آسمان ہدایت کے درخشندہ ستارے

گذشتہ دنوں روزنا مہ پاکستان لاہور کے دینی ایڈیشن میں جناب فاتح واسطی صاحب کا بعنوان ’’شان صحابہ کرام ؓ ‘‘ منظوم کلام شائع ہوا ہے،مدحت صحابہ پر بہت عمدہ ،شاندار اور دِلوں کو چُھو لینے والا کلام ہے ، بندہ نے کئی بار پڑھا ہے اور ہر بار ایمان میں نئی تازگی اور حلاوت محسوس کی ہے ، اس پر روزنامہ پا کستان کے چیف ایڈیٹر محترم مجیب الرحمن شامی صاحب، گروپ ایڈیٹرقدرت اﷲ چوہدری صاحب ،ایڈیٹر عمر مجیب شامی صاحب اور جناب فاتح واسطی صاحب پوری امت مسلمہ کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں، انشاء اﷲ ان کا یہ عمل ان کے لیے سعادت دارین اور جنت میں حضرات صحابہ کرام ؓ کی رفاقت ومعیت کا سبب بنے گا کیونکہ حضرات صحابہ کرام ؓ وہ قدسی صفات اﷲ کے منتخب بندے ہیں ،جن کی آنکھوں نے جمال جہاں آرائے محمدﷺ کا دیدار کیا ہے ، جن کے کا ن کلما ت نبوت سے مشرف ہوئے ، جن کے دل انفاس مسیحائی محمدی سے زندہ ہوئے ، جن کے پاؤں معیت محمد ی میں آبلہ پاہوئے ہیں ، جو پاکیزہ دل کے مالک ، صدق وتقویٰ کے مجسمے ، وفاداری وجانثاری کے پیکر، آفتاب نبوت کے روشن چراغ اور آسمان ہدایت کے درخشندہ ستارے تھے ،جن کی عبادت واخلاص پر خود خالق کائنات گواہ ، جن کا ثناخواں خود ربّ ذوالجلال تھا ، صحابہ نبی ؐ کی نبوت کے عینی گواہ اور نبی ؐ صحابہ ؓ کی عظمت کے عینی شاہد تھے ، جن سے محبت کو نبی سے محبت اور جن سے بغض کو نبی سے بغض قرار دیا گیا ، صحابہ سے عقیدت کو عین ایمان او ر اُن سے بد گمانی کو کفر ونفاق شمار کیا گیا ، جن کی محبت سے لاکھوں اہلسنت کے دل لبریز اور ان کے ذکر خیر سے کروڑوں اہلسنت کی آنکھیں سرشار رہتی ہیں،اُن کاتذکرہ ضرور،تذکرہ نگاروں کی نجات کاباعث بنے گا انشاء اﷲ۔ یہ اہلسنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے ۔ اہلسنت والجماعت کسی گروہ یا جماعت کا نا م نہیں ،بلکہ عین شاہراہ سنت اور شاہراہ صحابہ پر چلنے والے سواد اعظم کا نام ہے ، جس میں اہل حق کے تمام مکاتب فکر شامل ہیں ، اہلسنت والجماعت کی اساس نبی محترم اور حضرات صحابہ کرام ؓ کے عملی طریقہ پر استوارہے یعنی نبی ؐ اور صحابہ ؓ کے طریقے پر عملی طور پرچلنے والے اور اس کے پیروکار، اسی وجہ سے وہ اہلسنت والجماعت کہلاتے ہیں ، اہلسنت کی بنیاد قرآن کریم کے بعد سنت رسول اﷲ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام ؓ کے تعامل پر مبنی ہے اور دین کی تعبیر وتشریح میں انہی حضرات کو اساسی مقام حاصل ہے اور وہ حق وہدایت کا معیار ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے اُن حضرات کے ایما ن کو مسلمانوں کے لیے معیار ونمونہ قرار دیاہے اس لیے صحابہ کرام ؓ واہل بیت عظام کی محبت وعظمت نہ صرف مسلمانوں کے ایما ن کا حصہ ہے بلکہ تکمیل ایمان کاایک لازمی جز و ہے، ان کی ناموس وحرمت کا تحفظ ودفاع ان کے دینی فرائض میں شامل ہے اور اس فریضے کی جدوجہد کا سلسلہ بھی قرن اول سے جاری ہے اور انشاء اﷲ تاقیامت جاری رہے گا۔ اﷲ کے بنی ﷺ نے ارشادفرمایا :کہ’’ میرے صحابہ کے بارے میں اﷲ سے ڈرتے رہو ، میرے بعد ان کو طعن وتشنیع کا نشانہ مت بنانا ، جس نے اُن سے محبت کی ،گویا میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، گویا میری وجہ سے ان سے دشمنی کی اور جس نے ان کو تکلیف دی، گویا اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی، گویا اس نے اﷲ کو تکلیف دینے والا کام کیا اور جس نے ایسا کیا عنقریب اﷲ اس کی خود گرفت کرے گا ‘‘۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی محترم ﷺ نے فرمایا: بے شک اﷲ تعالی ٰ نے مجھے چن لیا ہے اور میرے لیے میرے صحابہ کو بھی چن لیا ہے حضرت عبد اﷲ ابن مسعود ؓفرماتے ہیں کہ’’ تم میں سے جو شخص کسی کی اقتدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کی اقتدا کرے جو وفات پا چکا ہے اس لیے کہ زندہ شخص کسی وقت بھی فتنہ میں مبتلا ہوسکتا ہے اور اقتدا کے قابل، محمد ﷺ کے صحابہ ؓ ہیں ، جو سب سے زیادہ نیک دل ہیں ، گہرے علم والے ہیں اور سب سے کم تکلف والے ہیں ، اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی ﷺ کی صحبت ورفاقت کے لیے اور اپنے دین کی امامت کے لیے چن لیاہے ،لہذا تم ان کے نقش قدم پر چلو اور ان کے طریقوں کی پیروی کرو، کیونکہ وہ ہدایت اور صراط ِمستقیم پر فائز ہیں‘‘۔ امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ نے اپنے دور خلافت میں سرکاری طور پر بعض اہل علم علماء کی یہ ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ مختلف مساجد میں عام لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی احادیث سنایا کریں اور صحابہ کرام کے مناقب وفضائل ان کے سامنے بیان کیا کریں تا کہ مسلمانوں کے دلوں میں صحابہ اور اہل بیت سے محبت کا جذبہ موجزن رہے جو ہمارے دین کی اساس ہے۔ حافظ ابن عبد البر ؒ لکھتے ہیں: حضرات صحابہ کرام ؓ ہر زمانہ کے افراد سے افضل اور بہترین امت ہیں ،جن کو اﷲ تعالیٰ نے تاقیامت آنے والے لوگوں کی ہدایت کے لیے چن لیا ہے وہ سب کے سب عادل تھے ا ن کی عدالت اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی گواہی سے ثابت ہے ، ان کی عدالت وثقاہت کی گواہی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ اﷲ نے ان کو اپنے نبی کی صحبت اور نصرت کے لیے چن لیا ہے ۔خلفاء راشدین کے دور خلافت کو امام الہند حضرت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی ؒ نے دور نبوت کا تسلسل قرار دیا ہے فرماتے ہیں :خلافت راشدہ کادور ، دور نبوت کا بقیہ تھا ، گویا دور نبوت میں آنحضرت ﷺ صراحتاًارشادات فرماتے تھے اور دور خلافت راشدہ میں خاموش بیٹھے ہاتھ اور سر کے اشارے سے سمجھاتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ﷺ کے لیے جو جماعت منتخب فرمائی ہے انبیاء کرام ؑ کے بعد کائنات نے ان سے بہتر انسان نہیں دیکھے ہونگے بقول مولانا ابوالکلا م آزاد ؒ :’’محبت ایمان کی اس آزمائش میں صحابہ کرام ؓ جس طرح پورے اترے ،اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے اور وہ محتاج بیا ن نہیں، بلاشبہ وبلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح کے ساتھ ایسا عشق نہیں کیا ہوگا، جیسا صحابہ کرام ؓ نے اﷲ کے رسول ﷺ سے راہ حق میں کیا ہے ، انہوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیا جو کوئی انسان کرسکتا ہے اور پھر اس کی راہ میں وہ سب کچھ پا لیا ہے جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے ‘‘۔مفتی اعظم پاکستا ن حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ رقمطراز ہیں : ’’رسول اﷲ ﷺ کے ساتھی صحابہ کرام ؓ عام دنیا کے افراد ورجال کی طرح نہیں کہ ان کے مقام کا فیصلہ نری تاریخ اور اس کے بیان کردہ حالات کے تابع کیا جائے بلکہ صحابہ کرام ؓ ایک ایسے مقدس گروہ کا نام ہے جو رسول اﷲ ﷺ اور عام امت کے درمیا ن اﷲ تعالی ٰ کا عطاکیا ہوا ایک واسطہ ہے اس واسطے کے بغیر نہ امت کو قرآن آسکتا ہے نہ قرآن کے وہ مضامین ،جن کو قرآن نے رسول اﷲ ﷺ کی تشریح پر چھوڑا ہے ، نہ رسالت اور اس کی تعلیمات کا کسی کو اس واسطے کے بغیر علم ہوسکتا ہے ۔ یہ رسول اﷲ ﷺ کی زندگی کے ساتھی ، آپ کی تعلیمات کو تمام دنیا اور اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنے والے ، آپ کے پیغام کو اپنی جانیں قربان کرکے دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلانے والے ہیں ،ان کی سیرت رسول اﷲ ﷺ کی سیرت کا ایک جزو ہے ، یہ عام دنیا کی طرح صرف کتب تاریخ سے نہیں پہچانے جاتے، بلکہ نصوص قرآن وحدیث اور سیرت رسول ﷺ سے پہچانے جاتے ہیں ،ان کا اسلام میں ایک خاص مقام ہے ‘‘۔اہل حق کے نزدیک صحابہ کرام میں سے کسی کی تحقیر وتنقیض جائز نہیں بلکہ تمام صحابہ کو عظمت ومحبت سے یا د کرنا لازم ہے، امام اعظم ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں ہم رسول اﷲ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کو خیر کے سوا یا د نہیں کرتے ۔ اہلسنت کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ چونکہ حضرات صحابہ کرام ؓ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کا صحیح اور بہترین نمونہ ہیں ،اس لیے ان کی حرمت وناموس کاتحفظ ، ان کی ثقاہت وصداقت کو شک وشبہ سے بالا تر سمجھنا او ر ان کی عدالت کا دفاع کرنا ضروری ہے اور ان کی تنقیص وتوہین کو گمراہی اور سلب ایما ن کا سبب قرار دینا بھی ایما ن کالازمی حصہ ہے اور اہل اسلام اس ذمہ داری کو قرن اول سے لے کر اب تک پوری محنت اور جدوجہد کے ساتھ انجام دے رہے ہیں آخر میں دل چاہتا ہے ،جناب فاتح واسطی صاحب کی مدح صحابہ پر پوری نظم کو کالم کا حصہ بنایا جائے، تاہم کالم کی تنگ دامنی کے سبب چند اشعار نذرقارئین ہیں ؂
راس ہے، دوستی صحابہ کی ہم ہیں ، اور نوکری صحابہ کی
کون منکر ہے ، کون منکر ہے شان دیکھے ،کوئی صحابہ کی
تا قیامت ، نظیر ناممکن خاص پہچان ہے صحابہ کی
مہروماہ ونجوم سے بڑھ کر حشر تک، روشنی صحابہ کی
کام آئی فضائے محشر میں دل میں ، چاہت جو تھی صحابہ کی
توبہ توبہ ، کبھی خدا نہ کرے الامان ، دشمنی صحابہ کی
 
Mufti Muhammad Asghar
About the Author: Mufti Muhammad Asghar Read More Articles by Mufti Muhammad Asghar: 11 Articles with 11797 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.