مذاکرات کے مخالف۔۔۔دشمن امن کے

آئی آر اے (آئرش ریپلکن آرمی )کی تاریخ تو کافی پرانی ہے، لیکن اُسے 70ء کی دہائی میں شہرت اُس وقت ملی جب اُس نے شمالی آئرلینڈمیں برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کی پروٹسٹنٹ آباد ی کے خلاف کیتھولک عیسائیوں کے حقوق کے لیے مسلح تحریک کا آغاز کیا۔ 1969ء ؁ میں شروع ہونے والی یہ تحریک صرف شمالی آئرلینڈ تک محدود نہیں تھی ، آئی آراے (IRA) نے اس تحریک کے دوران برطانیہ کے کئی شہروں کو بھی نشانہ بنایاجس میں برطانوی فوجیوں سمیت کئی عام شہری بھی مارے گئے۔برطانوی حکومت اور برطانوی شہری آئی آر اے کو ایک دہشت گردتنظیم سمجھتے تھے ، لیکن امن کے حصول کے لیے اِس دہشت گرد تنظیم اور اس تنظیم کے سیاسی بازوشن فین (Sinn fein)کے ساتھ مذکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ 70 ؁ء اور 80 ؁ء کی دہائی میں مذاکرات کی کئی کوششیں ہوئیں، کبھی خفیہ اور کبھی اعلانیہ لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی،کئی ناکام کوششوں کے بعد1994 ؁ میں آئی آر اے اور برطانوی حکومت نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر دی ۔ یہ کامیابی زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوسکی اور صرف دوسال بعد ہی 1996 ؁ء میں آئی آراے نے لندن اور مانچسٹر میں ایک ساتھ کئی دھماکے کر کے یہ جنگ بندی ختم کر دی ۔آر آئی اے کی اِن کاروائیوں کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوااور اپریل 1998 ؁ء میں گُڈفرائڈے ایگریمنٹ کے نام سے ایک امن معائدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے بعد شمالی آئرلینڈ میں الیکشن ہوئے،الیکشن کے بعد اقتدار پروٹسٹنٹ اور کیتھولک عیسائیوں کے منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیا گیا ۔آئی آراے نے اس معائدے کی بھی پاسداری نہ کی اور1999ا ؁ء میں طے شدہ پروگرام کے مطابق ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیااور تشدد ایک بار پھر بھڑک اٹھا۔3 200 ؁ء میں ایک بار پھر مذکرات شروع ہوئے لیکن ڈیڈلاک آگیا،آئی آر اے نے اِس دوران شمالی آئرلینڈ اور برطانیہ میں اپنی کاروائیاں جاری رکھیں،برطانوی فوج کاآپریشن بھی آئی آراے کے خلاف جاری رہا۔اس سب کے باوجود مذکرات کے ذریعے امن کے حصول کے خواہشمند مایوس نہیں ہوئے اور اُنھوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ 2007 ؁ء میں یہ کوششیں بلاآخر رنگ لے آئیں، آئی آر اے کے سیاسی بازوشن فین اور شمالی آئرلینڈ کے پرو ٹسٹنٹ عیسائیوں کے نمائندہ تنظیم ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی کے درمیان اقتدار میں شراکت داری کا معاہدہ طے پاگیا جسے برطانوی حکومت نے بھی مان لیا۔ گو آئی آر اے میں موجود کچھ شدت پسندوں نے اس معائدے کوبھی ماننے سے انکار کر دیا اور ایک علیحدہ گروپ بنا کر مسلح تحریک جاری رکھی،2008 ؁ء اور 2009 ؁ء میں اُنھوں نے فوج اور پولیس پرکچھ حملے بھی کیے لیکن اکثریت نے اُن کا ساتھ نہ دیااورتشدد کی یہ نئی لہر خود ہی دم توڑ گئی۔ یوں 30سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی یہ خانہ جنگی جس میں دونوں طرف سے ہزاروں لوگ مارے گے آخرکار مذاکرات کے نتیجے میں ختم ہو گئی۔

آئی آر اے سینکڑوں برطانوی فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکت کی ذمہ دار تھی اور برطانوی آئین کو بھی نہیں مانتی تھی لیکن برطانوی حکومت نے امن کے حصول کے لیے بار بار کی ناکامیوں کے باوجود اِن کے ساتھ مذکرات کیے۔ اِن مذکرات کے دوران نہ تو برطانوی میڈیا نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے عجیب وغریب سوالات اور مباحثوں کے ذریعے امن عمل میں کوئی کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کی، نہ برطانوی سیاستدانوں نے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے یہ کہا کہ ملک دشمنوں اور آئین کو نہ ماننے والوں کے ساتھ کیسے مذکرات ؟ نہ مذاکرات کی حمایت کرنے والوں کو آئی آراے کا حامی اور ایجنٹ کہا گیا،نہ ہی کئی بار کی ناکامی کے باوجود اُنھوں نے یہ کہا کہ ہمیں مذکرات سے کوئی توقع نہیں۔ یہاں تو مذکرات شروع ہونے سے پہلے ہی فرمایا جارہا ہے کہ مذکرات عبث ہیں ہمیں کوئی توقع نہیں ،یہ باتیں وہ کررہے ہیں جو پچھلے پانچ سال اقتدارمیں رہے،کوئی ان سے پوچھے اگرآپریشن اتناہی ضروری تھا تواپنے دورحکومت میں کیوں نہ کیا؟؟وہاں کے دانشوروں اور صحافیوں نے بھی نے دائیں اوربائیں بازوکی تقسیم کی بنیادپرمذاکرات کی حمایت یا مخالفت نہیں کی،کیونکہ وہاں سب کوملکی مفاداورامن عزیزتھاکسی کو بھی ذاتی مفادات پیارے نہ تھے،نہ ہی کوئی یہ چاہتاتھاکہ ملک،امن اورلوگ جائیں بھاڑمیں بس میرے نظریات اور خیالات کا اس ملک میں بول بالا ہوجائے۔

مجھے توحیرت ہوتی ہے جب میں بڑے بڑے سیاستدانوں اوردانشوروں کے منہ سے یہ سنتاہوں کوملک دشمنوں اورآئین کو نہ ماننے والوں کے ساتھ کیسے مذاکرات؟کیونکہ یہ بات تو ایک آدمی بھی جانتا ہے کہ امن مذاکرات ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ ہی کیے جاتے ہیں دوستوں کے ساتھ نہیں،یہ دلیل دینے والے بھی یقیناً اس بات سے واقف ہوں گے،صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ایسے بیانات ملکی محبت میں نہیں دئیے جا رہے بلکہ معاملہ کچھ اورہے۔یہاں جب بھی امن کی کوشش کی جاتی ہے بہت سارے لوگ اورگروہ اپنے اپنے مفادات کی خاطر میدان میں نکل آتے ہیں۔دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ اسلحے کے تاجراوراسلحہ ساز کمپنیاں بھی اسلحے کی منڈی ہاتھ سے جاتادیکھ کر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے میدان عمل میں کودپڑتی ہیں،جوطرح طرح کے خوشنماالفاظ کے ذریعے جنگ اورآپریشن کووقت کی ضرورت بتاتے ہیں۔وہ امن مذاکرات کی ایسی خوفناک تصویر کشی کرتے ہیں کہ سادہ لوح عوام بھی جنگ کو تمام مسائل کا حل اور امن مذاکرات کو انتہائی نقصان دہ سمجھنے لگتے ہیں۔جب طالبان سے مذاکرات کی کوشش کی جاتی ہے تو امن،آشتی،صلح اورانسانیت کی بات کرنے والے لبرل،سیکولراور سوشلسٹ دانشوراور سیاستدان لنگوٹ کس کر اس کے خلاف میدان میںآجاتے ہیں،اورمذاکرات کی حمایت کرنے والوں پرطالبان کا جاسوس ہونے کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔یہی نہیں مسلکی بنیادوں پرطالبان کو اپنا مخالف سمجھنے والے مذہبی راہنمابھی مذاکرات کو حکومت کی کمزوری قراردیتے ہوئے آپریشن کا نعرۂ مستانہ لگاناشروع کردیتے ہیں۔ایسے ہی جب بھارت سے مذاکرات شروع ہوتے ہیں تومذہبی راہنمااوردانشوربھارت کوپاکستان کاازلی دشمن قراردیتے ہوئے اس کے خلاف کمر کس لیتے ہیں اوربھارت سے دوستی کی بات کرنے والوں کو بھارت کا ایجنٹ کہناشروع کردیتے ہیں۔مذہبی راہنما اوردانشورتوخیرشدت پسندمشہورہیں ہی خودکوروشن خیال،اعتدال پسندسمجھنے والوں کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا عالم یہ ہے کی ایک محترمہ جوپوری دنیامیں امن اورانسانیت کی بات کرتی ہیں،پاکستان کے شمالی علاقوں میں جنگ کی شدت سے حمایت کررہی ہیں اورامن مذاکرات کی حمایت کرنے پر عمران خان کو طالبان کاایجنٹ کہتی پھرتی ہیں،صرف اس لیے کہ ان علاقوں میں بسنے والوں کی اکثریت ان کے نظریات سے متفق نہیں۔ایسے ہی ایک اورروشن خیال اور انسانیت دوست دانشورامن مذاکرات کوسبوتاژکرنے اور جنگ کی شروعات کے لیے امریکیوں سے ڈرون کی بھیک مانگتے نظرآئے،معلوم نہیں موصوف خوداسلحہ کاکاروبارکرتے ہیںیااُن کے ساتھ کے خصوصی تعلقات ہیں ان کے۔کاش اپنے ڈرایئنگ رومز میں بیٹھ کرجنگ چھیڑنے کی باتیں کرنے والے سوات اوروزیرستان ایک دفعہ جا کر دیکھ لیتے کے جنگ اپنے ساتھ کیا کیا بربادیاں لاتی ہے،آپریشن کوتمام مسائل کاحل قراردینے سے پہلے وہاں کے عوام سے پوچھ لیتے کے آپریشن کے دوران دونوں طرف سے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہاہے اور اپنے گھرباراورکاروبارچھوڑنے والے سوات کے باسیوں پرآج تک کیاگزررہی ہے؟اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہرشخص اپنے نظریات اوراپنے مفادات کو سامنے رکھ کے بات کرتاہے،مجھے یقین ہے اگروزیرستان کے پہاڑوں میں سوشلسٹ مورچہ زن ہوتے توخورشید شاہ،الطاف حسین،اسفندیارولی ،عاصمہ جہانگیر اورنجم سیٹھی مذاکرات کے حامی ہوتے اورسیدمنورحسن، مولاناسمیع الحق،عمران خان اورانصارعباسی مذاکرات کے مخالف۔ایسے ہی اگرطالبان کاتعلق بریلوی مکتب فکر سے ہوتاتوجمیعت علمائے اسلام اورجماعت اسلامی آپریشن کی حامی جماعتوں کی صف میں نظرآتیں جبکہ سنی تحریک،سنی اتحادکونسل اورمنہاج القرآن آپریشن کی مخالف ہوتیں -

Dr M. Nadeem
About the Author: Dr M. Nadeem Read More Articles by Dr M. Nadeem: 15 Articles with 11085 views A medical specialist working as Assistant Professor of Medicine in a Medical college and also a non professional columnist... View More