطی صاحب کی وہ رپورٹ پڑھ کر سنا ئی، مجھے تو
واسطی صاحب بہت ہی معصوم لگے، انہوں نے یہ عمل غصّے میں کیا، انھوں نے اس
رپورٹ میں یہ کہنے کی کوشش کی کہ یہ شخص جواپنے ظا ہر میں مذہبی ہے،
شیروانی،علی گڑ پیجامہ اور جناح کیپ پہنتا ہے، اس کا باطن اس کے ظاہر سے
مختلف ہے ، اِسی قسام کے الزامات جن کی بنیاد پر کوئی کاروائی ممکن نہیں
تھی واسطی صاحب نے محمد احمد صاحب پرلگائے ۔ڈائریکٹریٹ کے اعلیٰ حکام نے
محسوس کیا کہ اس جھگڑے کا حل یہ ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کا تبادلہ
کردیا جائے، ایسا ہی ہوا، واسطی صاحب کا تبادلہ ملیر کے کالج میں کردیا
گیا، شروع میں انہوں نے اپنا ٹرانسفر رکوانے کی تگ ودو کی جب کامیابی نہ
ہوئی تو خاموشی سے چلے گئے، لکھنے پڑھنے والے آدمی تھے، ایک دفعہ ہمدر
لائبریری میں ملاقات ہوئی تھی، پھر ملاقات نہ ہوسکی۔محمد احمد صاحب کو
پرنسپل بنا دیا گیا، اب وہ شام کے بجائے صبح آنے لگے، صبح میں اکثر اساتذہ
ان کے لیے نئے تھے ، میَں ان سے زیادہ نذدیک تھا، انہوں نے اپنی وہی روش
رکھی، تمام اساتذہ کے ساتھ پیار محبت سے پیش آنا، ان کا خیال رکھنا، اپنی
خوبیوں سے انھوں نے سب ہی اساتذہ کے دل جیت لیے تھے،سب ہی ان کا حد درجہ
احترام کیا کرتے تھے، تاہم اساتذہ بیرونی عناصر کو اہمیت دینے، ان کے بعض
کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی عادت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔محمد احمد صاحب ان
بیرونی عناصرکے ساتھ از خود نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے جب کہ اساتذہ
چاہتے تھے کہ ان کے خلاف مشترکہ کاروائی کی جائے، محمد احمد صاحب نے اپنی
حکمت عملی سے بیرونی عناصر کو بھی اور اساتذہ کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتے
رہے اور کامیاب رہے۔
محمد احمد صاحب نے کالج کے آفس اسٹاف کو کھلی چھٹی دی ہو ئی تھی، آفس کے
تمام کام از خود کیا کرتے تھے، جب بھی کوئی لیٹر لکھنا ہوتا وہ مجھ سے کہتے
آؤ میاں ذرا کاغذ قلم تو نکالو ، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ڈکٹیشن دینگے اور
مجھے لیٹر لکھنا اور ٹائپ کر کے لانا ہوگا،یہ وہ زمانہ تھا جب کمپیوٹر عام
نہیں ہوا تھا، ٹائپ رائیٹر پر خط کتابت ہوا کرتی تھی، مجھے اس وقت بھی
ٹائپنگ آتی تھی چنانچہ وہ ڈکٹیشن دیا کرتے اور میں لکھتا جاتا، بعد میں
ٹائپ شدہ لیٹرانھیں لا دیتا ، اگر غلطی ہوتی تو دوبارہ ٹا ئپ کیا کرتا، وہ
اس لیٹر کو از خود لفافے میں ڈالتے ،ڈاک ٹکٹ لگاتے کالج سے واپسی پر
ڈاکخانے میں ڈال دیا کرتے، آفس اسٹاف کی نااہلی کے باعث انھیں ایسا کرنا
پڑتا تھا۔مجھ پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ سال کے اختتام پر اساتذہ کی سا
لانہ خفیہ رپورٹACR لکھنے کا وقت آتا تویہ کام بھی میرے سپرد تھا،ایک ایک
کرکے ہر ٹیچر کی Pen Pictureلکھواتے میَں پیراگراف ٹائپ کرکے لاتا پھر ہم
ٹائپ شدہ پیراگراف متعلقہ ٹیچر کی اے سی آر میں پین پکچر کے خانے میں چسپاں
کردیا کرتے، ایک اے سی آر کی چار کاپیاں بنائی جاتی تھیں، ہر ایک میں
تقریباً دس یا پندرہ خانے ہوتے ان میں سے کسی ایک پر پرنسپل کو اپنے چھوٹے
دستخط (Innitial)کرنا ہوتے تھے، محمد احمد صاحب چار میں سے ایک پر اپنے
دستخط کرکے مجھے دے دیا کرتے میں متعلقہ خانوں میں نقطے لگا کر دیا کرتا
پھر وہ جلدی جلدی اس پر اپنے چھوٹے دستخط کرتے جاتے، ہر سال کی اے سی آر کی
فائلوں کور کھنا بھی میری ذمہ داری تھی،یہ بات تھی اعتماد اور بھروسے کی،
ان اے سی آر میں میری اپنی اے سی آر بھی ہوا کرتی تھی۔ پین پکچر پر یاد
آیا، دلچسپ واقعہ ہے جو ہمارے دور میں بہت مشہور ہوا، میَں ان پرنسپل صاحب
کا نام نہیں لکھوں گا، لیکن یہ بات درست اور حقیقت ہے کہ میرے ہی کالج کے
ایک پروفیسر صاحب پرنسپل ہوکر اندرون سندھ کے کسی ایک کالج میں چلے گئے،
سال ختم ہونے پر انھیں اپنے ماتحت عملے کی اے سی آر بھی لکھنا تھی، سو
انھوں نے لکھیں، پین پکچر کا مطلب وہ یہ سمجھے کہ یہاں متعلقہ ٹیچر کی
تصویر اپنے پین سے بنا نا ہے ، کسی سے مشورہ کیے بغیر انہوں نے آؤ دیکھا نا
تاؤ ہر ٹیچر کی تصویر اپنے پین سے اس خانے میں بناتے چلے گئے، ڈائریکٹر
صاحب نے جب اس کالج کی اے سی آر دیکھیں تو سر پکڑ کر رہ گئے، کیا ہی اچھا
ہوتا کہ وہ اس بات کو راز ہی رہنے دیتے لیکن انہوں نے محفلوں میں رازداری
سے اس کا ذکر بھی کیا، ایسا اس وجہ سے ہوا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں
انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے اساتذہ کو سینیاریٹی کی بنیاد پر انتظامی
امور سونپ دئے جاتے ہیں، ان کے لیے انتظامی امور کی تربیت کا اہتمام نہیں
کیا جاتا۔ محمد احمد صاحب یہ قصہ اکثر سنا یا کرتے تھے اور ہم سب محظوظ ہو
ا کرتے۔عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کالج کراچی کے دیگر کالجوں سے قدرِ مختلف تھا،
اسی طرح جب پروفیسر انیس الرحمٰن قریشی صاحب پرنسپل ہوئے تو وہ بھی کالج کے
تمام انتظامی امور از خود انجام دیا کرتے تھے، یہاں تک کے کیش بک بھی وہ از
خود ہی لکھنے لگے تھے، اس کی وجہ کیشیئر پر عدم اعتماد تھا۔
محمد احمد صاحب مجلسی آدمی تھے، آپ کے گرد لوگوں کا گھیرا لگا رہتا ، آپ کا
مطالعہ وسیع ، نظر گہری، یادداشت غیر معمولی اور جچی تلی تھی دورانِ گفتگو
ادیبوں اور شاعروں کے قصے اور واقعات سنانا آپ کی عادت تھی، اسلامیہ کالج
سکھر کا بہت زیادہ ذکر کیا کرتے خاص طو پر اس کالج کے ایک استاد جنہیں وہ
’خدا دوست‘ کہا کرتے تھے بہت ذکر کیا کرتے ، ان کے قصے خوب سنایا کرتے، آپ
کو اشعا ر بھی بہت یاد تھے اور ان کابر محل استعمال بھی انھیں خوب آتا
تھا۔وقت پر کالج آیا کرتے ، ان کے وقت پر کالج آجانے سے کالج کا نظام درست
رہتا تھا،کسی بھی ادارے کا سربراہ وقت کا پابند نہ ہو تو بہت سے مسائل بلا
وجہ جنم لینا شروع کردیتے ، اسی کالج میں ہمارے ایک پرنسپل صاحب ایسے بھی
بنے تھے جو صبح دس بجے سے پہلے کالج نہیں آیا کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ
وہ صبح سویرے نہیں اٹھ سکتے کیونکہ انھیں صبح کے وقت کالے پیلے چکر آتے
ہیں۔محمد احمد صاحب اپنے ساتھیوں کا بہت خیال رکھنے والے تھے، کسی بھی ٹیچر
کے ساتھ کوئی پریشانی ہوجاتی تو اس سے ہمدردر ہی نہیں کرتے بلکہ اس پریشانی
کو حل کرنے میں پورا پورا ساتھ دیا کرتے،کالج اساتذہ کے لیے الیکشن ڈیوٹی
بہت ہی پریشانی کا مرحلہ ہوا کرتا تھا، ہمارے کالج کے تمام ہی ساتھیوں کی
الیکشن ڈیو ٹی لیاری میں لگا کرتی تھی،یہ علاقہ پیپلز پارٹی کا حلقہ انتخاب
تھا اور آج بھی ہے، کم پڑھے لکھے، غریب اور متوسط لوگ یہاں رہتے ہیں لیکن
ان میں سیاسی شعور بہت ہے، یہاں کے مرد ہی نہیں بلکہ خواتین کچھ اور کریں
یا نہ کریں ہر الیکشن میں جیے بھٹو کے نعرے ضرور لگاتی ہیں اور الیکشن والے
دن پولنگ اسٹیشن پر ضرور موجود ہوں گی، ان کا نام ووٹر لسٹ میں ہو یا نہ
ہو، ان کی بلا سے انہیں ووٹ ہر صورت میں ڈالنا ہوتا ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ
رہا ہے، میَں نے ۱۹۷۴ء سے ۱۹۹۷ء تک تمام ہی انتخابات میں پریزائیڈنگ آفیسر
کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اس دوران لیاری کے مختلف علاقوں میں
تعینات رہا، یہاں کے لوگوں میں غربت اورناخواندگی کے باوجود سیاسی شعو ر
کوٹ کوٹ کر بھراہوا ہے۔ محمد احمد صاحب کی پوری کوشش ہوا کرتی تھی کہ ان کے
کالج کے ٹیچر کسی بھی طرح الیکشن ڈیوٹی سے بچ جائیں۔ کوئی ٹیچر بیمار
ہوجاتا تو اس کی خبر گیری کیا کرتے، زیادہ بیماری کی صورت میں اس کے گھر
مزاج پرسی کو بھی جاتے۔ اگست ۱۹۸۲ء کی بات ہے مجھے فسچیو لا ( Fistula)ہو
گیا، نوبت آپریشن کی آگئی، کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اسپتال میں جو کیماڑی میں ہے
آپریشن ہوا، ڈاکٹر رضا نے یہ آپریشن کیا، میَں کوئی ۱۹ دن اسپتال میں رہا،
کالج میں چھٹی کی درخواست بھیج دی تھی۔ محمد احمد صاحب میر ے گھرآئے ، تسلی
دی، حاضری رجسٹر ان کے ساتھ تھا، میرے دستخط کرائے اور مجھے مکمل ٹھیک ہونے
تک آرام کا مشورہ دیا۔اس طرح کا طرز عمل میرے ساتھ ہی نہ تھا وہ کالج کے
تمام اساتذہ
کے ساتھ بھی نیکی کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے تھے۔ شیوا بریلوی نے کیا
خوب کہا
کوئی آساں نہیں ناصح مشفق بننا
کچھ سلیقہ بھی درکار نصیحت کے لیے
پروفیسر محمد احمد صاحب کا تعلق ہندوستان کے شہر شاہجہاں پور سے تھا۔بچپن
سے ہی ذہین اور پڑھاکو تھے، معاشیات میں ایم اے کیا، گولڈ میڈل حا صل کیا
تھا، پھر انگریزی میں بھی ایم اے کیا، نثر اور نظم دونوں میں عبور حاصل
تھا، شاعری بھی کیا کرتے تھے۔جوانی میں شوقین مزاج تھے، ازدواجی زندگی
کامیاب نہیں ہوئی، شادی ہوئی اور علاحدگی ہوگئی، پھر شادی نہیں کی، زندگی
تنہا اپنے بھائی اور ان کی اولاد کے ساتھ ہی گزاردی،اسلامیہ کالج سکھر
پروفیسر محمد احمدصاحب کی پہچان تھاجہاں پر آپ نے اپنی زندگی کا قیمتی وقت
گزارا، سکھر میں اسلامیہ اسکول ا ور اسلامیہ کالج کو ایک اہم مقام حاصل
تھا،پروفیسر حنیف شاکر جو سکھر میں پروفیسر محمد احمدکے شاگرد رہ چکے تھے
اور گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد میں میرے ساتھی بھی رہے کہ
مطابق’’ نسیم الہدیٰ صاحب نے ۱۹۶۱ء میں اسلامیہ اسکول و کالج کی بنیاد رکھی
تھی، محمد احمد صاحب جو اس وقت اسکول میں استاد تھے کو کالج کا پرنسپل مقرر
کردیا گیا، آپ کا تعلیمی ریکارڈ بہت ہی شاندار تھا، اچھے اور قابل استادتھے
، انتظامی امور کو انجام دینے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔منتظم کی
حیثیت سے آپ انتہائی بہ اصول اور سخت گیر تھے، اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ آپ
کا رویہ سخت ہو ا کرتا تھا‘‘۔ بسا اوقات وقت اور حالات انسان کوبالکل مختلف
بنا دیتے ہے لیکن ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے آخری سانس تک اپنی اُسی
روش پر قائم و دائم رہتے ہیں۔ پروفیسر محمد احمد کو وقت اور حالات نے مختلف
بنا دیا تھا، ۱۹۷۳ء میں وہ سکھر سے کراچی آگئے اوران کا تبادلہ حاجی عبد اﷲ
ہارون گورنمنٹ کالج میں ہوگیا جہاں پر انہیں شام کی شفٹ کا انچارج بنا دیا
گیا۔اب وہ ایک مختلف انسان تھے، مزاج میں نرمی، پیار محبت، حد درجہ
انکساری،ہمدردی ، خیال کرنے والے ، حتیٰ کہ انتظامی امور میں بھی انتہائی
نرم اور درگزر کرنے والے۔وہ اپنے لباس ، وضع قطع اورتراش خراش سے علی گیرین
نظر آیا کرتے تھے ، ان کی گفتگو اور طورطریقوں میں بھی علیگیوں کی سی
نستعلیقیت واضح تھی۔شین قاف درست ، چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ دل
نشیں گفتگو کیا کرتے،وضع داری ان پر ختم تھی، ان کے آفس میں کوئی چھوٹا یا
بڑا داخل ہوتا تو اپنی کرسی سے اُٹھ کر اس سے مصافحہ کیا کرتے، خواہ اس وقت
کتنا ہی بڑا شخص پہلے سے ان کے پاس کیوں نہ بیٹھا ہوتا یا وہ کتنا ہی ضروری
کام ہی کیوں نہ کررہے
ہوتے۔بہ قول الطاف حسین حالیؔ
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
چھوٹا قد، گندمی رنگ، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، آنکھوں میں
سوجھ بو جھ کی چمک،ستواں ناک جس کے نیچے سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، سر پر
کالے سفید بال ،، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر
وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت ، تحمل ، وضع داری اور برد باری کا خوشگوار
اظہار۔موسم گرم ہویا سرد، باد و باراں ہو یا خوش گوار، آندھی چل رہی ہو یا
سخت حبس محمد احمد صاحب شیروانی اور علی گڑھ کاٹ پیجامے اور سر پر جناح کیپ
لگائے، ہاتھ میں تسبیح لیے خرامہ خرامہ بس اسٹاپ سے کالج اور کالج سے بس
اسٹاب کی طرف رواں دواں رہتے ، یہ ان کا مستقل لباس تھا، جب کبھی وہ
شیروانی اتار کر وضوع کیا کرتے تو ان کے سفید کرتے میں کئی پیوند لگے ہوتے
جو صاف نظر آیا کرتے، پرانے کپڑے میں پیوند لگنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن
نئے کرتے میں پیوند سمجھ سے بالا تھے،ان پیوندوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ
کسی اناڑی نے لگائے ہیں، میَں جب بھی یہ دیکھتا ذہن میں یہ خیال ضرور آتا
کہ اس میں کیا راز پوشیدہ ہے، وہ دستگیر سوسائیٹی، فیڈرل بی ایریا میں رہا
کرتے تھے، اتفاق سے میں بھی دستگیر میں ہی منتقل ہوگیا، میرا گھر ان کے گھر
کے پاس ہی تھا، اب میں کبھی کبھا ر ان کے گھر چلا جاتا، نیچے کی منزل میں
ان کے چھوٹے بھائی اپنی فیملی کے ہمراہ رہا کرتے تھے ، گھر کی پہلی منزل پر
ایک کمرہ محمد احمد صاحب کا ٹھکا نا تھا، کتا بوں کی الماری، پڑھنے لکھنے
کی میز اور کرسی ، ایک الماری کپڑوں کی، سونے کے لیے فرش پر بستر لگا ہوا،
کمرے میں سفائی ستھرا ئی کا فقدان نظر آتا تھا۔ گھر میں ہوتے تو بنیان اور
دھوتی پہنے ملتے،سگریٹ پیاکرتے تھے، ابتدا میں سگریٹ خود بنا کر پیا کرتے ،
پھر پائپ میں تمباکو پینے لگے ، میز پر تمبا کوبکھرا ہوا ملتا۔ ایک دن میں
نے ان سے کرتے میں پیوند والی بات پوچھ ہی لی کہ آپ کے صاف اور نئے کرتے
میں بھی پیوند لگے ہوتے ہے؟ کہنے لگے یہ سنتِ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم ہے۔اب
میَں آگے کچھ نہ بول سکا، میری حیرت دور ہوگئی۔ان کی شادی کامیاب نہیں رہی
،علیحدگی ہوگئی تھی، وہ میرے آفیسر تو تھے لیکن ان سے دوستانہ مراسم ہوگئے
تھے، ان سے ہر قسم کی بات کرلیا کرتا تھا، ایک دن میَں نے کہا کہ ’آپ دوسری
شادی کیوں نہیں کر لیتے اگر آپ تیار ہوں تو کوشش کی جائے‘، میَں نے پورا
جملہ ایک ہی سانس میں کہہ دیا،ان کی باتوں سے لگا کہ وہ شادی کرنا چاہتے
ہیں۔میرے عزیزوں میں ایک خاتوں ایسی تھیں جو عمر اور عادات و اطوار کے
اعتبار سے ان کے لیے مناسب لگیں۔ پہلے میَں نے ان خاتون کے بھائی سے بات کی
ان کی رضامندی کے بعد محمد احمد صاحب سے کہا کہ میرے عزیزوں میں ایسی خاتون
ہیں جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی، عمر کے اعتبار سے آپ کے لیے مناسب ہیں ،
نمازی پرہیز گار بھی ہیں۔ اگر آپ مناسب خیال کریں تو میرے ہمراہ چلیں، بات
کرلیتے ہیں، انھوں نے کہا ٹھیک ہے، وقت لے کر میَں انھیں لڑکی والوں کے گھر
لے گیا، گفتگو ہوئی، دونوں ہی نے ایک دوسرے کو پسند کیا لیکن نہیں معلوم
بات آگے نہیں بڑھ سکی، بات آئی گئی ہوگئی، حسن اتفاق دیکھیے کہ کچھ عرصے
بعد ان خاتون کی شادی سکھر ہی میں ایک صاحب سے ہوگئی،میَں ان سے ملا معلوم
ہوا کہ وہ محمد احمد صاحب کے بہت اچھے دوستوں میں سے ہیں۔ میَں نے محمد
احمد صاحب سے کہا کہ جہاں میَں آپ کو رشتے کے سلسلے میں لے گیا تھا، ان
خاتون کی شادی سکھر میں آپ کے ایک دوست سے ہوگئی ہے نام بتا یا تو وہ بھی
پہچان گئے کہنے لگے کہ وہ تو میرے بہت پرانے اور اچھے دوست ہیں۔یہ محض
اتفاق تھا،وہ خاتون اب اس دنیا میں نہیں۔ محمد احمد صاحب میرے کالج سے
ریٹائر ہوگئے جس دن ریٹائر ہوئے دوسرے ہی دن سے انھوں نے پاکستان نیوی کے
کسی تعلیمی ادارے کو جوائین کر لیا تھا۔
کافی عرصے وہاں پڑھاتے رہے۔ جب ہمت بالکل جواب دے گئی تو گھر بیٹھ گئے۔
۱۹۸۰ء کی بات ہے میری تیسری کتاب جو کہ انٹر میڈیٹ سال اول کے لیے تھی شائع
ہونا تھی۔میَں نے پروفیسر محمد احمد صاحب کوکتاب کا مسودہ مقدمہ تحریر کرنے
کے لیے دیا، آپ نے اس کتاب کا مقدمہ تحریرفرمایا،آپ نے میرے بارے میں
لکھا’’ فاضل مصنف میں علمی کام کرنے کا بڑا ولولہ اور سلیقہ ہے انھوں نے
اپنے وسیع مطالعے اور معلومات کو اپنی فطری انہماک و نشاط کے ساتھ قلم بند
کیا ہے جو ان کی صلاحیت ، قوت عمل اور فکری ارتقاء کا نمونہ ہے۔ کتاب پڑھنے
سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف علم و انشاء پردازی کی کرشمہ سازی نہیں اس
کے اندران کا خون جگر بھی شامل ہے ’معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود‘۔ احقر
فاضل مصنف سے ایک عرصے سے واقف ہے اور بغیر تکلف کے کھلے دل سے اعتراف کرتا
ہے کہ ان کی علمی گفتگو، ذوق سلیم ، وغیرہ معمولی حافظہ ، تاریخی شعور سے
نہ صرف متاثر ہے بلکہ کافی ا ستفادہ کیا ہے۔ ان کی باغ و بہار شخصیت
لائبریری سائنس کی اعلیٰ ترین ڈگری سے مزین ہے۔ انھوں نے لائبریری سائنس کے
علوم میں ایک ماہر فن کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ میں پورے وثوق سے کے ساتھ
امید کرتا ہوں کہ اس کتاب سے صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ ہر وہ انسان جس کا
علم و ادب سے لگاؤ ہے مستفیدہوسکتا ہے ۔‘‘مجھ جیسے کم علم کے بارے میں
پروفیسر محمد احمد صاحب کی یہ رائے میرے نزدیک عظمت کی دلیل ہے۔ حقیقت یہ
کہ آپ ایک عظیم انسان تھے اور عظیم شخصیتوں کے ساتھ رہنا بھی عظمت ہوتاہے ،
مجھے اس بات پر فخر حاصل ہے کہ میں اپنی زندگی میں کئی سال محمد احمد صاحب
کے زیر سایہ رہا۔’’یہ عنائتیں یہ نوازشیں مری ایک مشت غبار پر‘‘۔ پروفیسر
محمد احمد صاحب کی مکمل زندگی تدریس اور علمی خدمت میں گزری۔ آپ سادگی کا
نمونہ تھے، انکساری اور عاجزی آپ کا شعار تھا۔ایک دن اطلاع ملی کہ محمد
احمد صاحب کاانتقال ہوگیا ، میں ان کی تدفین میں شریک نہ ہوسکا، افسو س
ہوا، کہتے ہیں موت العالِم
موت العالَم کے مصداق ہے، اﷲ تعا لیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
کتنی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
فیفا ء، جیذان ، سعودی عرب ، ۴اگست
۲۰۱۱ء، مطابق ۴ رمضان الامبارک ۱۴۳۲ھ
(مصنف کی کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ ۲۰۱۲ء میں شامل)
|