مارننگ سُپر مارکیٹ

ایک زمانہ تھا، جسے گزرے ہوئے یقیناً کئی زمانے گزر چکے ہیں، جب لوگ رات کو پُرسکون نیند سویا کرتے تھے اور تازہ دم ہوکر بیدار ہوتے تھے۔ یعنی دِن اچھا گزرتا تھا۔ اب اُس زمانے کو یاد کرکے صرف رویا جاسکتا ہے، کڑھن محسوس کی جاسکتی ہے۔ اب دن اپنا ہے نہ رات۔ اور رہی صبح تو وہ مارننگ شو کی چوکھٹ پر قربان ہوگئی ہے!

الیکٹرانک میڈیا کا شعبہ ’’گلا کاٹ‘‘ مسابقت کا ہے۔ ریٹنگ بڑھانے یعنی ناظرین کی تعداد میں اضافے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ ریٹنگ وہ خوش رنگ و خوش گلو پرندہ ہے جسے پکڑنے کے لیے کوئی سا بھی جال بچھایا جاسکتا ہے، کوئی سا بھی دانہ ڈالا جاسکتا ہے۔ جنگ، محبت اور کرکٹ کے بعد اب ریٹنگ میں بھی سب کچھ جائز ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اِس معاملے میں لفظ جائز اجنبی سا لگتا ہے!

گزرے ہوئے زمانوں میں مُستنصر حسین تارڑ بھی مارننگ شو کیا کرتے تھے۔ اُن شوز کی ریکارڈنگ دیکھ کر اب وہ یقینی طور پر شرمندہ ہوجاتے ہوں گے۔ ہونا ہی چاہیے۔ بھلا وہ بھی کوئی مارننگ شو تھا کہ ایک جگہ بیٹھ کر قوم کو سُدھارنے کی کوشش فرماتے رہیے۔ تارڑ صاحب اپنے شو میں باتیں ہی باتیں کیا کرتے تھے۔ نہ اچھل کود نہ ناچ گانا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تارڑ صاحب کو اعضاء کی شاعری کرنی چاہیے تھی مگر صاحب! وہ ریٹنگ بڑھانے کے لیے دوسروں کو تو نچوا سکتے تھے۔ اِس میں کیا قباحت تھی؟ اور پھر اُن کے شو میں پالتو جانور بھی کہیں دکھائی نہ دیتے تھے۔ نہ کوئی گلے میں اژدہا لٹکائے ہوئے نظر آتا تھا اور نہ ہی کوئی پالتو شیر چیتے کے ساتھ شو میں شریک ہوتا تھا۔ کوئی ہنگامہ برپا ہوتا تھا نہ شور اٹھتا تھا۔ کیسے پروڈیوسر تھے جو مارننگ شو میں قیامت برپا کرنے پر یقین ہی نہ رکھتے تھے۔ ناصرؔ زیدی نے خوب کہا ہے ؂
کوئی ہنگامہ چاہیے ناصرؔ
کیسے گزرے گی زندگی خاموش

ناصرؔ زیدی کی خواہش جب پوری ہونے پر آئی تو پوری ہوتی ہی چلی گئی۔ اب سوال یہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ مارننگ شوز میں برپا ہونے والے ہنگامے نہ تھمے تو کیا ہوگا! مارننگ شو دیکھنے کے شوقینوں کا یہ حال ہے کہ جب ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں تو گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ؂
لوٹ کر پھر نظر نہیں آئی
اُن پہ قربان ہوگئی ہوگی!

بھائی منظور سے ہماری دُعا سلام پرانی ہے۔ موصوف الیکٹرک آئٹمز اور ہارڈ ویئر کی دکان چلاتے ہیں۔ مگر یہ تو اُن کی دکان کا صرف ایک پہلو ہے۔ بچوں کے لیے بسکٹ اور ٹافیاں چاہئیں تو منظور بھائی کی دکان پر جائیے۔ ایزی لوڈ کرانا ہے تو اُن کی خدمات حاضر ہیں۔ عطر کی شیشی خریدنی ہو تو کہیں اور کیوں جائیے۔ اسٹیشنری آئٹمز بھی اُن کی دکان پر دستیاب ہیں۔ ٹونٹی خراب ہوگئی ہے تو اُن سے خریدیے۔ پیٹ میں درد ہے تو ہاضمے کا چُورن بھی بھائی منظور کی دُکان پر ملے گا۔ ایمرجنسی لائٹ خریدنی ہے تو غم نہ کریں، آپ کا اندھیرا منظور بھائی دور کریں گے۔ اُن کی شخصیت ’’میں ہوں نا‘‘ کی اِتنی روشن مثال ہے کہ قریب جانے پر آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی! منظور بھائی کا اُصول یہ ہے کہ کوئی اُن کی دکان تک آجائے تو خالی ہاتھ نہ جائے۔ اُن کا تو بس نہیں چلتا ورنہ اپنی دکان میں بوئنگ طیارہ اور بحری جہاز بھی رکھ چھوڑیں!

ٹی وی پر مارننگ شو چلانے والے اینکرز بھی منظور بھائی ہی کی راہ پر گامزن ہیں۔ اُن کا ہر انداز ’’بولو جی، تم کیا کیا خریدو گے؟‘‘ کی عملی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اُن کی بھی یہی کوشش ہے کہ ’’ہر مال ملے گا‘‘ والی دکان چلائیں۔ اگر آپ ریموٹ کے ذریعے چینلز کو فلپ کرتے کرتے کسی مارننگ شو پر رکے ہیں تو اینکر پوری کوشش کرتا ہوا ملے گا کہ آپ کہیں اور نہ جائیں۔ اب اِس کے لیے اُس غریب کو سب کچھ کرنا پڑے گا۔ اور جہاں معاملہ سب کچھ کا آجائے وہاں اوٹ پٹانگ حرکتیں ہی تو کرنی پڑیں گی۔ جب گاہک کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا معاملہ ہو تو دکان میں ہر چیز رکھنی پڑے گی۔ ناظرین کی بھرپور توجہ پانے اور اُنہیں کسی اور چینل کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے اینکرز اپنی دکان میں جہاں بھر کا سامان بھرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی چیز بے مثالی رنگینی اور مثالی مزاح کو جنم دیتی ہے!

پاکستانی معاشرے کی خدمت کرنے والے اور بھی بہت ہوں گے مگر جو خدمت مارننگ شو کے اینکرز نے کی ہے اُس کا کوئی جواب نہیں۔ جتنے بھی ناکارہ نوجوان اہل خانہ، رشتہ داروں اور محلے والوں سے جھڑکیاں، گالیاں اور ناکارہ ہونے کے طعنے سُنتے تھے اُن کا ’’ٹیلنٹ‘‘ ٹھکانے لگا۔ اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں کو وہ اب مارننگ شوز میں کیش کراتے ہیں، اہل وطن سے داد پاتے ہیں اور فخر سے سینہ تانے پھرتے ہیں کہ ع
دیکھو، اِس طرح سے کہتے ہیں سُخنور سہرا!

جو کسی جواز کے بغیر بلا تکان بولا کرتے تھے وہ مارننگ شو میں پیش ہوکر قوم کو قوتِ برداشت کی سُولی پر لٹکاتے ہیں! جن کے بارے میں یہ گمان تھا کہ اُن کا اٹکنا مٹکنا رقص کے ذیل میں نہیں آتا وہ مارننگ شو میں ’’فن‘‘ کا مظاہرہ کرکے رقّاص کا درجہ پاتے ہیں! جن کی آواز خود اُنہی کو پسند نہ ہو وہ ناظرین کے کانوں میں ’’رس‘‘ گھول کر گلوکاروں کی صف میں آ کھڑے ہوتے ہیں! جن کی آڑی ترچھی لکیروں کو دیکھ کر لوگوں کے ماتھے پر غصیلی لکیریں اُبھر آتی تھیں وہ اب مارننگ شو میں اپنے دل نشیں اسٹروکس دکھاکر مال اور داد ساتھ ساتھ پاتے ہیں!

ہمارے ہاں اب تک ٹیلنٹ ہنٹ کا کلچر رہا ہے یعنی ٹیلنٹ کو شکار کرلیا جائے، ختم کردیا جائے! اور حق تو یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں ٹیلنٹ کو پنپنے ہی کے مرحلے میں ختم کیا جاتا رہا ہے۔ خیر ہو مارننگ شو کے اینکرز کی جو کونوں کھدروں سے ’’انمول ہیرے‘‘ نکالتے ہیں اور اُنہیں دیکھ کر دنیا خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوتی ہے کہ پاکستان میں کیسا کیسا ٹیلنٹ پایا جاتا ہے!

جو لوگ مارننگ شو کو محض دل پشوری کے لیے دیکھتے ہیں وہ فوری طور پر اپنی رائے بدل لیں۔ جس دکان میں اپنی پسند اور ضرورت کی ہر چیز مل سکتی ہے اُس میں بس یوں ہی دل پشوری کے لیے قدم رکھنا کفرانِ نعمت ہے۔ اگر آپ آجر ہیں تو آپ کو اپنی مرضی کا اجیر مارننگ شو سے مل سکتا ہے۔ اگر آپ پروڈیوسر ہیں تو مرضی کے فنکار دستیاب ہیں۔ اگر آپ کو کسی کا رشتہ درکار ہے تو اِسی نظر سے مارننگ شو دیکھیے، فلاح پا جائیں گے!

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کچھ وکھری ٹائپ کے واقع ہوئے ہیں اور آپ کا کوئی دوست نہیں تو فکر مت کیجیے۔ مارننگ شو پوری توجہ سے دیکھیے، آپ کو اپنے جیسے کئی مل جائیں گے۔ پھر آپ کا یہ شکوہ (یا زعم) اپنی موت آپ مر جائے گا کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے!

ہمارے کاروباری ادارے اب تک سمجھ نہیں پائے کہ مارننگ شو ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کا کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں۔ اِن پروگراموں کے ذریعے مطلوبہ ٹیلنٹ تک آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے۔ ہائرنگ کے خواہش مند ادارے مارننگ شوز پوری توجہ اور انہماک سے دیکھیں تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گے! بلکہ شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ’’اوور ٹیلنٹ‘‘ کے باعث فیصلہ کرنے میں مشکل محسوس کریں کہ ع
کس کس کی نظر دیکھوں، کس کس کی ادا دیکھوں
ہر سمت قیامت ہے، اب اور میں کیا دیکھوں!

ہمارے مارننگ شو ایسی سپر مارکیٹ کا درجہ اختیار کرچکے ہیں جس میں ضرورت کی ہر شے ملتی ہے اور وہ بھی بہت معقول، بلکہ معمولی نرخ پر۔ یعنی صرف آنکھیں کھلی رکھیے، دیکھتے رہیے اور دنیا و ما فیہا سے بے خبر و بے نیاز ہوجائیے! اِس سپر مارکیٹ سے آپ خالی ہاتھ واپس نہیں آئیں گے۔ اب اِس پر بھی آپ تہی دامن رہیں تو آپ کا نصیب!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524356 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More