چنددن پہلے ہمیں ایک کام کے سلسلے میں ایک جگہ سے دوسر ی
جگہ بذریعہCNG کوچ تشریف لے جا نا پڑادوران سفر جب ہم اپنے ذہن میں اپنی
کتا ب ’’میرالغاری خاندان‘‘ کے تصور کو جامہ عملی پہنا رہے تھے کہ ایک کم
بخت smsنے ہمارے خیالوں کو توڑ کر ہمارے’’ انتہائی‘‘ پرانے بزرگوں کے
اجمالی تصور کو ہٹا کراپنی جانب توجہ مبذو ل کروائی تو ہمیں اس پر بہت ہی
غصہ آیا جو کہ وقت بے وقت چلے آتے ہیں،جب ہم نے میسج کو دیکھاتو وہ ایک نجی
ٹی وی کا تھا جوکہ ہم نے خود ہی سسکرائب کروایاہوا تھاجس میں لکھا تھا کہ
’’ CNGسلنڈرپھٹنے سے ہلاکتوں پر حکومت کا سخت نوٹس لینے فیصلہ‘‘ smsکی ورق
گردانی کے بعد ہم نے حکومت کے اس اقدام کو خوب سہرایا کہ’’ بعداز مرگ
‘‘ایوارڈ کا اعلان ہی بڑی بات ہے خیر ہم نے اپنی پشت کو سیٹ سے لگایااور
ٹانگوں کوذرا نیچے کیا ہی تھا کہ ہمارے پاوں ایک نامعلوم سخت سی چیز سے
ٹکرائے تو ہم نے نیچے جھانک کر دیکھا توبالکل ہماری سیٹ کے عین نیچے ایک
عدد CNG سلنڈر نہایت ہی آرام وسکون سے تشریف فرماتھاہم اس کو دیکھ کر
اطمینان سے بیٹھے ہی تھے کہ ہمارے منہ سے یکدم نکلا ’’ اوہ CNGبم‘‘ اس کے
بعد ہم اس قد رزور سے اُچھلے کہ ہما را سرمبارک کو چ کی چھت سے ٹکرایا اور
ہمارے منہ سے بے اختیار وٹامن ’’سی ‘‘ جیسی آواز نکلی اور ساتھ بیٹھے
مسافروں نے ہمیں یوں دیکھا کہ جیسے ہمارے سیاسی مخالفین نے ہماری سیٹ پر
کانٹے بچھادیے ہوں اور جس کی ’’اہمیت ‘‘ کا احساس ہمیں اب ہوا ہو۔
اب ہماری حالت بالکل مختلف تھی ،سیٹ کے نیچے بم دیکھ کرہماری اُکڑفوں نکل
چکی تھی موت کا احساس قریب سا لگنے لگا کہ اب آئی موت۔۔اب آئی موت ،میں نے
جلدی سے کلمہ پرھنا چاہالیکن ایک منٹ کے اندر ہی میں ہی میری زبان تالو سے
چپک چکی تھی اورسورہ اخلاص تک جیسی بنیا دی چیزیں ذہن سے نکل چکی تھی اور
میں سوچنے لگاکہ یا خدا کیاآج کے بعد دنیا ایک’’ عظیم ‘‘کالم نگارسے محروم
ہوں جائے گی( یا پھر اُن کی جان چھوٹ جائے گی)ہماراحال اُس دانشور جیسا بن
چکا تھاجس کو پوری دنیا کا پتا ہوتا ہے لیکن اپنا پتا نہیں ہوتا میں بہت خو
ف زدہ ہوچکا تھا کہ اگر خدا نخستہ یہ CNG بم پھٹ گیا تو میر ا کیا ہوہوگا
میں نے ہر چیزکی تیاری کی لیکن موت کی تیاری ہی نہیں کی نہ کبھی سوچا۔۔۔۔نہیں
نہیں میں نے بے اختیار بولاابھی تو میں نے بہت سارے کام کرنے ہیں مکا ن
بنانے ہیں ،پڑ ھائی مکمل کرنی ہے پھر افسر بنناہے،اسی وقت میرئے ضمیر نے
مجھ کو کہا ارے بے وقو ف انسان موت کے تختے کے اوپر بیٹھ کر کیا دنیا کی
فضولیا ت ولغویات کو یا د کر رہاہے ابھی سلنڈر پھٹا نہیں ہے جلدی سے توبہ
کر لے ، میں توبہ کر نی چاہی مگر اس وقت خیال آیا کہ اللہ سے تو معافی لوں
مگر حقوق العباد کا کیا ہوگابندو ں کے حقوق کاکیا ہوگاابھی کل کی بات ہے -
جب میں اپنی خالہ اور اُس کی بہو کی لڑائی کی آواز دیوار کے ساتھ لگ کر
سنتا رہا تھاحالانکہ مجھے پتا بھی تھا کہ اسطر ح کی جاسوسی گناہ ہے،اور
اسطر ح کے کئی اور کارنامے(گناہ)یاد آتے گئے جن کا یہا ں تذکرہ کر نے سے
ہماری نام نہاد شہرت و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
پھر میں سوچنے لگا کہ انسان ہے کیا ؟؟ ادھر سانس نکلی،یہ انسان سے میت
ومردہ بن جاتاہے پھر بس ہر کوئی کہنے لگتاہے کہ جلدی دفناؤ،جلدی دفناؤسانس
نکلنے کے بعد فوراًبعد انسان کا سب کچھ ختم ہوجاتا ہے،تو پھر انسان
اتراتاکس بات پر ہے ،غرور کس بات پر کرتاہے،اپنی ناک پر مکھی کو برداشت
نہیں کرتا،لڑائی جھگڑا ،دنگافسادگالی گلوچ میں آگے آگے رہنا ہمارا شیوہ
کیوں ہے ؟؟ ا نسان ہر وقت سو چتا رہتا ہے کہ ابھی وقت پڑ ا ہے بعد میں توبہ
کر لوں گا مگر پتا ہی نہیں چلتا کہ موت کا’’بلاوا ‘‘ آجاتا ہے ،ہم بیماری
کے ڈر سے ڈاکٹرکے کہنے پر خوراک کو چھوڑدیتے ہیں مگر اپنے مالک اللہ کے ڈر
سے گناہوں کو کیوں نہیں چھوڑتے ؟؟
میرا موت کا سفر ختم ہوچکاتھامیں بچ گیاتھا،احساس موت نے میر ی بھوک کو
بڑھادیا تھامیں نے نیچے اترکر فروٹ کی ریڑھی والے سے آدھاکلوسیب لیے وہ بے
چارہ سیب تولتے ہوئے ایک سیب نیچے گرِ ابیٹھا اُس کو اٹھانے کے لیے نیچے
جھکا تو میں نے آنکھ بچا کر ایک سیب اُٹھا لیااور اپنے سیب لے کر اپنی چند
لمحے والی موت کی کیفیت کوبھول کر اپنے اس کارنامے پرخوشی سے سیٹی بجاتا
ہواآگے بڑھ گیا
ؔ ؔ ؔ ؔ ہنسی آتی ہے مجھے حضر ت انسان پر
فعل بد تو خود کرئے لعنت کرئے شیطان پر |