ملک کے حالات بڑے ہی خراب ہیں ۔ پر ہم کیا کرسکتے ہیں۔یہ
تو حکمرانوں کے کام ہیں۔ہم بھلا کیاکر سکتے ہیں۔ہمارے اختیار میں ہے کیا
حکومت ہی کچھ کریں اور جب وہ ہی کچھ نہیں کرتی تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ایسی
ہی ملتی جلتی باتیں جملے آپ نے اکثر جہاں دو چار لوگ اکھٹے ھوئے سنیں ھوں
گے۔
میں بھی ایسے ہی کسی محفل میں اسی قسم کی گفتگو میں نہ چاہتے ہوئے شامل
ہوگئی۔ اب ان باتوں پر بحث کرناعجیب احمقانہ سا لگتاہے۔حاصل صفرہی نکلتا ہے۔
وہی راگ سب الاب رہے تھے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ہرطرف لوٹ مار کا بازارگرم
ہے۔ رشوت اور سفارش کے بغیرکوئی کام نہیں ہوتا۔کسی کی جان مال عزت محفوظ
نہیں۔ بس جی ہم کیا کرسکتے ہیں۔ بڑی دیر میں صبر سے بیٹھی خواتین کی باتیں
سنتی رہی آخرمجھ سے نہ رہا گیا۔
ہم کیوں کچھ نہیں کرسکتے۔اگرزرا سوچیں اور دوسروں کی طرف انگلی اٹھانے سے
پہلے اپنے آپ سے ایمان داری سے پوچھیں کہ ہم اتنی ساری عوام کیا واقعی کچھ
نہیں کرسکتے۔تو یقینا آپ کے اندر سے آواز آئے گی کہ ہم ہی سب کچھ کرسکتے
ہیں۔ ہم عورتیں صرف اگرجہیز ہی لینااور دینا بندکردیں تو50فی صدنہیں
بلکہ90۔80فصدیہ جو لوٹ مار اوپر سے نیچے تک لگی ہوئی ہے ایک دم ختم ہوجائے
ہر فرد نہیں بلکہ ہر مرد یہ کہتا ہے کہ جب بہنیں اور بیٹیاں گھر سے رخصت
کرنی ہے۔ڈھیروں جہیزدے کر توپھررشوت لینی ضروری ہے۔
جس طرح جھوٹ تمام برائیوں کی جٹرہے اسی طرح رشوت تمام اداروں کو برباد کرنے
والی لاعلاج بیماری ہے۔ آپ کمزور پل، سٹرکیں بنائے یا دوائی سے لیکر ہر
کھانے والی چیزمیں ملاوٹ کریں،ڈاکہ ڈاے، قتل کریں جومرضی کریں۔پیسے دیں اور
چھوٹ جائیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اورلینے والا حق سمجھ کر لیتا ہے کہ کیا
کروں اس کے بغیر(اوپر کی کمائی)گزارہ نہیں۔
ہم بچوں کی تربیت کیا ایسی نہیں کرسکتے کہ وہ حرام کے مال سے اسی طرح نفرت
کریں۔جس طرح وہ(سور)کانام لینا پسند نہیں کرتے کہ اس کا نا م لینے سے40دن
زبان ناپاک رہے گی۔اس طرح انہیں بتائیں کہ حرام کے مال سے تمہارا سارا وجود
ہی نا پاک ہو جاتا ہے۔تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔تمہارا سارا مال نا
پاک ہو جاتا ہے تمہارا اس سے حج،زکوہ،صدقہ خیرات کچھ بھی قبول نہ ہوگا۔اگر
یہ بات بچے کے دل میں شروع سے ڈال دی جائے تو وہ حرام مال سے اسی طرح نفرت
کرے گا جس طرح وہ اپنی زبان سے(سور)کا نام لینا پسند نہیں کرتا۔اگر سارے
پاکستان کی مائیں اپنے بچوں کے دل میں ڈال دیں کہ بیٹا جس طرح تم اپنی بہن
کی عزت کا خیال رکھتے ہو۔ اس طرح وطن کی ساری بہنوں کا خیال رکھو۔ہم تو
بیٹے کو اچھے عہدے پر دیکھنا ہی اس لیے چاہتے ہیں کہ پھر ہم کو اچھا جہیز
ملے گا۔ہم دولت مند ہی کو عزت دیتے ہیں۔غریب چاہے سگا بھائی بہن ہو اس
کوکوئی عزت نہیں دیتے لوگ اسی لیے ساری قانونی مزہین ہر بندش کو توڑ کر
بھلا کر بس دولت اکھٹی کرنے لگے ہوئے ہیں۔
اگر ہم باکردار انسان کو عزت دیں تو ہر کوئی اچھے کام کرنے کی کوشش کرے گا۔
کیا ہم اب بھی کچھ نہیں کر سکتے۔
ایک خاتون بولیں۔ٹھیک ہے لیکن پھر بھی ہم کیا کرسکتے ہیں۔ یہ تو اپنے آپ تو
جھوٹی تسلی دینے والی بات ہے یا یوں کہہ لیں کہ میں نہ مانو۔ اب یہ دس
خاتون جو یہاں بیٹھی ہیں وہ ہی یہ وعدہ کرلیں کہ ہم بغیر جہیز کے بہو رانی
لے کر آئیں گی۔ لیکن گھر آتی دولت کو کون چھوڑتا ہے۔ ہم لوگ ہر جگہ دوسرے
کے مال پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں۔ شرم نام کی کوئی چیز ہمارے پاس ہے؟ ہر
چیز ہم جھوٹی قسمیں کھا کھا بیچتے ہیں۔کہیں ایمان داری نہیں۔گھر میں بھائی
بہن کمزور یا معصوم بھائی بہن کو خوبیوقوف بنا کر اس سے ہر چیزلے لیتے ہیں
اور بڑے ہوکر اس کی جائداد ہضم کر لیتے ہیں۔ دوسرے کا مال ہضم کرنا تو ہم
لوگوں کا الٹے ہاتھ کا کام ہے۔بچپن سے جب بچہ دوسرے بھائی بہن کی چیزیں چھن
کر کھا جاتا ہے یا ان کے کپڑے ،جوتے،سویٹروغیرہ لے کر اس کو پہن پہن کے
برباد خراب کرکے ہی چھوڑتے ہیں پھر وہ کسی کے پہننے کے قابل نہیں رہتے تو
پھر ان کی جان چھوٹتی ہے۔
اگر بچے کوشرو ع سے احساس دلایا جائے کہ کسی کی چیز لینا گناہ کی بات ہے
اور اسے خراب کرکے واپس کرنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے لیکن یہاں تو ایسے بچے
کو دیکھ کر مائیں بڑی خوش ہوتی ہیں کہ یہ بچہ میرا شیر ہے شیر۔ یہی شیر بچہ
خاندان کا بیڑا غرق کر دیتا ہے ۔ اور جس ادارے میں جاتا ہے وہاں جا کر
موصوف خوب لوٹ مار کرتے ہیں۔جب ایسے بچوں کو اپنے بہن بھائیوں پر ترس نہیں
آتا تو پھر وہ غیروں پر کیا رحم کھائیں گے انہیں تو صرف مال کھانے کی فکر
ہوتی ہے۔ یہ سب اور اس سے بھی بہت زیادہ برے کام ہم لوگ کرتے ہیں تو کیا اب
بھی ہم عوام بے قصور ہے۔
گاڑی ٹھیک کروانے ورک شاپ جاؤ تو وہ کھال اتار لیتا ہے۔ درزی سے کپڑے
سلوانے جاؤ یا مارکیٹ جاؤ ہر کوئی بس چاہتا ہے کہ دوسرے کی جیب خالی کروالے۔
ہر کوئی امیر ہو یا غریب ،جاہل ہو یا پڑھا لکھا اسی چکر میں ہے کہ دوسرے کی
دولت پر کس طرح ہاتھ صاف کریں۔ہم اپنے گھروں میں عتاب بن کر داخل ہوتے ہیں
لیکن باہر ہم اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کرتے ہیں ہر ایک سے بڑی نر می سے
بات کر تے ہیں۔گھر ہو یا گھر باہر ہر جگہ ماحول کی خرابی کی وجہ ہم عوام ہی
ہیں۔
کبھی کسی کو طلاق دلوا دیتے ہیں کسی کا رشتہ اگر طے ہو گیا تو ختم کروا
دیتے ہیں۔کسی کی نوکری اور کسی کا کاروبار ختم کر دیا۔ہر وقت شیطانی کا کام
کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔کسی کو اپنے گھر ہنستا کھیلتا ہم دیکھ نہیں
سکتے۔ہر کسی کے ہاتھ میں ماچس ہے۔ تیلی جلائی اور دوسرے کے گھر پھینک دی
اور پھر تماشا دیکھنے پہنچ گئے ان کے گھر۔
یہ اورایسے بہت سارے برے کام کیا جو بھی وقت کا صدر،وزیراعظم یا وزیراعلیٰ
ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کام کرو۔
یہ بات زہن میں رکھو کہ اگر ہمیں حکمران اچھے نہیں مل رہے 63-62سالوں سے تو
یہ ہمارے ہی اعمال کا نتجہ ہے۔ کیا جو لوگ پاکستا ن میں اﷲ اور رسولؐ پاک
ڈر سے برے کام نہیں کر رہے۔ٹیکس،بل وغیرہ سب ادا کررہے ہیں۔
قانون کا احترام کرتے ہیں۔دوسرے کی جان مال عزت سے نہیں کھیلتے ۔ ہمسائے کو
تنگ نہیں کرتے بہن بھائیوں کا حق نہیں مارتے۔ ان کی جائداد انصاف سے ان کے
حصے کے مطابق ان کو دے دیتے ہیں۔ سفارش یا رشوت سے کوئی ناجائز کام نہیں
کرواتے۔ تو جب وہ مٹھی بھر لوگ جب اچھے حکمران کا انتطار کیے بغیر اچھے کام
کیے جار ہے ہیں۔ اﷲ اور اس کے رسولِ پاکﷺکو راضی کرنے کیلئے۔تو تم سب بھی
برے کام چھوڑکر اچھے کاموں کی طرف آجاؤ ۔ وعدہ تو ہم پوراکرنا ہی بھول گئے
ہیں۔ ہر جگہ وعدہ خلافی۔
آخرہم کب تک ہر کا الزام حکم انوں پر لگا کرخود بے قصورہتے رہیں گے۔ ہم
جھوٹی قوم ہیں۔ ہر بات جھوٹ۔صبح سے شام جھوٹاکا کاروبار۔ یہ ساری افراتفری
عوام ختم کر سکی ہے۔ ایمان داری گھر باہر لیکن نہیں ملتی۔ہر کسی کو ہم عوام
دھوکہ دیتے ہیں۔ ہم تو اتنی بے خوف قوم ہیں بلکہ بے شرم اور ایک
اوربیا۔۔۔۔۔ ہیں ۔ جلیں بے نہیں لگائے یہ کہہ لیتے ہیں کہ ہم میں غیرت ہی
نہیں۔ بے خوف اس لیے کہ اتنا بڑا زلزلہ آیا دنیا سن کر کانپ گئی لیکن ہم اﷲ
سے نہ ڈرے۔
اور بے شرم کہ ہم کو شرم نہ آئی ہم ان کے گھروں کے ملبے ان کا سامان لولٹنے
چل پڑے جوان کو امداد ملی وہ کھا گئے۔ ان کا سامان لوٹ لیا ان تک نہ پہنچے
یہ سامان ہم راستے ہی میں اس پر ہاتھ صاف کر لیں۔سیلاب تو وہ بدترین سیلاب
آیا ۔ ہم کشتیاں لے کر ان لوگوں کے گھروں کا سامان لوٹنے پہنچ گئے۔ جو جان
بچاکر گھروں سے خالی ہاتھ نکل گئے تھے۔
غیرت تو ہم میں اپنی نہیں کہ لوگ ہم کو دنیا میں ہر جگہ دیکھ رہے ہیں۔ ہم
کوئی اچھی حرکت کریں۔زلزلے کی امداد اوپر سے نیچے تک سب نے والد صاحب کا
مال سمجھ کر کھا لیا اور پھر سیلاب میں کوئی ہماری مددکرنے کو تیار نہ تھا۔
اعتبار ہی اٹھ گیا ۔دنیا والوں کا۔ کون کون سی خوبی بتائی جائے اگر بتانے
لگوں تو ناول لکھا جائے۔دوسروں میں تبدیلی لانے کی بجائے اپنے اندر تبدیلی
لاؤ ۔دوسروں کو بدلنے کی بجا ٰے خود کو بد لیں۔ ہر وقت دوسروں کو بُرا کہنے
کی بجا ئے اپنے اندرسے ہر برائی ختم کریں۔
شا دی کے مو قع پر ہم رسم و رواج میں حد سے گذر جا تے ہیں اور جب بہو رانی
گھر آتی ہیں تو ان پر ظلم وستم سے بھی ہم حد سے گزر جا تے ہیں اور پھر جب
کے پا س طا قت آتی ہے تو پھر وہ حد سے گزر جا تی ہے۔ ہر چیز حد میں اچھی
لگتی ہے۔ سارا قصور ہمارا ہی بتائے جارہی ہیں۔ایک خاتون زرا غصےّ سے بولیں۔
اگر جھوٹ کہہ رہی ہوں تو بتائیں۔اگر آپ لوگ گھرکے ماحول کو انصاف پسند
بنالیں۔تو ہمارے گھرواں میں لوگ سکھ کا سانس لیں۔ہر وقت آگ برساتے لوگ۔
ایسے ماحول سے کیا ہمارے بچے اچھے شہری یا اچھے انسان اچھے مسلمان بن سکتے
ہیں۔ اگر آپ ان بچوں کو اچھا مسلمان بنادیں۔(ہم تو نام کے مسلمان ہیں) تو
پھر وہ اچھے شہری اور اچھے انسان تو خودبحود بن جائیں گے۔ سیاحت کو کیا
فروغ دیں۔ سیاحوں پر بھی ہم اچھا تاثرنہیں دیتے۔ وہی جھوٹی اور بے ایمان
قوم۔ وہی دھوکے کا کاروبار اور ہر جگہ گندگی چھوٹی چھوٹی بات پر غصہّ
گالیاں۔کوئی ہم کو اچھی قوم کہتا ہوگا؟ چند خواتین کھٹرے ہوئے ہوئے بولیں
ہم چلتے ہیں۔ بڑی مشکل باتیں کرتی ہیں آپ ہم تو زرا اپنی پریشانیوں کو
بھولنے کیلئے یہ چھوٹی سی پارٹی کرتے ہیں آپ نے تو ہمیں اور بھی پریشان کر
دیا ہے۔ آپ اپنے کوبدل لیں صرف اتنا کہ آپ کی وجہ سے کوئی پریشان نہ ہو۔تو
پھر دیکھیں آپ کبھی پریشان نہ ہوں گی۔
جب ہم کسی کو پر یشان کرتے ہیں ناں توپھر خود پریشان ہونا تو ایک فطر ی عمل
ہے۔ میں نے کہا ۔ بھئی بڑی مشکل باتیں کرتی ہیں آپ ہم کون سے ولی قلندر
مولوی ہیں عام سے بندے ہیں۔وہ خاتون بولیں۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ عام بندوں
سے اﷲ نے حساب نہیں لینا ۔ کیا کوئی ایسی سہولت یا کوئی پیکیج دیا ہوا ہے
اﷲ نے کہ لوگوں سے حساب نہیں لوں گا اوراسلام کے اصولوں پر صرف ولی ، قلندر
یا مولوی عمل کریں گے حساب تو اﷲ چاند سورج سے بھی لیتا ہے۔ چونٹی سے لیکر
ہا تھی سب مخلوق سے حساب لیا جائے گا۔
انسان جو تمام برائیوں کی جڑہے جس نے زمین پر ہر مخلوق کی زندگی عذاب بنادی
ہے چاہے سمندر میں رہتی ہو یا زمین پر ۔ وہاں ایسے بہانے نہیں چلیں گے کہ
اﷲ میں تو جاہل تھا ،غریب تھا کمزور تھا ۔مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔ اپنے
فائدہ کی بات کا پتہ ہے۔جہاں اپنا مطلب آیا قرآن اور سنت کولے آئے۔ اپنے آپ
کو سیدھی راہ پر ہم لوگوں کو آنا ہی پڑے گا کب تک ہم دوسرے کو قصور وار اور
اپنے آپ کو بے قصور سمجھ کر اس معاشرے کی برائیوں میں اضافہ کرتے رہیں گے۔
اب اس معاشرے کو برائیوں سے پاک کر نے کیلئے پہلے ہم کو اپنے اندر کی تمام
برایؤ ں کو دور کرنا ہوگا جب ہر فرد ایسا کرے گا تو پھر سارا معاشرہ ہر
برائی سے پاک صاف ہوجائے گا۔
کئی حکومت بدلیں لیکن ہم (عوام) نہیں بدلے اس لیے کھچو نہیں بدلا۔ تبدیلی
چاہیے ہیں تو پہلے اپنے اندر تبدیلی لے کرآئیے۔ انقلاب کی باتیں کرنے اپنے
اندر انقلاب لے کرآئیں۔ جس دن آپ اپنے دل میں انقلاب آگیا اس دن ہی سب
منظربدل جائیں گے۔ لیکن باجی ہم غریب تو کھجو نہیں کرتے (پاس بیٹھی ان کی
کام والی بولی) اس خوش فہمی میں کوئی نہ رہے کہ ہم کچھ نہیں کرتے۔ کیا تم
اپنا کام ایمان داری سے کرتی ہو۔ جب مرضی چھٹی کرگئے۔ بغیر بتائے کام
چھوڑکر چلی جاتی ہو۔
یہ سو چے بغیر کہ اس گھر نے تمہارے ہر برے وقت میں تمہاری ہر طرح سے مددکی
۔ احسان فراموشی تو ہماری قوم میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہے۔ ہم تو والدین کے
احسان مند نہیں ہوتے۔ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا مزدور ہو یا کاریگر کسی بھی
کام کاکیا مجال ہے جو اپنا کام عبادت سمجھ کر کرے۔ کہ میں نے کسی کو دھوکہ
نہیں دینا۔ہم تو پانی ہمسائے تک نہیں جانے دیتے۔ موٹرلگا کر سارا پانی
کھینچ لیتے ہیں۔آجکل ہم گیس پائپ سے کھینچ لیتے ہیں۔ ہماری بلاسے کسی کو
گیس ملے نہ ملے۔ہم کوہیڑ، گیزر چلارہے ہیں مختلف قسم کے پکوان پک رہے ہیں۔
زرا دوسرے کا احساس نہیں کہ گرمیوں میں پانی اور سردیو ں میں گیس احتیاط سے
استعمال کر یں تاکہ سب کو اتنی تو گیس مل جائے کہ وہ صرف اپنا کھانا
پکالے۔اچھے پیسے والے بھی اور ہے ہیں کہ 140کلو گیس لیں کہ160,140کی سبزی،
پیاز، لہسن لیں ہم لوگ ایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں؟تو پھر ہم یہ کیوں کہتے
ہیں کہ حکومت میں جولوگ ہیں وہ عوام کا حیال کیوں نہیں کرتے۔ اس کا بیڑا
غراق کرنے کیلئے ہزاروں طریقے اپناتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی ہر کسی کا جینا
محال کیے ہوئے ہے۔ چاہے کوئی حکومت میں ہو یا گھر میں آفس میں مارکیٹ میں
اسکول کالج ہر جگہ ہر گاؤ ں ہر گوٹھ میں سب نے قسم کھائی ہوئی ہے۔کہ کسی کو
سکھ کا سانس لینے نہیں دینا اور پھر ایسے لوگوں کو خود بھی سکھ کا سانس
نصیب نہیں ہوتا۔ جو دوسروں کو بے چین کرتااسے خودکب سکون کی نیند نصیب ہوتی
ہے-
لیکن حیرت اس بات پر ہو تی ہے کہ ایسے لوگوں کو خاندان کے خاندان برباد کر
کے بھی کچھ احسا س نہیں ہوتا کہ انہوں کتنا بڑا کسی کے ساتھ ظلم کردیا ہے۔
ہم سب اپنے انور کی آواز کو سنے اپنے آپ سے پوچھیں کہ میں نے کتنے آباد گھر
بر بادکیے۔ لیکن حسد کی آگ نے نیکی کے ہر جزبے کو جلاکر لاکھ کر دیا ہے۔ اب
بھی سچی توبہ کر کے جیو اور دوسروں کو بھی جینے دو۔ دوسروں کو سکھ دو گے تو
خود بھی سکھی رہوگے۔ آپ کو ٹی وی کے کسی پروگرام میں جانا چاہیے۔ تاکہ آپ
کی اتنی اچھی باتیں کروں گی تو لوگ چینل بدل دیں گے ۔آپ لوگوں کی مہربانی
کہ آپ نے بات سنی۔
اور رہی لوگو ں تک بات پہنچنے کی۔ تو میں نے آپ لوگو ں کوبات پہنچا دی ہے
اب آپ لوگو ں کا فر ص ہے کہ دوسروں تک یہ باتیں پہنچا دیں اور خود بھی عمل
کریں اور دوسروں کو بھی ایسا کر نے کو کہیں۔تب ہمارے پاکستان میں بھی نئے
باب کاآغازہوگا۔ جب ہم بدلیں گے۔ تب انقلاب آئے گا ۔حکو مت کے بدلنے سے کچھ
نہ ہوگا حکومتیں تو بدلتی رہیں لیکن کچھ نہ ہوا۔اب ہم کو بدلناہے۔تب ہی
ہمارے بچوں کی تقدیر بدلے گی۔ یہ ٹھان لیں کہ نہ ہم نے گناہ کرناق ہے نہ
کوئی جرم کرناق ہے۔ حکو مت کے ڈنڈے کا انتطار نہ کریں کہ جب وہ چلے گا تب
ہم بھی سب بُرے کام چھوڑدیں گے۔حکومت کی سختی کا انتطار نہ کریں۔بلکہ اﷲ کی
لاٹھی سے(جوبے آواز ہوتی ہے) ڈرکر سب بُرے کاموں توبہ کرلیں ۔ اس سے پہلے
کہ اﷲ کی لاٹھی چلے۔آپ سب خودہی جلدی سے سیدھے لاستے پر اجائیں۔
اپنی نیت ٹھیک کر لیں۔ پر وقت دوسروں کا مال ہضم کرنے کے چکر میں نہ رہیں
جو حود محنت سے کمائیں وہی کھا ئیں۔ دوسروں کی جائیداد کھانے کے چکر میں نہ
رہیں۔ یہ طریقہ کارچھوڑدیں کہ خود مزے سے رہیں۔ خود جئیں لیکن دوسروں کو
جینے نہ دیں۔آپ اپنے بہن بھائیوں کا جینا حرام کرکے اپنی اولادکو یہ سبق دے
رہے ہیں کہ کل تم بھی اپنے بہن بھا ئیوں کے ساتھ ایسا کرنا ۔کسی کا سکھ چین
کیوں چھین لیتے ہو۔یادرکھو وہ دن بھی دور نہیں جب تمہارا سکھ چین چھینے لوگ
نئے رشتے دار بن کر تمہارے گھر آجائیں گے۔
( حمیرا ساجدپیر) 16-1-2012
|