آج کے اس جدید دور میں آپ اپنے اردگرد موجود دنیا سے تو
ہر لمحہ باخبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آج ہم آپ کو سمندر کی تہہ میں
تخلیق کی گئی ایک مصنوعی مگر دلچسپ دنیا کے بارے میں بتائیں گے- درحقیقت یہ
میکسیکو کے ایک سمندر میں تخلیق کیے گئے مجسموں پر مشتمل ایک مکمل میوزیم
ہے جسے جیسن ٹیلر اور ان کی ٹیم نے تخلیق کیا ہے- بی بی سی نے اس پر ایک
دلچسپ رپورٹ مرتب کی ہے جسے چند ترامیم کے بعد ہماری ویب کے قارئین کے لیے
بھی یہاں پیش کیا جارہا ہے-
|
|
میکسیکو کے پرفضا مقام کین کون کے قریب سمندر کی تہہ میں گزشتہ کئی سالوں
سے فنکار جیسن ڈی کیریاس ٹیلر قدِ آدم مجسمے بنا کر رکھتے رہے ہیں جو کہ اب
ایک زیرِ سمندر میوزیم بن چکا ہے۔
|
|
اس منصوبے کے لیے سرمایہ یائم گونزالز کانو نے فراہم کیا ہے جو نیشنل مرین
پارک سے تعلق رکھتے ہیں اور اس میں 450 قدِ آدم مجسمے ہیں۔
|
|
ان مجسموں کو ایک خصوصی سیمنٹ سے بنایا گیا ہے تاکہ ان پر سمندری گھاس اور
دوسری سمندری مخلوق اور پودے اگ سکیں جو وقت گزرنے کے ساتھ مچھلیوں، ایلگے
کو اپنی جانب متوجہ کر پائیں گے۔
|
|
نومبر 2010 میں ایستادہ کیے گئے اس فن پارے کا نام ہے ’خاموش ارتقا‘ جو
ٹیلر کا سب سے زیادہ مبہم فن پارہ ہے۔
|
|
یہ فن پارے 420 مربع میٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس کا وزن 200
ٹن ہے۔
|
|
ان مجسموں کو مختلف طبقوں کے افراد کے مطابق بنایا گیا ہے اور ان کا مقصد
مچھلیوں یا سمندری مخلوقات کو بڑے پیمانے پر مائل کرنے کے لیے ہے۔
|
|
ایک کورل ریف میں سمندری مخلوق کو ایک بہت ہی پیچیدہ طریقے سے رہنے کے لیے
ملتا ہے جو بہت ہی متنوع ہوتا ہے۔
|
|
اس میوزیم کو دو گیلریوں میں تقسیم کیا گیا ہے جسے سیلون مینچونوز
اور سیلون نیزک کہا جاتا ہے۔ پہلا حصہ آٹھ میٹر گہرا ہے اور غوطہ خوروں اور
سنورکلنگ کرنے والوں کے لیے مناسب ہے۔
|
|
دوسرا حصہ چار میٹر گہرا ہے اور اس میں ’جمود‘ نامی جگہ ہے جہاں سنورکلنگ
یا زیرِ سمندر غوطہ خوروں کو جانے کی اجازت ہے۔
|
|
جیسن کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ دو دہائیوں میں ہماری نسل نے بہت تیزی سے تبدیلی
کا سامنا کیا ہے جس میں ٹیکنالوجی، ثقافتی اور جغرافیائی تبدیلی ہے۔ میں
سمجھتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں ہمیں ایک احساس محرومی ملا ہے اور میرا کام
اس کے چند لمحات کو ریکارڈ کرنے کی کوشش ہے۔‘
|
VIEW PICTURE
GALLERY
|
|