راز جو ازلوں سے پنہاں رہا اور
ہر دور کے دانشور اسکی تلاش میں سر گرداں رہے مگر اس کی حقیقت سے پردہ
اٹھانے والے بہت کم لوگ ہوئے۔ وہ راز اگر کسی دنیا کے متلاشی نے حاصل کیا
تو اس کو دفن کر گیا، کسی نے اس کی حرص کی اور کوئی اس پر طاقت سے غلبہ
پانے کا خواہشمند رہا اور وہ سربستہ راز صدیوں سے عالم انسانیت کیلئے موضوع
تجسس بنا رہا۔ اس کو پانے کی تگ و دو میں انسان نے نہ جانے کہاں کہاں کی
ٹھوکریں کھائیں مگر ماسوائے چند ایک خوش نصیبوں کے کسی پہ بھی آشکار نہ ہو
سکا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس راز کے کرشمے اکثر انسانی زندگی کا حصہ بنتے رہے
مگر انسان آج تک اس گتھی کو سلجھا نہ پایا۔ اس تگ و دو میں نہ جانے کتنی
زندگیاں صرف ہوئیں؟
اگر کسی کو اسکا ادراک ناآشنائی کے دور میں ہوا تو وہ حیرت کے سمندر میں
غرق ہو گیا اور کوئی نظارہ جاناں سمجھ بیٹھا مگر آشنائی کی لذت کا کیا کہنا
جس کی منزل بھی واضع اور سفر بھی خوب کہ ہر شے کی حقیقت کی سوجھ بوجھ بھی
آسان، اس پہ آشکارہ ہوا تو اس نے دلوں پر بلکہ زندگیوں پر حکومت کا سماں
باندھ دیا اور باقی خالی ہاتھ رہ گئے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ اس حقیقت کا
اظہار ازل سے ادیان سلامتی کرتے آئے ہیں مگر انکو اہمیت دینا اور زندگیوں
میں شامل کرنا تو کجا، بند اک مقدس طاق میں رکھ دیا اور کھول کر سمجھنا
گوارہ نہ کیا گیا۔ اس راز کو سمجھنا ہی اس کے آشکار ہونے کیلئے کافی ہے۔ اس
تیز رفتار زندگی کی دوڑ جس کی منزل اسکے بھاگنے والے خود کو بھی معلوم نہیں
کیا ہے؟ اگر اسے سستانے کے کچھ لمحے ملیں تو کسی اور طرف بھی توجہ دے۔ اس
حقیقت سے نا آشنا لوگ ناکامیوں اور نفرتوں کے سانپوں میں گھرے رہے، کبھی
صبح ڈسے جاتے اور کبھی شام کو مگر پھر بھی نہیں سمجھ سکے۔
اب جبکہ سائنسی انکشافات نے ذہن کے بند دریچے کھولنے شروع کر دیئے اور ذہنی
پستی کی آنکھیں چکا چوند کر دیں مگر عقل سے عاری پھر بھی اپنی زندگی کے
راستے متعین کرنے سے قاصر رہے۔ کوانٹم فزکس، میٹا فزکس اور روحانیت کے
موضوعات اب قلابیں ملانی شروع کر چکے کیونکہ سچائی ازلوں سے ایک ہے، ہر
سچائی کے متلاشی کی منزل ایک ہوتی ہے مگر اصل راستہ تو وہی اچھا ہے جو کم
از کم وقت میں طے ہو؟
آج کا دور پتھروں کا دور نہیں مگر پھر بھی کچھ پتھر موجود ہیں جو سچائی
سمجھنا نہیں چاہتے، ایک انسان کی نظر اب محدود نہیں رہی بلکہ لا محدود ہے
حتیٰ کہ وہ گھر بیٹھے نہ صرف اس کی رسائی کرہ ارض تک محیط ہے بلکہ کہکشاؤں
کی خبر رکھتا ہے اور سارے یہ کمالات اس کی دسترس میں صرف علم نافع کے مرہون
منت ہیں۔ انسانی کمالات کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ اس نے قوانین قدرت کو نہ
صرف سمجھا بلکہ اپنی سوچوں کی نہج کو ان سے ہمکنار بھی کیا اور انسانیت
کیلئے عظیم راہنما اور محسن ثابت ہوئے۔ اگر آج ہم کسی تپتی اور آگ برساتی
دھوپ میں ایک راحتوں، سہولتوں سے بھرے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے ہیں تو کس کے
باعث؟ آج اگر ہم صدیوں پر محیط فاصلے چند گھنٹوں میں طے کر لیتے ہیں تو
کیسے؟ آج اگر اذیت میں مبتلا کوئی فرد اپنی تکلیف سے بچ کر صحت کیطرف لوٹتا
ہے تو کیسے؟ اس مسیحائی کا صلہ کس کیلئے؟
آئیے آج اس راز عظیم کے گل فشانیوں سے پردہ اٹھائیں اور زندگیوں کو اس لذت
آشنائی کی مہک سے لبریز کر دیں۔ اس پنہاں راز کو آشکار کرنے میں لاتعداد
انسانی زندگیاں صرف ہو گئیں مگر کبھی تو معمولات زندگی نے اسے نظروں سے
اوجھل رکھا اور کبھی تفکرات بے معنی اس پر چھائے رہے۔ یہ ایسا راز ہے کہ
اسکا افشاں ہونا انسانی زندگی میں ایک نئی کھڑکی، ایک نیا چینل کھلنے کے
مترادف ہے۔ یہ ایسا بیج ہے اگر انسانی ذہن میں بو دیا جائے تو کائنات کی
تمام خوبصورتیاں اور کامیابیاں ہاتھ باندھے استقبال کیلئے کھڑی ہوں۔
ایک طرف اگر انسانیت اذیت کے دور سے گزر رہی ہے اور تو دوسری طرف کچھ لوگ
سکون کی لذتوں سے مالامال بھی ہیں، جنکو اپنی حاصل کی ہوئی دولت کو انسانیت
کی خدمت کیلئے پیش کر دینا چاہیے، اور یہی طریقہ ہے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں
کے شکر اد کرنے کا کہ دوسروں کو بھی ان میں شامل کرے۔ ورنہ اکثر اوقات
حقیقت کے متلاشی اپنی کم علمی کے باعث مافیا کی بھینٹ چڑھ جاتے جو ازلوں سے
انسانیت کا دشمن اور شیطانیت کا دوست رہا ہے اور وہ انکو ایک ایسے راستے پہ
چلا دیتا ہے جسکی منزل سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔ میری تحریروں کے
موضوعات بھی زیادہ تر ایسی کٹھن راہوں پہ چراغ جلانے کی ایک کوشش ہے۔
ایک اور طبقہ بھی انسانیت کی جڑوں میں زہر گھول رہا ہے جسکا محور صرف
ناکامیوں اور دکھوں کو لذیذ بنا کر پیش کرنا اور اس چنگل میں پھانسنا ہے
جبکہ اس مکتبہ فکر کی راہ مایوسیوں کا گرداب ہے اور بے نشان منزل کا
شاخسانہ ہے اور نتیجہ میں حاصل بھی کچھ نہیں۔ جبکہ اچھے نصیب کے متلاشی لوگ
ناکامیوں اور نفرتوں کی شاموں میں اپنے آپ کو ایسے گرداب میں پھنسا لیتے
ہیں جس سے بچنے کیلئے جتنے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اتنا گہرا دھنستے چلے جاتے
ہیں اور اپنے قیمتی آنسو کسی فضولیت کی راہ میں بہاتے ہیں۔ ناکام زندگی سے
ہمکنار رہبر اپنی ناکامیوں کا خوبصورت جواز بناتے ہوئے اسے شیشے کے محل میں
بٹھا کر کبھی شعر اور کبھی نثر میں الفاظ کے کھیل کھلواڑ کرتے انسانیت کو
ڈس رہے ہیں، مگر ا نکے اس چنگل سے دوری کیلئے لذت آشنائی ایک نسخہ کیمیا سے
کم نہیں۔
آئیے ایک ایسی لذت سے آشکار ہوں جو صدیوں پر محیط ہے۔ بےشمار آفاقی حقیقتوں
سے ہمکنار ہونے کیلئے اپنے ذہن کے دریچے کھول دیں اور اپنی توانائیاں
خوامخوہ ضائع ہونے سے بچانے کیلئے اپنی راہوں کو روشنی کے قمقموں سے آراستہ
کر لیں تاکہ کوئی بھٹکا مسافر بھی ان راہوں پہ آجائے تو اسے اپنی منزل کے
نشاں مل جائیں۔ اور ان قمقموں کی روشنی میں شعوری پستی کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر اسکو پچھاڑ دیں کی کبھی بھولے سے بھی ان راہوں کی مسافر نہ
بنے۔
پوری طرح متوجہ ہوں اور چند لمحوں کیلئے زندگی کی دوڑ کو ٹھہرا دیں کہ اک
مقام آگاہی کا گزر ہے اور سیراب بھی ہونا ہے۔ اگر کہیں بے خبری سے گزر گئے
تو اس کی تلافی ممکن نہیں۔ جی!!! اچھی طرح سے سمجھیں اور ذہن میں نقش کر
لیں کہ ہم روزانہ جانتے ہوئے اور نہ جانتے ہوئے کسی بھی کمپیوٹر کی طرح
پروگرام ہوتے رہتے ہیں اور ہر وہ بات جو سمجھ آجائے، اور توجہ حاصل کر لے
وہ ذہن انسانی کا حصہ بن جاتی ہے اور یہی وہ لمحے ہیں جو محفوظ ہو رہے ہوتے
ہیں جبکہ اکثر ہم اس سے نا آشنا رہتے ہیں۔
اب آپ پوچھیں گے کہ ہمارے ذہن کونسے قانون اور قاعدے کے تحت یہ اثرات قبول
کرتے ہیں یا پروگرام ہوتے ہیں؟ تو اسکا جواب ہے ہمارے عقائد اور یقین ہیں
جن کے بل بوتے ہمارے ذہن تیار ہوتے ہیں یعنی جو کچھ ہم اخذ کرتے ہیں اسکا
دارومدار ان پہ ہوتا ہے۔ مگر آج آپکو ایک نئے زاویئے سے اس پہلو سے آشنا
کرتا ہوں۔ وہ پہلو کہ جسے آج جدید سائنس، مائنڈ سائنس کے حوالے سے بھی
دیکھا جا رہا ہے، جسے زندگی کی کامیابیوں سے ہمکنار لوگوں کی زندگی پہ لکھے
گئے حالات میں سے بھی تلاش کیا جا رہا ہے، جسے صرف خواص کے سوچنے کے انداز
میں بھی تلاش کیا جا رہا ہے، کتابوں پہ کتابیں لکھی جا رہی ہیں مگر اسکی
بھول بلیاں کبھی کبھی شعوریت کے دائرے میں محدود رہتی ہیں۔
اس فطرت کا حسین شاہکار اور راز جو آشکار ہونے کو ہے، وہ ہے قدرت کا قانون
جاذبیت، قانون کشش، قانون مقناطیسیت، جس کا عمل دخل نہ صرف انسانی زندگی کے
ہر لمحہ پر محیط ہے بلکہ اس کائنات کے کا ذرہ ذرہ اس میں جکڑا ہو ا ہے۔
ہمارے ذہن جو کچھ ہمارے لئے محفوظ کرتے رہتے ہیں ہماری زندگی اس سے براہ
راست متاثر ہوتی ہے۔ یعنی ہم اپنی زندگی کو یا تو کامیابیوں کے راستے پہ
ڈالتے ہیں یا پھر ناکامیوں کے جو صرف اسی کے باعث ہے جو ہم پہلے سے ہی ذہن
کا حصہ بنا چکے ہوتے ہیں۔ یعنی ہمارے ذہن میں بسے رہنے والے وہ خیالات جو
ہم فراموش نہیں کر سکتے وہی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ہماری زندگی کی
راہیں متعین کرتے ہیں۔ قدرت کا قانون کشش اس طرح سے کام کرتا ہے جیسے بہتے
پانی کو معلوم ہے کہ بلندی سے نیچے کیطرف بہنا ہے ، جیسے سیب کی بیج کو
معلوم ہے کہ میرے ساتھ آم نہیں لگ سکتا۔ آج اگر آپ کو یہ راز معلوم ہوگیا
تو یقین جانے زندگی کسی سایہ دار درخت کی گھنی چھاوں میں آجائے گی۔
ہماری انفراد ی زندگیاں اکثر مسائل میں الجھی رہتی ہیں اور ہم سمجھ نہیں
پاتے کہ الجھنیں سلجھ کیوں نہیں رہیں، اگر ہمیں معلوم ہوجائے کہ مسائل اور
پریشانیوں کا حل کس طرح سے ہو سکتا ہے تو یقیناً ہم لذت بیکراں سے ہمکنار
ہو جائیں گے۔ کوشش کروں گا کہ ان کیفیتوں کو الفاظ کے احاطہ میں لے آؤں جن
کے باعث زندگی قرار پائے۔
آج دنیا کے بہت سے خطوں میں انتہائی خاص اور مہنگے سیمینار میں اگر شمولیت
کا موقع ملے تو پتہ چلے گا کہ اس قانون قدرت کو کس طرح سے اپنی زندگی میں
شامل کرنے کے طریقے بتلائے جاتے ہیں، اگر دولت مند ہونا چاہتے ہیں تو اپنے
اندر ذہن کا دولت مندی کا تھرمو سٹیٹ بحال کریں اور اسکو سو درجہ پر
لیجائیں۔ اگر لوگ آپ سے نفرت کرتے ہیں تو اپنے اندر محبت کا بیج بو دیں
کیونکہ آپکے ذہن کے خیالات کسی بھی مقناطیس کی خصوصیت سے کم نہیں اور اس
قانون کے تحت وہ سب کچھ کھنچ رہے ہوتے ہیں جسکا بیج آپ لگا چکے۔ نفرتوں کی
ہنڈیا سے نفرت کی ہی بو آئے گی اور پکوان کسطرح سے مختلف ہو سکتا ہے؟
ہماری زندگیوں کے راستے ہمارے ذہن میں بیٹھے ہوئے خیالات کے مرہون منت ہیں،
جیسی سوچ ہوگی ویسے ہی حالات سے واسطہ رہے گا۔ اور اگر کوئی اپنے اندر
نفرت، کدورت، کینہ اور لالچ پالے ہوئے ہے تو کیا خیال ہے اسکے اثرات بدل
سکتے ہیں؟ اور پھر شکوہ کریں کہ ہماری قسمت ہی ایسی تو کیا خیال ہے کہ ہم
صحیح کہہ رہے ہیں ؟ مائنڈ سائنس کی تحقیقات اور طریقہ کار میں جو عوامل
شامل ہیں ان میں بھی اس بات کو اہمیت حاصل ہے کہ انسانی ذہن ایک مقناطیس
کیطرح سے کام کرتا ہے اور ہر وہ شے اپنی طرف کھینچتا ہے جس کا عکس پہلے سے
ہی اس کے اندر موجود ہو۔ لہٰذا آپ پہلے اس سے آگاہ ہوں کہ آپ کے ذہن میں
کونسی ہنڈیا پکتی رہتی ہے کیونکہ اسی کا آپ نے پکا ہوا کھانا ہے !!!!
ایک چھوٹی سی مشق حاضر ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے گی اور
صرف چند لمحوں میں حقیقت کھل جائے گی مگر کچھ نئی حقیقتوں سے بھی آشکار کر
دے گی کہ اس وقت آپ کس ڈگر پہ چل رہے ہیں، آیا اپنے لیے خوشیاں اکٹھی کر
رہے ہیں یا پھر مسائل بڑھا رہے ہیں۔۔۔
" ایک کاغذ لیکر اس کے درمیاں میں ایک متوازی، عمودی لکیر کھینچیں اب دو
کالم کے اس کاغذ پر دائیں طرف وہ کچھ لکھیں جو آپکو نا پسند ہو، ناپسند
خیالات، ناپسند باتیں جن سے آپ اپنی زندگی کو دور رکھا چاہتے ہیں۔ اسی طرح
بائیں کالم میں وہ باتیں، خیالات جو آپ کو پسند ہیں اور آپ اپنی زندگی میں
شامل کرنا چاہتے ہیں۔ لکھنے کے بعد دیانت داری سے موازنہ کریں کہ سارا دن،
یا عمومی طور پر، یا غیر ارادی طور پر کونسی باتیں، خیالات آپکے ذہن پر
محیط رہتے ہیں؟ "
اب موازنہ کریں کہ قدرت کا کشش کا قانون ہماری زندگیوں پہ کسطرح سے محیط
ہے؟ اگر ہم ہر وقت وہ باتیں اور خیالات اپنے ذہن پہ طاری رکھتے ہیں جن کو
ہم اپنے لئے پسند نہیں کرتے یا پھر نا چاہتے ہوئے ان میں الجھے رہتے ہیں تو
کسطرح ممکن ہے کہ ہم اپنے لئے خوشحالی، صحت اور سکون تلاش کر سکیں جو کہ
ہمارے پاس آنے کیلئے ایک طریقہ کار سے وضع ہو چکا؟
یعنی جیسی سوچ و فکر میں مگن ہونگے ویسے ہی حالات سے پالا پڑے گا، لہٰذا
آپنے آپ کو محبت، ہمدردی، الفتوں اور مثبت سوچوں سے سیراب کر دیں تاکہ وہی
کچھ ہمیں زندگی واپس لوٹا سکے۔ یہی وہ بیج ہیں جو اپنا پھل دئے بغیر رہ
نہیں سکتے ۔ جائیے اور کسی بھی چمن کی راہ لیں اور ذرا دیدہ دل وا کریں اور
چمن کا نظارہ بھی جو قدرت کے اس شاہکار کا شاندار نظارہ پیش کر رہا ہے۔ ایک
ہی جیسی زمین پر ایک ہی جیسے ماحول میں کہیں گلاب ہے تو کہیں نرگس اور کہیں
موتیا، اور کہیں آم، اور کہیں سیب اس بات کی گواہی سے رہے ہیں کہ ہم تو صرف
اک اظہار ہیں اپنے اس بیج کا جو اس زمیں میں بویا گیا تھا۔ اور یہ ممکن
نہیں کہ گلاب کے ساتھ نرگس لگے اور موتیے کے ساتھ سورج مکھی، تو ہم کس راہ
کی تلاش میں ہیں؟
آج اگر کوانٹم فزکس، میٹا فزکس شعوریت کی جھمیلوں میں کامیابی، صحت اور
سکون تلاش کرنے میں سرگرداں ہو کر آشکار کرتی ہے کہ انسان جس سوچ کو ذہن
میں بٹھا کر زندگی کی تگ و دو کرے گا نتیجہ میں وہی حاصل ہوگا جس سوچ کا
بیج بو چکا ہوگا، تو اللہ کی رحمت اور مہربانی کا اندازہ کریں کہ اس نے
ہمیں سوچنے کے انتہائی اعلیٰ رستے بتا دئے۔ درحقیقت تمام توانائیوں،
کامیابیوں، صحت اور سکون کا مرکز صرف اللہ کی ذات ہے، وہیں سے ہر شے کی
بازگشت آتی ہے۔ جبکہ اللہ نے اپنے بہت سے خوبصورت نام بھی بتائے ہیں یعنی
اس ذات تک رسائی کیلئے اسکے پہلو، اب اگر ایک انسان محبت کے چینل کو اپنے
لئیے کھولنا چاہتا ہے تو " الودود" کے واسطے سے اپنا ناطہ جوڑ لے، اور اگر
صحت و سلامتی کا متلاشی ہے تو اسکے لئے " السلام " کا ذریعہ اسکا رابطہ
سلامتی کے مرکز سے جوڑ دے گا، سبحان اللہ!!! یعنی ایک مرکز سے فیض یاب ہونے
کے مختلف زاویئے بتائے ہیں پھر ایک بار اللہ کا شکر ادا کریں جو " الرزاق"
بھی ہے " التواب " بھی ہے اور " الرحمن" بھی۔ |