سر زمین مصر میں قیامت سے پہلے قیامت برپا
ہوچکی ہے۔ ‘ دریائے نیل کا پانی سرخ رنگ میں تبدیل ہو گیا ہے ۔اخوانیوں کے
قتل عام کے بجائے وہاں کی عدالت اور حکومت نے سرے سے انصاف کا ہی قتل عام
شروع کر دیا ہے ۔اسلامی تہذیب و تمدن کے علم بردار ،قرآنی تعلیمات پر عمل
پیرا اور خلفاء راشدین کے نقش پر گامزن اس جماعت کے اپنے اور پرائے سبھی
دشمن ہو چکے ہیں۔
مصر میں حسنی مبارک کے دور کا خاتمہ اور ایک نیا انقلاب کیا آیا اخوانیوں
کے لئے آزمائش کا نیا دور شروع ہوگیا ۔امریکہ ،اقوام متحدہ اور مسلم ممالک
سبھی اخوان کی کامیاب حکومت اور بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ ہوگئے ۔
محمد مرسی کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے صف آراء ہو گئے ۔اخوان المسلمین
کے حامی اور اس سے وابستہ تمام افراد کو نیست و نابود کرنے کی عالمی سازش
شروع کردی گئی ۔عراق کے صدر صدام حسین کی پھانسی اور لیبیا کے صدر کرنل
معمر قذافی کے قتل کے بعد امریکہ نے مزید ذلت و رسوائی سے دوچارہونے اور
دنیا کے سامنے اپنی بدنامی سے بچنے کے لئے براہ راست مصر کے معاملے مداخلت
نہیں کی ،مصر ی کی منتخب شدہ جمہوری حکومت کے خاتمہ کے لئے ناٹو افواج کو
بھیج کر کاروائی نہیں کی۔بلکہ یہاں ایک نئی پالیسی اپنائی، اسلام پسندوں کی
ناکہ بندی کے لئے اسلام پسندوں کا ہی سہارا لیا مصر کی فوج اور اس کے چیف
کمانڈر عبد الفتاح السیسی کو خرید لیااور ان کے ہاتھوں اخوان حکومت کا تختہ
پلٹ وا دیا ۔مصر کے جمہوری صدر محمد مرسی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند
کردیا ۔اس جماعت کی تمام سرگرمیوں پر بالکلیہ پابندی عائد کردی۔دوسری طرف
سعوی عرب نے امریکہ کی نیابت شروع کردی ،اسلام پسندوں پر شکنجہ کسنے کی ذمہ
داری اس نے اپنے سر لے لی۔کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں ہے اس کا معیار
پہلے امریکہ طے کررہا تھاالقاعدہ ،لشکر طیبہ جماعت الد عوہ اور دیگر
تنظیموں پر دہشت گردی کا لیبل امریکہ نے چسپاں کیا تھا۔لیکن اب یہ کام بھی
امریکہ نے سعودی حکومت کے ہی سپردکردیا ہے،
اسلام کے ازلی ذشمن یہودی و نصاری سے ان کی دوستی ہورہی ہے اور پاسداران
اسلام کے خلاف ان کی دشمنی .یورپ اور امریکہ کی غلامی ان کی حکومت کا اصول
بن چکا ہے ہر کام وہ امریکی آقاؤں کے اشاروں کی تعمیل کرتے ہیں لقمۂ طعام
وہ ان آقاؤں کی اجازت کے بغیر تناول نہیں کرتے ہیں عالم اسلام کے مسائل سے
سعودی حکومت کو کوئی دل چسپی ہے اور نہ ہی کوئی فکر۔میانمارمیں مسلمانوں کے
قتل عام پر اس حکومت نے ایک لفظ نہیں کہا۔افریقی ممالک میں مسلمانوں کی
ہورہی نسل کشی کو خاموش تماشائی بن کر یہ حکومت دیکھ رہی ہے۔قبلہ اول کے
خلاف ہو نے والی سازش سے یہ شیوخ بے پرواہ ہیں۔ ہندوستان میں مسلسل ہورہے
فرقہ وارانہ فساد ات ور مسلمانوں کے ساتھ ہورہی زیادتی پر کبھی بھی اظہار
افسوس نہیں کیا پاکستان میں امریکی ڈرون حملے میں مرنے والے بے گناہ
مسلمانوں کا انہیں کوئی غم نہیں ہے۔ اور جن ممالک میں مسلمان دشمنوں سے
برسر پیکا رہیں اسلام کے سربلندی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہاں سعودی حکومت
دشمنوں کے ساتھ ہے اور اسلام پسندوں کو کچلنے کے لئے دشمنوں سے زیادہ اوچھی
حرکتیں کر رہی ہیں مصر اور شام کے حوالے سعودی حکومت کا کردار سب سے زیادہ
شرمناک اور صہیونی لابی سے بڑھا ہو اہے۔
چنان چہ چناں چہ اسی حکم کی اطاعت کرتے ہو ئے کچھ دنوں قبل سعودی حکومت نے
مصر کی مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون سمیت چار جنگجو گروپوں کو دہشت
گرد قرار دے دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اپنے جاری کردہ ایک سعودی شاہی فرمان
میں اخوان المسلمون کے علاوہ سعودی مملکت میں لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اﷲ
کی شاخ اور شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف بر سرپیکار دو گروپوں
دولت اسلامی عراق وشام )داعش(اور النصرۃ محاذ کو دہشت گرد کی فہرست میں
شامل کردیا دیا تھا۔نیز ان سیکڑوں سعودی شہری جن کے بارے میں خیال کیا جاتا
ہے کہ وہ داعش اور النصرۃ محاذ کی صفوں میں شامل ہو کر شام میں جنگ لڑ رہے
ہیں۔ سعودی حکام نے ان کی وطن واپسی کے لیے ڈیڈلائن میں توسیع کردی
تھی۔شاہی فرمان کے مطابق ان مذکورہ چاروں گروپوں کی رکنیت اختیار کرنے، ان
کی مالی معاونت اور ان کی حمایت کرنے والوں کو فوجداری مقدمات کا سامنا
کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ غیر مجاز فتوے جاری کرنے پر بھی پابندی عائد کر
دی گئی تھی۔عودی شوریٰ کونسل کے رکن محمد زلفیٰ کا کہنا تھأ کہ اس فیصلے کو
طویل عرصہ قبل نافذ العمل ہو جانا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ سعودی مملکت
نے مسلمان ہونے کا دعوے کرنے والے ہر کسی کے لیے اپنی سرحدیں اور جامعات کے
دروازے کھول دیئے تھے لیکن ہمیں دھوکہ دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ
فیصلہ بہت پہلے کر لیا جاتا تو ہم ان دہشت گرد گروپوں کی بڑھوتری تو نہ
دیکھتے۔ سعودی عرب دہشت گرد قراردیئے گئے گروپوں کے ساتھ وابستگی رکھنے
والوں پر فوجداری مقدمات چلائے گی اس طرح کے فیصلے کی توقع امریکہ اور اس
کے ہم نواؤں سے ہوتی ہے لیکن اب یہ ثابت ہوگیا کہ اپنے آپ کو خادم الحرمین
کہنے والے در اصل امریکی مفاد کے پاسبان ہیں وہ اسلام اور اس کی پاسبانی
کرنے والوں کے دشمن ہیں اور ان اس فیصلے پر عالم اسلام شرمندہ ہے مسلمان
خطرے میں ہے ۔ مقدس مقامات غیر محفوظ ہے۔پوری دنیا کا مسلمان حیرت زدہ ہے
،یہودی لابی شرمندہ ہے ۔
یہی شیخ حرم ہے جو چراکر بیچ کھا تا ہے گلیم بوذر ودلق اویس وچادر زہرا۔
اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل کا تسلسل سے جاری ہے۔ جون
۲۰۱۳ سے ان کے خلاف ظالمانہ کریک ڈاؤن ہو رہا ہے اب تک پانچ ہزار سے زائد
اخوانیوں کا مختلف فرضی الزامات میں قتل ہوچکا ہے ۔ حالیہ دنوں میں السیسی
نے عدالت کا سہارا لے کرمزید ۵۲۹ اخوانیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ
کیا ہے۔وہا ں کی ایک عدالت نے صرف ایک پولس اہلکا ر کے قتل اور اس پر حملے
کے الزام میں ان اخوانیو ں کے لئے موت کی سزا سنائی ہے ۔اخوان المسلمین کی
جانب سے اس مقدمہ کی پیروی کرنے والے و کیل شریف احمدکاکہنا ہے کہ منیا شہر
کی عدالت میں جاری اس مقدمے میں محض دو رسمی سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنادیا
گیا ہے۔ان ملزمین کے وکلاء کو دفاع کا موقع بھی نہیں دیا گیا ہے جبکہ سماعت
کے دوران عدالت میں صرف ۱۵۰ملزمین ہی حاضر تھے بقیہ تمام غیر حاضر تھے لیکن
عدالت حاضری اور عدم حاضری کی پرواہ کئے بغیر ہر ایک کے لئے موت کافیصلہ
سنادیا ۔مصر کی عدالت کا یہ فیصلہ صاف بتا رہا ہے وہاں کی عدالت ظلم وتشدد
کی آماجگاہ ہے ،ججز کے سروں پر السیسی کی ننگی تلوار لٹک رہی ہے انہیں اپنی
مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔عدالت کی حرمت و قار کا بھی
کوئی پاس و لحاظ نہیں رہ گیا ہے،فوج کا کام ہے اخوانیوں کے خلاف فرضی مقدمہ
دائر کرنا اور عدالت کاکام ہے آنکھیں بند کرکے ان کے لئے موت کی سزا تجویز
کرنا۔
میری سمجھ سے یہ بالا تر ہے کہ جب اس نئے فرعون السیسی کا پہلا کام اور
اولین ھدف ہے اخوان المسلمین کے تما م رہنماء اور اراکین کا قتل تو پھر وہ
اس کام کو براہ راست کیوں انجام نہیں دے رہے ہیں؟ عدالت کا سہارا لے کراس
کے وقار کے ساتھ کیوں کھلوار کررہے ہیں؟ عدالت کی حرمت و عظمت کی پامالی
کیوں کررہے ہیں؟ ۔کیوں کہ عدالت کا یہ فیصلہ عدالتی کاروائی کے سراسر خلاف
ہے اور دنیا کی کوئی بھی عدالت اس کو صحیح قرار نہیں دے سکتی ہے ۔اس فرعون
کو امریکہ اور اسرائیل کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ۔سعودی حکومت کا تعاو ن مل
ر ہا ہے دیگر مسلم ممالک بھی اس کے مشیر ہیں ،اقوام متحدہ اس کے ساتھ ہے
۔اس لئے اس فرعون کو مکمل اختیار ہے اخوانیوں کو تختہ دار پر لٹکانے کا
،اسلام پسندوں کا ناطقۂ حیات بند کرنے کا،دینی تعلیم کی اشاعت پر پابندی
عائد کرنے کا ،علماء کرام کو جلا وطن کرنے کااسلامی دستور کو منسوخ کرنے
کا۔ جمعہ کے نماز کے خطبہ کو ممنوع قرار دینے کا۔ ہزاروں سال پرانے فرعونی
نظام کو پھرسے نافذ کرنے کا۔
لیکن اس مغرور فرعون کوذرا اس تاریخی حقیقت پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہیئے کہ
جس فرعون کے ظلم و ستم سے دنیا پریشان تھی اسی کے گھر میں موسی کی پروش
ہوئی جس سے دنیا کو امن وسلامتی ملی تھی ۔خدا کی ذات سے مکمل امید ہی نہیں
بلکہ یقین ہے کہ مصر کی اس سرزمین پر یہ تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائی جائے
گی ۔ حسنی مبارک کے ظالمانہ نظام کو ختم کرنے کے لئے جن لوگوں نے جد و جہد
کی تھی ان کی کو ششیں رائیگا ں نہیں جائیں گی۔اخوان المسلمین کو اپنی پہلی
پسند ماننے والے مصری عوام کی آرزوئیں ضرور برلائیں گی۔ حسن البنا کا خواب
شرمندۂ تعبیر ہوگا،اخوان المسلین کی قربانیا ں رنگ لائیں گی ۔مصر کو ا س
نئے فرعون سے نجات ملے گی ۔کیوں ’’کہ فرعون کے گھر میں موسی کی پروش اس بات
کی دلیل ہے کہ جہاں پہ شر کی انتہا ہو جا تی ہے وہیں سے خیر کی ابتداء بھی
ہو تی ہے،،۔
باطل سے دبنے والے نہیں اے آسماں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحا ں ہمارا |