چوڑیاں - نازک احساسات و جذبات کی طرح نازک زیور

وہ کہتی تھی چوڑیاں٬
اس کو پیاری ہیں
نزاکت کی علامت ہیں
شرم و حیا کے پیکر کی
دلفریب ضرورت ہیں
سو اس بار میں اس کو٬
کچھ کانچ سی چوڑیاں پہنائیں
لبوں سے چوم کے ہاتھوں کو
اس کی خوشبو دل میں بسائی

چوڑیاں برصغیر پاک و ہند کا سب سے خوبصورت اور دلفریب سنگھار ہے- اس میں نزاکت بھی ہے٬ لطافت بھی اور نفاست بھی- یہ روایتی زیور پاکستان٬ بھارت اور بنگلہ دیش میں یکساں طور پر مقبول ہے-

زمانہ قدیم سے شاعروں نے اس زیور کا ذکر اپنے گیتوں٬ نظموں اور دوہوں میں کیا ہے- گویا محبوب اور اس کا بناؤ سنگھار اور سنگھار میں بھی “ چوڑیاں “ لازم و ملزوم ہے- یہ وہ واحد زیور ہے جو صنفِ نازک کے ہر طبقے میں استعمال ہوتا ہے- عالی شان محلوں میں رہنے والی رانیاں ہوں یا غریب گھرانے کی سپنے بنتی ناریاں٬ سب ہی اس زیور کو پہننے میں خوشی محسوس کرتی ہیں-

چوڑیاں کئی طرح کی ہوتی ہیں مثلاً کانچ کی٬ سونے کی٬ پلاسٹک کی٬ اسٹیل کی اور ہر علاقے کی چوڑیوں کے حوالے سے اپنی روایات اور حکایات ہوتی ہیں- خصوصاً سہاگنوں کی نشانی بھی یہی “ زیور “ ہے- کہتے ہیں کہ دلہن جتنی زیادہ کانچ کی چوڑیاں پہنے گی اس کی ازدواجی زندگی اتنی پرمسرت گزرے گی- اور ہندو مت میں تو یہ روایت ہے کہ شادی شدہ عورت کی کلائیوں کا چوڑیوں کے بغیر ہونا “ برا شگون “ سمجھا جاتا ہے-

صحرائی علاقوں میں پلاسٹک کی سفید چوڑیآں وہاں کی مقامی عورتوں کے بازؤں میں نظر آتی ہیں- اور اگر کوئی عورت بیوہ ہوجائے تو وہ یہ چوڑیاں آگ میں پھینک دیتی ہے-

پاک و ہند میں صدیوں تک ساتھ رہنے کی وجہ سے کچھ باتیں مشترکہ نظر آتی ہیں- جن میں ایک روایت چوڑیاں پہننا بھی ہے- مسلمان اور ہندوں لڑکیوں اور خواتین کا ہر تہوار اس کے بغیر ادھورا ہے- ہر علاقے کی چوڑیوں کے حوالے سے اپنی ایک منفرد تاریخ ہے- مثلا٬ پنجاب میں شادی کے دن خواتین سرخ اور سفید چوڑیوں کا سیٹ پہنتی ہیں جن پر پتھر کا کام ہوتا ہے-

حیدرآباد چوڑیوں کے حوالے سے دنیا کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے- جبکہ انڈیا میں مراد آباد اس لحاظ سے مشہور ہے- چوڑیاں بنانے کے لیے سمندری سیپیاں٬ تانبہ٬ کانسی٬ چاندی ٬ سونا اور کانچ کا استعمال کیا جاتا ہے- ٹیکسلا٬ موہن جو دڑو سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں اس زیور کا استعمال کس قدر قدیم ہے-

وقت کے ساتھ ساتھ چوڑیوں کی آرائش و زیبائش بدلتی گئی- چھٹی صدی میں سیپیوں سے بنی ہوئی چوڑیاں مقبولِ عام تھیں- اس کے علاوہ سونے٬ چاندی یا دھات کی بنی ہوئی چوڑیاں مستعمل تھی- سمندری سیپیوں سے بنی سفید چوڑیاں شادی شدہ ہندو اور بنگالی عورتیں پہنتی تھیں-

پلاسٹک کی چوڑیاں بھی رائج ہولیں٬ لیکن کانچ کی چوڑیاں ہمیشہ مقبول رہیں- اب بھی خواتین کی پہلی ترجیح کانچ کی نازک چوڑیاں ہیں- جن کی کھنک ہر موسم اور دل میں ہلچل مچا دیتی ہے-

نت نئے طریقوں سے اس میں جدت پیدا کی جاتی ہے- کچھ سادہ تو کبھی مینا کاری٬ کبھی بیل بوٹے تو کبھی Glitter سے اسے سجایا جاتا ہے- یا پھر آرائشی اشیا مثلاً موتی یابندے کی مانند لڑیوں سے اس کی آب و تاب میں اضافہ کیا جاتا ہے-

برصغیر پاک و ہند کی اس صنعت کی تشہیر بھی مختلف ذرائع سے کی جاتی ہے- حیدرآباد میں چوڑیوں پر نام نقش کیے جاتے ہیں جو بطور تحفہ دے کر خلوص و محبت میں اضافہ کیا جاتا ہے- یہ وہ زیور ہے جو بہت خوبصورت٬ شفاف اور نازک ہوتا ہے بالکل انسانی دل کی طرح- اور ذرا سی بے احتیاطی سے ٹوٹ بھی جاتی ہیں بالکل نازی جذبات و احساسات کی طرح- گیتوں٬ نظموں میں محبوب سے محبت کے اظہار کے لیے اسی زیور کا تذکرہ کیا جاتا ہے- مثلاً پروین شاکر نے چوڑیوں کے سُر میں محبت کا نغمہ یوں پیش کیا ہے-
کانچ کی سرخ چوڑی
میرے ہاتھ میں
آج کیسے کھنکے گی
جیسے کل رات٬ شبنم سے لکھی ہوئی
تیرے ہاتھ کی شوخیوں کو
ہواؤں نے سُر دے دیا ہو

عید پر تو چوڑیوں کا تحفہ لڑکیوں کا پسندیدہ انتخاب ہوتا ہے- اور چاند رات اس کے بغیر پھیکی اور ادھوری دکھتی ہے- چوڑیاں صنفِ نازک کا سنگھار اور اس کی تکمیل ہے- نسوانیت کا اظہار ہے- لڑکیوں کی معصومیت٬ سادگی اور نازک جذبات و احساسات کے لیے چوڑیوں کی تشبیہ استعمال کی جاتی ہے-

امیرہ خسرو نے اپنے کلام میں صنفِ نازک کے زیور کا ذکر بڑی خوبصورتی سے کیا ہے- اور گوری گوری بانہوں میں ہری ہری چوڑیوں کا ذکر کر کے ہند و پاک کی ناریوں کی خوبصورتی کو اس زیور کے ذریعے بیان کیا ہے-

زمانہ کتنی ترقی کیوں نہ کر جائے- مغرب کے لباس و انداز کی تقلید کتنی قابلِ فخر کیوں نہ کہلائے- آج بھی اس زیور کو پہن کر لڑکیاں اپنے مشرقی ہونے کا ثبوت دیتی ہیں- مشرق کی صنفِ نارک کی خوبصورتی کو جب بھی بیان کیا جائے٬ چاہے موسیقی کا سہارا لیا جائے یا پھر شاعری کا استعارہ ہو یا مصوری کا فن پارہ ہو-

تو دراز گیسو٬ آنچل اور چوڑیوں کا ذکر لازم و ملزوم ملتا ہے- گویا مشرق کا یہ زیور اپنی آب و تاب اور انفرادیت کے باعث ہر دور میں یکساں مقبول رہا ہے-

Andleeb Zuhra
About the Author: Andleeb Zuhra Read More Articles by Andleeb Zuhra: 9 Articles with 20764 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.