تھرپارکر :امداد سے محروم متاثرین سراپا احتجاج

تھرپارکر میں ہفتے کے روز مزید تین بچوں سمیت چار افرادغذائی قلت کی نذر ہوگئے، جبکہ اس سے ایک روز قبل ہی یہاں آٹھ افراد نے اسی وجہ سے دم توڑا تھا۔ یوں 3 ماہ کے دوران تھرپارکر میں قحط سالی سے ہلاکتوں کی تعداد 222 تک پہنچ گئی ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔جبکہ وزیرا علیٰ سندھ کے کوآرڈی نیٹر اور تھر میں ریلیف سرگرمیوں کے انچارج تاج حیدر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ تھرپارکر میں ہونے والی ہلاکتیں بھوک سے ہوئی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ تھر میں یکم دسمبر 2013ءسے 28 مارچ 2014ءتک 201 اموات ہوئی ہیں۔ ان میں 51 مرد، 34 خواتین اور 116 بچے شامل ہیں۔ تھرپارکر میں اموات کی وجہ بھوک نہیں، بلکہ شدید سردی، نمونیا اور دیگر بیماریاں ہیں اور بچوں میں اموات کی بڑی وجہ قوت مدافعت کی کمی اور قبل از وقت پیدائش ہے، جب کہ خواتین کی اموات کی زیادہ تر وجوہ زچگی کے پیچیدہ مراحل ہیں۔ تاج حیدر کہتے ہیں کہ تھر میںہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے 150ڈاکٹرز مزید بھرتی کیے جائیں گے ،جبکہ 70کروڑ روپے کی لاگت سے تھر میں جدید ہسپتال قائم کرنے کے علاوہ 47ہزار راشن بیگ مزید تقسیم کیے جائیں گے۔تھر میں 1998ءکی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ 75ہزار خاندان رجسٹرڈ تھے، تاہم 2011-12کے ریکارڈ کے مطابق اب ان خاندانوں کی تعداد 2لاکھ 60ہزار ہوگئی ہے۔ 2لاکھ 60ہزار خاندانوں میں 80فیصد گندم کی تقسیم کا کام مکمل کرلیا گیاہے۔ ایک لاکھ 71ہزار 50کلو گرام گندم کے بیگ تقسیم کیے گئے ہیں۔ نگرپارکر، اسلام کوٹ اور چھاچھرو میں 7ہزار سے زاید گندم کے 50کلو کے بیگ مزید تقسیم کیے جارہے ہیں، جب کہ صوبائی ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی نے 27 ہزار راشن کے بیگ تقسیم کیے ہیں ،جن میں 14غذائی اشیا شامل ہیں جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی دعوﺅں کے برعکس اب بھی تقریباً 40 ہزار خاندان امدادی گندم سے محروم ہیں۔ دور دراز علاقوں میں بے سر و سامان لوگوں تک تاحال امدادی سامان نہیں پہنچ پایا۔ مٹھی ہسپتال میں 49 بچوں سمیت 86 افراد زیرعلاج ہیں، جب کہ ڈیپلو میں 2، اسلام کوٹ میں 62، نگر پارکر میں 28اور چھاچھرو میں18مریض زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ امدادی سامان میں بڑے پیمانے پر گھپلے بھی شروع ہوگئے ہیں اور جو راشن بیگ متاثرین میں تقسیم کیے گئے ہیں، ان کا وزن بھی درج مقدار سے کم ہے، تھرپارکر کے دور افتادہ علاقے چھاچھرو میں امدادی گندم نہ ملنے پرعلاقہ مکینوں نے احتجاج بھی کیا ہے اور امدادفراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صورتحال سے تنگ آکر متاثرین نے امداد کی غیر منصفانہ تقسیم اور غبن کے خلاف سیشن کورٹ میں شکایتی درخواستیں جمع کروادی ہیں، اسلام کوٹ، ڈیپلوسمیت دیگر علاقوں کے کئی خاندان امدادی گندم اور چارہ نہ ملنے کی وجہ سے سندھ کے دیگر اضلاع کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں، تاکہ وہاں فصلوں کی کٹائی کے عمل میں مزدوری کر کے کچھ معاوضہ کما سکیں۔سرکاری امدادی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں،جبکہ مویشیوں کے لیے فراہم کیے جانے والے چارے کے وزن میں بھی گھپلا سامنے آگیا ہے۔

دوسری جانب وفاقی حکومت نے متاثرین کے دکھوں پر مرہم رکھنے کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ تھر میں بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ رکھنے والے 77 ہزار خاندانوں کے اکاﺅنٹس میں فی کس 6 ہزار 4 سو روپے کی پہلی قسط منتقل کی گئی، یہ رقم نجی بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں اور پرائیویٹ اومنی سینٹروں کے ذریعے نکالی جا سکتی ہے،وفاقی حکومت کی جانب سے بھیجی گئی امدادی رقم کا حصول متاثرین تھر کے لیے سراب بن گیا، وفاقی حکومت کی رقم کی اطلاع ملتے ہی ہزاروں افراد میلوں کا سفر طے کر کے مٹھی پہنچے، مگر یہاں پہنچ کر انہیں سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملا۔مٹھی شہر کی چاروں اے ٹی ایم مشینیں بند تھےں، ان بند پڑی مشینوں کے باہر بھی لوگ آس و امید کے سہارے طویل قطاروں میں کھڑے رہے، شکایت کرتے بھی تو کس سے، ہفتہ وار تعطیل پر بینکوں پر بھی تالے پڑے تھے۔ شدید گرمی اور دھوپ میں خواتین اپنے بچوں کے ہمراہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈ اٹھائے بیٹھی رہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین نے نہ کبھی بینک دیکھے تھے اور نہ یہ جانتی تھیں کہ اے ٹی ایم مشین کیا ہوتی ہے۔چیئرمین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام انور بیگ کا کہناتھا کہ رقم تھر کے متاثرین کے اکاﺅنٹ میں جمع ہو چکی ہے ۔ اے ٹی ایم کے لیے رقم حیدرآباد اور کراچی سے تھرپارکر آتی ہے، تھر میں 3 اے ٹی ایم ہیں، 18 مراکز سے بھی رقم متاثرین میں تقسیم ہوتی ہے۔ 52 ہزار متاثرین اکٹھے آ جائیں تو اے ٹی ایم خالی ہو جاتی ہےں۔ حکومتی وعدے اور دعوﺅں کے باوجود متاثرین دو وقت کی روٹی کے لیے مجبور ہیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے تھر متاثرین کو رقوم نہ ملنے کی شکایات کا نوٹس لیا اور ہدایت کی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حکام فوری طور پر امدادی رقم کی فراہمی یقینی بنائیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی ہدایت کی کہ رقوم کی تقسیم کے لیے اضافی مراکز قائم کیے جائیں۔ وزیراعظم کے نوٹس لینے پر مٹھی میں ایک اے ٹی ایم بحال کی گئی۔ مشین کے بحال ہوتے ہی متاثرین کا رش لگ گیا۔تقریباً 13 لاکھ آبادی والے ضلع تھرپارکر میں صرف تین سے پانچ اے ٹی ایم ہیں، جن میں چار ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی اور ایک چھاچھرو میں ہے، جبکہ ڈیپلو، اسلام کوٹ اور نگر پارکر شہروں میں تو اے ٹی ایم مشین کا تصور بھی نہیں ہے۔ ماضی میں ضلع کی چند اے ٹی ایم مشینوں پر ایجنٹ مافیا کا قبضہ تھا، جو کمیشن لے کر بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے تحت غریب لوگوں کو رقم نکال کر دیتے تھے۔ اب نجی بنکوں نے اے ٹی ایم بند کر دیں، جبکہ پرائیویٹ اومنی سنٹرز پر ادائیگی کے لیے تین ہزار روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔متاثرہ افراد نے کشمیر چوک میں دھرنا دیتے ہوئے ادائیگی کا طریقہ کار شفاف بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت سندھ تھرپارکر میں جنم لینے والے المیے کو اپنی ذمہ داری ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے،ان کا کہنا ہے کہ وہاں سب کچھ سردی کی وجہ سے ہوا ہے،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ضلع تھرپارکر کے بعض حصوں کی آبادی کو تین طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے: ایک تو یہ کہ اس بار قحط زیادہ شدیدتھا، سردی بھی اس بار غیرمعمولی پڑی، تیسرے یہ کہ متاثرہ آبادی کو کھانے پینے کے سامان اور طبی امداد کی فراہمی ناکافی اور غیر موثر تھی۔ان تمام مصائب کی وجہ قدرتی عناصر نہیں ہیں، مسلسل قحط سالی کی وجہ سے پانی کی قلت کا ہوجانا قدرتی امر ہے، لیکن لوگ روایتی طور پر عارضی نقل مکانی کے ذریعے اس مشکل کا مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ سردی کی شدت کی وجہ سے بچے اس لیے بیمار پڑے کہ انھیں صحت کی مناسب سہولتیں حاصل نہیں تھیں اور صورت حال جو بدتر ہوئی اس کی وجہ انتظامیہ کی ناکامی تھی، جس کی ذمہ داری حکومت سندھ پر ہے۔حکومت سندھ مانے یا نہ مانے لیکن تھرپارکر میں قحط، کمسن بچوں کی اموات اور علاج معالجے کا ناقص انتظام حکومت سندھ کی نااہلی اور” فرض ناشناسی“ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر حکومت پرعزم ہو تو پھر برسہا برس تک جاری لوگوں کی تکالیف کا خاتمہ کرنابھی نا ممکن نہیں ہے،لیکن یہاں توحکومت لوگوں کے مسائل حل کرنے میں پرعزم ہی نہیں تھی۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 637540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.