پچھلے دنوں دوسری شادی پر کالم کیا لکھا یار لوگوں کوگویا
ناقابل تردید ثبوت ہاتھ لگ گیا۔ بیواؤں کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا
کہ ”اگر دوسری شادی کو فروغ دیا جائے تو یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہوسکتا ہے،
البتہ اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کرسکتا، کیونکہ اخبار میرے گھر بھی جاتا
ہے۔“ دوستوں نے اس جملے سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ میں بیوی سے ڈرتا ہوں۔
مجھے پورا پورا یقین ہے کہ یہ صاحبان بیویوں سے نہیں ڈرتے ہوںگے،مگر گھریلو
امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق 90 فیصد شوہر اپنی بیویوں سے
ڈرتے ہیں، جبکہ باقی 10 فیصد جھوٹ بولتے ہیں!
ایک بادشاہ نے اعلان کروایاکہ شادی شدہ مرددودو لائنوں میں کھڑے ہوجائیں،
ایک میں وہ جو بیوی سے ڈرتے ہیں اور دوسری میں وہ جو بیوی سے نہیں ڈرتے ہیں۔
ڈرنے والوں کی لائن لمبی ہوگئی جبکہ نہ ڈرنے والوں کی لائن میں صرف ایک
آدمی تھا۔ سب اس بہادر انسان کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ
کو بھی بڑی حیرت ہوئی کہ کوئی ایسا بھی آدمی ہوسکتا ہے۔ اسے قریب بلایا اور
پوچھا: کیا تم اپنی بیوی سے نہیں ڈرتے؟ آدمی نے جواب دیا، پتا نہیں مجھے تو
میری بیوی کہہ گئی ہے اس لائن میں کھڑے رہنا، ورنہ ٹانگیں توڑدوںگی۔
ہمارے معاشرے میں ججوں کو بڑا رعب دار سمجھا جاتا ہے، لوگوں کا خیال ہے جو
شخص بڑے بڑے چوراچکوں سے نہیں ڈرتا، بیوی اس کے سامنے کیا بیچتی ہوگی، مگر
بھیا! دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، جج ہوں یا پولیس افسر سب گھر میں”حاضر
جناب“ ہوتے ہیں۔ ایک جج مقدمے کی سماعت کررہا تھا، اس نے ملزم سے کہاسنا ہے
تم نے پچھلے 10 سال سے اپنی بیوی کو ڈرادھمکاکر رکھا ہوا ہے؟ ملزم: وہ
جناب.... جج نے بات کاٹتے ہوئے کہا: صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں، بس
طریقہ بتاو !
بلاشبہ سارے مردوں کو ایک ہی خانے میں رکھنا زیادتی ہے۔ کوئی بیوی سے زیادہ
ڈرتا ہے تو کوئی کم، کوئی صرف گھر میں ڈرتا ہے اور کوئی باہر بھی پر اٹھائے
اور نظریں جھکائے پیچھے پیچھے چل رہا ہوتا ہے۔ ہر شخص کا اپنا اپنا ذوق یا
پھر قوت برداشت ہے۔ ہمارے ایک پڑوسی کے گھر میں صرف اتوار کے روز کپڑے
دھوئے جاتے ہیں، عین پاکستانی مزاج کے مطابق سن گن لی تو معلوم ہواکہ پڑوسی
کی اتوار کو فیکٹری سے چھٹی ہوتی ہے، ان کی بیگم صرف کپڑے مشین میں ڈالتی
ہیں، باقی انہیں کھنگالنا اور رسی پر ڈالنا میاں کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح
ایک دوست کے بارے میں پتا چلا ہے کہ بچوں کے لیے ناشتا تیار کرنا اور دفتر
جانے سے پہلے جھاڑو لگانا ان کے حصے کا کام ہے، باقی کام محترمہ خود نمٹاتی
ہیں۔ بہت اچھی بات ہے، گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہیے مگر
ظالمو خود ”بیوی“ بن جانا کہاں کا انصاف ہے۔
اگر آپ عورتوں سے پوچھیں تو وہ سارا ملبہ مردوں پر ڈال دیتی ہیں۔ آنکھوں
میں آنسو لاکر ایسی ایسی ”دکھی“ کہانیاں سنائیںگی کہ شوہر لوگ دنیا کی سب
سے ظالم مخلوق نظر آنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر بیوی نے شوہر سے کہا: اگر
میں مرگئی تو کتنے عرصے بعد شادی کروگے؟ شوہر بولا مہنگائی کا دور ہے،
لہٰذا میری کوشش یہی ہوگی کہ دوسرے دن ایصال ثواب کے چاولوں کے ساتھ ہی
ولیمہ بھی ایڈجسٹ ہوجائے۔ جہاں اتنے ظالم شوہر ہوں، وہاں بیوی آنکھ نہ
دکھائے تو کیا کرے۔
یہ تو سب ہنسنے ہنسانے کی باتیں تھیں، حقیقت یہ ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ
بڑا پاکیزہ ہے، لطیفہ بازوں نے اسے ڈراؤنا بنادیا ہے۔ اونچ نیچ ہر جگہ ہوتی
ہے، کہیں میاں کو اور کہیں بیوی کو سمجھوتا کرنا پڑتا ہے اور کرنا بھی
چاہیے۔ آئیڈیل شوہر اور آئیڈیل بیوی کی باتیں صرف کتابی ہیں۔ دنیا میں ایسے
رشتے کہیں نہیں ہوتے، اگر شوہر میں کچھ ٹھیک نہیں ہے تو کچھ اچھا بھی تو
ہوگا، اسی طرح بیویاں بھی برائیوں کا مجموعہ نہیں ہوتیں۔ اگر شوہر کو بیوی
کی کوئی عادت اچھی نہیں لگتی تو اس اللہ کی بندی میں کوئی تو اچھی عادت بھی
ہوگی۔ شوہر لال بیگ سے تو خودکو بہتر سمجھتا ہے، کیونکہ بیوی شوہر سے تو
نہیں مگر لال بیگ سے ڈرتی ہے۔ ڈرنے ڈرانے کی باتوں میں کچھ نہیں رکھا، اصل
بات یہ ہے کہ گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہیے۔ شوہر کپڑے جھاڑاور چہرے پر
مسکراہٹ سجاکر باہر نکلے تو لوگ سمجھیںگے کہ گھر میں سب خیر ہے۔ باقی لوگ
بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
ایک دانشور سے کسی نے بیوی کا عیب بیان کیا تو انہوں نے پوچھا:
تمہارا دھوبی کون ہے؟
آدمی بولا: بیوی۔
باورچی کون ہے؟ بیوی
گھر کا مالک اور چوکیدار کون ہے؟ بیوی
مہمانوں کا میزبان کون ہے؟ بیوی
پریشانی اور غم میں دل جوئی کون کرتا ہے؟ بیوی
اپنے ماں باپ چھوڑکر عمر بھر کے لیے تمہارے ساتھ کون رہتا ہے؟ بیوی
بیماری میں تمہارا تیمار دار کون ہے؟ بیوی
بتاؤ کبھی بیوی نے ان سب کاموں کے پیسے لیے؟ نہیں
دانشور نے کہا: بیوی کا ایک عیب تو نظر آیا مگر اتنی ساری خوبیاں نظر نہ
آئیں....
میری بات یہاں پر مکمل ہوگئی،ایک دوست کا کہنا ہے یہ دانشور صاحب بھی زن
مرید لگتے ہیں۔ آپ کا کیا تبصرہ ہے؟ |