شاہدرہ تاریخ کے آئینے میں

شاہدرہ دو لفظوں شاہ اور درہ سے ہے یعنی بادشاہوں کا راستہ ، لاہور کے شمال میں ہزاروں سال سے بہتے راوی کے کنارے واقع ہے ، بر صغیر پاک و ہند میں شاہدرہ کے نام سے دہلی انڈیا میں بھی ایک بستی آباد ہے اسی طرح شاہدرہ کے نام سے ایک چھوٹی سے مگر قدرتی مناظر سے بھر پور وادی اسلام آبادکے نواح میں آباد ہے ، اسلام آباد کا شاہدرہ اور دہلی کا شاہدرہ ، لاہور کے شاہدرہ سے کہیں چھوٹااور غیر معروف ہیں، شاہدرہ کب آباد ہوا اس بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے ، مگر آجکا شاہدرہ کم و بیش ایک ہزار سال سے آباد ہے ، جو وقت کے ساتھ ساتھ اب ایک بھرپور شہر کی حیثیت اختیار کر گیا ہے پہلے پہلے شاہدرہ صرف لاہور میں داخل ہونے کا ایک مقام تھا جس پر کشتیاں اور ملاحوں کے ڈیرے ہوتے تھے یا حاکم وقت کے کچھ ٖفوجی لاہور کی سرحد کی نگرانی پر مصروف ہوتے تھے ،مغل بادشاہوں نے شاہدرہ میں پہلی بار سرکاری تعمیرات کیں،شاہ جہاں اور اکبر کے دور میں مسافر خانے تعمیر کیے گے جو آج بھی مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ آصف جاہ میں درجنوں کے حساب سے کمروں کی صورت دیکھے جا سکتے ہیں اسکے بعدبعد جہانگیر کو تو جیسے شاہدرہ کو دل دے بیٹھا، خود بھی یہاں دفن ہوا اور ملکہ ہند نورجہاں بھی شاہدرہ میں دفن ہیں نور جہاں کا بھائی آصف جاہ بھی یہیں ایک بہت عالیشان مقبرے میں ابدی نیند سو رہا ہے ،مقبرہ نورجہاں لاہور دہلی اور ہرن مینار شخوپورہ کے ساتھ ایک سرنگ سے منسلک تھایہ سرنگ آج بھی موجود ہے ، اور اسکو دیکھا جا سکتا ہے ، اس سرنگ میں گھوڑوں پر سفر کیا جاتا تھا ، شاہدرہ نے مختلف ادوار میں جنگ و جدل اور قتل و غارت بھی دیکھی آپ شاہدرہ میں موجود جہانگیر نورجہاں اور آصف جاہ کے مقبرے دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے تاریخ جاہ بجا بکھری پڑی ہے -

قیام پاکستان کے وقت شاہدرہ کی آباد ی لگ بھگ دس ہزار افراد پر مشتمل تھی آبادی کا زیادہ حصہ شاہدرہ پنڈ اور شاہدرہ اسٹیشن المعروف چکیاں، اور چھوٹی چھوٹی آبادیوں پر مشتمل تھا،آہستہ آہستہ شاہدرہ کی آباد ی لاکھوں میں ہو گئی ، اور پھراسی شاہدرہ کے نامور سپوتوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ، سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں ، کرکٹ کے نامور کھلاڑی عبدالرزاق کا، عبدالرزاق شاہدرہ کے علاقہ قاضی پارک سے تعلق رکھتے ہیں،کرکٹ کی دنیا میں عبدالرزاق کا نام سنہری حروف میں یاد کیا جاتاہے ،عبدالرزاق ایک غریب گھرانے سے تعلق کے باوجود پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گے،کرکٹ میچ میں کسی بھی وقت گیم کا پانسہ پلٹنا عبدلرزاق کے لیے کوئی مشکل کام نہیں شاہدرہ کے باسیوں کو اپنے اس سپوت پر فخر ہے ، اسکے بعد آتے ہیں موسیقی کے نامور نام میڈیم ریشماں جی کی طرف، پچھلے سال انکا انتقال ہواہے ، ریشماں جی شاہدرہ کے سب غریب اور پسماندہ علاقے علی پارک میں رہائش پذیر تھیں جو کالاخطائی روڑ پر واقع ہے اور اسی محلہ میں انکی قبر ہے ریشماں جی کی آواز کا ایک زمانہ معترف ہے ، ، اگلی معروف شخصیت ہیں پروفیسر ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی ، انکی شہرت کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ وہ پنجابی نعت میں سب سے پہلے پی ایچ ڈی تھے،پروفیسر صاحب شاہدرہ کے ڈگری کالج میں بطور اُستاد درس و تدریس سے وابسطہ بھی تھے ، تھانہ شاہدرہ کے ساتھ انکا ذاتی سکول ، آج بھی علم کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہے مرحوم کو 1997 میں شیعہ ہونے کے شک میں قتل کر دیا گیا، حالانکہ مرحوم سُنی مسلمان تھے ، اسکے بعد آتے ہیں رستم زماں گاما ں پہلوان کی طرف ، تاریخ جنکو گریٹ گاما ں سے یاد کرتی ہے قیام پاکستان کے بعد مرحوم کو شاہدرہ میں حکومت وقت نے جگہ الاٹ کی ، مگر اس وقت جو جگہ انہیں الاٹ کی گئی وہ رہائش کے لیے موزوں نہیں تھی ، گاماں جی بیمار ہونے کی وجہ سے شاہدرہ میں لمبے عرصہ تک رہائش اختیار نہ کر سکے ،
﴿ شاہدرہ کے مشہور مقامات اور صنعتیں ﴾
شاہدرہ میں مشہور مغل بادشاہ جہانگیرکامقبرہ دیکھنے کے لائق ہے اسکے مغرب میں اس کی بیوی ملکہ نور جہاں کا مقبرہ بھی موجود ہے اور ساتھ ہی جہانگیر کے سالا صاحب آصف جاہ کا عالی شان مقبرہ سکھوں کی بے حرمتی برداشت کرنے کے باوجود پورے جاہ وجلال سے آج بھی قائم ہے ، راوی کے درمیان میں کامران بارہ دری بھی دیکھنے کے قابل ہے ،انڈیا امریکہ جاپان چین اور عرب ریاستوں برطانیہ سمیت یورپی ملکوں سے بڑی تعداد میں سیاح ان مقامات کو دیکھنے شاہدرہ آتے ہیں اسکے علاوہ شاہدرہ میں بہت مشہور صنعتیں پورے زور و شور سے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں پورے پاکستان کو سائیکل فراہم کرنے والی شہرت یافتہ رستم و سہراب سائیکل فیکٹری شاہدرہ میں ہی ہے 1952 میں اس فیکٹری کا سنگ بنیاد شاہدرہ میں ہی رکھا گیا سائیکل کے بعد سہراب نے 95 میں موٹر سائیکل بھی مقامی سطع پر بنا کر مارکیٹ میں پیش کر دیا ، ا سکے بعد آتے ہیں مشہور و معروف ملت ٹریکٹر کی جانب ، ٹریکٹر پورے پاکستان میں شاہدرہ سے سپلائی کیا جاتا ہے یہ اعزاز بھی شاہدرہ کو حاصل ہے کہ ملت ٹریکٹر فیکڑی بھی شاہدرہ میں واقع ہے ملت ٹریکٹر نے لاکھوں ایکڑپاکستانی اراضی جو بے کار پڑی تھی اپنے بنے ٹریکٹر وں سے آباد کروایا ، حکمرانوں کی نالائقی کی وجہ سے آجکل یہ فیکٹری کرائسس میں ہے ، اسکے بعد آتے ہیں حرم پاک میں نصب پنکھے بنانے والی مشہور و معروف ایس محمد دین اینڈ کمپنی جنکا پنکھا نیشنل پنکھا کے نام سے کبھی عالمی سطع پر پاکستان کی پہچان تھا مگر محمد دین صاحب کی وفات کے بعد یہ فیکٹری بند ہو گی ، اب اس جگہ نیشنل فین کالونی بن چکی ہے جو ماچس فیکٹری کے نام کے علاقہ میں ہے، اسکے بعد آتے ہیں پاکستان میں بسوں کی جدید باڈی بنانے والی فیکٹری ایس فخر ائدین اینڈ کمپنی ، یہ فیکٹری کالا خطائی موڑ پر واقع ہے اور پورے پاکستان میں بس بنانے کے حوالے سے جانی جاتی ہے ، ایشا میں گیس سے بجلی بنانے والا سب سے پہلا پلانٹ بھی شاہدرہ اسٹیشن کے مقام پر نصب کیا گیا ، مگر پی پی اور ن لیگ کی نالائق حکومتوں کی وجہ سے اب یہ بند پڑا ہے ، اسکے علاوہ اورینٹ ماچس فیکٹری بھی کبھی شاہدرہ میں ہوتی تھی بعد میں آبادی کے زیادہ ہو جانے کی وجہ سے یہ فیکٹری شفٹ ہو گئی، شاہدرہ میں کسی دور میں دو عدد سنیما ہوتے تھے لوگ انکو ساحل سنیما سنگیت سنیما کے نام سے جانتے تھے مگر سنیما پر ایسا زوال آیا کہ اب انکا نام بھی لوگوں کو یاد نہیں رہا ، اگر آج کے شاہدرہ کو دیکھا جاے تو ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے کارخانے گلی محلوں میں کام کر رہے ہیں،

﴿ شاہدرہ کی سیاست﴾
1972 میں پاکستان کی تاریخ کے پہلے الیکشن ہوے جس میں عوام نے براہ راست اپنے نمائندے منتخب کرنے شروع کیے ،شاہدر این اے حلقہ 92 تھا جو 2002 میں این اے 118 بن گیا 1972 میں پہلے ایم این اے جو شاہدرہ سے منتخب ہوے انکانام تھا میاں محمد ابراہیم ، انکا تعلق جے یو پی سے تھا 1977 میں پیپلز پارٹی کے امجد مسعود ایم این منتخب ہوے 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں ممتاز اہلحدیث عالم دین مولانا معین الدین لکھوی ایم این اے منتخب ہوے 1988 میں میجر جنرل ریٹائر محمد حسین انصاری ایم این اے بنے ، 1990میں ہمایوں اختر خان آئی جی آئی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوے ،1993 میں میاں نواز شیریف نے ن لیگ کے پلیٹ فارم سے خود الیکشن جیتا اور سیٹ چھوڑ دی ، پھر انکے مرحوم بھائی عباس شریف ایم این اے منتخب ہوے ،1997 میں یہاں سے میاں محمد اظہر ن لیگ کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہوے 2002 الیکشن میں یہاں سے حافظ سلمان بٹ جماعت اسلامی والے جیتے، ن لیگ کے پاس اُمیدوار نہ تھا لہذا انکو سپورٹ کیا گیا 2008 میں یہاں سے ن لیگ کے ملک ریاض کامیاب ہوے اور پھر 2013 میں بھی ملک ریاض ہی ایم این اے بنے ، 1972 سے 1997 تک شاہدرہ میں ایم پی اے کی ایک سیٹ ہوتی تھی دوسری سیٹ بادامی باغ لاہور کے اطراف پر مشتمل ہوا کرتی تھی شاہدرہ سے 1988 میں اسلم گورداسپوری ppp 1990 میں میاں محمود احمدIJI 1993 عبدالوجد ہمایوں PMLN 1997ملک ریاض PMLN 2002 میں شاہدرہ کی صوبائی اسمبلی کی دونشستیں ہو گئیں پی پی 137 اور پی پی . 138 پی پی 137 سے سمیع اﷲ خاں PPP اور پی پی سے ڈاکٹر اسد اشرف منتخب ہوے 2008 میں پی پی 137 سے رانا اقبال خاںPMLN اور پی پی 138سے ایک بار پھر ڈاکٹر اسد اشرف جیت گے اور 2013 میں پی پی سے خواجہ عمران نذیر PMLN کے ایم پی اے منتخب ہوے جبکہ پی پی 138 سے غزالی سلیم بٹ PMLN جیت گے 1990 کے بعد شاہدرہ سے پیپلز پارٹی صرف ایک بار اپنا نمائندہ منتخب کروا سکی ،عملا شاہدرہ ن لیگ کی جھولی میں گرتا رہا ،1990 کے بعد صرف 2013 میں پی ٹی آئی کے آنے کی وجہ سے ن لیگ کو کچھ ٹف ٹائم ملا، وگرنہ ن لیگ کے لیے سیٹ جیتنا کبھی مشکل نہیں رہا،اگر ترقیاتی کاموں کے تناظر میں دیکھا جاے تو میاں محمود احمد کے دور میں بہت ترقیاتی کام ہوے اسکے بعد رانا اقبال خاں بھی شاہدرہ میں کچھ نہ کچھ کرتے نظر آے ،شاہدرہ سے دو بار ایم این اے ملک ریاض جیت کے بعد شاہدرہ میں حسب سابق کم ہی نظر آتے ہیں، 2013کے الیکشن میں موصوف کی ساری فیملی گلی محلوں میں ترلے واسطے کر کے ووٹ لیتی نظر آئی ۔ مگر جیت کے بعد ، چلن پھر وہی پرانے ہیں ، شاہدرہ میں 1990 میں بھی گٹر بند رہتے تھے آج بھی الحمد اﷲ بند ہی رہتے ہیں، آپ ماچس فیکٹری قیصر ٹاون برکت ٹاون جمیل پارک شہزاد پارک کوٹ محمد حسین جاوید پارک سے لیکر حاجی کوٹ تک کے گلی محلے وزٹ کریں آپکی انکھیں کھل جائیں گی۔اگر کچھ اور دیکھنا ہے تو بیگم کوٹ سے فرخ آباد اور وانڈلہ روڑ لاجپت روڑ کی آبادیوں کا وزٹ کریں، شاہدرہ میں ن لیگ نے کیا کیا چن چڑھاے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے -
Naveed Rasheed
About the Author: Naveed Rasheed Read More Articles by Naveed Rasheed: 25 Articles with 24555 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.