یہ دو قسطوں پر مضمون ایک انتہائی ضروری موضوع پر صحیح
نیت سے لکھا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دوست کو موضوع کی ضرورت کی بنا پر
لکھے گئے کسی جملے یا لفظ پر اعتراض ہو لیکن اپنی سی پوری کوشش کی گئی ہے
کہ شائستگی سے اپنی بات سمجھا دی جائے!
کامیاب اور خوش و خرم زندگی گزارنے کے لیے انسان کا تن درست اور صحت مند
ہونا نہایت ضروری ہے۔ ذہن اور جسم صحت مند ہوں تو انسان زندگی کے ہر مرحلے
میں کامیابی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ جنس، انسان کی صحت اور زندگی کا نہایت اہم
حصہ ہے اور کسی بھی انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت میں اس کی جنسی صحت
بنیادی کردار ادا کرتی ہے،مگر ہمارے معاشرے میں بعض غیر ضروری پابندیوں اور
سماجی رویوں کی وجہ سے، جنس کے حوالے سے ایسی ضروری باتوں سے بھی گریز کیا
جاتا ہے جن سے نہ دینِ اسلام میں منع کیا گیا ہے اور جو صحت مند معاشرے کی
تشکیل میں اہم ہوتی ہیں۔
کیا نوجوان لڑکوں کو مثبت جنسی تعلیم اور رہنمائی دی جانی چاہیے؟یہ سوال
کبھی نہ کبھی آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں ضرور ابھرا ہوگا، چونکہ بلوغت تک
پہنچنے میں جن منازل و تجربات نیز یقین و بے یقینی کی جن کیفیات سے آپ گزرے
ہوں گے، انھوں نے یہ سوچنے پر ضرور مجبور کیا ہوگا کہ آخر جب ہرطرح کی
متعلقہ تعلیم ہمیں دی گئی اور زندگی کے ہر نشیب و فراز سے آگاہ کیا گیا تو
آخر اس اہم ترین معاملے میں ہمارے والدین، اساتذہ اور دیگر بزرگوں نے کیوں
خاموشی اختیار کی؟یا آپ نے کبھی اس ذیل میں از خود یا کسی دوسرے کے ذریعے
جنسی اعضا اور وظیفہ جنسی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں
کی؟ حالاں کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اور بچپن سے لڑکپن میں داخل ہوتے
وقت یہ سوالات آپ نے ضرور کیے ہوں گے کہ آپ کی آواز دورنگی یعنی کبھی باریک
اور کبھی بھاری کیوں ہو رہی ہے ؟ یا گردن میں ایک نوکدار ہڈی کیوں ابھر رہی
ہے؟ یا چہرے پر ایک دم رواں کیوں اگنے لگا؟یا قد تیزی کے ساتھ کیوں بڑھنے
لگا؟ یا نیند کی حالت میں احتلام کا ہوناوغیرہ وغیرہ....یہ تبدیلیاں جو
دراصل بلوغت کی نشانی ہیں، آپ نے ان کے بارے میں کبھی بھی اپنے بزرگوں سے
پوچھنے کی جرات نہیں کی ہو گی(حیرت کی بات ہے کہ یہ الجھن صرف بچوں کو پیش
آتی ہے، کیوں کہ بچیوں کو ان کی مائیں عموماً سب کچھ سمجھا دیتی ہیں، اسی
وجہ سے ہم نے نوجوان لڑکوں کو مثبت تعلیم دینے کی بات کہی ہے کیوں کہ بچیوں
کو ایسی کوئی پریشانی عموماً نہیں ہوتی)۔
دراصل ہمارے ماحول اور معاشرے میں جنس کو علی الاطلاق شجر ممنوعہ سمجھ لیا
گیا ہے کہ جو بھی اسے سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ گویا سخت برا کام کرے
گا۔ایک طرف جنس کے بارے میں بچپن ہی سے آپ کے ذہن میں یہ بیٹھا ہوا ہے کہ
یہ ایک گندی اور گناہ کا چیز ہے اور اس سے بچ کر چلنا چاہیے تو دوسری طرف
فطری طور پر جب جسم میں تبدیلیاں آتی ہیں اور جنسی خواہشات سر اٹھاتی ہیں
تو ان سے خود کو بچانا ممکن نہیں رہ جاتا ۔ ایسے موقع پر قریب البلوغ سیدھے
سادے بچے تو خود کو گندا اور برا سمجھنے لگتے ہیں اور تیز طرار قسم کے بچے
غلط ذریعوں سے معلومات حاصل کر کے بہت کچھ غلط کر بیٹھتے ہیں۔آج سے پچاس سو
سال پہلے تک تو یہ رویہ ٹھیک بھی تھا، کہ جب بہت چھوٹی عمر میں بچوں کی
شادیاں کر دی جاتی تھیں، یقین کیجیے صرف چودہ پندرہ سال میں( ہمارے نانا
مرحوم کی شادی پندرہ سال کی عمر میں ہوئی جب نانی اماں بارہ سال کی تھیں)۔
تو اس وقت نوجوان کو پریشان ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا، شادی سے پہلے
خاندان کا کوئی بزرگ یا کچھ بڑا کزن جو خود شادی شدہ ہوتا، ضروری معلومات
فراہم کر دیتا، یوں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج صورتِ حال
یہ ہے کہ شادی کا یہ حال ہے کہ پینتیس چالیس سال کے لڑکے کنوارے گھوم رہے
ہیں، ایسے ماحول میں ایک طرف لڑکوں کو صحیح رہنمائی کرنے والا اور برا بھلا
بتانے والا کوئی نہیں ہوتا اور دوسری طرف جنسی قوتوں کو بیدار کرنے اور ایک
دوسرے کے لیے جنسی کشش پیدا کرنے کے لوازمات اور ماحول ہماری مغرب کی
پروردہ سوسائٹی خوب فراہم کرتی ہے! نوے فیصد ادب، شاعری، مصوری، فلمیں، ٹی
وی، اشتہارات اور مخلوط ماحول یہ سب مردوں اور عورتوں کے بے محابا جنسی
تعلق کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں!!
آپ بازار سے کوئی مشین یا کسی طرح کا آلہ خرید کر لاتے ہیں ، اس کا ڈبہ
کھولتے ہی سب سے پہلے آپ وہ چھوٹی سی کتاب تلاش کرتے ہیں، جس میں اس کے
بارے میں بنیادی معلومات ہوتی ہیں کہ وہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اس سے کیا کام
لیے جاسکتے ہیں اور اسے کیسے استعمال کرنا چاہیے اور کس طرح اس کا استعمال
خطرناک اور نقصان دہ ہوسکتا ہے؟ مگر جنس کے بارے میں کبھی بھی یہ خیال پیدا
نہیں ہوتا کہ ہم صحیح اور مکمل رہنمائی حاصل کریں تاکہ ہمیں اس کی اچھائی
اور برائی کی حدود کا اندازہ ہوجائے۔ حالاں کہ اعضا میں تبدیلی اور احساسات
کی جولانی اگر صحیح جنسی معلومات کے حصول کے بعد ہو تو بلوغت شایدکسی
نوجوان کے لیے کوئی حیرت اور تعجب کی بات نہ ہو۔ مثبت طریقے سے معلومات نہ
دینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچے، جب بچپن سے سنِ بلوغت میں داخل
ہو رہے ہوتے ہیں اور اس وقت ان کے جسم اور ذہن میں جو اہم تبدیلیاں ،
خصوصاً جنس کے حوالے سے آرہی ہوتی ہیں، ان کے بارے میں انھیں صحیح معلومات
اور رہنمائی کہیں سے دستیاب نہیں ہوتیں۔یہ لاعلمی ان کے لیے سخت الجھن ،
پریشانی اور بعض اوقات خوف کا باعث بن ہوتی ہے۔ اس اہم دور میں نوجوانوں کی
صحیح رہنمائی نہ کی جائے تو وہ ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار بھی
ہوسکتے ہیں۔ اور پھر وہ غلط لوگوں اور ذریعوں سے، نامکمل اور گم راہ کن
معلومات سے اپنے لیے غیر ضروری پریشانیاں پیدا کرلیتے ہیں۔حتیٰ کہ ایک
رپورٹ کے مطابق چند سالوں پہلے تک میڈیکل اداروں میں STI's(وہ انفیکشنز جو
جنس کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں) تک نہیں پڑھائے جاتے تھے کہ بھلا ان موضوعات
پر کس طرح سے گفتگو کی جاسکتی ہے ؟ مگر یہاں بھی حیرت کی بات یہ تھی کہ
طالبات کو زنانہ جنسی امراض پوری تفصیل کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے!
جنس اگر واقعی اس قدر گندی چیز ہوتی تو کلام پاک میں اس کا تذکرہ جابجا
کیوں آتا؟ کلام پاک میں اکثر مقامات پر عورت و مرد کے تعلقات کے ساتھ ساتھ
نطفے کے استقرار اور اس کے بڑھنے کے مدارج کو بڑے عالمانہ اور سائنٹیفک
انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ زمانہ حمل اور دودھ پلانے کی مدت متعین کی گئی
ہے، نیز احادیث مبارکہ میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ کس طرح یہ عمل جائز ہے
بلکہ صدقے کا درجہ رکھتا ہے اور کن کن طریقوں سے اس کا ارتکاب غلط اور گناہ
ہے۔
دراصل یہ انسانی سوچ اور اس کی ذہنی تربیت کی بات ہے کہ وہ کس بات کو کس
انداز میں لے رہا ہے، ورنہ جنسی عمل فی نفسہ کوئی غلط بات یا گناہ تو
نہیں،غلط یا گناہ کی بات تو اس کا ناجائز استعمال ہے، لیکن اس طرح تو ہر
عمل کا جائز اور ناجائز محل ہے، تو پھر ان کے بارے میں بھی نہیں بتانا
چاہیے تھا!سوچنے کی بات ہے کہ نکاح تقریباً تمام انبیاءکی سنت ہے اور تمام
نبیوں کے سردار پیارے نبی کی بھی پیاری سنت ہے تو وہ کام جسے انبیاءکرام
اور بزرگانِ دین نے بھی سر انجام دیا، وہ کیسے ایسا غلط ہو سکتا ہے کہ
زندگی کے ایک اہم باب کے بارے تمام ضروری ہدایات سے ہی عامل کو محروم رکھا
جائے۔یاد رکھیے کہ جنس، وظیفہ زوجیت اور تولیدی عمل پورا ایک علم ہے جس پر
حکما ، فلاسفہ اور سائنس دانوں نے کام کیا۔ جنسی عمل اللہ تعالیٰ کی طرف سے
ایک تکوینی حکم ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے.... اور بالکل اسی
طرح یہی جنسی عمل ایک گناہ، ایک گندگی اور ایک گالی ہے جو بہت سی بیماریوں
اور برائیوں کا باعث بنتا ہے.... مگر اس عبادت و گناہ کے درمیان اس وقت ہی
حدِ فاصل کھینچی جاسکتی ہے جب آپ کو اس کے بارے میں پورا پورا علم ہو۔آپ
لوگوں میں سے بہت سے ایسے لوگ اس بات سے حیران ہوں گے کہ ہمارے دینی مدارس
میں صورت حال اس حوالے سے بہترین ہے۔ یہاں تمام ضروری مسائل پڑھائے جاتے
ہیں۔ اس موضوع پربھی اساتذہ کرام بہترین طریقے اور پیرائے سے پوری بات اس
طرح سمجھاتے ہیں کہ شائستگی کا دامن بھی نہیں چھوٹتا اور مقصد بھی پورا ہو
جاتا ہے۔
عموماً ہوتا یہ ہے کہ بلوغت کے وقت جب جنسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور ان
سے بچہ حیران و پریشاں ہوتا ہے تو بالعموم وہ اپنے قدرے بڑے دوستوں سے اس
کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے، جو ڈینگیں مار کر اسے گمراہ کرنے
کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ خود بھی بے چارے صحیح بات نہیں جانتے۔ بہرحال اس
طرح دوستوں سے بے تکلفی سے بات فطری شرم وحیا بھی ختم کر دیتی ہے جو پھر
بعض اوقات بچوں کو انتہائی بے ہودگی تک پہنچا دیتی ہے۔اور اگر کوئی دوست سے
نہ پوچھے تو ادنیٰ گھٹیا لٹریچر جو ہر جگہ موجود ہے، اس سے رہنمائی لینا
چاہتاہے، جو کچے ذہنوں کے لیے اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔
بعض نوجوان یقیناًمعالجین سے بھی رجوع کرتے ہیں مگر آگے ان کی قسمت ہے کہ
وہ کسی پڑھے لکھے معالج کے پاس پہنچ رہے ہیں یا اشتہاری جنسی مراکز کے 70
سالہ سنیاسی باوا کے ہتھے چڑھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی نوجوان بد
خوابی (احتلام) سے حیران و پریشاں ہو کر کسی تعلیم یافتہ معالج کے پاس علاج
کے لیے پہنچے گا تو وہ اسے سمجھا دے گا کہ گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں،یہ ایک
فطری عمل ہے جو کہ اس عمر میں شروع ہوتا ہے اور ایک ماہ میں تین چار بار یا
مخصوص عوامل کی وجہ سے اس سے زیادہ ہو جانا بھی کوئی بیماری نہیں ہے اور آپ
کو کسی طرح کے علاج کی ضرورت نہیں ہے، مگراتائی لالچی بابے اپنی زہریلی
ادویات بیچنے کے لیے اسے تمام امراض اور کم زوریوں کی جڑ گردانیں گے اور
مادہ منویہ کے ایک قطرے کی قوت کو 500 قطرے خون کے برابر ثابت کریں گے اور
یہ ذہن نشین کرا دیں گے کہ اگر ایسا ہوتا رہا اور اس کا مکمل علاج نہ کرایا
گیا تو نا صرف تمام ذہنی و جسمانی صلاحیتیں اور قوتیں جواب دے جائیں گی
بلکہ آگے چل کر شادی شدہ زندگی بھی ناکام ہوجائے گی۔ ہر دو صورتوں میں جو
نتائج برآمد ہوں گے، انہیں آپ بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں۔(جاری ہے) |