اُس کا قد چھوٹا اور سر گنجا تھا، جب وہ
کرسی پر بیٹھتا تھا تو اُس کے پاؤں زمین تک نہیں پہنچتے تھے، وہ کبھی بھی
اپنی سج دھج اور لباس کی طرف دھیان نہیں دیتا تھا، عموماً اس کی پتلون
ضرورت سے زیادہ لمبی ہوتی تھی، وہ ایک آنکھ سے بھینگا تھا اور اس کی ناک
اوپر کی طرف اٹھی ہوئی تھی، اس نے تمام عمر ریشمی ہیٹ یا فراک کوٹ نہیں
پہنا، اس نے قانون کی تعلیم حاصل کی، وہ دنیا کی چار زبانوں انگریزی، جرمنی،
فرانسیسی اور روسی پر عبور رکھتا تھا، اسے موسیقی، شاعری اور مذہب سے کوئی
دلچسپی نہیں تھی، اس نے اپنی جلا وطنی کا زمانہ سائبیریا میں ایک خانما
برباد انسان کی طرح گزارا، اس دوران اُس نے غریب کسانوں جنہیں سوائے کسی
تہوار کے سارا سال گوشت کھانے کو نہیں ملتا تھا، کی حالت زار کو بہت قریب
سے دیکھا، 1891ء کے قحط میں لاکھوں غریب کسانوں کو بھوک، پیاس مفلسی اور
غربت سے مرتے دیکھ کر اس نے ان کی حالت سدھارنے کا فیصلہ کیا اور ایک
انقلابی لیڈر بن گیا۔
اس نے پورے پچیس برس ملکوں ملکوں پھرنے میں گزارے، وہ جس ملک بھی جاتا اسے
وہاں سے نکال باہر کیا جاتا، یوں اس نے اپنی زندگی کے پچیس سال جرمنی،
آسٹریا، فرانس، سوئزرلینڈ، پولینڈ اور برطانیہ میں ملک بدری میں گزارے،
گرفتاری سے بچنے کیلئے اس نے کبھی مزدور، کبھی کسان، کبھی ملاح کے روپ
دھارے، دوران سفر وہ ہمیشہ ایک صندوق اپنے ساتھ رکھتا تھا جس کے خفیہ پیندے
میں وہ اپنی ضروری دستاویزات چھپا کر رکھتا تھا، اس نے جیل میں اپنی
انقلابی کتاب لکھنا شروع کی، پکڑے جانے کے خوف سے اس نے سیاہی کے بجائے
دودھ کو بطور سیاہی استعمال کیا، جسے پڑھنے کیلئے تحریر کو گرم پانی میں
ڈبویا جاتا تو حروف نمایاں ہوکر دکھائی دینے لگتے تھے، یہی طریقہ اس نے
اپنے شاگردوں کو بھی اپنانے کی ہدایت کی، نومبر 1917ء میں یہ انقلابی لیڈر
اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر روس کا ڈکٹیٹر” لینن “ بن کر ابھرا، اس نے سب
سے پہلا حکم تمام جاگیریں، جائیدادیں کو سرکاری تحویل میں لینے کا جاری کیا،
جن دنوں روس میں قحط پڑا تو لینن اپنی چائے میں چینی نہیں ڈالا کرتا تھا،
اُس کا کہنا تھا کہ کیونکہ عام لوگوں کو چینی میسر نہیں ہے، اسلیئے میں شکر
کا استعمال نہیں کرسکتا۔
گو کہ وہ روس کا حاکم اعلیٰ تھا لیکن اُس کی زندگی سامان تعیش سے دور تھی،
اس نے اپنی سہولت کیلئے سیکرٹری بھی نہیں رکھے تھے، وہ اپنے تمام خطوط کے
جواب خود دیتا تھا، وہ روزانہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے کام کرتا اور جب کام سے
تھک جاتا تو نرم و نازک گدوں پر آرام کرنے کے بجائے دفتر کی ٹیبل پر ہی سو
جاتا، برسوں اس کا یہی معمول رہا، شدید محنت اور کام کی زیادتی کی وجہ سے
پانچ سال میں اس کے دماغ کی شریانیں سخت ہوگئیں اور پھر فالج کے حملے نے
اسے بولنے کی صلاحیت سے محروم کردیا، جس کی بحالی کیلئے اسے ایک بار پھر
نوزائیدہ بچوں کی طرح بولنا سیکھنا پڑا، فالج کی وجہ سے اس کا دایاں ہاتھ
بھی بیکار ہوگیا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور بائیں ہاتھ سے لکھنے کی مشق
جاری رکھی، وہ پورے دو سال بہادری سے موت سے لڑتا رہا، اس دوران وہ بار بار
ایک ہی جملہ دہراتا تھا ”بھی مجھے بہت کام کرنا ہے، ابھی مجھے بہت کام کرنا
ہے۔“
آج روس میں شاید ہی کوئی گھر، کوئی کارخانہ، کوئی دفتر، کوئی کلب اور کوئی
ہال آپ کو ایسا نظر آئے جس میں لینن کی تصویر آویزاں نہ ہو، آج روس کا ہر
فرد خواہ اس کا تعلق کسی بھی پیشے سے ہو اپنے آپ کو لینن کا شیدائی اور
پیروکار گردانتا ہے، حال یہ ہے کہ بیکر اپنے کیکوں پر، قالین بنانے والا
اپنے قالین پر اور باغبان پودوں کی مدد سے اپنے باغوں میں لینن کی شبیہہ
بناتے ہیں، غرض کہ ہر روسی لینن کی پوجا کرتا ہے اور پورے روس میں یہ بات
مشہور ہے کہ جب کسی کسان یا مزدور کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو لینن اپنی
قبر سے اٹھ کر اس کی مدد کرنے کو آجاتا ہے، لینن کو دنیا سے گزرے کم و بیش
نصف صدی ہورہی ہے لیکن آج بھی اس کی حنوط شدہ لاش کو دیکھنے روزانہ ہزاروں
افراد لینن ہال آتے ہیں اس کی حنوط شدہ لاش پر پھول چڑھا کر اسے خراج عقیدت
پیش کرتے ہیں۔
دنیا میں ایسے بے شمار لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی عوام کیلئے انقلابی
تحریکیں چلائیں، جلاوطنی کی زندگی گزاری، گرفتاری سے بچنے کیلئے سوانگ بھرے،
اقتدار حاصل ہونے کے بعد بھی خود اپنے ہاتھ سے کام کرنا پسند کیا، سادہ اور
عوامی زندگی گزاری اور اپنے اجلے دامن پر کبھی بددیانتی اور بے ایمانی کے
داغ نہیں لگنے دیئے، لیکن نہ تو تاریخ کے صفحات نے انہیں یاد رکھا اور نہ
ہی قوم نے ان کی یاد میں میموریل ہال بنائے، نا ان کی تصویریں اپنے گھروں،
دفتروں، کارخانوں اور ہالوں میں سجائیں، نا کسی بیکری والے، کسی قالین
بنانے والے اور کسی باغبان نے ان کی شبیہہ کیکوں، قالینوں اور باغیچوں میں
بنانے کی کوشش کی، نا ہی وہ قوم کے مسیحا شمار ہوئے اور نہ ہی لوگوں نے یہ
محسوس کیا کہ مشکل وقت میں ان کی روحیں لوگوں کی مدد کو آتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ قوم کی یاداشت اور تاریخ بڑی ظالم اور سنگدل ہوتی ہے، اسے
اپنے حکمرانوں کے ذاتی اوصاف، اخلاق و کردار اور ایمانداری سے کوئی غرض و
غایت نہیں ہوتی، اسلیئے کہ یہ تو عام انسانوں کی وہ خوبیاں ہیں جو اگر
اتفاق سے کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائیں تو ان کا ردعمل بھی شاید ایسا ہی ہو،
حقیقت یہ ہے کہ قوم کی یادداشت اور تاریخ اگر کچھ یاد رکھتی ہے تو وہ بڑے
لوگوں کی قوم کیلئے دی گئی قربانیاں اور کارنامے ہیں، آج دنیا میں کتنے لوگ
جانتے ہیں کہ چیئرمین ماوزئے تنگ سائیکل پر دفتر جاتا تھا، دو کمرے کے مکان
میں رہتا تھا، دو سلائس سے لنچ کرتا تھا، اس کے پاس کپڑوں کے صرف دو جوڑے
اور جوتوں کی ایک جوڑی تھی، اس نے بتیس برس تک ایک ہی کوٹ پہنے رکھا جو آج
بھی چین کے میوزیم میں قومی یادگار کے طور پر محفوظ ہے، آج یہ باتیں کون
جانتا ہے؟ لیکن ایک افیمی قوم کو نئی زندگی دینے اور عوامی جمہوریہ چین کے
بانی کی حیثیت سے ماوزئے تنگ کو ساری دنیا جانتی ہے۔
امام خمینی نے عام سادہ اور درویشانہ زندگی گزاری، شاہ ایران کے خلاف آواز
بلند کرنے کے جرم میں عرصہ دراز تک وہ جلا وطن رہے آج بھی قم میں ان کا کچا
گھر موجود ہے، بہت کم لوگ یہ باتیں جانتے ہیں لیکن ایران کے اسلامی انقلاب
کے بانی کی حیثیت سے کون ہے، جو امام خمینی کو نہیں جانتا، محمد علی جناح
ایک چمڑے کے تاجر کے بیٹے تھے، انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی، سیاست میں
داخل ہوئے تو منحنی اور دھان پان سے وجود رکھنے والے جناح نے اپنی سچائی،
اصول پسندی اور بلند کرداری سے ہلچل مچا دی، انگریزی زبان بولنے والے محمد
علی جناح انگریزی سے نابلد قوم کے قائد اعظم تھے، جب گورنر جنرل بنے تو ایک
روپیہ تنخواہ لی، ہمیشہ اپنے اخراجات قومی خزانے سے ادا کرنے کے بجائے اپنی
جیب سے ادا کئے، اسٹاف کو بھی اپنی ذاتی جیب سے تنخواہیں دیں، ذاتی اکاوئنٹ
سے تین روپے کے موزے اسلیئے نہیں خریدے کہ ایک غریب نوزائیدہ ملک اور بھوکی
ننگی قوم کے سربراہ کو یہ عیاشی زیب نہیں دیتی تھی۔
آج بہت ہی کم لوگ ہونگے جو قائد اعظم محمدعلی جناح کے ان ذاتی اوصاف سے
واقفیت رکھتے ہوں گے، لیکن مسلمانان برصغیر کی جدوجہد کو انتہائے کمال تک
پہنچا کر دنیا کے نقشے پر ایک نئی اسلامی مملکت ”پاکستان“ کے وجود کے خالق
کی حیثیت سے قائد اعظم محمد علی جناح کو کون ہے جو نہیں جانتا، آج اگر روسی
لینن کو اپنا نجات دہندہ، چینی ماوزئے تنگ کو اپنا مسیحا، ایرانی خمینی کو
اسلامی ایران کا بانی اور پاکستانی قائد اعظم محمد علی جناح کو مسلمانان
برصغیر انگریز اور ہندوؤں کی غلامی سے نکال کر ایک علیحدہ تشخص اور شناخت
دلانے والے خطہ زمین پاکستان کا خالق اور معمار سمجھتے ہیں تو اس کی وجہ یہ
ہے کہ یہ وہ عظیم لوگ ہیں جنھوں نے ظلم و جبر کے نظام سے بغاوت کی، مظلوم
کے حق کیلئے صف آراء ہوئے، ایک قوم، ایک ملت کی تعمیر کی، اس کی آنکھوں میں
امن و انصاف اور آتشی کے خواب جگائے، انہیں عزت دی، انصاف دلایا اور طبقاتی
اونچ نیچ کا خاتمہ کیا، ایک نیا نظام دیا، اپنی ساری زندگی اپنی عوام اور
اپنے ملک کی فلاح و بہبود اور بہتری کیلئے وقف کردی اور اس وقت تک اپنے آپ
کو ان سہولتوں، مراعات اور عیش و عشرت کا حقدار نہیں سمجھا جب کہ قوم کو وہ
سہولتیں اور مراعات حاصل نہ ہوگئیں۔
یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے لینن آج بھی ہر روسی، ماوزے تنگ ہر
چینی، امام خمینی ہر ایرانی اور قائد اعظم محمد علی جناح ہر پاکستانی کے دل
میں زندہ ہے اور وہ انہیں اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھتے ہیں، حقیقت یہ
ہے کہ وہ حکمران جو عوام کی مجبوریوں اور پریشانیوں کا فہم و ادراک رکھتے
ہیں اور انہیں حل کرنے کیلئے عملی جدوجہد کرتے ہیں، خود قربانیاں دیتے ہیں،
عوام انہیں ہمیشہ یاد رکھتے ہیں، لیکن وہ حکمران جن کے قوم و فعل میں تضاد
ہوتا ہے اور جو اپنے عیش و عشرت کے علاوہ عوامی مسائل اور ان کے حل سے کوئی
سروکار نہیں رکھتے، تاریخ انہیں بہت جلد بھلا دیتی ہے۔
جناب صدر آپ اگر چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو مدتوں یاد رکھیں، آپکی تصویریں
اپنے گھروں میں لگائیں، آپ کیلئے یادگاری تقریبات منعقد کریں، یادگاری ٹکٹ
چھاپیں، چوکوں اور چوراہوں پر آپ کی یادگاریں بنائیں، لوگ آپ کی خدمات پر
آپ کو خراج عقیدت پیش کریں ایڑیاں بجا کرسلوٹ کریں، تو آپ کو اپنا کردار
ادا کرنا ہوگا اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونا ہوگا، جناب صدر
گستاخی معاف لیکن یہ کہہ کر کہ آٹے، چینی اور توانائی کے مسائل کا حل میرا
کام نہیں، آپ کسی طور بھی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں اور بری الذمہ نہیں
ہوسکتے، کیونکہ بحیثیت پارٹی کے شریک چیئرمین، صدر مملکت اور ملک کے چیف
ایگزیکٹو عوام کے مسائل کا حل اور ان کیلئے بنیادی سہولیات کی فراہمی آپ کی
ہی ذمہ داری ہے اور ”روٹی، کپڑا اور مکان “اسی وعدے پر آپ برسراقتدار آئے
تھے،۔
آپ کو یاد ہوگا کہ آپ ملک و قوم کی تقدیر اور نظام بدلنے کے داعی تھے، آج
وقت اور قسمت نے آپ کو یہ سنہری موقع دیا ہے تو خدارا اسے ضائع مت کیجئے،
جناب صدر اگر آپ تاریخ میں زندہ و جاوید اور اَمر رہنا چاہتے ہیں تو اپنے
فرائض منصبی کو پہچانیے، قوم کے اعتماد اور بھروسے کو مت توڑیئے اور قوم کو
مزید مایوس مت کیجئے، یاد رکھئے اپنی قوم کو مایوس کرنے والے اور ان کے
یقین، اعتماد اور بھروسے کو توڑنے والے نہ تو کبھی تاریخ کے صفحات میں جگہ
پاتے اور نہ ہی قوم انہیں یاد رکھتی ہے، ان کی حیثیت اُن لوگوں کی سی ہوتی
ہے جنھیں ایک اتفاق ایک حادثہ ایوان اقتدار میں پہنچاتا ہے تو دوسرا اتفاق
ایوان اقتدار سے اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ |