جناح انتہاپسندوں کے نرغے میں

محمد علی جناح کے بارے میں ان کے چاہنے والوں کے ہاں دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں، بدقسمتی سے یہ دونوں رویے انتہاپسندانہ ہیں۔ ان میں سے ایک طبقہ تو وہ ہے جو جناح صاحب کو ولی کامل سے کم رتبہ دینے پر آمادہ نہیں جبکہ دوسرا گروہ انہیں سیکولر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناح صاحب کی اصل شخصیت عقیدت میں غلو اور تحقیق کے نام پر ڈرامابازی میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔

ایک بڑے اخبار کے ادارتی صفحے پر ایک عرصہ سے محمد علی جناح کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ ان دنوں پھر اس حوالے سے ایک بحث چل پڑی ہے۔ ایک طرف ڈاکٹر صفدر محمود صاحب ہیں جنہیں قائداعظم محمد علی جناح پر اتھارٹی تصور کیا جاتا ہے۔ اس موضوع پر وہ کئی کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے کالموں میں قائداعظم کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں، جس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ محمد علی جناح نہ صرف خود مذہب کی طرف گہرا رجحان رکھتے تھے بلکہ وہ ایک ایسا پاکستان بھی چاہتے تھے جو اسلامی ہو۔ ڈاکٹر صاحب اپنے کالموں میں قائداعظم کی تقاریر کے اقتباسات بھی دیتے رہتے ہیں۔ جس سے وہ محمد علی جناح کی مذہبی شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ان باتوں کے درست ہونے میں کوئی شک شک وشبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑکر بیشتر مو ¿رخین اس بات پر متفق ہیں کہ محمد علی جناح عوامی خواہشات کے عین مطابق پاکستان کو ایک اسلامی مملکت دیکھنا چاہتے تھے اور یہ بھی درست ہے کہ وہ مذہب پسند انسان تھے، تاہم جب ڈاکٹر صاحب قائداعظم کو قرآن، حدیث اور فقہ کے ماہر کے طور پر پیش کرتے ہیں تو ان سے اتفاق کرنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے ۔صفدر محمود صاحب نے اپنے پچھلے کالم میں قائداعظم کا ایک مولوی صاحب سے مکالمہ نقل کیا ہے جس میں جناح صاحب کو مفسر قرآن کے روپ میں دکھایا گیا ہے، اس طرح کے کالم پڑھ کر اچھے خاصے انسان کو بدہضمی ہوجاتی ہے۔قائداعظم سے عقیدت میں غلو ہمیں ایک اور طرح سے بھی نظر آتا ہے۔ قلم کاروں کے ایک گروہ نے محمد علی جناح سے کئی طرح کی روحانی کہانیاں بھی جوڑ رکھی ہیں۔ مارکیٹ میں کئی ایسی کتابیں موجود ہیں جن میں جناح صاحب کے روحانی کرشمے اور ان کی کرامات کا ذکر ملتا ہے۔ سنجیدہ اخبارات کے سنجیدہ کالموں میں بھی اس طرح کی باتیں چھپتی رہتی ہیں۔

قائداعظم سے محبت کرنے والا ایک دوسرا گروہ بھی ہے جس کے سرخیل آج کل یاسر پیرزادہ صاحب بنے ہوئے ہیں۔ اس گروہ نے محمد علی جناح کو غیرمذہبی ثابت کرنے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے۔ کہتے ہیں ایک آدمی کو مشہور ہونے کا شوق تھا، بے چارے نے بہت ہاتھ پاو ¿ں مارے مگر مشہور نہ ہوا، آخر ایک روز جمعہ کی نماز کے وقت مسجد میں جاکر پیشاب کردیا جس سے وہ چند منٹوں میں ہی پورے علاقے میں مشہور ہوگیا۔ باقی لوگوں کے بارے میں تو کچھ کہنا مشکل ہے البتہ پیرزادہ بھائی پر یہ مثال سو فیصد صادق آتی ہے۔ ان لوگوں کو قائداعظم سے کچھ لینا دینا نہیں سب اپنی مشہوری کے لیے ڈراما رچایا جارہا ہے۔ انہیں پتا ہے کہ ان کے ایک کالم کے جواب میں کم ازکم پانچ سو گالیاں تو ضرور پڑیں گی، کئی جوابی کالم لکھے جائیں گے، اس طرح وہ مشہور ہوجائیں گے۔ اس طرح کے لوگوں کا یہ پرانا طریقہ واردات ہے، یہ چالاک لوگ کسی مشہور شخصیت کا انتخاب کرکے یا تو اس کے خلاف لکھنا شروع کردیتے ہیں یا پھر اس سے ایسی ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتیں، دونوں صورتوں میں لکھاری کو قارئین کا حلقہ مل جاتا ہے، یہی اس کا مقصد ہوتا ہے۔

یاسر پیرزادہ صاحب اپنے کالموں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بڑے محقق ہیں۔ ان کا کالم حوالوں سے بھرا ہوتا ہے مگر جب ان حوالوں کا پوسٹ مارٹم کریں تو صاحب کی علمی خیانت ہاتھ جوڑکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ ہم تو ان کی علمی ”دیانت“ کے اسی روز قائل ہوگئے تھے جب ان کا اوریامقبول جان سے ٹاکرا ہوا تھا۔ اوریا صاحب نے ان کے حوالوں کا جس طرح پردہ چاک کیا اگر پیرزادہ کی جگہ کوئی فقیرزادہ بھی ہوتا تو آیندہ کالم لکھنے سے توبہ کرلیتا۔ اپنے گزشتہ کالم میں ان صاحب نے قائداعظم کو ”ملائیت“ کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی، اس حوالے سے ایک کتاب کا ذکر بھی کیا مگر عادت سے مجبور ہوکر پھر ڈنڈی ماردی۔ روزنامہ پاکستان کا بھلا ہو جس نے اپنی ویب سائٹ پر کالم کے ساتھ اصل کتاب کے صفحے کا عکس بھی شائع کردیا جس سے پیرزادہ صاحب کی چوری پکڑی گئی۔

میں حیران ہوں کہ آخر قائداعظم پر بحث کا فائدہ کیا ہے؟ ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں محمد علی جناح ایک اسلامی پاکستان چاہتے تھے، وہ درجنوں تقاریر کے حوالے دیتے ہیں۔ دوسری طرف پیرزادہ اینڈ کمپنی کہتی ہے قائد سیکولر تھے اور وہ سیکولر پاکستان ہی چاہتے تھے، یہ گروہ بھی کئی تقاریر نقل کرتا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ یہی کہ قائداعظم یکسو نہیں تھے یا پھر یہ کہ انہوںنے عوام کو دھوکا دیا۔ اگر محبان جناح عوام کے سامنے قائداعظم کا یہی کردار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر شوق سے انہیں تختہ ¿ مشق بناتے رہیں۔ ہاں اگر انہیں قائداعظم سے کسی درجے میں واقعی ہمدردی ہے تو عوام کے سامنے ان کی شخصیت کے ایسے گوشے لانے چاہئیں جو متنازع نہ ہوں۔ اس سے بابائے قوم کا مثبت تاثر اجاگر ہوگا۔ ورنہ پیرزادہ گروپ جس طرح کی ”تحقیقات“ سامنے لارہا ہے ،اس سے متاثر ہوکر کل کو کوئی قائداعظم کی امانت ودیانت پر بھی سوال اٹھا سکتا ہے۔ پھر سوال یہ نہیں رہے گا کہ محمد علی جناح مذہبی تھے یا سیکولر بلکہ لوگ ان کی سچائی پر سوالات اٹھائیں گے۔
 
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 111165 views i am a working journalist ,.. View More