ایک بار پھر خواتین کا عالمی دن آگیا ۔ایک ایسا دن جو
خواتین کے لئے مخصوص ہے ۔ یعنی صرف خواتین کے نام اورخواتین کے لئے ۔لیکن
اس دن کا مقصد کیا ہے ؟ اورکیو ں بنایا گیا یہ دن ؟ کیا اس لئے کہ اس ایک
دن ان کا احترام کر سکیں ۔ان کی کاوش کی ستائش کر سکیں۔انہیں یہ احساس کرا
سکیں کہ وہ اس سماج اور معاشرے کے لئے کس قدر اہم اور انمول ہیں۔ ماں،بہن ،بیٹی
اور شریک حیات کی حیثیت سے کتنے رشتوں کو سنبھالے رکھتی ہیں۔ لیکن حقیقت تو
یہ ہے کہ یہ دن صرف عورتوں کے لئے بہلاوے کا ایک سامان ہے۔ جس کے سہارے
انہیں سماج میں ایک خاص جگہ دے دی جاتی ہے ۔ انہیں یہ باور کریا جاتا ہے کہ
اس سماج میں ان کی بھی وہی حیثیت ہے جو ایک مرد کی ۔اور ہم یہ مان لیں کے
ہمارا سماج بدل رہا ہے اس کی سوچ بدل رہی ہے اور یہاں عورت اور مرد کو ایک
ہی زمرے میں لایا جاتا ہے ۔اگر واقع ایسا ہوتا تو آج ہم اپنی حفاظت اور
سیکورٹی کے تئیں اتنی ڈری سہمی نہیں رہتی۔ گھر کے باہر قدم نکالنے سے پہلے
سو بار سوچنا نہیں پڑتا ۔ کہ کہیں کسی اوٹو والے نے مار دیا تو ، کسی ٹیکسی
والے نے نازیبہ حرکت کرنے کی کوشش کی تو ،کسی لڑکے نے چھیڑ دیا تو کیا کریں
گی ۔کسے مدد کے لئے آواز لگائیں ؟ کس کے دل میں کیا ہے کیا معلوم ؟ کون آپ
کی تاک میں بیٹھا ہے؟ہمارے تئیں بڑھ رہے جرائم نے ہماری حفاظت پر ایک بڑا
سوالیہ نشان لگا دیا ہے؟
اس گھناؤنے فعل میں ان مجرموں کا تو کچھ نہیں جاتا ، جاتی ہے تو بس لڑ کی
کی عزت الٹا اسے ہی مورد الزام ٹھریا جاتا ہے ۔اگر وہ اسے بھول کر جینا بھی
چاہے تو سماج والے اسے جینے نہیں دیتے۔ کیونکہ ایسا جرم چاہے کوئی بھی کرے
برداشت صرف عورت کو کرنا پڑتا ہے اور انگلیاں بھی اسی پر اٹھتی ہیں۔کوئی
کہتا ہے۔ لڑکی ہی خراب تھی، تو کوئی اس کے لباس کو الزام لگاتا ہے۔کوئی بھی
لڑکوں کو الزام نہیں دیتا ۔کیا تمام پابندیاں لڑکیوں پر عائد ہو تی ہیں ۔شرم
و حیا کیا صرف لڑکیوں کے لئے ہے؟ہم اپنے لڑکوں کے دل میں لڑکی کی عزت پیدا
کیوں کرتے ؟ان کے لئے دائرہ کار کیوں نہیں بناتے ؟انہیں کیوں نہیں سیکھاتے
کہ مردانگی لڑکی کی حفاظت کرنے میں ہے انہیں بے آبرو کرنے میں نہیں۔ ہماری
قوم کی ماؤں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و
تربیت کے ساتھ ان کی پرورش پر بھی خاصی توجہ دیں۔بچپن سے انہیں اپنی بہن کی
ماں کی اور دوسری تمام خواتین کی عزت کرنے کا درس دیں ۔تاکہ حالات ان کے
بگاڑ کا سبب نہ بن سکیں۔یہ سمجھ لیجئے کہ ہر لڑکی کسی نہ کسی کے گھر کی عزت
ہوتی ہے ۔اگر خواتین پر تشدد کا یہ سلسلہ یو ہی چلتا رہا تو ایک دن مائیں
لڑکیاں پیدا کرنا بند کر دینگی جو کہ ہو رہا ہے اور جس کے خلاف مہم بھی
چلائی جارہی ہے ۔ایک لڑکی ہوتے ہوئے ایسا کہنا واقعی دل پر پتھر رکھنے جیسا
ہے ، لیکن آج کے حالات کو دیکھ کر تو یہی کہا جا سکتا ہے ۔ میں مانتی ہوں
کہ سارے مرد اور معاشرے کے تمام لوگ ایسی سوچ والے نہیں ہوتے اور وہ عورتوں
کو وہ عزت دیتے ہیں جن کی وہ مستحق ہیں ، پر جس طرح ایک مچھلی سارے تالاب
کو گندہ کر ڈالتی ہے اسی طرح ایسا فعل کرنے والے مرد سارے مہذب طبقہ کے لئے
ایک کلنک ہیں ۔ جسے ختم کرنا ان ہی مہذب لوگوں کا فرض ہے اس کے خلاف آواز
اٹھائے ۔اپنے سامنے کسی لڑکی کی بے عزتی برداشت مت کیجئے۔اگر آپ بولیں گے
تو سماج بولے گا ۔
ایک طرف تو ملک ترقی کے زینے چڑھ رہا ہے ، ملک کے سب سے اعلی عہدے پر ایک
خاتون ہی موجود ہے۔ آج کوئی ایسا علاقہ نہیں بچا جہاں خواتین نے اپنی چھاپ
نہ چھوڑی ہو لیکن پھر بھی عورتوں کے تئیں سماج کی سوچ کیوں تنگ ہوتی جا رہی
ہے ؟دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور تیزی سے اقتصادی طاقتوں کی صف میں جگہ
بنانے والا ہندستان میں حکومت اور میڈیا کی طرف سے گزشتہ بیس برسوں کے
دوران معاشی ترقی کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب عورتوں کے حقوق
کی پامالی اور عورتوں کے خلاف جرائم کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا
ہے۔عورت کو لکشمی ،سرسوتی اور کالی کے روپ میں پوجنے والے ملک میں عورتوں
کو اغوا کرنے کے بعد ان سے زبردستی شادی کرنے کے واقعات میں بہت زیادہ
اضافہ ہوگیا ہے۔ عورتوں کے حقوق سے متعلق ایک ٹی وی رپورٹ میں صحافی
اینڈریو میک آسکل اور بیبھودتاپردھان نے انکشاف کیا ہے کہ 2013 ء میں اغوا
کرنے کے بعد عورتوں سے زبردستی شادی کرنے کے ایک لاکھ سے زیادہ واقعات
رجسٹرڈ کئے گئے۔ مغربی بنگال اور آسام سے عورتوں کی بڑی تعداد کو اغوا کیا
گیا ایسے واقعات کی تعداد ایک لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ
اپنے خاندان کی بدنامی کے ڈر سے یا دیگر وجوہات کے سبب ایسے واقعات کی
رپورٹ درج کرانے سے گریز کرتے ہیں۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نئی دہلی سے وابستہ پروفیسر روندر کور
عورتوں کے اغوا اور زبردستی شادی کے موضوع پر پچھلے دس سالوں سے مطالعہ کر
رہی ہیں اور اب اس موضوع پر کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ پروفیسر روندر
کا کہنا ہے کہ جنسی عدم توازن ،عورتوں کے خلاف جرائم کی وجہ بن رہا ہے۔
انڈیا میں ایسے بہت سے علاقے ہیں ،جہاں عورتوں کا تناسب مردوں کے مقابلے
میں زیادہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہندستان کے ہندو گھرانوں میں اولاد
نرینہ کی خواہش ہے۔ زیادہ ترعورتوں کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بیٹی پیدا
کرنے والی ہیں ، تو خوفزدہ ہو جاتیں ہیں، کیونکہ انہیں اسقاط حمل پر مجبور
کیا جاتا ہے۔ لڑکی پیدا کرنے والی ماں کو منحوس سمجھتے ہیں۔
امپاور پیپل نامی تنظیم کے بانی شفیق خان اس بارے میں کہتے ہیں آج سے بیس
تیس سال قبل عورتوں کو اغوا کر کے ان سے زبردستی شادی کرنے کا رجحان نہیں
تھا،جتنا موجودہ دور میں ہے۔ پچھلے سات سالوں کے دوران ان کی تنظیم نے
تقریباً400عورتوں کو امداد فراہم کر چکی ہے، جنہیں اغوا کرنے کے بعد اْن کی
زبردستی شادی کروادی گئی۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ نہ صرف ان واقعات میں
اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ ہندستان کے کئی علاقوں میں لڑکیوں کو اغوا کرکے اْن
سے زبردستی شادی کرلیتے ہیں۔ تنظیم کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ
ہونے کے دعویدار ہندستان میں عورتیں ہر قسم کے مظالم کا شکاراور معاشرے میں
عبرت کا نشانہ بن رہی ہیں۔ لڑکیوں سے زبردستی شادی اور اسقاط حمل کے جرائم
عام ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹی بچیوں کو اغوا کر کے اس لیے پالا جاتا ہے ،کہ
ان سے جسم فروشی جیسا غلیظ دھندا کروایا جاسکے۔ زیادہ ترعورتیں صحت کی
بنیادی سہولیات اورتعلیم سے محروم ہیں۔2013ء میں ایک لاکھ عورتوں کا کا
جبری شادی کے لئے اغوا کیا جانا2006ء کے مقابلے میں20 فیصد زیادہ ہے۔
ایک سال قبل 23 سالہ میڈیکل طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد جب قتل
کر دیا گیا تھا تو اس وقت اس کا بہت شور شرابہ ہوا مگر وقت کے ساتھ ساتھ سب
خاموشی سے بیٹھ گئے، کسی نے بھی خواتین کی حالتِ زارکو بہتر بنانے کی کوشش
نہیں کی۔ جس کی وجہ سے آج بھی لاکھوں خواتین مظالم کا شکار ہیں۔ ایسی ہی
ایک خاتون روپ سونا ہے ،جسے بھری جوانی میں رسوا کر دیا گیا۔ ٹی وی سے
وابستہ صحافیوں اینڈریو میک اور بیبھودتا پردھان نے روپ سونا کی داستان پر
مبنی رپورٹ دنیا کو دکھا کر عورتوں کے حقوق پر ایک بار پھرسوالیہ نشان ڈال
دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال کی رہائشی روپ سونا اسکول سے واپس اپنے
گھر جا رہی تھی، تین غنڈوں نے اسے خنجر دکھا کر اغوا کر لیا اور 800 ڈالر
میں فروخت کر دیا۔ روپ سونا نے صحافیوں کو بتایا کہ اغوا کرنے والے پہلے
ایک کار میں بیٹھا کر لے گئے۔ اور پھر ریل گاڑی میں بٹھا کر کیتھل کے شہر
لے آئے جو اسکے گاؤں سے تقریباًایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ کیتھل
پہنچ کر اْن لوگوں نے اسے ایک اور شخص جس کا نام سندیپ ملک تھا ،فروخت کرکے
زبردستی شادی کروادی،روپ سونا کو چودہ ماہ اس شخص کے ساتھ گزارنے پڑے ، ایک
دن موقع پاکر وہ وہاں سے بھاگ نکلی اور پولیس کی مدد سے اپنے گھر واپس
آگئی۔ روپ سونا پر اس واقعے کا اتنا اثر ہو کہ وہ آج بھی ڈر جاتی ہے ،اور
کہتی ہے۔ کہ آج بھی مجھے ڈراونے خواب آتے ہیں کہ وہ لوگ مجھے اغوا کرنے کے
لیے پھر آگئے ہیں۔ مجھے ان سے کون بچائے گا؟
اس رپورٹ شائع ہونے کے بعد جب پولیس نے سندیپ کے گھر چھاپہ مارا تو اس کا
پورا خاندان گھر چھوڑ کر جا چکا تھا۔ مشرقی بھارت کے غریب دیہاتی علاقوں
میں کم سن لڑکیوں کواغوا کرکے اْن سے زبردستی شادی کے واقعات عام ہیں۔ اس
قسم کی زبردستی شادیاں اولاد نرینہ کے لئے کی جاتیں ہیں۔ مغربی بنگال اور
آسام میں اس قسم کے واقعات عام ہیں۔ ان ریاستوں میں عورتوں کی تعداد زیادہ
ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں عورتوں کو زبردستی اغوا کرکے یا ملازمت کا
جھانسہ دے کر بڑے شہروں میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔
مغربی بنگال کی محکمہ پولیس کے مطابق زبردستی شادی کے لئے اغوا کی جانے
والی لڑکیوں کی قیمت ان کی عمر، خوبصورتی، اور کنوارے ہونے کی بنیاد پر
زیادہ لگائی جاتی ہے۔ اغوا کی جانے والی لڑکیوں کی 150 ڈالر سے 4000 ڈالر
تک بیچا جاتا ہے۔ ان حقائق کا انکشاف اقوام متحدہ کا ادارہ برائے انسانی
اسمگلنگ بھی اپنی 2013 ء کی رپورٹ میں کرچکا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں
انکشاف کیا گیا ہے۔ کے اس طرح لڑکیوں کو خریدنے والے ان سے زبردستی شادی کر
کے ان سے بہت برا رویہ رکھتے ہیں۔ ان کی حیثیت گھر میں ایک نوکرانی کی سی
ہوتی ہے۔ ان کو استعمال کرکے انہیں لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس سے ان کی
ساری زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ہندستان میں اس طرح
اغوا شدہ لڑکیوں سے زبردستی شادیوں پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
اسے ’’جدید دور کی بدترین غلامی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ
میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ لڑکیوں کو دوران حمل ہی قتل کر دینے
اور انہیں معاشرے میں باعزت مقام حاصل ہونے نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ جہیز کی
لعنت ہے۔ لڑکے والے لڑکی والوں کوجہیز کی ایک لمبی فہرست تھمادیتے ہیں ،
لڑکیاں شادی نہ ہونے کی وجہ سے ماں باپ پر بوجھ بن جاتی ہیں ، جس کی وجہ سے
انہیں منحوس قرار دے دیا جاتا ہے۔صرف نام کے لئے عالمی یوم خواتین منا لینا
ہی کافی نہیں ۔ واقعی میں یوم تب بامعنی ہوگا جب اصلیت میں خواتین کو وہ
عزت ملے گی جس کی وہ حقدار ہیں ۔ کیا آپ دیں گے وہ احترام اور عزت؟ میں
نہیں کہتی کے راہ چلتی ہر لڑکی کی مدد کیجئے اور عزت دیجئے اپنے گھر سے
شروعات کیجئے اپنی بیوی کو عزت دیجئے ،اپنی بیٹی کی بات سنئے ،بہو کو
گالیاں دینے کے بجائے پیار دیجئے، اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کا احترا
م کیجئے اور ان کام کی ستائش کیجئے؟اس جدو جہد بھری زندگی میں آپ کی زندگی
جتنی مشکل ہے اس سے کہیں زیادہ ڑوڑے خواتین کی راہ میں حائل ہیں۔ان میں
مزید اضافہ مت کیجئے پھر منے گا یوم خو اتین ورنہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ؟ |