ہماری تاریخ میں سانحے اس تواتر
سے ہورہے ہیں کہ اب کسی بھی مقام کا نام بغیر کسی سانحے کے یاد نہیں کیا
جاتا، سانحہ کارساز، سانحہ راولپنڈی، سانحہ مری، سانحہ نشتر پارک ۔۔۔ اور
نہ جانے کتنے سانحے ہیں جو یاد آتے چلے جاتے ہیں، ن سانحوں میں ایک اضافہ
سانحہ کھوڑی گارڈن ہے۔ قدیم شہر میں گنجان کاروباری علاقہ میں کھوڑی گارڈن
سے میرا تعارف پرانی کتابوں اور رسائل کے سبب ہوا تھا۔ یہاں پرانے رسالے،
کتابیں، اور ہر طرح کا سامان ملتا تھا۔ اب کتابوں اور رسالوں کی دکانوں میں
کاسمیٹکس کا سامان، الیکٹرونک کے آئیٹم،اور کھانے پینے کا سامان فروخت ہوتا
ہے۔
پیر کے روز یہاں راشن کی تقسیم کے دوران پیش آنے والا واقعہ ہماری اجتماعی
بے حسی، عوامی بدنظمی، بڑھتی ہوئی غربت، اور انسانی مجبوری کی المناک
داستان ہے۔ کھوڑی گارڈن میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے ۸۱
خواتین جاں بحق ہو گئی جبکہ متعدد خواتین زخمی ہیں۔ مفت راشن تقسیم یا
زکواة یا خیرات، یا غریبوں کو کپڑوں کی تقسیم کا اس شہر کے ہر علاقے میں
ہوتا ہے۔ لیکن پہلے یہ کام لوگوں کی تعداد کے لحاظ سے نہایت خوش اسلوبی سے
جاری تھا۔ لیکن اب ہر روز لاکھوں افراد کے خط غربت سے نزدیک ہونے سے اس
تعداد میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ جہاں بھی کہیں زکواة یا کسی نوعیت کی
مفت تقسیم کا شور ہوتا ہے، سینکڑوں لوگ پہنچ جاتے ہیں، نظم وضبط کی ہماری
قوم میں کوئی عادت ہی نہیں ہے۔ اچانک بھگدڑ مچنے کا یہ نیا واقعہ نہیں ہے،
کئی سال پہلے راولپنڈی میں ایک مزار میں بہشتی دروازے میں کئی ہلاکتیں
ہوچکی ہیں۔ کراچی میں فیضان مدینہ میں بھی ایسی ہی بھگڈر میں بہت سے خواتین
جاں بحق ہوئی تھیں۔ خواتین یوں بھی کمزور ہوتی ہیں، جلد صدمے کا شکار ہوتی
ہیں اور بے ہوش ہوجاتی ہیں۔ یہاں بھی اکثر خواتین کی ہلاکت دم گھٹنے سے
ہوئی ہے۔ اس میں مفت راشن تقسیم کرنیوالے چودھری افتخار کا کوئی قصور نہیں
ہے۔ جسے پولیس نے محض اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے گرفتار کر لیا ہے۔ ہمارے
حکام واقعے پر نوٹس لینے اور رپورٹ طلب کرنے اور تحقیقات کا حکم دینے کی حد
تک ہیں۔ وہ اس طوفان کا ادراک ہی نہیں رکھتے جو ہمارے معاشرے کو بہا کر لے
جارہا ہے۔ ہم متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کو اہم سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا
ایک دو لاکھ روپے ایک انسانی جان کی قیمت ہوسکتے ہیں۔ بعض لوگ سانحہ کھوڑی
گارڈن کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہیں کہ مہنگائی کے سبب سفید پوش طبقے
کو حکومت نے بھکاری بنا دیا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ تباہ
ہورہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے جلسے۔۔۔ بم دھماکے۔۔۔ تحریک آزادی عدلیہ۔۔۔
فائرنگ۔۔۔۔ خود کش حملے۔۔۔ دہشت گردی کا شکار۔۔۔ ریاستی بدمعاشی۔۔۔ معاشی
بدحالی۔۔۔ حکومت اور حزب اختلاف میں تصادم۔۔۔ تحاریک بحالی جمہوریت۔۔۔ اناج
کا بحران۔۔ چینی کا بحران، بجلی، گیس، پانی کے بحران۔ اور اس پر ستم یہ کہ
ہر ظلم کا شکار۔۔۔ نہتی اور مظلوم پاکستانی غریب عوام۔۔۔ جن کو ہر بااثر
طبقے نے استعمال کیا چاہے وہ سیاستدان ہوں ملا ہو ں یا آمر۔۔۔ اس واقعے کے
اصل ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کی ہے
اور وہ مال بنانے اور لوٹ مار کا کوئی موقع نہیں ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ ایک
طرف ہم نے آئی ایم ایف کے حکم پر سبسڈی ختم کی ہیں تو دوسری طرف اربوں روپے
کی اسکیموں میں غریب عوام کو مختلف اسکیموں کے ذریعے ریلف دینے کا ڈھونگ
رچایا جارہا ہے۔ اس کا آسان حل تو یہ تھا کہ حکومت راشن کارڈ اسکیم کا
اجراء کردیتی۔ لوگ عام مارکیٹ سے نہ سہی راشن کی دکانوں سے ہی آٹا، چینی،
گھی، چائے حاصل کر لیتے۔ اگر ہمارے حکام عوام کے ذرا بھی ہمدرد ہوتے تو
مہنگائی پر قابو پانے کی کوشس کی جاتی۔ لوگوں کو روزگار مہیا کیا جاتا۔ تو
اتنی بڑی تعداد میں زکوٰة لینے والے افراد نہیں ہوتے اور رش کی وجہ سے
بھگدڑ نہیں مچتی۔
روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کہاں گئے، طاقت کا سرچشمہ عوام کیا ہوئے۔ سچ تو
یہ ہے کہ ہم اپنے وعدوں اور دعوؤں میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں اتنے برے حالات پچھلے کسی دور حکومت میں نہیں رہے۔ آمروں کے
دور میں لوگوں کو روٹی کی فکر تو تھی مگر اب تو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں
اور حکومت خالی نعروں اور کھوکھلے دعووؤں سے عوام کو طفل تسلی دینے میں
مصروف ہے۔ ارباب اختیار کی یہ بے حسی طوفان سے پہلے کا سکوت بھی بن چکی ہے۔
سچ یہ ہے کہ خونی انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ |