برصغیر پاک و ہند میں جہاں بھی اسلام کے روشن نشانات موجود ہیں وہ اولیاء
کرام کی مرہون منت ہیں اولیائے کرام نے اپنی زندگیاں رضائے الٰہی کے حصول
کے لیے وقف کر دیں اور نہ صرف اپنی حیات مستعارکو امت مسلمہ کے لیے مفید
بنایا بلکہ تربیت کے بعد افراد کا ایسا گروہ بھی اپنے پیچھے چھوڑ گئے جو ان
کے بعد کی دعوت اور پیغام کے فروغ کا باعث بنے ۔ برصغیر میں سب سے پہلی
شخصیت حضرت خواجہ غوث بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمتہ اﷲ علیہ کی ہے جنہوں
نے نظام خانقاہی کو روایت کے شکنجوں سنے نکال کر خانقاہ کو فقط ہاؤوہو کا
مرکز ہی نہ رہنے دیا بلکہ اپنی خانقاہ کومرکز دعوت واصلاح بناڈالا۔ حضرت
بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمتہ اﷲ علیہ کے قائم کردہ مدرسہ کے فارغ التحصیل
علماء نے نہ صرف پاک وہند بلکہ ملائشیاء ، جاوا ،سما ٹراکے جزائر تک اسلام
کی روشن تعلیمات پہنچائیں ۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ، حضرت بابا فرید
،حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمتہ اﷲ علیھم نے اپنے اپنے ادوار اور
علاقوں میں اسلام کا پیغام پہنچایا، اور آج بھی ان بزرگان دین کے مزارات
محروم و مصیبت زدہ لوگوں کے لیے پناہ گاہ ہیں جہاں حاضر ہو کر اپنے رب کریم
سے ان مقبول بندوں کے واسطے سے من کی مرادیں حاصل کرتے ہیں۔ حضرت غوث بہاؤ
الدین زکریا ملتانی کے خلفاء عظام کے ساتھ ساتھآپ کی نسبی اولاد بھی مختلف
مقامات میں پھیل گئی اور تبلیغ دین کا فریضہ سنبھالا، آپ کی اولاد کے بعض
افراد نے لاہور کو مرکز بنایا ، کچھ عرصہ کے بعد ان میں سے حضرت دیوان فتح
شاہ رحمتہ اﷲ علیہ نے لاہور سے بھیرہ کی جانب سفر فرمایا،اور اس چھوٹے سے
قصبے کو مرکز رشدو ہدایت بنایا درویش خدا مست لوگوں کا یہ خاصہ ہے کہ نسبتاََ
خاموش اور ویران مقامات کو پسند کرتے ہیں اور وہیں ڈیرہ جما کر یاد الٰہی
میں مصروف ہوتے ہیں اور وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں کہ پھر ویران دلوں
کوبساتے ہیں اور غافل دلوں میں ایسا انقلاب پیدا کرتے ہیں کہ وہ ہمہ وقت اﷲ
کریم کے ذکر میں مصروف رہتے ہیں حضرت۔ دیوان فتح شاہ صاحب نے بھی بھیرہ
شریف کو اپنا مسکن بنایا اور اسلام کی روح پرور تعلیمات سے ہزاروں افراد
کوگمراہی سے نکال کر راہ مسقیم پر گامزن کیا آپ کی اولاد میں سے ایک اہم
فرد حضرت امیر السالکین پیر امیر شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ ہیں، جن کی خدمات
آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں آپ نے سلسلہ عالیہ نظامیہ کی بھیرہ میں بنیاد
رکھی جس کو آپ کی اولادنے عروج پر پہنچا دیا ہے ، حضرت پیر امیر شاہ صاحب
کی ولادت 1837ء میں بھیرہ میں ہوئی آپ کے خاندان کی مالی ابتداء میں زیادہ
بہتر نہ تھی مگر بعد میں خدائے بزرگ و برترکے فضل سے اچھی ہو گئی۔ آ پ کا
خاندان پہلے ہی علم اور دین داری کی وجہ سے مشہور تھا ۔آپ نے اسلاف کی
روایت کواپنایا اور اس کومزید نکھار بخشنے کے لیے اپنی زندگی مجاہدانہ
اندازمیں بسر کی ۔ قرآن حکیم کی وساطت سے آپ کا رابطہ حضرت غوث الاعظم رضی
اﷲ عنہ کی اولاد کے ایک بزرگ حضرت پیر بہادر شاہ چراغ سے ہوا،ان کے ساتھ
تعلق نے آپ کے دل میں حضرت سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اﷲ علیہ سے قلبی محبت
پیدا کردی ۔اور یہ تعلق اور بارگاہ غوثیت سے وابستگی مزید اس طرح مستحکم
ہوئی کہ شادی کے تحفہ کے طور پر آپ کو چند گاؤں مل گئے جن سے گیارہویں شریف
کی وصولی اور محفل کے انعقاد کی ذمہ داری آپ کے سپرد ہو گئی اور یہ سلسلہ
آپ کے خاندان میں اب بھی باقی ہے ۔ آپ بارگاہ غوثیت میں محفل کا انعقاد
انتہائی اہتمام سے کرتے اور حسب استطاعت حلوہ وغیرہ پکا کر غریبوں میں
تقسیم کر دیتے ۔آپ ایک خدا ترس ،نیک دل اور کامل متبع سنت شخص تھے ۔بچپن سے
ہی قلب سلیم میں اپنے معبود و محبوب حقیقی کو پانے کی تڑپ تھی جس کے باوث
شب وروز عبادت وریاضت میں بسر کرتے اور سن بلوغت سے قبل ہی اکثر روزہ سے
رہتے اور عمر بھر یہی معمول رہا کہ ممنوع ایام کے علاوہ سال بھر روزہ رکھتے۔
متعدد اولیاء کرام کے مزارات پر چلہ کشی کی اور زیارات سے اپنے دل کی راحت
کا سامان کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ سلسلہ قادریہ میں حضرت پیر بہادر شاہ
گیلانی بھیروی رحمتہ اﷲ علیہ سے فیض پایا اور بالآخر آپ کا تعلق اس عظیم
خانوادے سے جڑ گیا جس کے فیض یافتگان پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں ۔سرگودھا
کی ایک چھوٹی سی بستی ’’سیال شریف‘‘ میں حضرت خواجہ شمس العارفین شمس الدین
سیالوی رحمتہ اﷲ علیہ نے سلسلہ چشتیہ کا فیض بانٹنا شروع کیا تو دور دورسے
کئی افراد حاضر ہوئے اور علوم معرفت سے اپنا حصہ حاصل کیا ۔ان ہی ہستیوں
میں حضرت پیر امیر شاہ صاحب بھی شامل تھے۔ سیال شریف حاضری دی ، بیعت کے
بعد تربیت باطنی کی منازل طے کرتے ہوئے خرقہ خلافت حاصل کیا اور بھیرہ شریف
میں سلسلہ کی بنیاد رکھی ۔آپ کا ذوق عبادت بڑھتا گیا اور آپ ساری رات
دریائے جہلم کے کنارے نوافل میں مصروف رہتے ۔ساری رات کی شب بیداری کے
باوجود دن بھر کے معمولات متاثر نہ ہوتے بلکہ مخلوق خدا کے ساتھ پیار ،
محبت اور اخلاق کے ساتھ پیش آتے ۔رب کریم کی رضا کے لیے اپنے کسی مخالف سے
بھی بدلہ نہ لیا بلکہ تنگ کرنے والوں کو بھی دعائے خیر سے نوازتے۔ اﷲ کریم
نے آپ کے شب وروز کی عبادت اور ریاضت کے نتیجہ میں آپ کی زبان میں اس قدر
تا ثیر رکھی تھی کہ فقط چند کلمات سے بگڑے ہوئے کے لوگوں کے مقدر بدل ڈالے
ایک مرتبہ کئی برس کے عادی شرابی کو فقط اتنا کہا کہ’’ شراب نہ پیا کر‘‘ ۔
اس نے زندگی بھر کیلئے اس سے کنارہ کشی کرلی ۔ آپ کو حضور سرور کائنات ﷺاور
حضرت غوث الاعظم رحمتہ اﷲ علیہ کی ذات سے بہت عقیدت تھی۔ اور آپ نے اپنی
اولاد کو بھی ان نسبتوں کو مضبوط رکھنے کی تلقین کی آپ کے جانشین اور تربیت
یافتہ حضرت غازی اسلام پیر محمد شاہ رحمتہ اﷲ علیہ نے ان دو نسبتوں کو
مضبوط کرنے کی خاطر محمدیہ غوثیہ کے نام سے پرائمری سکول بنایاجس سے علاقہ
میں علم کی روشنی پھیلی ۔آپ ایک باکرامت بزرگ تھے اور روحانی تصرف سے کئی
مرتبہ اپنے مریدوں کی راہنمائی فرمائی۔ اپنی زندگی میں ہزاروں لوگوں کی
زندگیاں سنوارنے کے بعد 1927ء میں آپ نے اس جہان فانی سے کوچ فرمایا آپ کا
وصال 10جمادی الثانی کو ہوا اور اسی روز آپ کا عر س مبارک پوری عقیدت اور
مذہبی پابندیوں کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ آپ نے تربیت کا ایسا مرکز قائم کیا
جس سے آج بھی ہدایت کے طالب ہدایت حاصل کر رہے ہیں حضرت پیر امیر شاہ صاحب
کے تین بیٹوں میں حضرت پیر محمد شاہ غازی رحمتہ اﷲ علیہ سجادہ نشین بنے آپ
کی زندگی کو حقیقتا مجاہدانہ کہا جاسکتا ہے۔ جہاد کشمیر میں عملا حصہ لیا
اور غازی اسلام کہلائے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں سلسلہ چشتیہ کو ترقی دی اور
اپنی اولاد کی اس قدر عمدہ تربیت کی کہ ان کے سجادہ نشین حضرت ضیاء الامت
جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اﷲ علیہ کی صورت میں امت مسلمہ کو ایک
بے مثال قائد ملا حضرت ضیاء الامت نے اپنی ساری زندگی کی تگ ودو سے سلسلہ
عالیہ چشتیہ کو عروج بخشا اور محمدیہ غوثیہ پرائمری سکول کے ساتھ دارالعلوم
محمدیہ غوثیہ کو ترقی دی ایک عظیم علمی تحریک کی صورت دے دی آپ علوم ظاہری
و باطنی میں مکمل عبور رکھتے تھے آپ کے قلم کے شاہکار تفسیر ضیاء القرآن
اور سیرت کی کتاب ضیاء النبی عوام و خواص سے داد حاصل کرچکے ہیں اوربلا شبہ
انہیں بارگاہ الٰہی میں بھی قبولیت حاصل ہے آپ 1998 ء میں وصال فرما گئے ۔
آج کل حضرت ضیاء الامت کے فرزند جانشین حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ
صاحب سجادہ نشین ہیں آپ نے بھی اپنے بزرگوں کی طرح اپنی زندگی اسلام کی
خدمت اور علم دین کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی ہے سلسلہ چشتیہ بھیرہ شریف ،
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ اور آستانہ سے متعلق دیگر تمام اداروں کی نگرانی
فرما رہے ہیں آپ کئی مرتبہ بیرون ملک بھی تبلیغی دوروں پر جا چکے ہیں اﷲ
کریم سے دعاہے کہ اس سلسلہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور ہمیں ان بزرگان
دین کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ حضرت پیر
محمد امین الحسنات شاہ صاحب کئی مرتبہ بلوچستان تشریف لا چکے ہیں اور یہاں
بھی آپ کا فیضان پہنچ رہا ہے آپ کے عقیدت مند یہاں مختلف شہروں میں ’’پیر
محمد کرم شاہ کانفرنس‘‘ کے نام سے روحانی اجتماع کرکے تصوف کی تعلیمات
کوفروغ دینے میں مصروف ہیں۔ |