بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ۔
پاکستان سنی اکثریت پر مشتمل اسلامی ،جمہوری فلاحی مملکت ہے ،عالم اسلام
میں پاکستان کو نمایاں مقام حاصل ہے ،پاکستان میں دین اسلام کی تبلیغ و
اشاعت کے فعال مراکز،مدارس و جامعات دینیہ کے منظم ، مثالی و معیاری تعلیمی
ادارے پوری دنیا کے اہل علم وایمان کی توجہات کا مرکز ہیں،مسلمانان پاکستان
دین سے گہری دلچسپی اور لگاؤ رکھتے ہیں ، مشرقیت اور اسلامی تہذیب پاکستانی
معاشرے کا خاصہ ہے۔
کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی مملکت خداداد پاکستان کے خلاف روزاول سے ہی
دین بیزار اور ملک دشمن قوتیں سر گرم عمل ہیں ،مختلف ادوار میں لسانی ،گروہی
اور مذہبی تقسیم کے ذریعے پاکستانی قوم کے اتحاد اور قوت کو سبوتاژکرنے کی
سازشیں پنپتی رہی ہیں مگر مسلمانان پاکستان نے ہر نازک موقع پر طاغوت کی
تمام سازشوں کو ناکام بناکر ملی یکجہتی کی بے مثال روایتیں قائم کی ہیں ۔گزشتہ
چند برسوں سے ملک میں جاری مذہبی وگروہی انتہا پسندی ودہشتگردی ،بے گناہ
اور قیمتی جانوں کی ٹارگٹ کلنگ نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساخت کو
شدیدد ہچکا اور نقصان پہنچایا،اس صورت حال کا مقابلہ اور عوامی شعور بیدار
کرنے ،مظلوم سنیت کے حقوق کی آواز اٹھانے ،پیغام امن اور پاکستان مخالف
قوتوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے جب محب وطن سنی قوتیں میدان
عمل میں اتریں تو اس وقت تمام اہلسنت قوم کی نمائندہ سب سے بڑی مذہبی تنظیم
اہلسنت و الجماعت پاکستان نے اٰل پاکستان تحفظ اہلسنت کانفرنسز کے انعقاد
کا فیصلہ کیا،یہ اجتماعات ملک کے ہر صوبائی صدر مقام اور اہم شہروں میں
منعقد کرانے کا فیصلہ کیا گیاجو بڑی کامیابی کے ساتھ انعقاد پذیر ہو چکے
ہیں ۔ تحفظ اہلسنت کانفرنسز دراصل فقیدالمثال اجتماعات تھے ،جوہر عام و خاص
سنی کی تو جہات کا مرکز بنے رہے،قومی و بین الاقوامی میڈیاکی غیر معمولی
کوریج نے قوم کی آواز کو مقتدر حلقوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
22مارچ 2014یوم شہادت امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒکے موقع پر
پنجاب کے دارلحکومت لاہورقصر فاروق اعظم ؓمیں تحفظ اہلسنت کانفرنس کا پہلا
اجتماع منعقد ہوا،دوسرا اجتماع 14مارچ ہاکی گراؤنڈ کوئٹہ،تیسرا اجتماع قائد
اعظم ؒ کے شہر کراچی لسبیلہ اور چوتھا اجتما ع21مارچ پشاور قصہ خوانی بازار
میں منعقد کیا گیاجبکہ آخری اور مرکزی تحفظ اہلسنت کانفرنس 28مارچ راولپنڈی
کے تاریخی پنڈال لیاقت باغ میں منعقد کی گئی ۔اٰل پاکستان تحفظ اہلسنت
کانفرنسز میں اہلسنت و الجماعت کی مرکزی قیادت کے علاوہ تمام سنی مذہبی
وسیاسی جماعتوں اور قوتوں کے قائدین اور نمائندوں نے بھر پور شرکت کی
اورتمام قائدین نے ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے اپنے عزم کا اظہار
کیااور حکومت سے ملک میں جاری فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا نوٹس لینے اور
اہلسنت قیادت کو معقول سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا،کانفرنسز میں
قراردادوں کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت فرقہ وارانہ کشمکش
خصوصا شیعہ سنی فسادات کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے اور وجہ نزاع
امور و اسباب پرگفت و شنید اور قانون سازی کے ذریعے قابل عمل حل نکالے ۔اہلسنت
والجماعت پاکستان نے اس امر پر تشویش کااظہار کیا کہ اہلسنت والجماعت کے
محب وطن قائدین اور کارکنوں کی کراچی ،کوئٹہ،پشا ور،لاہور، راولپنڈی،گلگت
سمیت پورے ملک بالخصوص وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ
ہو رہی ہے جن کے قاتلوں کی گرفتاری اور قرار واقعی سزاہونا، ہنوز حکومت پر
سوالیہ نشان ہے۔قائدین اہلسنت نے ان مطالباتی اجتماعات کے ذریعے سب پر واضح
کردیا ہے کہ وہ ہر مسئلے کو آئین اور قانون میں رہ کر حل کرنا چاہتے ہیں،وہ
پاکستان کے آئین میں صحابہ کرام واہلبیت رسول ﷺکی ناموس اور عصمت کے تحفظ
کے لیے قانون سازی چاہتے ہیں،تمام اہلسنت کا مطالبہ یہ ہے تمام مذہبی طبقوں
کو چاردیواری میں رہتے ہوئے اپنی مذہبی رسومات سرانجام دینے کا پابند بنایا
جائے تاکہ آئندہ فاروق نگر(گڑھ مہاراجہ)ضلع جھنگ،بولٹن مارکیٹ کراچی اور
راجہ بازار راولپنڈی جیسے واقعات رونما نہ ہو ں جن میں اہلسنت تاجروں کو
اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑااور درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جب کہ ان
ہی خنجر بردار ماتمیوں کے ہاتھو ں تعلیم القرآن راولپنڈی کے نہتے نمازیوں
اور معصوم طلبہ کی بے دردی سے شہید کی گئی لاشیں ان ماتمی جلوسوں کے بارے
میں مستقل لائحہ عمل کا نوحہ کررہی ہیں ۔تحفظ اہلسنت کانفرنسز کے ذریعے ذمہ
دار اداروں کو ملک بھر توہین صحابہ وا ہلبیت رسولﷺ پر مبنی تمام لٹریچرکو
ضبظ کرنے اور اس سلسلہ میں قانو ن سازی کی طرف متوجہ کیا گیاجو اصل وجہ
نزاع ہے۔
تحفظ اہلسنت اجتماعات درحقیقت سنی اکثریتی مظلوم طبقات کی آواز ہیں جو اپنے
حقوق کوآئینی جدوجہد کے ذریعے حاصل کر نے پر کامل یقین رکھتے ہیں ،گولی اور
گالی سے زیادہ دلائل کی قوت رکھنے والے سنی اپنے سنی حکمرانوں سے اسلام کی
اساسی شخصیات یعنی صحابہ کرام و اہلبیت رسول ﷺکے شاتم کے لیے سزا کا قانون
لینے کی استدعا کررہے ہیں ،یہ ان اسیران کی پکار ہیں جو صدیقہ کائنات ،
مؤمنوں کی ماں حضرت عائشہ ؓ کے گستاخ کی سزا کا قانون مانگنے کی پاداش میں
پس زندان ڈال دئیے گے،یہ ان ماؤں کی آرزو ہے جنہوں نے تحفظ ناموس رسالت
اورصحابہ و اہلبیت رسولﷺ کے لیے اپنے جگر کے ٹکڑے راہ وفا میں قربان کر
ڈالے۔مقولہ ہے کہ آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ تحفظ اہلسنت کانفرنس کے
اجتماعات کے ذریعے اہل سنت عوام نے اپنا مقدمہ حکمرانوں کے سامنے پیش کردیا
ہے،اہل سنت کے مطالبات شرعاً، قانوناًاور سماجا ً نہ صرف معقول بلکہ قابل
عمل بھی ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مطالبات کو پورا کرکے اہلسنت میں
پھیلے اضطراب کو ختم کرکے قیام امن کی طرف ایک قدم اوربڑھائیں۔ |