زبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
زبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن از
تبصرہ کتاب: شیخ التفسیر ابوقاسم محمداسحاق خان المدنی
(8اپریل2014،اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھاگیا)

دیدہ زیب،خوبصورت،مرقع و مرصع اورمجلد شکل میں ترجمہ و تفسیرقرآن مجید مقدس ومحترم ہاتھوں سے موصول ہوئی۔صفحات کشائی کی تو بھینی بھینی سی خوشبونے طبیعت پرابتدائی وانتہائی خوشگوار تاثر ات مرتب کر دیے۔جیسے جیسے ورق گردانی ہوتی گئی تو تفسیر کے ساتھ ساتھ صاحب تفسیر کے قلمستان کے گل چیدہ کی معطر ہوائیں بھی جھونکوں کی صورت میں قرطاس قلب و ذہن پرنقش ہونے لگیں۔از اول تاآخرایک حسن ترتیب سے پروئے ہوئے موتیوں کی مالائے تفسیرسے بنی تسبیح نے ایمان تازہ کردیا۔سچ ہے کہ قرآن مجید زندہ و تابندہ کتاب ہے اور اس کتاب کے پڑھنے والے اور پڑھانے والے،اس پر لکھنے والے اور اس کو لکھنے والے اور اس کتاب زندہ کی آیات سے اسرارورموز کی پردہ کشائی کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں وقت کی قبر کبھی بھی اپنے اندر سمونے سے قاصررہی ہے اور انہیں کبھی دوسری موت نہیں آتی۔

’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘ کی خاص بات اسلوب زبان کی سہل اندازی ہے،جس کے باعث یہ تفسیر جہاں علماء کے لیے سود مند ہے وہاں عوام الناس کا ایک بہت بڑا طبقہ بھی اس تفسیر سے فیض یاب ہوسکتاہے۔دنیابھر کی کوئی بھی زبان کم و بیش نصف صدی کے بعد اپنی کروٹیں بدلنے لگتی ہے اور صدی بھر کے عرصہ گزرنے پر توارتقاء کا بھاری بھرکم سنگ میل اس کی جہتیں بدل ڈالتاہے اور آنے والی اہل زبان نسلوں میں گزشتہ صدی کی زبان اپنی معرفت کھو کراجنبیت کے نقاب اوڑھنے لگتی ہے،جبکہ قرآن مجید کایہ اعجاز ہے کہ اس کتاب زندہ کی زبان صدیاں بیت جانے کے باوجود زندہ و تابندہ ہے اور اس کتاب کے مفسرین نے ہر بدلتی زبان کے ساتھ اس کتاب کی تفسیر کو وقت کی دیگرزبانوں کے ساتھ وابسطہ کر کے قرآن مجید کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن مجید کو بھی زندہ رکھاہے۔کچھ یہی معاملہ اردوزبان کے ساتھ بھی ہے۔اکیسویں صدی کے آغاز پر گزشہ صدی اور گزشتہ سے پیوستہ صدی کی تفاسیرکے اسلوب ہائے زبان و بیان جہاں زبان کے ارتقاء کا ساتھ چھوڑتے چلے جا رہے ہیں وہاں ’’زبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘نے تاریخ کے اس خلاکو بحسن و خوبی پرکیاہے،اورقدیم اردو سے جدید زبان دانی کی طرف جانے والا اردو بان طبقے کے لیے یہ تفسیرایک انمول تحفے سے کم نہیں۔وقت کی رفتارچونکہ مشکل پسندی سے سہل الغۃ کی طرف گامزن ہے اسی لیے صاحب تفسیر کی بھی آسان پزیری نے ’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘کوعصری دھارے کے ساتھ ہم رفتارو سازگار کردیاہے ۔

قرآن مجیدمیں ایک ہی چیلنج ہے اور وہ چیلنج ادیب و شاعرحضرات کو دیاگیاہے کہ اس جیسی کوئی کتاب،کوئی سورۃ یا کوئی آیت ہی بناکر دکھاؤ۔اس چیلنج سے یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ تاقیامت ادبیت کا معیار مسلم و معتمد رہے گا،اورتاریخ انسانی بھی شاہد ہے کہ بڑے بڑے خونی انقلابات کاالاؤ اورکروڑہاانسانوں کو جھلسا دینے والی جنگوں کا تنوربھی قلم کی نوک سے نکلنے والی چنگاری سے ہی بھڑکایاجاتارہاہے۔’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘ ادبیت کے اس معیار پربھی پوری اترتی ہے۔تفسیری شذرات میں فصاحب و بلاغت ،جملوں کااختصاراورالفاظ کا حسن انتخاب بالکل’’خیرالکلام ما قل و دل‘‘کا مصداق ہے۔صاحب تفسیر نے بعض ایسی مباحث جو صدیوں سے حل طلب تھیں انہیں اپنے زورقلم سے اس طرح سمیٹاہے کہ چند سطور میں ہی قاری کوشرح صدر کا مقام حاصل ہوجاتاہے،تاہم اگر کوئی متعلقہ امر پر مزید تفصیل چاہے تو اس کے لیے اپنی تفصیلی تفسیر سے رجوع کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ادب کا طالب علم ’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘ سے بیک وقت علمی پیاس سے آسودگی کے ساتھ ساتھ ادبیت کی چاشنی سے بھی انگبین ہوتاہے۔’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘ کے بعض تفسیری نکات توگویا دریاکو کوزے میں بندکردیاگیاہے لیکن اس کمال قلم اندازی کے ساتھ کہ حق بھی اداہواور کسی طرح کی افراط و تفریط سے بھی قلم گریزاں رہے۔

’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘کی ایک اچھوتی صفت صاحب تفسیر کے تعلق باﷲکا کثرت اظہار ہے۔ہر تفسیری فائدے کے آخر میں اپنی کاوش و کوشش کو اﷲتعالی کی طرف منسوب کرنا کیا خوب اظہار عبودیت ہے۔کہیں تو یہ اظہار بہت مختصر اور آمین یا ثم آمین یا سبحانہ وتعالی اوروباﷲالتوفیق تک محدود ہے جس کا مطلب کم و بیش کل اردو دان طبقہ بخوبی سمجھتاہے اور کہیں بہت طویل عبارتیں بھی نقل کر دی گئی ہیں جیسے ’’والعیاذباﷲالعظیم بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ‘‘اور کہیں اس سے بھی طویل اور دو سطور یااس سے بھی زائد مواد پر مشتمل یہ عبارتیں گویا اپنا معاملہ و اپنی رائے اﷲتعالی کے سپرد کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ہر صفحہ پر اس طرح کی امثال بکثرت موجود ہیں جس سے صاحب تفسیر کا جہاں تعلق باﷲاظہرمن الشمس ہے وہاں حزم و احتیاط اور احساس جواب دہی کے ساتھ ساتھ رب تعالی کے حضورعجزوانکساری کا بھی آئینہ دارہے۔اوراسی طرح جہاں کہیں محسن انسانیت ﷺکا ذکر خیر کیا وہاں فائدے کے آخر میں ’’علیہ الصلوۃ والسلام‘‘یا’’ علی نبیناوعلی سائرالانبیاء والمرسلین ازکی الصلوات واطیب التسلیمات‘‘‘بھی ضرور تحریر کرکے اپنے سچے امتی ہونے کاثبوت بھی پیش کر دیا۔صاحب تفسیر قاری کو اس طرح بھی اپنے ساتھ ساتھ رکھتے ہیں کہ ہر سورۃ کے اختتامی قائدے میں وقت اختتام مع تاریخین و تاریخین نظرثانی بھی درج کرتے چلے جاتے ہیں۔

تفسیر میں چونکہ اختصار پیش نظر ہے اس لیے لغوی،صرفی و نحوی بحثیں کہیں نہیں ملتیں اور اسی طرح بہت ضروری فقہی مسائل تو ضرور درج کیے گئے ہیں لیکن فقہی مکاتب فکرکے متقابلانہ دلائل اور ان دلائل کے حق میں یاان کی مخالفت میں نصوص اور پھر ان نصوص پر اصول روایت واصول درایت کے فنون پر مشتمل نقداور پھر اس نقد سے اتفاق اور اختلاف رکھنے والے علمائے کے ذکر سے ’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘میں کلیۃ اجتناب کیا گیاہے۔صاحب تفسیر کایہ اسلوب ماقبل درج شدہ اس دعوے کو تقویت فراہم کرتاہے کہ یہ عمدہ کاوش بہت جلد عوام میں قبول عام حاصل کر چکے گی،انشاء اﷲتعالی۔اسی اصول کے باعث ’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘میں دورغلامی کی پروردہ فرقہ پرستی کوجگہ میسر نہیں آسکی جو صاحب تفسیر کی بالغ نظری کا ایک بین ثبوت ہے۔پوری تفسیر میں مفسر نے داعیانہ اسلوب تحریر کو پیش نظر رکھاہے اور کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘کاقلم کار اپنے قاری پر کسی طرح کے علمی تفوق کی دھاک بٹھانا چاہتاہے بلکہ صاف اور واضع طور پر محسوس ہوتاہے کہ مفسر قرآن خلوص نیت سے چاہتاہے کہ قرآن کا پیغام قاری کے فکروعقیدہ کا جزولاینفق بن کر اس کے عمل سے عبارت ہوجائے اور انسانی معاشرے کو مسلمانوں میں چلتے پھرتے قرآن مجید نظرآئیں۔

’’خوگرحمدسے تھوڑاساگلہ بھی سن لے‘‘کے مصداق’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘اصول تفسیرکے مطابق ’’تفسیربالماثور‘‘اور’’تفسیربالرائے‘‘کی بجائے تفسیر بالتشریح کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتی ہے۔چنانچہ تفسیر میں تفصیلی تاریخی واقعات اور عصری علوم کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے ،یقیناََیہ امر صاحب تفسیر سے پنہاں نہیں رہا ہوگا لیکن اکیسویں صدی کا مسلمان طالب علم وقت کے علوم وفنون کو بھی قرآن کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کرمطالعہ کرنا چاہتاہے تاکہ جہاں معاندین کے تندوتیزتیروں کا خاطر خواہ جواب دیاجاسکے وہاں خود سے بھی اطمنان قلبی حاصل ہو ۔تہذیبی کشمکش اورگمراہ کن عقیدوں اور ابلیسی فکرکے اس دورمیں آلات وقت کے استعمال بد نے انسان کو ذہنی طورپر مفلوج و معذورکررکھاہے اورسوچنے سمجھنے والا اشرف المخلوقات لکیر کی فقیری کو آزادی افکارکانام دیتاہے ۔قرآن نے متعددمواقع پرقیامت تک کے آنے والے فتنوں کاتوڑبدلائل پیش کیاہے ،پس اب یہ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ قرآن مجید سے توشہ عصریت کشید کرکے نوع انسانی کے سامنے چن دیں تاکہ وقت کے فراعین کامقابلہ بحسن و خوبی کیاجاسکے۔

قرآن مجید اشرف الکتب ہے،اشرف الملئکہ نے نازل کیا،اشرف الانبیاء پر نازل کیاگیا،اشرف الشہورمیں نازل ہوا،اشرف اللیال اس کاوقت نزول بنی،اشرف البقعۃ الارض اس کتاب کی جائے نزول مقررہوئی اور اشرف الامم کو اس کتاب کاحامل تعینات کیاگیا اور خاتم الامرسلین ﷺکے مطابق اس کے پڑھنے اور پڑھانے والے بہترین اثاثہ انسانیت ہیں ۔پس صاحب تفسیر ’’تفسیرزبدۃ البیان فی تفسیرالقرآن‘‘جناب ابوطاہرمحمداسحاق مدنی اس کاوش پرسعادت پر مبارک باد کے مستحق ہیں،اسی تفسیر کی وساطت سے ان کی بقیہ تفصیلی کاوشوں کا بھی معلوم ہوااگرچہ ہنوز ان کے دیدارومطالعہ کی خواہش تشنہ تکمیل ہے لیکن یہ زبان مسلسل دعاگو ہے ’’اﷲکرے زور قلم اور زیادہ‘‘اور ان کی مساعی جمیلہ ختمی المرتبتﷺْکے وسیلہ جلیلہ سے بارگاہ ایزدی میں مقبول و منظورہوں اور ان کے لیے اور انکی روحانی و صلبی نسلوں کے لیے سعادت دارین کا باعث ہواور فقیر کی یہ جسارت بھی کسی سرزنش کاباعث بننے سے بچ جائے تآنکہ ستارالعیوب و غفار الذنوب اپنی مغفرت سے سرفرازکرے،آمین۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.