۱۶؍ویں لوک سبھاانتخابات کابگل بج چکاہے اورہرطرف
گہماگہمی شروع ہوچکی ہے پارٹی کے تمام لیڈراپنی پارٹی کی طرف سے ہمدردی
دکھانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اقتدار کی کرسی حاصل کرلیں مسلمانوں
کولبھانے کے لئے طرح طرح کے وعدے کئے جارہے ہیں تاکہ متحد ہوکر ہمیں
اقتدارکی کرسی پربٹھائیں لیکن جیسے ہی الیکشن ختم ہوتا ہے اوراقتدار ملتاہے
سب بھول جاتے ہیں مسلمانوں کی غربت، بے روزگاری ،تعلیم،معاشی حالت اورساری
اسکیمیں جن کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ سب ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی ہیں
اورمسلمانوں کی فریادسننے کا وقت نہیں ہوتا ہے اورآزادی کے بعد سے اب تک
مسلمانوں کو ایک فٹ بال کی طرح استعمال کیاجاتا رہا جس کی وجہ سے مسلمانوں
کامقام ومرتبہ اوران کی حیثیت بے معنی ہوکررہ گئی ہے مسلمان ملک کی دوسری
سب سے بڑی اکثریت ہے جنہوں نے سیکولرپارٹیوں کو اپنا قیتی ووٹ دیکرانہیں
اوج ثریاپرپہنچانے میں اہم رول ادا کیا ہے اس لئے آج کی سیاست میں عوام کے
لئے اپنا رہنما منتخب کرنابہت ہی مشکل ہے لیکن جمہوریت میں رائے دہی
کااستعمال بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ جتناکسی علیل انسان کو اس کی شفایابی کے
لئے دوا ضروری ہوتاہے ؛ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایسی پارٹی کا
انتخاب کریں جوپورے صاف وشفاف کردارکی حامل ہواوراس کے جوبھی امیدوارمیدان
میں آئے اس کواپنا قیمتی ووٹ د یکر جیت سے ہمکنارکریں تاکہ وہ امیدوارجیت
کرعوام کیلئے کام کرسکے ۔ویسے بہت سی چھوٹی چھوٹی نام نہاد پارٹیاں
مسلمانوں کے سامنے بھیس بدل کراوراپنے آپ کو قوم کا ہمدرد بتاکرمسلمانوں کو
لوٹنا چاہتی ہیں اس لئے مسلمان ایسی پارٹی سے ہوشیاررہیں اور فرقہ پرستی
جوآج اس ملک میں پھیلی ہوئی ہے اس کو ختم کریں۔اوراگر آپ نے اپنا قیمتی ووٹ
ضائع کردیا تو ہماری حیثیت سمندر کے جھاگ سے زیادہ نہیں ہوگی اس لئے
مسلمانوں کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ مظفرنگر،گجرات اور بابری
مسجد فسادات کے دردناک حالات کادوبارہ سامنا نہ کرناپڑے۔
اشرف تابانی خیرآبادی |