آج سے کافی عرصہ پہلے ذاتی طور
پر ایک خبر پڑھی جس میں بیان کیا گیا تھا کہ ایک شخص نے اپنے بیٹے کو اس
لئے ذبح کر دیا کہ بقول باپ کے اسے خواب میں ایسا کرنے کا اشارہ دیا گیا
تھا۔
پارہ نمبر 25 ، سورہ نمبر 42 ، سورہ الشوری ، آیت نمبر 51 : (۔۔۔ناممکن ہے
کہ کسی بندے سے اﷲ کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی
فرشتے کو بھیج کر اور وہ اﷲ کے حکم سے جو وہ چاہے ، وحی کرے ۔ بے شک اﷲ
برتر ی والا ، حکمت والا ہے۔۔۔۔۔)
اس آیت ِ مبارکہ سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اﷲ تعالی کسی بھی بندے سے پردے
میں بات کر سکتے ہیں ۔ قرآن مجید سب کا سب اﷲ کی بات چیت ہے ۔ جس کے ذریعے
اﷲ تعالٰی آپ کی روح سے گویا آمنے سامنے باضابطہ بات کرتا ہے اور یہ کلام
اپنی مذہبی حیثیت میں حکم ، قانون اور ضابطہء حیات کا درجہ بھی رکھتا ہے ،
مگر دوسری طرف اﷲ کی سرگوشی کی سنت بھی ہے جو اسی قانون اور ضابطہء حیات کی
طرف لانے کا ایک طریقہ ہے جس میں اﷲ تعالٰی کسی بندے کے ساتھ براہ ِ راست
ہو جاتے ہیں ۔
کیا واقعی اﷲ تعالٰی خاص و عام انسانوں سے براہ ِ راست ہوتے ہوئے ایسی کوئی
سرگوشی کرتے ہیں ؟ کیسے کرتے ہیں ؟ وہ پردہ کیا جس کے پیچھے سے سرگوشی کی
جاتی ہے ؟
اس تحریر میں ان اہم سوالات جاننے کی کوشش کریں گے تاکہ آپ سے بھی جب کبھی
اﷲ تعالی یوں سرگوشی کریں تو آپ سمجھیں کہ اﷲ تعالٰی نے آپ کو اپنی طرف
متوجہ کیا ہے ۔
عمومی طور پر یہ ً پردہ ً واقعات کی صورت میں ہوتا ہے جن کے در پردہ ہمیں
اﷲ تعالٰی کی سرگوشی سنائی دے گی ۔ آپ کی زندگی میں ایسے واقعات رو نما
ہوتے رہتے ہیں ۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالٰی نے خوابوں کے ذریعے بھی سرگوشی کی
ہے ۔جیسے حضرت یوسف ؑ کے دور میں بادشاہ کو خواب دکھائے گئے جو کہ سچے تھے
۔
اﷲ کی اس سرگوشی کو سننے کے لئے دل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اﷲ تعالٰی کی عبادت
کا مقصد لئے جب اپنی موجودہ طرز ِ زندگی کو قرآن مجید اور حدیث ﷺ کی روشنی
میں گزارنے کا عزم رکھیں گے تو دل اس سرگوشی کو سن پائے گا ۔ پارہ نمبر ,
17 سورہ نمبر 22 ، سورہ الحج ، آیت نمبر 46 : (۔۔۔۔کیا انہوں نے زمین میں
سیر نہیں کی کہ جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں ہی سے
ان (واقعات ) کو سن لیتے ، بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ
دل اندھے ہو تے ہیں جو سینے میں ہیں ۔۔۔۔۔۔)
حضرت آدم ؑ کے سب سے پہلے انسانی دور میں علامتی طور پر اﷲ اور بندوں کے
ساتھ بات چیت کا رواج عام تھا ۔ جیسے اس دور میں قربانی کی قبولیت کا پتہ
سر عام قربانی کے گوشت کو آسمانی آگ کے کھانے یا نہ کھانے سے معلوم ہو جاتا
تھا ۔ حضرت موسی ؑ کے دور میں جادو کا دور دورہ تھا تو اﷲ تعالٰی نے اس دور
کے مطابق حضرت موسی ؑ کی امت سے سرگوشی کی اور اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ
کیا ۔ اس سرگوشی کو سن کر حضرت موسی ؑ کے وقت کے بڑے بڑے ماہر جادوگر اندر
سے سجدہ ریز ہوئے اور اسلام لے آئے ۔حضرت یوسف ؑ کے دور میں خوابوں اور ان
کی تعبیر کے ذریعے اﷲ تعالٰی نے حضرت یوسف ؑ کی امت سے سرگوشی کی ۔
حضور پاک ﷺ کی امت میں علم کا دور دورہ ہے تو اﷲ تعالٰی کی سرگوشی علم کی
صورت میں جا بجا اپنا احساس دلا تی ہے ۔مثلاً اپنے علم کی بنیاد پر اﷲ
تعالٰی نے انسان کو اپنی تخلیق میں سے نقص نکالنے کا ایک کھلا چیلنج دیا ہے
: سورہ نمبر 67 ، سورہ الملک ، آیات نمبر 3 اور 4 : (۔۔۔۔ جس نے اوپر تلے
سات آسمان بنائے ۔تو رحمان کی تخلیق میں کوئی نقص نہ دیکھے گا ۔دوبارہ نظر
ڈال کیا کوئی شگاف ہی نظر آتا ہے ۔ ۔ پھر نظر ڈال تیری نظر ناکام واپس لوٹ
آئے گی ۔۔۔ ) موجودہ دور میں جدید ترین Hubble Telescope کے باوجود انسان
نے اﷲ تعالٰی کا یہ چیلنج قبول نہیں کیا ہے ۔
پیغمبروں سے سرگوشی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر کیا واقعی اﷲ تعالٰی عام
انسانوں سے بھی ایسی کوئی سرگوشی کرتے ہیں ؟ پارہ نمبر 6 ، سورہ نمبر 5 ،
سورہ المائدہ ، آیت نمبر 31 : (۔۔۔پھر اﷲ تعالی نے ایک کوے کو بھیجا جو
زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپا
دے ، وہ کہنے لگا ہائے افسوس میں ایسا کرنے سے بھی گیا گزرا ہو گیا کہ اس
کوے کی طرح اپنے بھائی کی لاش کو دفنا دیتا ، پھر تو بڑا ہی پشیمان اور
شرمندہ ہو گیا ۔۔۔۔۔)
یہ آیت حضرت آدم ؑ کے بیٹے حضرت قابیل ؑ کے لئے نازل ہوئی تھی جنہوں نے
اپنے بھائی ہابیل ؑ کو قتل کردیا تھا اور گناہ گار ٹھہرے تھے ۔اس سے دو
باتیں واضح ہوتی ہیں کہ اﷲ تعالی کسی سے بھی بات کر سکتا ہے ، اس کے لئے ً
پہنچے ہوئے ً ہونے کی شرط نہیں ہے ۔ اس سرگوشی کے لئے اﷲ کی اپنی مرضی اور
منشا کی شرط ہے ۔ جبکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے لئے بڑا ً
پہنچا ً ہوا ہونا لازمی شرط ہے ۔اس آیت ہی کے ذریعے آپ دیکھئے کہ قابیل ؑ
سے ایک گناہ سرزد ہو گیا تھا مگر اﷲ تعالٰی نے ان سے پردے کے پیچھے سے کلام
کیا ۔
پارہ نمبر 26 ، سورہ نمبر 46 ، سورہ الاحقاف ، آیت نمبر 29 : (۔۔۔اور یاد
کرو جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تمہاری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن
سنیں۔۔۔) اس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اﷲ تعالٰی نے جنوں کی ایک
جماعت کے ساتھ ایسی ہی ایک سرگوشی کی ۔
بڑے بڑے جلیل القدر صحابہء کرام کے قبول اسلام کے واقعات دیکھ لیں ۔ان کے
قبول ِ اسلام کے واقعات میں یقیناً اﷲ تعالٰی نے ان حضرات سے ایسی ہی کوئی
سرگوشی کی اور پھر یہ ہستیاں اسلام کی طرف پلٹیں ۔ مثلاً حضرت عکرمہ ؓ کے
قبول ِ اسلام کا واقعہ ہی دیکھ لیں ۔ حضرت عکرمہ ؓ اسلام لانے سے پہلے کسی
سفر کے ارادے کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہوئے ۔ کشتی میں اور لوگ بھی سوار
تھے ۔ سفر شروع ہوا ۔ آگے چل کر سمندر کی ہوا اچانک تیز ہوگئی اور کشتی
ہچکولے کھانے لگی ۔لوگوں نے اپنے اپنے عقل کے مطابق مشرکانہ عقیدے کے تحت
لات ، منات اور عزہ وغیرہ کو پکارنا شروع کر دیا کہ جان بچے مگر صورت ِ حال
بہتر نہ ہوئی ۔ اس پر کسی نے کہا کہ لگتا ہے آج لات منات اور عزہ نہیں صرف
اﷲ ہی جان بچا سکتا ہے ۔اﷲ تعالی کا نام لینے پر ہوا اور کشتی معمول کے
مطابق چلنے لگ پڑیں ۔ اس پر حضرت عکرمہ ؓ نے سوچا کہ یہی بات تو حضرت محمد
ﷺ فرماتے ہیں ۔واپسی پر حضرت محمد ﷺ کے ہاتھوں اسلام قبول کر لیا ۔
اسی طرح کے واقعات ہماری زندگیوں میں بھی رونما ہوتے رہتے ہیں ۔کبھی ہم کسی
قرآنی آیت یا حدیث ﷺ کو سائینس سے ثابت ہونے کا پڑھتے ہیں اور اسلام کے
اصولوں کو حالات اور واقعات کی روشنی میں سب سے بہتر ثابت ہوتا ہوا پاتے
ہیں ۔اس وقت دنیا کی بڑی بڑی سپر طاقتوں کو اﷲ کی بنائی ہوئی آفات کے سامنے
بے بس دیکھتے ہیں اس وقت اﷲ کی سرگوشی صاف سنائی دیتی ہے ۔سننے والا دل
چاہئے ۔
دوسر ی طرف اپنے پیارے پیغمبر حضرت داؤد ؑ کے ساتھ بھی اﷲ تعالٰی نے سرگوشی
کی ۔آئیے اس سرگوشی کا حال جانتے ہیں ۔سورہ نمبر 38 ، سورہ ص ، آیات نمبر
21 تا 24 : ( ۔۔۔اور کیا تجھے ان جھگڑا کرنے والوں کی بھی خبر ملی ہے جبکہ
وہ دیوار پھاند کر اندر آگئے ۔جب یہ حضرت داؤد ؑ کے پاس پنہچے تو یہ ان سے
ڈر گئے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈرئیے مت ۔ ہم دونوں ایک مقدمے کے فریق ہیں ۔ہم
میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے ، پس آپ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ
فیصلہ فرما دیں اور نا انصافی نہ کیجئے ۔اور ہمیں سیدھی راہ بتا دیں ۔سنئے
یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے
، یہ مجھ سے کہتا ہے کہ یہ دنبی بھی تم میرے حوالے کر دو اور مجھ پر بات
میں بڑی سختی برتتا ہے ،آپ نے فرمایا کہ اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری
دنبی کو ملا لینے کا سوال بے شک تیرے اوپر ایک ظلم ہے ، اور اکثر حصے دار
شریک ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں سوائے ان کے جو ایمان
لائے اور نیک عمل کئے ، اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں ، اور حضرت داؤد ؑ
سمجھ گئے کہ ہم نے اس واقعے کے ذریعے ان کو آزمایا ہے ، پھر تو وہ اپنے رب
سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع
کیا۔۔۔۔۔۔)
اﷲ تعالٰی کی سرگوشی ، خواب ، اشارہ یا کوئی اور علامتی اظہار محض اﷲ
تعالٰی کے ساتھ قلبی تعلق ، معرفت یا کسی علمی و تکنیکی استعداد ِ کار میں
بہتری لانے کے لئے ہو تا ہے ورنہ کوئی بھی مسلمان حضور پاک ﷺ کا امتی ہونے
کے بعد اس قسم کی سرگوشی ، خواب ، اشارہ یا کسی اور علامتی اظہار کی بنیاد
پر دوسروں کی کیا ، اپنی جان بھی لینے کا کوئی حق نہیں رکھتا ۔ اﷲ تعالی
حضور پاک ﷺ کے کسی امتی کو کسی دوسرے انسان یا خود اپنے ساتھ ظلم اور
زیادتی کرنے کی سرگوشی بھلا کیسے کر سکتا ہے ؟ خصوصی طور پر ایسی صورت میں
جب ہر انسان کی جان ، مال ، عزت و آبرو کو اﷲ کا دین مکمل تحفظ دے چکا ہے۔ |