ضلع خوشاب کا گاؤں نلی جودامن پہاڑ میں واقع ہے ۔ یہاں کے
زیادہ تر لوگوں کا ذریعہٗ روزگار کھیتی باڑی اور گلہ بانی ہے۔اس گاؤں کا
ایک نوجوان تھاجوکام کے نزدیک نہ بھٹکتا۔آرام طلبی اور دوست احباب کے ساتھ
ہنسی مذاق میں وقت گزاری اُس کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ اس کا بوڑھا والد دن
بھر کھیت میں محنت مشقت کرتا لیکن اُسے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ تھی ،وہ
تو بس دوستوں کا شیدائی تھا۔ایک محفل سے اُٹھتا تو دوسری محفل کا رُخ کر
لیتا ۔ بس اسی طرح لاپرواہی اور غفلت میں اُس کے شب وروز گزرتے۔ برادری کے
بڑے بزرگوں نے سمجھایا کہ دیکھو کچھ اپنے والد کے حال پر ترس کھاوٗ ۔ کام
میں کچھ تو بوڑھے باپ کی مدد کیا کرو ۔ بڑی مشکل اور منت سماجت سے صرف اس
بات پر راضی ہوا کہ وہ کھیت کی رکھوالی کیا کرے گا۔رشتہ داروں کو اس بات کی
بھی بہت خوشی ہوئی کہ چلیں اس طرح سے اس کے بوڑھے باپ کوکچھ توسہولت
میسرآئے گی۔اُس نے اپنے کھیت کا پہرہ دیناشروع کردیا۔ابتداء میں توکھیت کے
خوب چکر لگاتا، جس سے چرواہے چوکنے ہو گئے اور اُس کے کھیت کے قریب نہ آتے۔
آخر کچھ روز کے بعد آرام طلبی غالب آئی ۔ سب سے پہلے اُس نے ایک گھنا سایہ
دار درخت تلاش کیاجہاں آرام سے کھانا کھاتا اور پھر وہیں لیٹ جاتا، جب کبھی
نیند سے بیدار ہوتا،بغیر دیکھے، بیٹھ کر گرج دار آواز میں نعرہ مستانہ بلند
کرتاـ"کیہڑا ایں اوے"۔ اُس کے کھیت کے اردگرد جو بھی چرواہا ہوتا اپنی بھیڑ
بکریوں کو ہانک کر دور لے جاتا۔
چرواہے بھی چالاک اور ہوشیار تھے۔ اس سے پہلے اُن کی خوب موجیں تھیں،
اُنہیں اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑتی،جس کے جی میں جو آتاوہ کرتا، ہرے
بھرے کھیت میں بکریاں چراتے،درخت کاٹتے،اُنہیں اس بات سے کیا کہ اُن کی
لاپرواہی سے کسی کانقصان ہو رہا ہے ،وہ تو ایک جگہ بیٹھ کر گپیں ہانکتے ۔
لیکن اب چرواہے کھیت کے رکھوالے کی بڑھکوں سے عاجز تھے۔
جب انسان کو حرام کھانے کی عادت پڑجاتی ہے تو پھر اُسے آرام اور قناعت کہاں۔
لالچ انسان کو اندھا بنادیتا ہے پھر اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے بُرے بھلے،
حلال حرام کی تمیزبھلادیتاہے۔ وقت گزرتا گیا، چرواہے پریشان اور اپنا طریقہ
واردات مکمل طور پر چھوڑنے کی بجائے اس مسئلہ کے حل کے لئے فکرمند تھے کہ
کس طرح پہلے کی طرح اپنی من مانی کریں۔ لیکن ساتھ ہی حیران بھی تھے کہ آخر
یہ ہمیں کیسے دیکھ لیتا ہے کہ ہم اس کے کھیت کے قریب آ گئے ہیں۔ جب کہ ہم
نے اسے پہرہ دیتے کبھی نہیں دیکھا۔اُنہیں ترکیب سوجھی اورتحقیق کے لئے اپنے
ایک ساتھی کو ذمہ داری سونپی کہ تم ذرا دیکھو یہ کہاں بیٹھتا ہے اور ہمیں
کیسے دیکھ لیتا ہے۔ کچھ تو معلوم ہوکہ آخر اس کے پاس کون سا الہ دین کا
چراخ ہے ۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ صاحب فلاں گھنے درخت کے نیچے بیٹھ
کر آرام سے کھانا کھانے اور خوب جی بھر کے لسیِ پینے کے بعد وہیں سو جاتا
ہے اورکروٹ بدلنے یا نیند سے بیدار ہونے پربغیر دیکھے بیٹھ کربس یونہی نعرہ
لگا دیتا ہے۔ خبردار میرے کھیت کے نزدیک مت آنا، یہاں سے دور چلے جاوٗاور
پھر آرام سے وہیں سو جاتا ہے اور ہم یونہی بلاوجہ ڈر جاتے ہیں ۔آخر کار ہوا
یہ کہ کھیت کا رکھوالا دن بھر خوب آرام کرتا جبکہ چرواہے بڑے مطمئن ہوکر
اُس کا کھیت اُجاڑتے۔
ہمارے حکمران طبقہ کا بھی یہی حال ہے کہ جوبھی آیا اُس نے ہمارے دیس
پاکستان کی ذرا بھی فکر اور پرواہ نہیں کی ہر ایک کی اپنی ذات برادری تک
ترجیحات تھیں۔ جن سے آگے بڑھ کرنہ سوچا نہ کچھ کیاکیونکہ خودغرضی ،لالچ اور
اقتدار کا نشہء انسان کوتکبر اور ظلم کی بھول بھلیوں میں پھنسا دیتا ہے۔
اُس کے دل ودماغ مقفل ہوجاتے ہیں۔ہمارا ملک لُٹتا رہا، لوگ غربت سے مرتے
رہے، روز مرہ اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑھتی رہیں ، چوری، ڈاکہ،
قتل کی وارداتیں بڑھتی گئیں،امن وامان کی صورت حال بد تر ہوتی گئی۔ہر سال
ملک بے روزگاری ، مہنگائی ، تجارتی خسارہ، ادائیگیوں کا خسارہ،بجٹ خسارہ
اوردیگر مسائل کی دلدل میں دھنستا چلاگیا جبکہ ہردور میں ہمارے حکمرانوں نے
ذاتی عیاشیوں کی خاطر بیرون ملک سے بے دریغ قرضے لئے جس کے سبب ملکی معیشت
پر غیروں کا کنٹرول ہوا اوروسائل لوگوں کی فلاح وبہبود کی بجائے قرضوں کی
واپسی اور مالی خسارہ کو پورا کرنے پر صرف کئے جاتے رہے ۔ وقت ریت کی مانند
ہاتھوں سے پھسلتا رہا مگر صاحب ِ اقتدار طبقہ ہمیشہ پیسہ بنانے اور ملک
اُجاڑنے میں مصروف رہا۔پاکستان کے حکمرانوں نے پستیوں کے سوا اس ملک کوکچھ
نہیں دیا،افسوس کہ زرخیز زرعی ملک ہونے کے باوجوداندھیروں اور قرضوں میں
ڈوبے پاکستان کی حالت زاریہ ہے کہ آج ملک خداداد ہرقسم کے بحرانوں کا شکار
ہے۔پاکستانی عوام ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں تو
دوسری طرف انصاف اور امن وامان کی صورتحال گھمبیر ہوچکی ہے۔ ہمارے حکمران
کھیت کے رکھوالے کی طرح روٹی ، کپڑا مکان ،عوام کے حقوق عوام کی دہلیز
پردینے اور انصاف نہ ملنے تک چین سے نہیں سوئیں گے اور چوروں ، ڈاکووٗں اور
عوام کی دولت ہڑپ کرنے والوں کو چوراہوں میں اُلٹا لٹکانے جیسے دلفریب نعرے
بلند کرتے اور غریب بے کس و مجبور عوام کوصرف جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں۔ جب
کوئی ذلت آمیزحادثہ رونما ہوتا ہے تو کروٹ بدل کرایک اور نعرہ لگا دیتے ہیں
کہـ"دُنیا کی کوئی طاقت ملزموں کو قانون کے شکنجے سے نہیں بچا سکتی"اور پھر
بس! چاہے کوئی بلوچستان کی آخری حد سے پیدل چل کراسلام آبادتک انصاف کی
دہائی دے ، چولستان میں سینکڑوں بچے غذائی قلت ،بھوک و پیاس سے ایڑیاں رگڑ
رگڑکرجان دے دیں یامظفرگڑھ،چینیوٹ میں وڈیروں جاگیرداروں کے ہاتھوں اپنی
عزت لُٹنے کے بعد انصاف نہ ملنے پر اپنے ہاتھوں سے موت کو گلے لگائے
حکمرانوں کی بلا سے۔جب عوامی خدمت کے دعویدار اور عوامی حقوق کے رکھوالے ،صرف
بیان بازی سے ہی عوام کو تسلیاں دیتے رہیں گے تو جرائم پیشہ عناصرکے حوصلے
تو خود بخود بڑھنے ہیں۔
رشوت، سفارش اور بددیانتی ہرشعبہ میں عروج پر ہے جس سے تمام ادارے تباہ
وبرباد ہو کر رہ گئے ہیں۔حالات بدترین ہوتے جا رہے ہیں،عوام کا کوئی پرسانِ
حال نہیں۔انتخابات سے قبل عوام کی تقدیربدلنے کے دعوے کئے جاتے ہیں ۔روزگار،مہنگائی،
غیرملکی قرضوں ،دہشت گردی کے خاتمہ ، انرجی بحران سمیت تمام مسائل کے حل کی
گارنٹی دی جاتی ہے۔ پانی، بجلی، گیس، بے روزگاری، ملاوٹ ، بددیانتی ،
مہنگائی، رشوت ، بے انصافی، چوری ، عزتوں کی پامالی ،ڈکیتی ،دہشت گردی، قتل
وغارت گری کون سی ایسی مصیبت ہے جس میں کمی آئی ہے۔ جب تک ہمارے حکمران
عوامی خدمت کے لئے سنجیدہ نہیں ہوں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے اور جب
تک حکمرانوں کے دل نہیں بدلیں گے تب تک عوام کے دن نہیں بدلیں گے۔
|