محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی

ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا‘ پروفیسر! کوئی کام بھی کرتے ہو‘ یا صرف باتوں کی کھٹی کھاتے ہو۔ انھوں نے مزید فرمایا‘ مجھے تو یہ طبقہ فارغ ہی لگتا ہے۔
پروفیسر بیک وقت تین کام کرتا ہے
١۔ معلومات فراہم کرتا ہے
٢۔ غلط اور صیحح ہی نہیں بتاتا‘ بلکہ ان کی تمیز بھی سکھاتا ہے‘ گویا رویے تشکیل دیتا ہے۔
٣۔ سوچتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے۔

ایک شخص‘ آٹھ گھنٹے بیالیس منٹ جسمانی کام کرتا ہے‘ جب کہ پروفیسر اڑتیس منٹ کام کرتا ہے‘ دونوں برابر کی‘ تھکاوٹ محسوس کرتےہیں۔ پروفیسر جو سوچتا ہے‘ وہ ڈیلور بھی کرتا ہے۔ گویا جسمانی کام کرنے والوں سے‘ پروفیسرکی زیادہ انرجی صرف ہو جاتی ہے۔

شاید ہی‘ کوئی ایسا پروفیسر ہو گا‘ جو موٹا تازہ ہو۔ اگر کوئ موٹا تازہ پروفیسر نظر آ جائے‘ تو یقینا کسی پیٹ کے عارضے میں مبتلا ہو گا۔ مناسب انداز سے‘ فکری نکاسی نہ ہونے کے سبب بھی‘ موٹاپا آ سکتا ہے۔ عزت اور جان‘ دونوں خطرے کی توپ کے دہانے پر‘ ڈیرہ گزیں رہتے ہیں‘ اس لیے‘ ڈیلوری ایسا آسان اور معمولی کام نہیں۔ اگر نہیں یقین آتا‘ تو کسی خاتون سے پوچھ لیں‘ کہ ڈیلوری کا عمل کتنا مشکل اور کٹھن گزار ہوتا ہے۔ کوئ خاتون خفیہ بات‘ دس پندرہ منٹ سے زیادہ پیٹ میں نہیں رکھ سکتی۔ خیر یہ بات عورتوں تک ہی محدود نہیں‘ پروفیسر تو الگ‘ کہ اس کا کام ہی یہی ہے۔ وکیل اور پروفیسر‘ بول بچن کی کھٹی کھاتے ہیں۔ ایک عام آدمی‘ خفیہ بات یا کسی کا کوئی انتہائی حساس راز‘ زیادہ دیر تک پیٹ میں نہیں رکھ سکتا۔ محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی یہ ہی ہیں۔

آج‘ موٹے تھانیداروں کے حوالہ سے‘ بات ہو رہی تھی۔ سوال اٹھ سکتا ہے‘ وہ کیوں موٹے ہیں۔ اکثر یہ کہیں گے‘ وہ کھا کھا کر موٹے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس سے‘ اسی فیصد اتفاق نہیں۔ معدہ کی بیماری کے سبب‘ کوئ تھانیدار موٹا ہوا ہو تو الگ بات ہے۔ وہ اوروں سے زیادہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ ایک طرف معدہ پرابلم‘ دوسری طرف زیادہ کھا لینے کا مسلہ‘ تو تیسری طرف رازوں کی عدم نکاسی۔

کسی موٹے تھانیدار پر‘ کوئی دوسرا موٹا تھانیدار نعرہ تکبیر کہہ کر چڑھا دیں‘ وہ‘ وہ راز اگلے گا‘ کہ عقل سوچ اور دل و دماغ کی روح قبض ہو جائے گی۔ اس کے پیٹ میں بڑے افسروں‘ نبی نما سیاست دانوں سیٹھوں‘ مذہبی لوگوں کے وہ وہ راز ہوتے ہیں‘ جن کا کسی کے دونوں فرشتوں تک کو‘ علم نہیں ہوتا۔ اس مدے پر بات کرنا ہی فضول بات ہے‘ کیوں کہ تھانیدار ان لوگوں پر تھانیدار نہیں ہوتے۔ تھانیدار‘ عوام کو گز رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کا شرفاء کے اعلی طبقے میں شمار ہوتا ہے۔

سو گز رسہ سرے پہ گانٹھ‘ بات کا پیٹ میں رکھنا‘ بڑا ہی مشکل‘ بلکہ ناممکن کام ہے‘ اپھارہ ہونا ہی ہوتا ہےاور یہ‘ پہلے سوال کی طرح‘ لازمی بات ہے۔ آپ کے دیکھنے میں بات آئی ہو گی‘ کہ مرنے والے کا کوئی قریبی رو نہ رہا ہو‘ تو اس کو رولانے کے لیے سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات پردہ میں رہتی ہے‘ کہ اس قریبی نے‘ اس کی موت پر شکر کا سانس لیا ہو۔ دلوں کے حال الله ہی جانتا ہے‘ اس لیے بات پردہ میں ہی رہ جاتی ہے۔ تاہم اس کا کچھ ہی دنوں میں‘ پیٹ کپا ہو جاتا ہے۔ اس حوالہ سے‘ کسی تھانیدار پر انگلی رکھنے سے‘ بڑا ہی پاپ لگتا ہے۔ کسی موٹے پروفیسر پر بھی یہی کلیہ عائد ہوتا ہے۔

آج ہی کی بات ہے‘ بشپ صاحب کی طرف سے‘ امن سیمینار منعقد ہونے جا رہا ہے۔ پروفیسر ہونے کے ناتے‘ بد ہضمی اور گیس کا شکار ہوں۔ کیا کروں‘ میں بات نہیں کر سکتا‘ کہ لالہ جو گولیاں اور چھتر کھا رہے ہیں‘ انھیں امن کی کتھا سنا رہے ہو اور جو گولیاں اور چھتر مار رہا ہے‘اس کے معاملہ میں آنکھ بند کیے ہوئے ہو۔ میں یہ سب کہہ نہیں سکتا۔ کمزور‘ بوڑھا اور بیمار آدمی ہوں۔ میرے پاس ایک چپ اور سو سکھ کے سوا‘ کچھ نہیں۔

ایک موبائل ایس ایم ایس کا حوالہ دیتا ہوں۔ حضرت قائد اعظم کے پاس‘ ایک خاتون آئی اور اپنے بیٹے پر جھوٹے قتل کے مقدمے کے حوالہ سے درخواست کی۔ بابا صاحب نے‘ مقدمہ لڑا اور خاتون کے بیٹے کو بچا لیا۔ خاتون نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج تو آپ ہیں اور کمزروں کو بچا لیتے ہیں‘ کل آپ نہ ہوئے‘ تو کمزروں کا کیا بنے گا۔ بابا صاحب نے فرمایا‘ نوٹوں پر چھپی میری تصویر‘ ہر کسی کے کام آئے گی۔ اب مسلہ یہ آن پڑا ہے‘ کہ نوٹ‘ لسے اور ماڑے لوگوں کے قریب سے بھی نہیں گزرتے۔ ایسےبرے وقتوں میں‘ خاموشی ہی بہتر اور کارگر ہتھیار ہے۔ اپھارہ ہوتا ہے‘ تو ہوتا رہے‘ مجھے کیا پڑی ہے‘ جو اس امن سیمینار پر کوئی بات کروں بلکہ مجھ پر یہ کہنا لازم آتا ہے‘ کہ کہو گولیاں کھاؤ چھتر کھاؤ‘ چپ رہو‘ سکون کی گزارو۔ اؤں آں اور ہائے وائے کرکے‘ دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190874 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.