اسلام کو اگر پیکرِ حسن وجمال ایک پریرُخ انسان تصور
کیاجائے ،یا مستحکم وپائیدار ایک ادارہ ماناجائے ،یاپھر طاقتور اور عالمی
اثرو رسوخ والا ایک عظیم ملک تصور کیاجائے ،تو عربی کو اس کی زبان ،یاترجمان
یا وزارت اطلاعات ونشریات فرض کیا جاسکتاہے ، اب خود ہی ملاحظہ فرمائیے کہ
انسان کے پاس زبان نہ ہو ،ادارہ اور وہ بھی نظر یاتی وفکری اس کے پاس
ترجمان نہ ہو ،پوری دنیا میں اپنی سوچ پھیلانے والے ملک کے پاس وزارت
اطلاعات نہ ہو ، تو کارکردگی کتنی مضمحل اور کمزور ہوگی ، اہداف حاصل کرنے
میں کتنی تاخیر ہوگی ،دوسروں کو قائل وقانع کرنے میں کتنی بڑی دقت پیش
آئیگی ،اس کا اندازہ لگانا کسی بھی عام سے آدمی کے لئے کوئی مشکل مسئلہ
نہیں ، بغیر عربی زبان کے عجمی اسلام کو ان مثالوں سے بخوبی پہچانا
جاسکتاہے ،علامہ اقبال مرحوم نے یوں ہی تو نہیں کہاتھا کہ عجم تا ہنوز
اسلام کے رموز سے ناواقف ہیں ۔
یہاں لوگ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالٰی دلوں کے بھیدوں کو جانتے ہیں جس بھی زبان
میں آپ اﷲ کو مخاطب کرنا چاہیں ،ان سے کچھ مانگنا چاہیں ،مانگ سکتے ہیں ،کہ
وہ سب زبانوں کو جانتا ہے،یہ ٹھیک ہے آپ انہیں کسی بھی طرح مخاطب کرنا
چاہیں،تو آپ کرسکتے ہیں،لیکن اگر آپ ان کی سننا چاہیں،ان کے حقیقی احکاما ت
وفرامین سننا چاہیں ،تو اس کے لئے عربی زبان جاننا ضروری ہے کہ یہ ان کا
انتخاب ہے، وہ آپ سے عربی ہی میں مخاطب ہے ،یہ تو ان کا کمال ہے کہ آپ
کوہرطرح اورہرزبان میں سن بھی سکتاہے ،سمجھ بھی سکتاہے مگرآپ سے تخاطب وہ
افصح اللغات ہی میں کرتاہے ، آپ تو صرف ان کو سنا سکتے ہیں ،ان کی کیا سنیں
گے اور کیا عمل کرینگے ،جب آپ ان کی اختیار کردہ زبان ہی کو نہیں سمجھتے ،
یا نعوذبااﷲ آج کل کے لوگوں کی طرح آپ بھی اﷲ کو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ
اپنا کلام اپنے پاس رکھیں ، مجھے اس کی ضرورت نہیں ،بس میری سنیں ۔
ہمارے علماء حضرات جب کسی کو سفروحضر میں امیر بناتے ہیں ،تومزاح مزاح میں
ساتھ یہ بھی کہتے ہیں ،امیر تو آپ ہی ہوں گے لیکن چلیگی ہماری ۔کیا ہم بھی
اﷲ تعالی کو یہی کہنا چاہتے ہیں ،کہ آپ کے قرآن وحدیث کی عربی ہمیں سمجھنے
کی چند اں ضرورت نہیں ،آپ کے فرمودات کی حاجت نہیں ،یہ باتیں ہم باربار سن
چکے ہیں ،بس آپ حاکم اور ہم محکوم ،لیکن چلیگی ہماری ۔عجیب تماشاہے، لوگ
غلط کام اوربے سر وپا دعوی کے لئے ایک اور غلط سے استدلال دھڑلے سے کرتے
ہیں ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں عربی مقصود بالذات نہیں ، مقصود بالذات تو زبان بھی نہیں
، کان بھی نہیں ،ناک بھی نہیں ، آنکھ بھی نہیں ، ان کے بغیر بھی کام چل
جاتاہے ، لیکن ان اعضاء کے بیش بہا فوائد سے انکار کوئی احمق یا پاگل ہی
کرسکتاہے ،وضو نماز کے لئے ضروری ہے ،لیکن مقصود بالذات نماز ہی ہے ،تو کیا
کوئی وضوکی اھمیت اور ضرورت سے انکا ر کرسکتاہے ،یاپھر کیاہم نے اپنے آپ
کوجس طرح عربی سمجھے بغیر نماز ،ذکر واذکار ،تبشیر وتخویف،امثال وقصص،
احکام واوامر کی آیتوں کی حلاوت وشیرینی اور استفادہ وافادہ سے صرف اس لئے
محروم رکھاہوا ہے کہ عربی مقصود بالذات نہیں ، تو پھر وضوکے بغیر نماز ہی
پڑھنا شروع کیوں نہ کردیں، تاکہ مساجد وجماعتوں میں ہرطرف ہمارے بن دھلے
اعضاء کا تعفن اور بدبوبھی رہے،وضو کی فرضیت و اہمیت کا اندازہ
ہوجائیگا،اسی پر عربی زبان کی فرضیت ،ضرورت اور اہمیت کو بآسانی قیاس کیا
جاسکتاہے ۔
اسلام کو سمجھنا ہو،یاقرآن وحدیث کے زمزموں سے معمور ہوناہو،اسلامی تعلیمات
کو حرزِ جاں بنانا ہو، یا پھر سیرت ،تاریخ ،جغرافیا ِِپوری دنیا کے علومِ
جدیدہ وعصریہ سے گہرا اورہمہ جہت رشتہ استوار کرنا ہو، تو عربی زبان وادب
کو کماحقہ سیکھنا اور سیکھاناہوگا، اس کے بغیر اسلام گُنگ ہے اور اگرعربی
آب و تاب کے ساتھ آسمان ِ علم وعرفان کے افق پرایک بھرپور اورروشن آفتاب و
ماہتاب کی طرح موجود ہے اور کوئی مسلمان اس سے ناواقف ونابلدہے ،توپھر وہ
بہرہ ہے ،اسلام گنگ نہیں ۔افسوس ۔۔۔۔یارِمن ترکی ومن ترکی نمیدانم ۔
سننے میں آیاہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نوازشریف نے اپنی کابینہ سے
مشاورت کے بعدیہ فیصلہ کرلیاہے کہ اردو کے مأخذ ومصدر،ہماری مذہبی اسلامی
اور اقوامِ متحدہ سے عالمی سطح پرباقاعدہ منظور شدہ پانچ انٹر نیشنل میں سے
ایک زبان، عربی کو تمام سرکاری ونجی اسکولوں میں لازمی قرار دیا جائے گا
،نیز اعلی تعلیمی اداروں میں اس کی صحیح نگہداشت بھی ہوگی ،اسے ترقی دینے
کے لئے مناسب اقدامات بھی ہوں گے،گویااب ملک میں یہ مضمون ایک اختیاری اور
لاوارث مواد نہیں رہیگا،ان شاء اﷲ ۔
ویسے ہوناتو یہ چاہیئے تھاکہ پہلے ہی دن14 اگست1947 سے اسلام کے نام پر
حاصل کئے جانے والے اس ملک میں عربی ہی سرکاری زبان ہوتی،جیساکہ سر آغاخان
نے اس کا شدومد سے مطالبہ بھی کیاتھا اور اس حوالے سے کچھ ورکنگ بھی ہوئی
تھی، یاپھرکم ازکم بطورلازمی واجباری مضمون کے مملکت خداداد کی درسگاہوں
میں نافذ العمل ہوتی ،لیکن چلیں ۔۔۔۔صبح کا بھولاہوا اگر شام کو گھر آجائے
تو اس سے بھولاہوانہیں کہتے ۔ |