پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج
جمہوریت کا عالمی دن اس عہد کے ساتھ منایا جا رہا ہے کہ غیر جمہوری طاقتوں
کا راستہ روکنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ سابق امریکی
صدر ابراہم لنکن نے جمہوریت کی تعریف اس انداز میں کی کہ عوام کی حکومت،
عوام کے لئے اور عوام کے ذریعے۔ پاکستان کا قیام عوام کی طاقت کے ذریعے
وجود میں آیا لیکن بدقسمتی سے فوجی آمر تینتیس سال تک مختلف ادوار میں ملک
پر مسلط رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت میں بالآخر جمہوری قوتیں
جمہوریت کے قیام کے لئے ایک میثاق پر متفق ہوئیں۔ ملک میں جمہوریت کے قیام
کی خاطر بے نظیر بھٹو کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔سیاسی رہنماؤں کا
کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کو بھی اپنے مفادات کی خاطر ترقی پذیر ممالک میں
آمریت کی حوصلہ افزائی کرنے کی پالیسی کو ترک کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ ان کا
کہنا ہے کہ فوج کو بھی جان لینا چاہئے کہ ملکی معاملات چلانا عوامی
نمائندوں کا کام ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کو جمہوریت کے روشن
مستقبل کے لئے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر عصبیت کے چکر سے باہر آنا ہوگا۔
جمہوریت صرف انتخابات کے ذریعے حکومت قائم کرنے کا نام نہیں بلکہ سیاسی
قوتوں کو اپنے اطوار میں اعلی جمہوری روایات قائم کرنے کا ثبوت دینا ہو گا۔
صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جمہوریت کے عوامی مسائل کے حل میں
ناکام رہنے کے چرچے سامنے آرہے ہیں جس کا ایک ثبوت حال ہی میں سامنے آنے
والا یورپی یونین کی نیشنل کونسل کے سماجی شعبہ جات کا وہ سروے ہے جس میں
انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھی جانے والی
جمہوریت مکمل طور پر ناکام رہی ہے ۔ عالمی تجزیہ نگار جارج ونسٹن کے مطابق
جمہوریتوں کی ماں کہلانے والے برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں پارلیمانی
جمہوریت، جمہوری نظام کی بہت ہی محدود اور جزوی شکل ہے جو لوگوں کو مجبور
کرتی ہے کہ وہ سیاست اور معیشت کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے بجائے سرمایہ
دار اور سیاستدانوں ہی کی ہاتھوں میں رہنے دیں، یہ جمہورتیں محض پانچ سال
کے بعد ایک شخص کو ووٹ ڈالنے کا حق دیتی ہیں اور کچھ نہیں اور یہی وجہ ہے
کہ اب لوگوں کے بڑھتے ہوئے مسائل انہیں جمہوریتوں سے نالاں کر رہے ہیں۔ ایک
اور تجزیہ نگار کبیر خان کے مطابق خود کو دنیا کی دوسری بڑی جمہوریت قرار
دینے والے بھارت کا یہ عالم ہے کہ وہاں روازنہ 30کروڑ افراد رات کو بھوکے
سوتے ہیں جبکہ بھارتی سرمایہ دار اور ان کی جمہوریت گزشتہ 62سالوں میں
بھارتی عوام کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کر سکی بلکہ بھارت کے اندر
کسانوں کی خود کشیوں سے لے کر عام آدمی کے مسائل تک میں اس قدر اضافہ ہوگیا
ہے کہ بھارت میں عام آدمی کے لیے زندگی کی ڈور بر قرار رکھنا بھی ناممکن
ہوتا جا رہا ہے۔
تنقید نگاروں کے مطابق جمہوریت صرف مسائل حل کرنے میں ہی ناکام نہیں رہی
بلکہ اس کے ”فیوض“ سے دنیا بھر میں طبقاتی تفریق اور ٹریکل ڈاﺅن پالیسی نے
بھی جنم لیا ہے جس کے سبب گزشتہ دنوں میں دنیا کے اندر دو لاکھ افراد ارب
پتی بن گئے ہیں تو دوسری طرف دو ارب انسان مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے
گئے ہیں۔ اس تضاد اور تفریق نے نہ صرف دنیا بھر میں ریاستوں کے اندر عدم
استحکام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پراکسی وار جنم دیا ہے بلکہ ہر علاقہ میں
چھوٹی بڑی تحریکوں نے بھی سر اٹھایا ہے جبکہ دوسری جانب اس صورتحال نے کم
حوصلہ اور لاچار لوگوں کو جس پریشانی سے دوچار کیا ہے اس کے سبب صرف گزشتہ
ایک برس کے دوران دنیا بھر میں 8لاکھ افراد نے خود کشی کی جن میں پریشانیوں
سے تنگ اور دلبرداشتہ 8000پاکستانی بھی شامل تھے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر کے 83فیصد افراد انہی پریشانیوں کے سبب
ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ صرف یورپ میں حالیہ معاشی بحران بھی اسی جمہوریت
ہی کا شاخسانہ ہے جس کے سبب ایک کروڑ سے زائد افراد بے روزگار ہوگئے جبکہ
یورپی یونین کے ممالک میں 53فیصد افراد کو ہر وقت بیروزگاری کا خوف لاحق ہے۔
یورپی یونین کی نیشنل کونسل کے سماجی شعبہ کے سروے میں کہا گیا ہے کہ
80فیصد لوگوں کے مطابق ان کے ممالک میں غربت اور امارت میں خلیج وسیع ہوتی
جا رہی ہے، 73فیصد کے مطابق اس فرق کو کم کرنااس حکومت کی ذمہ داری ہے جو
عوام ہی کے ووٹوں سے اقتدار میں ہے۔ 66فیصد لوگوں کے مطابق جمہوری حکومتیں
صحت ، تعلیم اور فلاحی کاموں پر بتدریج خرچ ہونے والی رقم میں تیزی سے کمی
لارہی ہیں جس کی ایک وجہ تو معاشی بحران ہے جبکہ دوسری جانب اقتدار کی
مضبوطی پراٹھنے والے اخراجات بھی ہیں۔ جمہوریت کے باوجود 93فیصد لوگوں کے
مطابق یورپی ممالک میں ٹریڈ یونینوں پر سخت پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ |