کالج میں لیکچر چل رہاتھا ایک طالب ِ علم نے تاریخ کے
پروفیسر سے دریافت کیا سر!لڑائی اور جنگ میں کیا فرق ہے؟
اس کا ایک جواب تو یہ بھی ہو سکتا تھا لڑائی۔۔لڑائی ہوتی ہے اور جنگ ۔۔ جنگ
۔۔۔مگر پروفیسر نے متانت سے جواب دیا لڑائی دو یا دو سے زائد فریقین میں ہو
سکتی ہے لیکن جنگ ملکوں کے درمیان ہوتی ہے
سر!طالب ِ علم نے سرہلاتے ہوئے پھر پو چھا آپ طالبان کو کیا سمجھتے ہیں
جنہوں نے حکومت کو جنگ کی باقاعدہ دھمکی دیدی ہے بتائیے نہ طالبان کیاہیں
فریق یا ۔۔؟۔پروفیسرکو چپ لگ گئی شاید کچھ سوالوں کے جواب نہیں ہوتے ۔یا
پھر اتنے تلخ کہ چپ ہی بھلی ۔۔۔یہ تو ایسے ہی ہوا نہ TVپر ڈرامہ کے دوران
اچانک’’ ساتھی ‘‘ کا اشتہار آیا جائے اور کوئی بچہ بھولے پن سے اپنے والدین
سے پوچھ بیٹھے یہ ساتھی کیا ہوتاہے ؟ تو ان کی حالت دیکھنے والی ہو جاتی ہے
۔۔۔ یہ دہشت گردی کا خوف ہے کہ طالبان ۔۔ پوری سٹیٹ کے مد ِ مقابل آ کھڑے
ہوئے ہیں پائیدار امن کی خاطر یہ بھی گواراہے دنیا کا ہر مسئلہ مذاکرات کے
ذریعے حل کیا جا سکتاہے امن کی خواہش اچھی بات ہے لیکن روایات اور اخلاقیات
کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے سب سے پہلے طالبان کو ان عناصرکا کھوج بھی
لگانا چاہیے جو ان کا نام ا ستعمال کرکے پھر کشت و خون کا بازار گرم کرنا
چاہتے ہیں انتہا پسندوں کو بھی حالات کی نزاکت سے آگاہ کیا جائے کیونکہ
انتہا پسند اتنے شقی القلب ہیں ان کو بچوں ،بوڑھوں ،خواتین نو جوانوں الغرض
کسی پر ترس نہیں آتا ان حالات میں طالبان سے حکومت ِپاکستان کے مذاکرات خوش
آئندبات ہے امن کا آخری موقع ضائع نہ کیا جائے کیونکہ پاکستان ایک طویل
عرصہ سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکارہے۔ مذاکرات کے دوران دہشت گردی
کے کئی واقعات ہوئے لیکن حکومت اور عسکری قیادت نے بڑے صبر و تحمل کا ساتھ
دیا حکومت کی طرف سے کئی اہم طالبان رہنما ؤں کی رہائی خیر سگالی کے جذبہ
کااظہارہے مذاکرات کے ساتھ ساتھ خود کش حملے یہ ایک انتہائی خطرناک بلکہ
خوفناک بات ہے طالبان کواس کااحساس کرنا چاہیے خدانخواستہ مذاکرات ناکام
ہوئے تو پاک فوج ہر قسم کے ایکشن کیلئے پوری طرح تیارہے اور شنیدہے کہ یہ
ملٹری ایکشن آخری انتہا پسند اور دہشت گردکے خاتمہ تک جاری رہے گا اس لئے
حالات کی سنگینی کو ملحوظ ِ خاطررکھا جائے عوام کی اکثریت کا ایک خیال یہ
بھی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات جمہوریت کوناکام بنانے کی سازش بھی ہو سکتے
ہیں یہ حقیقت ہے کہ خودکش حملے کرنے والے اسلام کوبدنام کررہے ہیں دنیا کا
کوئی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا اسلا م تو سلامتی کا درس دیتا ہے
خودکش حملوں سے خوف وہراس پھیل رہا ہے ۔دہشت گردی کے واقعات پاکستانی معیشت
کو تباہ کرنے کی عالمی سازش بھی ہو سکتی ہے، بم دھماکے،خودکش حملے اوردہشت
گردی کے واقعات سے ہر شہری سہما ہوا ہے کہ نہ جانے کب کاکیا ہو جائے اس لئے
ہرپاکستانی وطن کی سلامتی کیلئے دعاکرتا پھررہاہے اور موجودہ حکومت بھی
ملکی دفاع ناقابل تسخیر بنانے کیلئے پر عزم ہے انتہا پسندچھوٹی سوچ کے مالک
ہیں حکومتی رٹ تسلیم کرلیں جب تک ایک بھی محب وطن زندہ ہے پاکستان اور
جمہوریت کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی ،اسلا م تو امن و سلامتی کا
درس دیتا ہے دہشت گرداسلامی تشخص کو مسخ کررہے ہیں ایک خیال یہ بھی ہے کہ
جمہوریت کو مستحکم بنا کرا نتہا پسندی کو شکست دی جا سکتی ہے عوام تمام
سیاسی اختلافات کو بالا طاق رکھ کر موجودہ حکومت کی بھرپور حمایت کریں تا
کہ دور حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔ مذکرات کے نتیجہ میں امن و
امان کے قیام کیلئے دونوں فریقین سنجیدگی سے زمینی حقائق کی روشنی بات چیت
کریں تاکہ کسی منطقی انجام تک پہنچا جا سکے یہ بات پیش ِ نظررکھی جائے کہ
اسلام ہر قسم کی انتہا پسندی کے خلاف ہے خودکش حملہ آور اپنے رویہ پر
نظرثانی کریں تو امن وامان ہو سکتا ہے ملک دشمن عناصر پاکستان میں سیاسی
واقتصادی استحکام نہیں چاہتے پنجاب کے وزیر ِ اعلیٰ میاں شہباز شریف نے
توواشگاف الفاظ میں بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار بھارت کو
قرارددیا ہے انہوں نے بھی کہا ہے کہ اس بارے ٹھوس ثبوت موجود ہیں دہشت گردی
کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو نے سے لوگ اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا اٹھا کر
تنگ آگئے ہیں ہر محب ِ وطن کی خواہش ہے کہ حکومت دہشت گردی کوسختی سے کچل
ڈالیجس سے ہزاروں بے گناہ شہری شہید ہو چکے ہیں اور ملکی معیشت کا حال بھی
براہے اس لئے دونوں فریق مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں تاکہ ملک میں پائیدار
امن قائم ہو سکے طالبان سے بھی گذارش ہے کہ بات بات پر جنگ کی دھمکی مناسب
بات نہیں اس سے امن مذاکرات سبوتاژ ہونے کا خدشہ ہے۔
دھوپ چھاؤں الیاس محمد حسین
|