جعلی ادویات! حساس ادارے بھی محفوظ نہیں

پاکستان میں کچھ ادارے ایسے گردانے جاتے ہیں کہ جہاں پر مخصوص شعبوں میں دونمبری و جعلسازی خال خال ہی دیکھی اور سنی جاتی ہے ان میں آرمی اور حساس اداروں کے صحت ، خوراک اور تعلیم کے حوالے سے شعبہ جات کے نام سر فہرست ہیں۔ ان کے بارے میں عام خیال ہے کہ ان اداروں میں ادویات، اشیائے خوردونوش اور تعلیم کے حوالے سے کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاتا۔ لیکن اب یہ repute بھی سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے۔ جس کی تازہ مثال ایک حساس ادارے کے میڈیکل سٹور سے بھاری مقدار میں جعلی ادویات کی فروخت اور ان کی دستیابی ہے جو کہ ایک الارمنگ صورت حال ہے۔ اور حکومت اور عوام کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔سامنے کی بات ہے کہ جعلی ادویات کی خرید و فروخت کا یہ مکروہ اور قبیح فعل صرف ایک میڈیکل سٹوریاایک مالک تک ہی محددو نہیں ہوگا بلکہ یہ ایک پوری چین ہے جس میں چھوٹی چھوٹی مچھلیوں سے لے کر بڑے بڑے مکروہ چہرہ مگرمچھ بھی شامل ہیں۔ اور یہ گھناؤنے فعل سرکاری افسران و ملازمین،صحت کے اعلی عہدیداران کی سو فیصد ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بھی ایسی ہی ایک گھمبیر اور تلخ حقیقت کی نشاندہی کی ہے۔کہ میڈیکل سٹور پر جعلی ادویات کی کھلے عام فروخت جاری ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے لاہور بھر کے تمام میڈیکل سٹورز کی چھان بین اور تحقیقات کے حوالے سے کام بھی شروع کردیا ہے جوکہ ایک نہایت ہی احسن اقدام ہے۔ لیکن یہ عمل صرف ایک شہر یا صوبہ تک محدود نہیں ہونا چاہئے ملک بھر میں اس کے خلاف کریک ڈاؤن ہونا چاہئے۔ یہ جان بچانے والی ادویات جان لینے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔اوراجتماعی قتل کا پیش خیمہ ہیں۔ایسے سماج دشمن عناصر کو منظر عام پر لاکر نشان عبرت بنایا جاناضروری ہے۔یہ ملکی سطح کا معاملہ ہے اور اس میں اجتماعیت کو موت کی گہرائی میں دھکیلا جارہا ہے۔نجانے یہ کو ن لوگ ہیں کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔کیا یہ واقعی نسل انسانی سے ہیں یا کہ پھر گدھ اور بھیڑیے کی آمیزش ہیں۔

آپ کو یقینا اس بات کا ادراک ہوگا کہ گھر میں اگر چائے بناتے وقت اس میں پانی ملادیا جاتا تھا تو گھر کے بڑے لوگ اس بات کو نہایت ہی برا خیال کرتے تھے اور اس بات کی ہدایت کرتے تھے کہ پانی کی ملاوٹ نہیں کرنی چاہئے، چائے خالص دودھ کی ہونی چاہئے کجا کہ کوئی گوالا یا دودھ والا دودھ میں پانی ملاکر فروخت کرے۔مگر فی زمانہ کوئی شے بھی ایسی نہیں جو کہ ملاوٹ سے پاک ہو۔ مرچوں میں لکڑی کا برادہ تو چینی میں اراروڑ،پتی میں چنے کے چھلکے ملائے جاتے ہیں تو چاول میں باجرہ اور پتھر، دالوں میں ملاوٹ ہے تو کہیں مصالحوں میں کیمیکل اور مضر صحت اشیا کا استعمال کھلے عام ہورہا ہے۔کالی مرچوں میں مختلف پھلوں کے بیج پیس کر ملادیئے جاتے ہیں۔حفظان صحت کی دھجیاں اڑانے والے گھی کی فروخت ہو کہ بیکری کی پروڈکٹس جن میں ناقص میٹریل اور گلے سڑے انڈے استعمال ہوتے ہیں۔ مٹھائیوں میں کیمیکل ملا گھی اور سکرین کا بے دریغ استعمال کینسر اور پیٹ کے امراض کا موجب ہیں۔بیمار اور کمزور جانوروں کا گوشت بلکہ کبھی کبھار مردہ اور حرام جانوروں کا گوشت فروخت کرنا اپنا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ہر کوئی پریشان ہے کہ پہلے تو مہنگائی ہی قابو نہیں ہو رہی اب ادویات اور اشیائے خوردونوش بھی خریدیں تو وہ بھی ناقص اورمضر صحت۔ کوئی پرسان حال نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں افسران اور متعلقہ افراد اپنے اپنے خزانے بڑھانے اور تجوریوں کو بھرنے کے چکر میں غلطاں و پیچاں نظر آتے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ ہمارے ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں کوئی دل کا مریض ہے تو کوئی جگر کے کینسر میں مبتلا۔ کسی کو پھیپھڑوں کی بیماری ہے تو کوئی گردوں کے عارضے میں مبتلا حکومتی ناقص پالیسیوں کو کوسنے دے رہا ہے

محترم وزیر اعلی شہباز شریف صاحب ! پہلے تو کسی ملاوٹ کرنیوالے کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی نہیں کہ سب ’’اپنے‘‘ ہیں کیونکہ یہ ہر ماہ کی مقررہ تاریخ پر ’’مٹھائی بغیر ملاوٹ‘‘ پہنچا دیتے ہیں اس لئے ان کو ’’چھیڑنے‘‘کا مطلب ’’اپنی روزی کا خاتمہ ‘‘ہے اس لئے ان کو نہ تو کوئی محکمہ پوچھتا ہے اورنہ ہی کوئی محکمہ دار۔ تمام نمونے ہمیشہ پاس کردیئے جاتے ہیں اور اگر غلطی سے یا بھتہ نہ پہنچنے کی بنا پر سیمپل فیل کردیا جائے تومجسٹریٹ تک رپورٹ پہنچنے سے پہلے ہی جنوبی پنجاب کی اکلوتی پبلک انالسٹ لیبارٹری میں جوڑ توڑ شروع ہوجاتی ہے اور پھر وہی پرانی اور فرسودہ قوانین پر مشتمل انکوائری رپورٹ تیار کی جاتی ہے جوکہ’’ فضل ربی‘‘ کی وجہ سے اکثر کلیئر کر دی جاتی ہے اور اگر بالفرض محال وہاں بھی دال نہ گلے تو پھر مجسٹریٹ تک پہنچنے کے بعد نا ہونے کے برابر جرمانہ کر دیا جاتا ہے جسے وہ دکاندار بخوشی ادا کرنے کے بعد پھر لوگوں کیلئے موت کا سامان کر نے میں ایمان و جان سے جت جاتا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ اس سارے پروسس کے دوران تمام ممنوعہ ادویات اور اشیاء اسی طرح مسلسل اورتواتر سے فروخت کی جارہی ہوتی ہیں۔کوئی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آتی صرف اپنے ریٹ بڑھانے کیلئے افسران کی دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ افسر کا ڈنڈا بڑا سخت ہے-

ہر ضلع و تحصیل کے ڈی سی اوز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو اس قسم کی شکایات یا واقعات پر سختی سے ایکشن لینے کی ہدایت کی جائے اور روایتی سستی کو ختم اور قوانین بہتر اور موثر بنانے کے تیز ترین انتظامات کئے جائیں تاکہ قریب المرگ قوم کو کم از کم ادویات اور اشیائے خوردونوش تو خالص میسر آسکے۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211691 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More