شہزاد ناصر۔ ایک بہت ہی اچھا انسان ہی نہیں ایک بہت پیارا
بھائی، بھی ہے، اور اب اسبات کا پتہ چلا کہ اللہ پاک نے انہیں اور کن کن
خوبیون سے نوازا ہے۔ تو میں حیران رہ گیا، بلکہ ایک ایسی خوشی کا احساس
ہوا۔ جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ لیکن یہ سب تو اسوقت ہوتا ہے، کہ
جب انسان کسی کو بتاتا ہے۔ ( اور اسی کا تھوڑا سا دکھ ہے) یا پھر اسکی قصر
نفسی ہے، شرمیلا پن، یا پھر انکساری۔ لیکن اس شکوہ کے باوجو د۔ ایک بہت ہی
پیارے انسان ہیں، جن سے کسی کو کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی، اور نہ ہی
ہوسکتی ہے۔
یہ محض ایک اتفاق ہے، کہ مجھے انٹر نیٹ پر "اردومحفل" پر انکی چند تحقیقی
مضامین پڑھنے کا موقعہ ملا، (ایک رابعہ خضداری) اور دوسرا (میرزا غالب) ہر
ایک بہت ہی معلوماتی مضمون۔ جیسے پڑھکر مجھے اندازہ ہوا۔ ( سید شہزاد ناصر)
ایک اچھا بھائی ہیں نہیں ایک بہت اچھا لکھاری بھی ہے ۔ اور ایک بہت ہی
خوبصورت ذہن کا مالک بھی ہے۔ ویسے تو فیس بک پر ہماری گپ شپ لگتی رہتی تھی،
اور یہی ایک ملاقات کا ایک ذریعہ بھی ہے آج کل کے دور میں، دراصل سید شہزاد
ناصر ، میرے مامون ذاد بھائی ہیں۔ ہمارا بچپن تقریبا ساتھ گزرا ہے۔
یہ اسوقت کی بات ہے، جب میرے ماموں، ناصرالدین (شاہ جی) کراچی میں رہائش
پذیر تھے، اور اسٹیٹ بینک میں بحیثیت سیکنڈ آفیسر فارین ایکسچینج ڈیبارٹمنٹ
میں کام کرتے تھے۔ اسوقت میں بارہ یا تیرہ سال کا تھا، جب مامون جان کی
شادی سوئیان والے کے سید گھرانے میں ہوئی، جو ہمارے ہی رشتہ دار تھے۔ ہمارا
سارا گھرانہ اور رشتہ دار وزیر آباد سے بارات لیکر سوئیانوالے پہنچے، اور
اپنی ممانی کو لیکر آئے۔ یہ 1960 کے عشرے کی بات ہے۔ اور ایک سال بعد سید
شہزاد ناصر پیدا ہوئے۔ میرے والد ڈاکٹر انور سعید قریشی مرحوم، اسوقت
حیدرآباد میں رہائش پذیر تھے، اور گرمیون کی چھٹیون میں اکثر ہم کراچی اپنی
نانی اور نانا کے ساتھ گزارا کرتے تھے۔ اسطرح بھائی شہزاد مجھ سے تقریبا 13
سال چھوٹے تھے، یعنی میں نے چھوٹے شاہ جی کو گود میں کھیلایا ہے، اس دوران
مامون جان کو بینک کی طرف سے نارتھ ناظم آباد (اسٹیٹ بینک آفیسرز کالونی
میں شاندار فلیٹ الاٹ ہوگیا۔ اور مامون جان وہان فیملی کے ساتھ شفٹ ہوگئے۔
اس ترقی کے ساتھ ساتھ ماموں جان کی فیملی بھی ترقی کرتی چلی گئی، اور مامون
جان کی نفری میں بلترتیب، چھ اولادین ہوئیں۔ جن میں پانچ بیٹے، اور ایک
بیٹی شامل ہیں۔ اور جب 1981 میں میری شادی ہوئی، اسوقت مامون جان کا سب سے
چھوٹا بیٹا جواد ناصر تقریبا پانچ سال کا تھا۔ اور بھائی شہزاد ناصر سولہ
یا اٹھارہ سال کے تھے۔
میری شادی کے دو یا تین سال بعد مامون جان کا ٹرانسفر گوجرنوالہ اسٹیٹ بینک
میں ہوگیا۔ اور اسطرح میرے سب سے زیادہ قریبی رشتے مجھ سے دور ہوگئے، اور
میں کراچی میں اکیلا رہ گیا، بعد میں میری فیملی 1991 میں کراچی سفٹ ہوگئی۔
لیکن درمیانی وقفہ میں نے کراچی میں اکیلا ہی گزارہ۔ ا ن دنون خط و کتابت،
اور ٹیلی فون ہی حال احوال معلوم ہونے کا ذریعہ ہوتا تھا، انٹر نیٹ اور
موبائیل کی آمد آمد تھی۔ اس دوران میں ہماری دوریا ن، ہوگئیں، بھائی شہزاد
کی شادی میں میری والدہ اور میرا بیٹا شامل ہوئے ، وہ اسوقت پانچ سال کا
تھا۔ اپنی دادی کے ساتھ گیا تھا۔ پھر بھائی سجاد ناصر کی شادی ہوئی، نہ جا
سکا، پھر آفتاب ناصر کی بھی ہو گئی، نہ جاسکا، اور ان سب سے زیادہ دکھ مجھے
اپنی گڑیا سی بہن کی شادی کا ہے ۔ میں شامل نہ ہوسکا۔ میرے مامون کا انتقال
ہوگیا، ممانی کی وفات ہوگئی،سب گئے میں شامل نہ ہوسکا۔
کراچی کی تیز رفتار زندگی نے سب سے دور کردیا۔ کچھ اپنی نالائقیان تھیں،
کچھ حالات تھے۔ دور ہوتے چلے گئے۔ لیکن دل میں ایک کسک تھی، ایک درد تھا۔
کہ میں ایک دفعہ تو جاؤن ، اس عرصہ میں کچھ حالات بھی سازگار ہوگئے، بچے
بھی بڑے ہوگئے، اور پھر اللہ پاک نے ایک موقعہ فراہم کیا۔
2005 میں زلزلہ مانسہرہ کا اندوہناک حادثہ ہوا ۔ اسکے تین ماہ بعد میری
مسجد کے چند ساتھیون کے اصرار پر رائے ونڈ اجتماع میں جانے کا ارادہ کیا۔
وہ اگست کا مہینہ تھا۔ اور میں جماعت کے ساتھ اجتماع اٹینڈ کرنے چلا گیا،
وہیں سے تین چلے (ایک چلہ چالیس دن کا ہوتا ہے، تین چلے یعنی چار ماہ)
کاارادہ کیا۔ اور نکل گئے، ہماری پہلی تشکیل بکھر کی ہوئی، واپسی پر لاھور
اترے ، اور میں نے اپنے امیر سے دو دن کی اجازت لی، اور گوجرنوالہ اور اپنے
بچھڑون سے ملنے نکل کھڑا ہوا۔
مجھے صرف اتنا ایڈریس معلوم تھا۔ علامہ اقبال ٹاؤن، جگنہ بازار، گوجرنوالہ۔
اور میں پریشان بھی تھا، کہ کیسے پہنچون گا، پہلی دفعہ گوجرنوالہ جانے کا
اتفاق تھا۔ بہر حال ایک تڑپ تھی، ایک شوق تھا۔ اک امید تھی، اور یقین تھا۔
اللہ پاک کی ذات پر کہ آج مجھے اللہ میرے اپنون سے ملا دے گا۔ لوجی انہی
سوچون میں گم بس نے گوجرنوالہ لاری اڈے پر اتار دیا۔ ادھر اُدھر دیکھا، کس
طرف جاؤن، کیا کرون کس سے پوچھوں، پھر خیال آیا چنچی والے سے پوچھتا ہون۔
ایک سامنے ہی خالی کھڑا تھا - اسی کو جاپکڑا سلام کیا ، پوچھا بھائی جگنے
بازار جانا ہے، اس نے اوپر سے نیچے تک دیکھا، حلیہ دیکھا، اور پوچھا،
باباجی ایہوئی جگنا بازار جے، تُسی کیتھے جاڑان ائے، میں نے اس سے کہا
بھائی میں پہلی دفعہ آیا ہون، تو مجھے اقبال ٹاؤن پہنچا دے ، آگے میں دیکھ
لون گا۔ بولا ۔ بیھ جاؤ فیر۔ اور میں بیٹھ گیا۔
کیتھون آئے اؤ۔
کراچی تون ۔ میں جماعت نال آیان، ایتھے میرے بھائی رہندے نے ، اونانون ملن
جاریان ۔
پانچ یا چھ منٹ میں اسنے مجھے اقبال ٹاؤن کے سامنے اتار دیا۔
لو جی آگیاجے اقبال ٹاؤن۔ میں نے اسے کرایہ ادا کیا، اور اپنا بیگ اٹھاکر
دیکھنے لگا۔ کس سے پوچھون، کہان سے ابتداء کرون۔ صبح کا وقت آٹھ بجے۔
دوکانیں بند، اکا دکا دکانیں کھلی نظر آئیں سامنے گلی میں۔ میں اللہ کا نام
لیکر ایک جرنل اسٹور کے سامنے رکا۔ میری ہی عمر کے ایک صاحب باریش بیٹھے
تھے۔ سلام کیا۔
جی فرمائیے۔
جی میں کراچی سے آیا ہون ، میرے ایک مامون یہاں رہتے ہیں، ناصر الدین محمود
(شاہ جی) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ بس یہی پتہ ہے۔ کہ اقبال ٹاؤن میں رہتے
ہیں۔ انکے پانچ بیٹے ہیں، شہزاد، سجاد، آفتاب، جنید، اور جواد، نہ میرے پاس
انکے گھر کا نمبر ہے۔ بس یہی پتہ ہے جو آپکو بتادیا ہے۔
میان صاحب۔ (دوکاندار) تھوڑی دیر مجھے دیکھتے رہے، اور کچھ سوچتے رہے۔ پھر
بولے، آپ بیٹھین، میں تو دوکان پر نہیں ہوتا ۔ میرا بیٹا آنے والا ہے۔ شاید
وہ جانتا ہو۔ انہون نے مجھے کرسی دی میں بیٹھ کر انکے بیٹے کا انتظار کرنے
لگا۔ اور دل ہی دل میں اللہ کو یاد کر نے لگا۔ یا اللہ تو ہی مدد کرنے والا
ہے۔ تو ہی منزل کا راستہ دیکھانے والا ہے ۔ میری مدد کر۔
دس منٹ بعد انکا بیٹا دوکان پر آگیا۔ مجھے دیکھکر سلام کیا، اور اپنے والد
کی طرف دیکھنے لگا۔ انہون نے اسے ساری بات بتائی، میں اسکی طرف بڑی آس امید
سے دیکھ رہا تھا۔ بولا، جی میں ایک جواد صاحب کو جانتا ہون، انکے بھی تین
چار بھائی ہیں، اور وہ بھی کافی عرصہ پہلے کراچی سےشفٹ ہوئے ہیں، ان سے میں
آپکو ملا دیتا ہون۔ اور انکے گھر پہنچا دیتا ہوں۔ شاید وہی ہون جنکی آپ کو
تلاش ہے۔
اور اللہ پاک کے کرم فضل سے میں بلکل ٹھیک جگہ پہنچ گیا۔ جب میں نے گھنٹی
بجائی تو دروازہ کھولنے والی میری چھوٹی بھابی تھی، جب میں نے کہا کہ میں
شہزاد صاحب سے ملنے آیا ہون، کراچی سے ، تو اسنے سب سے پہلے جو الفاظ کہے،
آپ فاروق بھائی جان ہیں نا۔ یقین کرین میری آنکھون میں آنسو آگئے۔ یہ مجھے
پہلی دفعہ دیکھ رہی ہے، اور میں نہیں پہچان پارہا تھا۔ اسکی آواز سنکر سب
سے پہلے سجاد نکلا، اور دیکھتے ہی دیکھتے شہزاد، جنید، جواد، انکی بیویان،
بچے، پورا ٹببر اکھٹا ہوگیا۔ میرے بھائی شہزاد نے دیکھتے ہی چھلانگ لگائی،
اور میرے سینے سے لگ گیا۔ میری بھابیان جنہیں میں پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا،
مجھ سے ایسے مل رہی تھیں ۔ جیسے مجھےبہت پہلے سے جانتی ہون، مجھ سے نہ رہا
گیا۔ میں نے ان سے پوچھا، کہ آپ سب تو پہلی دفعہ مل رہی ہیں کیسے پہچانا۔
تو مجھے جواب ملا، ایک تو آپکی شکل ہمارے سسر جی سے بہت ملتی ہے، دوسرا آپ
کا ذکر اکثر ہمارے گھر میں ہوتا رہتا ہے۔ مجھے یاد ہے اس دن سب نے اپنے
دفترون سے چھٹی کی، بچون نے اسکولون سے چھٹی کی۔ سب نے میری بہت خدمت کی
میرے سارے میلے کپڑے دھوئے، جواد بازار سے ٹوکرا مچھلی کا اُٹھا لایا۔ محفل
لگ گئی، پرانی باتین، شرارتین، مامون جان کی باتین، بہت ساری باتین ہوئیں۔
میں نے شکرانے کے نفل اداء کئے، اس پاک ذات نے مجھ جیسے گنہگار کی کیسے مدد
کی، میں نے سنا تھا۔ جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے ۔ اللہ اسکی مدد فرماتے
ہیں۔ ( یہ میرے یقین اور ایمان کی منزل تھی۔ جو مجھے ملی)
آج میں 63 سال کا ہون۔ یہ پیاری پیاری یادین ہی میرا سرمایہ ہیں، یہ
محبتین۔ اور پھر شہزاد ناصر کو میں کیسے بھول سکتا ہون۔ 22 سال بعد ملے
تھے، کیسے جان سکتا ہون۔ ان بیتے سالون میں کس میں کیا کیا تبدیلی آئی۔ جو
میں دیکھ رہا تھا۔ جو بچے تھے ، آج بچون کے باپ ، او ر معاشرہ کے ذمہ دار
انسان ہیں،
رہی اب شہزاد ناصر کی۔ تو وہ کبھی بھی نہیں بھولا اور نہ ہی بھلایا جاسکتا
ہے۔
سید شہزاد ناصر خوب لکھو اور جو دل میں آئے لکھو۔ تم لکھنا جانتے ہو۔
تمھارے پاس اللہ پاک کی عطاء کردہ صلاحیتین ہیں۔ انہیں اس معاشرہ ،
سوسائیٹی ، اور انسانیت کی بھلائی کے لئے خرچ کرو۔ کیونکہ یہی صدقہ جاریہ
ہے ۔
وسلام: فاروق سعید قریشی۔ |