حضور حافظ ملت علامہ عبد ا لعزیز محدث مرادآبادی اور ان کی زبردست ملی ا ور تعلیمی مساعی

حضور حافظ ملت علامہ عبد ا لعزیزمحدث مرادآبادی رضی ربہ ا لقوی (ولادت:1894 ء ؍ وصال 31 ؍ مئی 1972ء ) بانی الجامعۃ ا لاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ ، اﷲ عز و جل کے ان بر گزیدہ بندوں میں تھے جن کے دل علوم و حکمت سے بھر پور تھے ،زبان ذکر خدا و رسول سے سرشار تھی، اعمال صالحہ اور سنت نبوی کے پیکر تھے ، خلوص و ﷲیت میں بے مثال تھے، آپ چودھویں صدی ہجری کے نصف آخر کی باوقار، ہر دلعزیز ، اور یکتائے روز گارشخصیت کی حیثیت سے ،علما ، صلحا ، اور دانشوران قوم و ملت میں متعارف تھے ، آپ ایک جامع ا لصفات شخصیت اور منفرد حیثیت کے حامل تھے، شخصیت سازی ، تقویٰ شعار ی، اخلاقی بلندی، اور دین و ملت کی عظیم و گراں قدر تعمیر و کار گزاری ، ملی اور تعلیمی مساعی میں ستاروں کی طرح روشن اور ’’ہمالیہ ‘‘ کی طرح بلند تھے ۔علمی جلالت ، فکری اصابت اور قبولیت عامہ کے بلند منصب پر فائز ہونے کے باوجود بڑوں کا ادب ، چھوٹوں پر حد درجہ شفقت، نسبتوں کا احترام ، معاصرین سے وابستگی و نیاز مندی ، قومی، ملی اورتعلیمی خدمات میں جد و جہد آپ کی روشن زندگی کے درخشندہ و تابناک پہلو تھے۔

قصبہ بھوجپور ضلع مراداباد، یوپی کے ایک دین دار گھر میں میں آپ کی ولادت با سعادت کے موقع پر آپ کے دادا جان نے آپ کا نام’’ مشہور عالم دین شاہ عبد ا لعزیز محدث دہلوی ‘‘کے نام پر عبد ا لعزیز رکھا اور کہا ’’میرا بیٹا عالم دین ہوگا ‘‘ چنانچہ دادا مرحوم کی دعا رنگ لائی اور مستقبل میں محدثثانی ثابت ہوئے اورشاہ عبد ا لعزیزمحدث مرادآبادی اور ’’حافظ ملت ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے علاقے بھوجپور ،مراداباد میں ہوئی بھوجپور سے مراداباد کا فاصلہ قریب اکیس کلو میٹر ہے اس درمیان آپ روز آنہ آمد و رفت ’’پیادہ پا ‘‘(پیدل ) کرتے اور ’’راہ ‘‘ میں ایک قرآن عظیم بھی ختم فرمالیتے اور گھر واپسی پر اپنے ہم عمر افراد سے زیادہ گھر کے کام میں ہاتھ بھی بٹاتے اور درس نظامی اور دیگر دینی علوم کی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل دارا لعلوم معینیہ اجمیرمیں جماعت اہل سنت کے معروف عالم دین خلیفہ اعلیٰ حضرت ، صدر ا لشریعہ مولانا امجدعلی اعظمی (مصنف بہار شریعت) اور دیگرآسمان علم و حکمت کے روشن ستارے علما کرام سے کی 1351ھ ؍ مطابق 1933ء میں منظر اسلام بریلی سے دستار فضیلت اور سند فراغت کی تکمیل کی ۔

دینی علوم و فنون کی تکمیل کے بعد آپ کا رجحان تجارت کے ساتھ مقامی سطح پر خدمت دین تھا اسی وجہ سے آپ کے مشفق استادمولانا امجدعلی اعظمی نے آپ کو بطور خاص اپنے علاقے میں خدمت دین کے لئے مبارک پور بھیجنا چاہا تو آپ نے عرض کیا میرا ارادہ ملازمت کرنے کا نہیں ہے استاذ گرامی نے فرمایا کہ حافظ صاحب : میں آپ کو ملازمت کرنے نہیں بلکہ خدمت دین کے لئے بھیج رہاہوں استاذ کا حکم تھا اور اعظم گڑہ کے علاقے میں پھیل رہی بد مذہبیت کے سد باب کی ضرورت بھی داعی تھی اس لئے آپ 14؍ جنوری 1934ء میں مدرسہ اشرفیہ مصباح ا لعلوم تشریف لے گئے اور وہاں صدر مدرس کی حیثیت سے اپنی ملی، اور تعلیمی مساعی کا آغاز کیا ۔

آپ کی آمد کی برکت اور تعلیمی بیداری کی جد و جہد سے خستہ حال اور غیر معیاری نظم و ضبط پر مشتمل مدرسہ اشرفیہ مصباح ا لعلوم میں آپ کی تعلیم و تربیت کا شہرہ بوئے گل کی طرح ہر چہار جانب صرف ایک سال کی قلیل؛ مدت میں پھیلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کی خدمت میں طالبان علوم نبویہ ’’شمع ‘‘ میں پروانوں کی طرح منڈلانے لگے اور مدرسہ کی غیر آباد فضا میں قرآن ، حدیث ، فقہ،و تفسیر وغیرہ دیگر علوم و فنون کے مباحث سے مدرسہ کے در و دیوار روشن ہونے لگے اور مقامی و بیرونی طلبہ کی کثرت سے مدرسہ کی عمارت اپنی تنگ دامنی پر شکوہ کناں ہونے لگی۔1935ء میں آپ کی علمی تحریک پر قلب مبارکپور ایک وسیع زمین خریدی گئی اور اس پر دو منزلہ شاندار عمارت کی تعمیر ہوئی لیکن آپ کے حسن اہتمام اور عمدہ تعلیم و تربیت کے پس منظر میں بیرونی طلبہ کی روز افزوں بڑھ رہی تعداد سے وہ زمین بھی اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوتی چلی گئی۔ آپ نے اپنے بلند و بالاارادے ،خلوص و للٰہیت سے بھر پور دینی، مذہبی ، قومی، ملی اور تعلیمی اغراض و مقاصد کے پس منظر میں مبارک پور کی آبادی سے باہر ایک وسیع و عریض خطہ زمین خریدا اور اس کے سنگ بنیاد کے لئے 1972ء میں عظیم ا لشان کانفرنس کا انعقاد کرکے ملک بھر کے علما ، مشائخ اور دانشوران قوم ملت کی موجود گی میں الجامعۃ ا لاشرفیہ کا سنگ بنیاد رکھا اور آپ کی شبانہ روز تعلیمی اور قومی مساعی سے وسع وعریض رقبہ پر مشتمل الجامعۃ ا لاشرفیہ شہرستان علم و فضل اور بر صغیر کی شہرۂ آفاق درسگاہ میں شمار کیا جانے لگا ہے۔آپ کے لگائے ہوئے علم و حکمت کے’’ شجر سایہ دار‘‘ سے فیضیاب ہونے والوں کی تعداد قریب پانچ ہزار سے بھی متجاوز ہو چکی ہے او ر ان فرزندان اشرفیہ ’’مصباحی ‘‘ علما میں بیشتر وہ فضلا ہیں جو قدیم و جدید علوم پر مہارت کے ساتھ درس نظامی کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک اور بیرون ملک کی اعلیٰ درسگاہوں اور ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجز کے اہم عہدوں سے وابستہ ہیں ۔اور دینی، ملی اور تعلیمی خدمات میں منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔ شرق تا غرب زمانے میں ہے چرچا اس کا پھیلی عالم میں ہے مصباحی ستاروں کی ضیا۔

مر کز علم و حکمت الجامعۃ ا لاشرفیہ کا سنگ بنیاد رکھنے کے پس منظر کو اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت منکشف و آشکارا ہوتی ہے کہ حضور حافظ ملت علیہ ا لرحمۃ کو قوم مسلم کی ملی،دینی اور تعلیمی زبوں حالی کا بڑا قلق تھاآپ نے اس پہلو پر اپنے طویل تجربات اور پیہم مشاہدات کی روشنی میں محسوس کیا کہ قوم مسلم کے نو نہالوں کو اپنی دینی زندگی اور قومی بقا کے لئے دینی علوم قرآن و حدیث ، فقہ ، و تفسیر وغیرہ کے ساتھ دیگر قدیم علوم و فنون کی بصیرت بھی ضروری ہے ایک موقع پر آپ نے الجامعۃ ا لاشرفیہ کی تعلیمی تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ’’ الجامعۃ ا لاشرفیہ سے میرا مقصد درس نظامی کے طلبہ کو ہندی، انگریزی اور عربی زبان و ادب کا صاحب قلم اور صاحب لسان بنانا ہے تاکہ وہ ہند اور بیرون ہند مذہب اہل سنت کی اشاعت کرسکیں ‘‘ اور عصری علوم و فنون سے طالبان علوم نبویہ کو مرصع کرنے کے لئے فرمایا ’’میں اپنے ادارے میں ٹیکنیکل تعلیم کے شعبے بھی قائم کرو نگا ‘‘ آپ کے آفاقی نظریہ تعلیم و تربیت کے روشن و تابناک پہلو کو شرمندۂ تعبیرکرنے کے لئے آپ کے لائق و فائق شہزادہ، جانشین و محافظ عزیز ملت مولانا شاہ عبد ا لحفیظ (علیگ )مصباحی دام ظلہ جو قدیم و جدید سے ہم آہنگ ، مذہبی اور عصری تعلیم کے سنگم ہیں بڑی برق رفتاری سیجانب منزل رواں دواں ہیں ۔ یہ نگہباں ہیں اس گلشن اشرفیہ کے ہے دعا اپنی خدا ان کو سلامت رکھے۔(آمین)

اور آج حضور عزیز ملت مولانا شاہ عبد ا لحفیظ (علیگ )مصباحی دام ظلہ کی قیادت میں الجامعۃ ا لاشرفیہ اپنی گراں قدر تعلیمی ، تبلیغی ، ملی اور تصنیفی خدمات کے تحت تدریسی اور غیر تدریسی شعبے میں مصروف عمل ہے۔تعلیمی شعبوں میں طلبہ وطالبات کی تعداد 9؍ ہزار ہے اور مختلف شعبوں میں اسٹاف کی تعداد 300؍ سے زائد ہے مبارکپور کی آبادی میں جو نیر ہائی اسکول ، ، نسواں ہائی اسکول ، اشرفیہ انٹر کالج ، قدیم مدرسہ اشرفیہ مصباح ا لعلوم،عالیشان جامع مسجد راجہ مبارک شاہ ، متعدد محلوں میں بچوں کے لئے مکاتب کا انتظام ، لائبریریوں اور انجمنوں، اساتذہ کی رہائشیں اور مارکیٹوں کا خوشنما جال پھیلا ہوا ہے اور ملک و بیرون ملک سیکڑوں دینی و عصری ادارے اس کی شاخ کی حیثیت سے حافظ ملت کی ملی ا ورتعلیمی مشن کی ترویج و اشاعت میں گامزن ہیں جب کہ الجامعۃ ا لاشرفیہ میں کلیۃ ا لشریعہ درس نظامی میں مولویت، عا لمیت ، فضیلت ، تخصص فی ا لحدیث ، تخصص فی ا لفقہ ، تخصص فی ا لادیان،اور تخصص فی ا لاد ب، حفظ قرآن ،قرا ء ت حفص ، قرا ء ت سبعہ جیسے تجوید کے شعبے بحسن و خوبی نونہالان اسلام کی علمی تشنگی بجھانے میں زیر عمل ہیں اور طالبان علوم وارث نبویہ کے لئے دیگرلازمی عصری علوم کے ساتھ حافظ ملت انفارمیشن اینڈ ٹیکنا لوجی کا شعبہ ہے ۔ طلبہ اور قلم کار حضرات کی علمی سیرابی کے لئے اس کی مختلف لائبریریاں ہیں جس میں ’’ امام احمد رضا لائبریری ‘‘مختلف علوم و فنون اور مختلف زبانوں میں ہزار وں اہم اور نادر و نایاب کتابوں اور قیمتی مخطوطات پر مشتمل ہے ۔شعبہ نشرو اشاعت کے تحت سربراہ اہل سنت پروفیسر سید امین میاں مارہروی مد ظلہ ا لعالی کی سر پرستی میں ’’مجلس برکا ت ‘‘ کا قیام عمل میں آیا جہاں عصر حاضرکے تناظر میں علمائے اہل سنت و جماعت کی د ینی اور درسگاہی کتابوں پرنئے رنگ ڈھنگ سے کام کرنے اور ان قدیم کتابوں کی تصحیح ، ترتیب اور تسہیل کے لئے یہاں کے فارغین ’’مصباحی ‘‘ علما و فضلا کی ایک بڑی ٹیم مصروف عمل ہے اور اب تک سیکڑوں درسی اور غیر درسی معیاری کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اور ہرماہ پابندی سے شائع ہونے والا جدید و قدیم سے ہم آہنگ معیاری مضامین ، عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ الجامعۃ ا لاشرفیہ کا دینی اور علمی ترجمان ماہنامہ ’’ اشرفیہ ‘‘ مولانا مبارک حسین مصباحی کی ادارت میں طویل عرصے سے شائع ہورہا ہے جس کا زر مباد لہ 200؍روپے سالانہ ہے۔ ’’ شارح بخاری مفتی شریف ا لحق امجدی دارالافتاء ‘‘بھی موجود ہے جس میں مفتیان کرام کی اچھی خاصی تعداد جماعت اہل سنت کے مستند و معتبر محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی مصباحی کی صدارت میں ملک و ملت کے دشوار گزار مسائل کو قرآن و حدیث اور اقوال سلف کی روشنی میں’’فی سبیل ا ﷲ ‘‘ حل کیا جاتا ہے۔ اس ادارہ کا یک اہم شعبہ ’’مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارکپور‘‘ بھی ہے جس کے تحت عصر حاضر کے سلگتے اور اہم مسائل پر پورے ملک کے سیکڑوں باوقار مفتیان کرام کا کسی اہم مقام پر سیمینار ہوتا ہے اور صدر مجلس شرعی خیر ا لاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی اور دیگر مندوبین مفتیان کرام کے مسائل میں شدید بحث و تحقیق کے بعد کسی مسئلے میں متفق ہونے کی صورت میں امت کی فلاح و بہبود کے پیش نظر اس مسئلہ کو منظر عام پر لایا جاتا ہے بحمدہ تعالیٰ اب تک مجلس شرعی کے اکیس فقہی سیمینار ہوچکے ۔بڑے پیمانے پر ’’حافظ ملت ہاسپیٹل ‘‘کا قیام عمل آچکا ہے جہاں نادار طلبہ اور غریب مسلمانوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے اور ’’حافظ ملت طبیہ کالج‘‘ کی منظوری اخیر مرحلے میں ہے۔ انشاء ا ﷲ جلد ہی اس کا آغاز ہونے والا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی دیگر تنظیمیں اور دینی سرگرمیاں ہیں جنہیں ہم بخوف طوالت ترک کررہے ہیں تفصیل کے لئے وسیع و عریض رقبہ پر پھیلے جامعہ اشرفیہ کا ماتھے کی آنکھوں سے مشاہدہ فرمائیں یا اس کی ویب سائٹس www.aljamiatulashrafi.orgپر سرچ کریں۔انشاء اﷲ کافی دینی ،ملی اور تعلیمی سرگرمیوں سے آشنائی ہوگی۔

آخری بات : بلاشبہ حضور حافظ ملت علامہ عبد ا لعزیز محدث مرادآبادی تقویٰ شعاری اور سنت نبوی کے عملی پیکر تھے آپ کی زبردست ملی ا ورتعلیمی مساعی نے ملی صلاح و بہبود میں گراں قدر خدمات انجام دی اورآپ کے تلامذہ اور ان کے تلامذمہ پوری دلجمعی کے سا تھ ان کے دینی ،ملی اور تعلیمی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھنے میں مصروف عمل ہیں ۔لہذا ہم مسلمانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ کے لگائے ہوئے چمنستان علم و حکمت اور قوم و ملت کی فلاح و بہبود میں کوشاں الجامعۃ ا لاشرفیہ مبارکپور کی ملی ا ورتعلیمی مساعی میں شریک ہوکر ملی اور تعلیمی کاز کو قوت فراہم کریں اور عہد حاضر میں ملت کے شیرازہ کو متحد اور باہم مربوط کرنے اور اہل سنت و جماعت کو انتشار و پسپائی کے دلدل سے نکالنے اور ملت کے زخموں کو مندمل کر نے کی سنجیدہ کوشش کریں کیوں کہ آپ کی حیات طیبہ آپ کے ہزاروں تلامذہ اور ان تلامذہ کے لاکھوں طلبہ اور عقیدت مندان سمیت دیگر منصف مزاج انسان دوست کے لئے مشعل راہ ہے کہ آپ کے نزدیک’’ ہرمخالفت کا جواب کام‘‘ اور زندگی کام کے لئے اور بے کاری موت تھی ‘‘۔تو آئیے ان کے’’ دینی ملی اور تعلیمی مشن کام‘‘ کو فروغ دینے کا عہد کریں۔
اس کی شادابی پہ ہم آنچ نہ آنے دیں گے اس پہ ہم ابر خزاؤں کے نہ چھانے دیں گے
وقت آجائے گا جب اہل جہاں دیکھیں گے اس کی عظمت کے لئے ہم جان بھی دے دیں گے

Md Arif Hussain
About the Author: Md Arif Hussain Read More Articles by Md Arif Hussain: 32 Articles with 57114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.