امریکہ میں سی آئی اے کیا کاروائی قیدیوں پر انسانیت سوز
مظالم پر چھ ہزار صفحات نے ایک رپورٹ نے تلکہ مچایا ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے
مطابق جارج بش کے دور میں ’’بلیک سائٹس ‘‘نامی خفیہ مقامات پر اسیروں کو
انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا گیا، ان طریقوں کی ناکامی کے باوجود
نتیجہ خیز قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان انسانیت سوز مظالم کے
باوجود دہشت گردی روکنے میں مدد نہیں ملی، بہت سے اہلکاروں نے اس طریقے سے
اختلاف بھی کیا لیکن اسے نظر اندازکیا گیا، اب برسہا برس گذرنے کے بعد
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ خفیہ ایجنسی سی آئی
اے نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزمان سے تفتیش کیلئے وحشیانہ طریقے
استعمال کئے اور ان کے بارے میں حکومت اور عوام کو گمراہ کیا، 6300صفحات پر
مشتمل اس رپورٹ میں کمیٹی نے بتایا کہ کہ سی آئی اے نے تفتیش کے یہ ظالمانہ
طریقے سابق صدر بش کے دور میں اختیار کئے، ’’بلیک سائٹس ‘‘ نامی خفیہ
مقامات پر متعدد اسیروں پر انسانیت سوز مظالم کئے گئے جو مکمل طور پر ناکام
رہے، اس کے باوجود سی آئی اے کے ذمے داروں نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا کہ یہ
طریقے بہت نتیجہ خیز ثابت ہوئے کیونکہ ان کی بدولت اسیر ملزمان سے اہم
معلومات حاصل کی گئیں، سینیٹ کمیٹی نے اس دعوے کو یکسر غلط اور بے بنیاد
قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب یہ حقیقت ثابت ہوگئی ہے کہ ان ناپسندیدہ طریقوں
کے نتیجے میں اسیروں سے کوئی اہم اطلاع نہیں مل سکی، جو خفیہ اطلاعات مل
سکیں وہ بھی ان اذیت ناک طریقوں سے نہیں بلکہ دنیا بھر میں رائج تکنیکی
طریقوں کے نتیجے میں حاصل ہوئیں، یہ طریقے اس قدر بہیمانہ تھے کہ سی آئی اے
کے کئی اہلکار انہیں دیکھ نہیں سکے اور انہوں نے ان ہتھکنڈوں سے اختلاف کیا
جسے سینئر عہدیداروں نے مسترد کردیا، اس کے بعد اختلاف کرنے والے کئی
اہلکار ملازمت چھوڑ کر بھاگ گئے، یہ رپورٹ جمعرات کو سینیٹ میں پیش کی گئی۔
لیکن اب بھی سی آئی اے کی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار
نہیں ۔ سی آئی اے کے ذرائع نے سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرے سے انکار بھی
کیا ہے اور بہانہ یہ بنایا ہے کہ ہمیں تاحال اس کی نقل نہیں ملی، رپورٹ
پڑھنے سے قبل ہم کوئی رائے نہیں دے سکتے، امریکی اخبار کے مطابق اس رپورٹ
میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تفتیش کے نام پر قیدیوں کو سرد موسم کے دوران
ٹھنڈے پانی میں ڈبکی لگوانا، ان کے سروں کو دیوار سے ٹکرانا اور طویل
دورانئے تک انہیں سونے نہ دینا بھی شامل تھے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکی
صدر جارج بش کے زمانے میں سی آئی اے کی طرف سے قیدیوں پر تشدد کے طریقوں کے
بارے میں امریکی سینیٹ کو غلط معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ امریکی اخبار
واشنگٹن پوسٹ کا سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے
کہا ہے کہ سی آئی اے نے تفتیش کے اپنے طریقوں کی افادیت ثابت کرنے کے لئے
غلط بیانی کی تھی۔ سی آئی اے کے امریکہ میں ں ایسے خفیہ مقامات ہیں جہاں
قیدیوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ سی آئی اے کے ان خفیہ مقامات کو ’بلیک سائٹس‘
کہا جاتا ہے۔
ان بلیک سائٹس پر قیدیوں پر تشدد کے ایسے طریقے استعمال کیے جاتے تھے جن کے
بارے پہلے کبھی نہیں سناگیا۔ بہت عرصے سے اس بات کی بازگشت سنائی دے رہی
تھی کہ سی آئی اے تشدد کے بہمیمانہ طور طریقے اپنائے ہوئے ہے، ہیومین راٹس
کے کئی ادارے ان پر تنقید کرتے تھے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق
کی کمیٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ امریکی سینیٹ اپنی وہ رپورٹ جاری کرے، جس
میں سی آئی اے کے ہاتھوں تشدد اور ایذا رسانی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ
رپورٹ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی
طرف سے استعمال کیے گئے تفتیشی ہتھکنڈوں کے بارے میں تھی۔ اسی رپورٹ کے
بارے میں سی آئی اے اور امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کے مابین شدید تنازعہ
بھی پایا جاتا ہے۔ ناقدین کے مطابق گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد سی
آئی اے نے ایک تفتیشی پروگرام کے تحت ایسے طریقے اپنا لیے تھے، جو اس
بہیمانہ تشدد کے زمرے میں آتے ہیں جس کی بین الاقوامی قانون کے تحت ممانعت
ہے۔ اس موضوع پر اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی میں امریکی کارکردگی کا
دو روزہ جائزہ جنیوا میں کئی روز جاری رہا تھا۔سی آئی اے کے تشدد کے
پروگرام سے منسلک ایک اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ تشدد کے اس پروگرام کے
نتائج زیادہ مفید نہیں تھے لیکن اس پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے سی آئی اے
نے ان طریقوں کی افادیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا کرتی تھی۔ ابھی اس بات کا
فیصلہ کیا جائیگا کہ 6300 صحفوں پر مشتمل اس رپورٹ کی سمری صدر براک اوباما
کو پیش کی جائے یا نہیں۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق سی آئی اے
ہیڈکوارٹر کے اہلکاروں نے یہ جانتے ہوئے کہ اس تشدد سے زیادہ مفید نتائج
حاصل نہیں ہو رہے لیکن اس کے باوجود انھیں جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ایک
اہلکار کا کہنا تھا کہ القاعدہ کے رکن ابو زبیدہ سے تمام اچھی معلومات
انھیں 83 بار واٹربورڈنگ کیے جانے سے پہلے ملی تھیں۔اس رپورٹ میں قیدیوں کی
حالت زار کے بارے میں سی آئی اے میں پائے جانے والے اختلافات کی نشاندہی
بھی کی گئی ہے۔ایک ماہ پہلے سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے سی آئی اے کی طرف
سے سینیٹ کے کمپیوٹروں تک رسائی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ الزام
البتہ سنگین ہے کہ 'سی آئی اے' مشتبہ دہشت گردوں سے پوچھ گچھ کے منصوبوں کے
متعلق عوام اور قانون سازوں کو کئی برسوں تک غلط معلومات فراہم کرتی رہی
تھی۔واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے اپنی
رپورٹ میں تصدیق کی کہ 'سی آئی اے' نے پوچھ گچھ کے متنازع طریقے استعمال
کرکے شدت پسندوں سے اہم معلومات حاصل کرنے اور اس کی بنیاد پر دہشت گرد
حملے ناکام بنانے کے جو دعوے کیے، وہ سراسر جھوٹ تھے۔ اکثر اوقات 'سی آئی
اے' کے اہلکار قیدیوں پر بدترین تشدد کرنے سے قبل ہی ان سے یہ معلومات حاصل
کرچکے ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں پوچھ گچھ کے متنازع اور تکلیف دہ
طریقوں سے گزارا جاتا تھا۔
مذکورہ رپورٹ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی جانب سے 'سی آئی اے' کے
متنازع اور پرتشدد 'انٹیرو گیشن پروگرام' کی گزشتہ چار برسوں سے جاری
تحقیقات کا نتیجہ ہے۔اس 'انٹیرو گیشن پروگرام' کا آغاز امریکہ پر 11 ستمبر
2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش کے دورِ حکومت
میں ہوا تھا۔مشتبہ شدت پسندوں اور قیدیوں کیساتھ ظالمانہ اور ناروا سلوک
اور تفتیش کے دوران تشدد کرنے کے الزامات اور شواہد سامنے آنے کے بعد
امریکی حکومت نے اس پروگرام پر پابندی عائد کردی تھی اور اس میں ملوث
اہلکاروں کیخلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ 'سی آئی اے' کے قیدیوں کے ساتھ اس
سلوک پر خود ایجنسی کے اندر بھی سخت اختلافات موجود تھے۔'واشنگٹن پوسٹ'
اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ ایک موقع پر تھائی لینڈ میں قائم 'سی آئی اے'
کے خفیہ قید خانے میں قیدیوں سے پوچھ گچھ کے دوران ان کے ساتھ کیے جانے
والے "ظالمانہ برتاو سے گھبرا کر تفتیش کی نگرانی کرنے والے ایجنسی کے بعض
افسران بھی وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ ابھی یہ رپورٹ عوام کے لئے جاری
نہیں کی گئی ہے۔
سینیٹ کمیٹی نے معاملے کی تحقیقات مکمل کرکے اپنی ضخیم رپورٹ جائِزے اور
اپنا موقف واضح کرنے کے لیے 'سی آئی اے' کے حکام کو بھجوادی ہے جن کا جواب
آنے کے بعد اس کے کچھ حصوں کو عوام کے لیے جاری کیا جاسکتا ہے۔کہا جارہا ہے
کہ پوری رپورٹ عوام کے لئے جاری نہیں ہوگی۔ البتہ تحقیقاتی رپورٹ کی تلخیص
عوام کو جاری کرنے کی سفارش کی جائے گی۔ اس کی حتمی اجازت صدر براک اوباما
ہی دین گے۔ گزشتہ ماہ سینیٹ کمیٹی کے چیئر مین سینیٹر ڈیانے فیسنٹن نے 'سی
آئی اے' پر تحقیقات کے دوران کمیٹی کے زیرِ استعمال رہنے والے کمپیوٹر نیٹ
ورک کی جاسوسی کرنے کے الزامات بھی عائد کیے تھے جس کے بعد یہ معاملہ خاصا
گھمبیر ہوگیا تھا۔
'سی آئی اے' کے حکام نے جوابی الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سینیٹ کمیٹی
کے بعض معاونین نے تحقیقات کے دوران ایجنسی کی بعض خفیہ دستاویزات غیر
قانونی طور پر ہتھیا لی تھیں۔سینیٹر ڈائن فائن سٹائن نے الزام عائد کیا تھا
کہ سی آئی اے کی طرف سے سینیٹ کے کمپیوٹروں کی ہیکنگ ’آئینی فریم ورک‘ کو
کمزور کرنے کے مترادف ہے۔سی آئی اے کے تشدد کے حوالے سے گوانتا نامو جیل
بہت بدنام ہوئی۔ میڈیکل رپورٹس سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ گوانتا نامو جیل
میں قید ایک قیدی پر سی آئی اے اہلکاروں نے دوران حراست ایسا تشدد کیا کہ
اس کے سر پر گہری چوٹ آئی اور وہ عمر بھر کیلئے طبی مسائل سے دوچار ہوگیا۔
عمار ال بلوچ نامی شخص 9/11حملوں میں مدد کے الزام میں قید ہے۔ عمار کے
بلوچ کی پیروی کرنے والے اٹارنی جیمز کونیل نے قیدیوں کے ساتھ ہونے والے
غیر انسانی سلوک کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران بتایا کہ عمار کو سی
آئی اے کی حراست میں سر پر چوٹ لگی جس کی وجہ سے ان کی یاداشت متاثر ہوئی
ہے اور وہ بے خیالی و دیگر ذہنی امراض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ انہیں یہ چوٹ
2003سے 2006کے دوران سی آئی اے کی حراست میں لگی۔ امریکہ نے نائین الیون کے
بعد دنیا بھر خصوصا مسلمان ملکوں سے ہزاروں بے گناہ افرد کو گرفتار کرکے
عقوبت خانوں میں رکھا اور ان پر بد ترین تشدد کیا۔ محمد جواد بھی ان ہزاروں
افراد کی طرح پانچ سال بعد گوانتا نامو بے جیل سے رہا گیا تھا ۔ جن پر
امریکیوں نے جھوٹے الزام لگائے تھے۔ جواد پر دو امریکی فوجیوں پر حملہ کر
کے زخمی کرنے کا الزام عائد تھا۔ اس وقت جواد کی عمر ۱۲ سال تھی۔ انسانی
حقوق کی تنظیموں اور اداروں کے لئے یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ محمد جواد کا قصور
صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ اسے گوانتانا موبے کی خوفناک جیل میں خوفناک
اذیتیں دی گئی۔ اس کا بچپن اس سے چھین لیا گیا۔ لیکن عالمی عدالت انصاف
سوتی رہی۔ اور برسہا برس تک امریکیوں کے بھیانک جرائم پر پردہ پڑا رہا۔ سی
آئی اے کی جانب سے دورانِ تفتیش مشتبہ دہشتگردوں پر جو تشدد کیا جاتا رہا
اس کی تفصیلات اب امریکی دستاویزات کا حصہ ہیں۔ جو آہستہ آہستہ منظر عام پر
آ رہی ہیں۔بدنام زمانہ گوانتاناموبے میں قیدیوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے ان کے
سیل سے ملحقہ کمروں میں دیگر قیدیوں کے قتل کا ڈرامہ رچا کر تفتیش کیے جانے
اور شدید نفسیاتی دباو ڈالے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ امریکی میڈیا کے
مطابق عنقریب جاری کی جانے والی سی آئی اے کی رپورٹ میں گوانتاناموبے جیل
کے قیدیوں سے وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک کیے جانے کا واضح تذکرہ موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق قیدیوں میں جان سے مارے جانے کا خوف پیدا کرنے کیلئے ان کے
سیل سے ملحقہ کمروں میں باقاعدہ فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کر کے قیدی کو عدم
تعاون پر قتل کرنے کا بھرپور ڈرامہ رچایا جاتا تھا۔ قیدیوں کو نشانے پر لے
کر فائر کرنے کا ڈرامہ کیا جاتا اور ڈرل مشین کو جسم کے حساس اعضا کے قریب
چلا کر انہیں دہشت زدہ کیا جاتا رہا۔سی آئی اے کی ان دستاویزات سے پتہ چلا
ہے کہ دوران تفتیش نائن الیون کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو بچوں
کے قتل تک کی دھمکی دی گئی تھی۔ تاکہ اس سے اعتراف کرایا جاسکے۔ چند برس
قبل جاری کی جانی والی ایک رپورٹ کے سنسر شدہ حصوں میان بتایا گیا تھا کہ
درجنوں مواقع پر سی آئی اے اہلکاروں نے مشتبہ شدت پسندوں کو ذہنی اور
جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ امریکہ کی ں ایک عدالت نے حکم دیا تھا کہ سی
آئی اے کے تشدد پر رپورٹ کے ان خفیہ حصوں کو منظر عام پر لایا جائے جنہیں
بش انتظامیہ نے کلاسیفائیڈ کر دیا تھا۔ ان جرائم کی شدت کو دیکھتے ہوئے صدر
باراک اوباما نے دہشت گردی کے اہم ملزمان سے تفتیش کرنے کے لیے ایک نیا
یونٹ تشکیل دینے کی منظوری دی تھی۔امریکی صدر باراک اوباما انتظامیہ نے سی
آئی اے کے حراستی مراکز میں قیدیوں پر دوران تفتیش غیر قانونی تشدد کے
انکشافات کے بعد اس معاملہ کی تحقیقات کرنے پر غور شروع کیا تھا۔ لیکن اس
میں دس سال لگ گئے۔ سی آئی اے اہلکار ان جرائم پر نہ تو شرمندہ ہوئے اور نہ
انھوں نے مقدمات کا سامنا کیا۔ ایک مقدمے میں چھ اہلکاروں پر الزام تھا۔ جن
میں سے صرف ایک کو سزا ہوئی باقی کے بارے میں سی آئی اے کے تحقیقاتی بورڈ
کے ذریعہ پوچھ گچھ کی ہدایت کی گئی۔ تاہم ان میں سے دو نے سی آئی اے بورڈ
کے سامنے پیش ہونے کی بجائے ملازمت سے استعفٰی دے دیا۔ ان ہولناک مظالم کے
بارے میں خود سی آئی اے حکام پریشان ہیں کہ وہ اپنے ان غیر قانونی اقدامات
کا دفاع کس طرح کریں۔نئی پابندیوں کے پیش نظر سی آئی اے نے بھی اپنی حکمت
عملی میں تبدیل کرلی ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا نے اپنے
ساتھیوں کو ایک ای میل بھیجی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے ان
ساتھیوں کا تحفظ کریں گے جنہوں نے اپنے ملک کے لئے خدمات انجام دی ہیں۔ اور
انہیں قانونی امداد دی جائے گی۔ سی آئی اے کے اہلکاروں کو ممکنہ جرائم کے
مقدمات کا سامنا کرنے کی صورتحال پیش آسکتی ہے۔ جرمنی کے ایک ہفت روزہ نے
یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ امریکی سی آئی اے نے گوانتا نامو بے کے قیدی
منتقل کرنے کے لئے بلیک واٹر کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ہفت روزے نے بلیک واٹر
کے دو سابق اہلکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ بلیک واٹر قیدیوں کو مختلف
ممالک منتقل کیا گیا ۔ جہاں قیدیوں پر تشدد میں کوئی رکاوٹ نہیں پیش آئی۔
ان ممالک میں پاکستان، افغانستان، ازبکستان کا نام لیا گیا تھا۔ ابھی ان
چار ہزار گمشدہ افراد کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔ جو دہشت گردی کے شبے میں
غائب کردیے گئے ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو ان مظالم پر آواز
اٹھانی چاہیئے۔ کئی قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ بش انتظامیہ کی جانب سے ان
طریقوں کی اجازت دینا تشدد کے خلاف اس بین الاقوامی چارٹر کی صریحاً خلاف
ورزی ہے جس پر امریکہ نے بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔
ایک واقعے میں سی آئی اے کے ایجنٹوں نے ایک قیدی کا گلا گھونٹا اور وہ بے
ہوش ہوگیا۔ اس قیدی کو جھنجھوڑ کر ہوش میں لایا جاتا اور پھر اس کا گلا
گھونٹا جاتا یہ سلسلہ تین مرتبہ جاری رہا۔سی آئی اے سرد جنگ کے زمانے سے
دنیا بھر میں اپنی حرکتوں کی وجہ سے خاصی بدنام رہی ہے۔ ماضی میں سی آئی اے
کے غیر قانونی کاموں کو وقت کی حکومت کھلم کھلا سرپرسی نہیں دیتی تھی۔ لیکن
سابق صدر بش اور سابق نائب صدر ڈک چینی نیاس بات کا دفاع کیا اور کہا کہ
انہوں نے جو طریقے اپنائے وہ ملک کی سلامتی کے لیے انتہائی ضروری تھے۔ یہ
بات دنیا کے لئے خاصی حیرانی کا باعث ہے کہ کس طرح، بظاہر ایک مہذب اور
ترقی یافتہ ملک میں تشدد کو سرکاری پالیسی کے طور پر اپنایا گیا اور اس کو
’ایڈوانس انٹیروگیشن ٹیکنیکس‘ یا اے آئی ٹیز کا نام بھی دیا گیا۔سابق صدر
بش اور اس کی انتظامیہ نے بڑی محنت کے بعد دس ایسی اے آئی ٹیز دریافت کیں
جو امریکہ کے محکمہ انصاف کے بقول بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں
کرتیں۔ بش انتظامیہ نے تشدد کے جن طریقوں کی منظوری دی تھی ان میں حواس
باختہ کرنا: اس طریقے میں قیدی کے دونوں کاندھوں پر گردن کے پاس پیچھے سے
دونوں ہاتھوں سے سخت دباؤ ڈالتے ہوئے تفتیش کار کی جانب دھکیل کر لایا جائے
گا۔دیوار سے ٹکرانا: اس میں قیدی کو تفتیش کے دوران اچانک زور سے آگے
کھینچا جائے گا اور پھر زور سے اس کو پیچھے دھکیل کر ایک مضبوط گدے کی
دیوار کے ساتھ ٹکرایا جائے گا جس سے اس کے کاندھے (شولڈر بلیڈ) ٹکرائیں گے۔
خیال رکھا جائے گا کہ قیدی کے سر کو سہارا دیکر محفوظ رکھا جائے۔چہرا ساکت
رکھنا: قیدی کا چہرا تفتش کار اپنے ہاتھوں کی کھلی ہتھیلیوں سے مظبوطی سے
پکڑ کر رکھے گا تاکہ ملزم اپنا چہرا نہ ہلا سکے۔بے عزتی کے لیے چہرے پر
تھپڑ: قیدی کو بیعزت کرنے کے لیے یہ ’تکنیک’ استعمال کی جائے گی جس میں
قیدی کے گال پر کھلے ہاتھ سے تھپڑ مارا جائے گا لیکن خیال رہے کہ انگلیاں
کھلی ہوں۔تنگ جگہ میں میں قیدتنہائی: اس طریقے میں قیدی کو چھوٹے یا بڑے،
اندھیرے بکسوں میں بند کیا جاتا ہے تا کہ اس کی ہمت ٹوٹ جائے۔ چھوٹے بکسے
میں قید تنہائی دو گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور بڑے بکسے میں قیدی
کو زیادہ سے زیادہ اٹھارہ گھنٹے تک بند رکھا جا سکتا ہے۔تنگ جگہ میں قیدی
کے ساتھ کیڑے: قیدی کے اندھیرے بکسے میں غیر نقصان دہ کیڑے ڈالے جاسکتے
ہیں۔جوڑوں پر دباؤ: قیدی کو ایک دیوار سے چار پانچ فٹ کے فاصلے پر کھڑا
کرکے اسے دیوار کی جانب اس طرح جھکایا جائے گا کہ اس کے بازو سامنے کی جانب
سیدھے ہوں اور اس کا پورا وزن اس کے ہاتھوں کی انگلیوں پر توازن قائم کرلے۔
قیدی کو اس پوزیشن میں ہاتھ یا پاؤں کی حرکت کی اجازت نہیں ہوگی۔مسلسل دباؤ:
قیدی کو فرش پر بٹھا کر اس کی ٹانگوں کو سامنے کی جانب سیدھا پھیلا کر رکھا
جائے گا، اس کے ہاتھ سر سے اوپر اٹھے ہوں گے یا پھر زمین پر رکھے رہیں گے
جبکہ قیدی کو پیچھے کی جانب پینتالیس ڈگری پر جھکا کر بٹھایا جائے گا۔نیند
نہ کرنے دینا: کسی بھی ایک وقت میں قیدی کو گیارہ دن تک جگایا جاسکتا
ہے۔ڈبونے کا احساس دلانا: اس طریقے کو واٹر بورڈنگ کا نام دیا گیا اور اس
میں قیدی کو ایک بنچ سے باندھ کر بنچ کو ایک طرف سے اس طرح بلند کیا جاتا
ہے کہ قیدی کا سر نیچے جبکے ٹانگیں اٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔ قیدی کا سر ایک جگہ
ساکت کیے جانے کے بعد ایک تفتیش کار اس کے منھ اور ناک پر کپڑا ڈالتا ہے
جبکہ دوسرا اس کپڑے پر آہستہ آہستہ پانی انڈیلتا ہے۔ قیدی کی سانس کی نالی
بند ہوجاتی ہے اس کے جسم میں آکسیجن کی کمی واقع ہوتی ہے اور قیدی کو ڈوبنے
کا احساس ہوتا ہے۔قیدی کو بھاری ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں مسلسل دن بھر ایک
سیل سے دوسرے منتقل کیا جاتا۔اس کے علاوہ کئی اے آئی ٹیز کو مزید سخت بنانے
کے لیے ایجنٹوں نے اپنے طور پر تبدیلیاں کیں۔بعض ایسے ہتک آمیز اور پر تشدد
طریقے بھی اپنائے گئے جن کی بش انتظامیہ تک نے بھی منظوری نہیں دی تھی۔ ان
کے چہرے پر سگار کا دھواں چھوڑا گیا، مخصوص جوڑوں پر دباؤ ڈالا گیا، قیدیوں
کے جسم پر سخت برش استعمال کیا گیا، قیدیوں کی ہتھکڑیوں اور بیڑیوں پر کھڑے
ہوکر ان کو جسمانی اذیت پہنچائی گئی وغیرہ شامل ہیں۔ایک رپورٹ میں خصوصی
طور پر النشیری اور ابو زبیدہ پر کی جانے والی تفتیش کا ذکر کیا گیا ہے۔
الزام کے مطابق ایک اہلکار النشیری کی تفتیش کے دوران ایک خالی بندوق
حوالات کے کمرے میں لایا اور اسے النشیری کے سر پر رکھ کر اس کو ڈرانے کی
کوشش کی۔ اسی دن ایک ڈرل مشین کے ساتھ بھی النشیری کو ڈرایا دھمکایا
گیا۔النشیری کو یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگر اس نے زبان نہیں کھولی تو اس کی
ماں کو اور باقی خاندان کو بھی یہاں لاکر جنسی طور پر بے عزت کیا جائے
گا۔خالد شیغ محمد کی تفتیش میں ایک اہلکار نے ان سے کہا کہ اگر امریکہ میں
مزید حملے ہوئے تو ان بچوں کو قتل کردیا جائے گے۔ایک واقعہ افغانستان کے
اسد آباد فوجی اڈے پر ہوا جہاں سی آئی اے کے منظور شدہ ایک ٹھیکیدار نے چار
دن کے تفتیش کے دوران ایک افغان مشتبہ شخص پر اتنا تشدد کیا کہ وہ ہلاک
ہوگیا۔ خالد شیخ محمد کو ایک سو تراسی مرتبہ واٹر بورڈنگ سے گزارا گیا۔جب
کہ ابو زبیدہ پر تراسی مرتبہ واٹر بورڈ تشدد کا طریقہ استعمال کیا گیا۔جو
قیدی اپنا منھ نہیں کھولتے تھے ان کو ٹھنڈے پانی سے نہلایا جاتا تھا۔ ایک
قیدی کو تفتیش کے دوران ننگا کرکے کئی دن تک سرد کمرے میں رکھا گیا۔ تشدد
کے ایک دوسرے واقعے میں سی آئی اے کا ایک افسر ایک مدرسے کے مولوی سے کچھ
معلومات حاصل کر رہا تھا جس پر مولوی ہنس پڑے تو افسر نے ان کے دو سو طالب
علموں کے سامنے ان کو رائفل کے بٹ اور لاتوں سے پیٹا۔گیارہ ستمبر سن دوہزار
ایک کے امریکہ پر ہونے والے حملوں کے بعد سے اصل میں قیدیوں پر کتنے مظالم
ڈھائے جاچکے ہیں ان کا اندازہ کبھی نہیں لگایا جاسکے گا۔رپورٹ میں بیان کیے
گئے یہ کچھ واقعات ہیں لیکن گیارہ ستمبر سن دوہزار ایک کے امریکہ پر ہونے
والے حملوں کے بعد سے اصل میں قیدیوں پر کتنے مظالم ڈھائے جاچکے ہیں ان کا
اندازہ کبھی نہیں لگایا جاسکے گا۔
|