سلیم کوثر :محبت اِک شجر ہے ،ویلکم بُک پورٹ ،کراچی ،اشاعت پنجم
،جولائی ۲۰۰۴ تبصرہ نگار:ڈاکٹر غلام شبیر رانا
سلیم کوثر کی شاعری کا مجموعہ’’محبت اِک شجر ہے ‘‘پڑھ کر دِل کو خوشی ہوئی
۔جس ذہانت ،خلوص اور دردمندی کے ساتھ اِس حساس تخلیق کار نے اپنے تجربات
،مشاہدات ،جذبات اور احساسات کواشعار کے قالب میں ڈھالا ہے وہ اُس کے ذوقِ
سلیم کی دلیل ہے۔مادی دور کی لعنتوں نے نوع ِاِنساں کو ہوس اور انتشار کی
بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔اقدار و روایات کی زبوں خالی نے گمبھیر صورت اختیار کر
لی ہے ۔اِ ن حالات میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عام لوگ محض اس لیے شعر
وادب کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں تخلیق کاروں سے
یہ سہو ہو جاتا ہے کہ وہ عام لوگوں کی زندگی کو کبھی لائق اعتنا نہیں
سمجھتے۔سلیم کوثر کی شاعری میں عام آدمی کی زندگی کے جُملہ نشیب وفراز اور
معمولا ت کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے ۔وہ خود بھی ایک عام آدمی ہے اور وہ
جن مرحلوں سے گُزرا ہے اُن کا احوال بھی اُس نے عام فہم انداز میں اپنی
شاعری میں بیان کیا ہے۔ سلیم کوثر نے اپنے شعری مجموعے ’’محبت اِک شجر ہے
‘‘میں اہلِ درد کو بے لوث محبت پر مبنی اپنا پیغام عام کرنے کی کوشش کی ہے
اور عام لوگوں کی زندگی میں محبت کی اہمیت کو اُجا گر کیا ہے ۔انسانیت کو
درپیش مسائل پرکُھل کر اظہار خیال کرنا سلیم کو ثر کا شیوہ ٗگفتار ہے ۔اُس
نے شاعرانہ استدلال ،احساسِ جمال ،نُدرتِ تخیل اور ذوقِ سلیم کو رو بہ عمل
لاتے ہوئے تخلیقی عمل کو ایسی منفرد جہت عطاکی ہے کہ قاری اس سے مسحور ہو
جاتا ہے ۔تخلیقِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اتر جانے والی یہ
شاعری قابل، مطالعہ مواد سے لبریز ہے۔اُس کی نظمیں جہاں شاعرانہ
استدلال،تخلیقی فکر و خیال کی مظہر ہیں وہاں یہ ادب پارے تخلیق کار کے
منفرد احساسِ جمال اور ذوقِ سلیم پر مبنی اسلوبیاتی اوجِ کمال کے آئینہ دار
بھی ہیں ۔شاعر نے جس محنت اور لگن کے بروئے کار لاتے ہوئے تخلیقی عمل کو
ہئیت اور اسلوب کی متنوع جہات سے آشنا کیا ہے وہ اُس کی جدت طبع کی دلیل ہے
۔نُدرتِ تخیل پر مبنی اس قسم کے تخلیقی تجربات کے اعجاز سے جمود اور
یکسانیت کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے میں مدد ملتی ہے اور افکارِتازہ کی
نمود کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں ۔یہ نظمیں موضوع اور مواد کے اعتبار سے
قاری کو ایک جہانِ تازہ میں پہنچا دیتی ہیں جہاں ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ
تجلی کی کیفیت ہے اور مرحلہء شوق کبھی طے نہیں ہو سکتا ۔ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ سلیم کوثر کو اس بات کا پُختہ یقین ہے کہ اِس دُھوپ بھری دُنیامیں دُکھی
انسانیت اگر آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رہنے کی آرزو مند ہے تواُسے
محبت کے بُور لدے چھتنار کی گھنی چھاؤں میں پناہ تلاش کرنی چاہیے۔شاعر نے
زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے اور اور یہ
واضح کر دیاہے کہ بے لوث محبت ،خلوص و مروّت اور ایثار پر مبنی تعلقات کے
اعجاز ہی سے دلوں کو مسخر کیا جا سکتاہے ۔محبت بلا شُبہ زندگی کے حقائق کی
ترجمان ہے اور یہ الم نصیبوں کے زخموں کا مرہم ہے ۔ دُکھی انسانیت سے درد
کا رشتہ استوار کر کے سلیم کوثر مرہم بہ دست آگے بڑھتا ہے اور سمے کے سم کے
ثمر کے مسموم اثرات کا تریاق محبت کی صورت میں پیش کرتا ہے :
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دُھول اُڑتی ہے
محبت کی مسافت راہ گیروں کوبِکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اِک شجر ہے
اور شجر کو اِس سے کیا مطلب
کہ اُس کے سائے میں
جو بھی تھکا ہارا مُسافر آ کے بیٹھا ہے
اب اُس کی نسل کیا ہے رنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا
دُھوپ سہنا ہے
سلیم کوثر نے اپنی شاعری میں محبت کو ایک سدا بہار شجر کے رُوپ میں پیش کیا
ہے ۔محبت کا یہ شجر زندگی کے ہر موسم میں اپنی بہار آفرینی کی وجہ سے مرکزِ
نگاہ رہتا ہے ۔آلامِِ روزگار کے مسموم ماحول میں بھی محبت کی وجہ سے غنچہ ٗ
دِل سدا کِھلا رہتا ہے ۔اپنی نظموں بادِشمال ،مجسمہ ٗ آزادی ،احتجاج ،نئی
صدی منتظر کھڑی ہے ،انتظار ،اِسم ِ آب ،تاریخ بے زبان نہیں،ہجرت ،چھاؤں اور
سورج کب مسمار ہوا ہے میں سلیم کوثر نے انسانیت ،وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ
جو عہدِ وفا استوار کیا اُسے علاجِ گردشِ لیل و نہار قرار دیتے ہوئے اُس پر
کا ر بند رہنے کا عزم کیا ہے ۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں زندگی کی اقدار عالیہ کی زبوں حالی نے جو
گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے اُس نے تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں ۔اشہبِ
زمانہ طلب کا تازیانہ کھا کر اس قدر برق رفتاری کے ساتھ دوڑ رہاہے کہ کچھ
معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کہاں رُکے گا۔رخشِ حیات بھی ہوا سے باتیں کر رہا ہے
۔ان حالات میں تمام علوم بالعموم اور سائنس و فلسفہ کی بالخصوص کایا پلٹ
گئی ہے۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے درخشاں اقدار و روایات کو بہائے لیے جا
رہے ہیں ۔اس عالمِ آب و گِل میں سکوں محال ہے اور کسی بھی چیز کوثبات اور
دوام حاصل نہیں ۔ہر چیز فانی ہے اور بقا صرف ربِ ذوالجلال کو حاصل ہے ۔یہ
حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ہر چیز پر ابلقِ ایم کے سُموں کی گرد پڑ سکتی
ہے اور تما م حقائق خیال و خواب بن سکتے ہیں لیکن محبت کا جذبہ ناقابلِ
فراموش ہے ۔محاذِ جنگ سے تو پسپائیاں ممکن ہیں لیکن محبت کی راہ میں اُٹھنے
والے قدم پھر کبھی پلٹ نہیں سکتے۔ بے لوث محبت ،ایثار ،خلوص اور انسانیت کے
ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کے جذبات کو رہتی دنیا تک لائق تقلید
سمجھا جاتا ہے ۔سلیم کوثر نے محبت کے موضوع پر جو کچھ لکھا ہے وہ اُس کی
رفعتِ تخیل اور اصابت رائے کا عمدہ نمونہ ہے۔محبت ہی اس کے لیے زادِراہ ہے
اور وہ دُکھی انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کر کے ہنستا کھیلتا
طُوفانِ حوادث سے گُزرکر ساحلِ عافیت پر پہنچنے کی مقدور بھر جد جہد کرتا
ہے۔یہی اُس کی زندگی کا نصب العین ہے اور اس سلسلے میں وہ کسی مصلحت کا
خیال نہیں رکھتا ۔وہ ہوائے جور و ستم میں بھی حوصلے اور اُمید کی شمع
فروزاں رکھتا ہے ۔جبرکے سامنے سپر انداز ہونا اُس کے مسلک کے خلاف ہے ۔اُس
کی غزلیات میں محبت کی مسحور کُن فضا قاری کے لیے ہجومِ غم میں نجاتِ دیدہ
و دِل کی نوید لاتی ہے ۔
وہ وقت گُزررہا ہے مُجھ میں
اِک عہد اُبھر رہا ہے مُجھ میں
اُفقِ شام پہ روشن ہوئیں یادیں میری
پِھر نئی صبح سے مِل جائیں گی راتیں میری
چھاؤں کو دُھوپ میں پیوستہ کیے جاتا ہے
عشق صحراؤں کو گُل دستہ کیے جاتا ہے
پیار کرنے کے لیے ،گیت سُنانے کے لیے
اِک خزانہ ہے مِرے پاس لُٹانے کے لیے
حُسنِ بے مہر تِری آگ میں جلنے کے لیے
اب بھی کچھ لوگ ہیں چُپ چاپ پِگھلنے کے لیے
محبت کے شجر کو بلاکشانِ محبت اپنے خُونِ دِل سے سینچتے ہیں ۔عملی زندگی
میں جہاں تک اطوار ،اقدار ،میل ملاقات ،خاطر مدارات ،لگاؤ اور برتاؤ کا
تعلق ہے ہر صورت میں محبت کی ہمہ گیر اثر آفرینی مُسلمہ ہے ۔محبت مہیب
سناٹوں اور سفاک ظُلمتوں کو کافور کرتی ہے ،مایوسی اور اضمحلال کے ماحول
میں طلوعِ صبحِ بہاراں کی نوید سُناتی ہے۔آج کے دور میں ہر بو الہوس نے مکر
کی چالوں سے جس انداز میں نا م نہاد محبت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اس پر شاعر
نے سنجیدہ اندازِ فکر اپنا یا ہے اور اہل ہوس کی شقاوت آمیز نا انصافیوں
اور اُن کے پھیلائے ہوئے دام دیکھ کر وہ رنجیدہ ہے۔اقلیمِ محبت کی وسعت لا
محدود ہے اور اس کی مسافت بھی بہت کٹھن ہے ۔رہروانِ محبت کو منزل مقصود تک
پہنچنے کے لیے جو ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں اور دُکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ
سر پر جھیلنے پڑتے ہیں ،اُن کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔سلیم کوثر
نے خارزارِ محبت میں قدم رکھنے والوں پر واضح کر دیاہے کہ محبت میں غم کا
بھید نہیں کھولا جاتا بل کہ لب ِ اظہار پر تالے لگا کر بغیر آنسوؤں کے رونا
پڑتا ہے ۔محبت میں صبر کی یہی روایت ہے جس کو ہر حالت میں نبھانا پڑتا ہے
۔شاعر نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ جب خورشیدِ تمناپے درپے صدمات ،ناکامیوں
،حسرت و یاس اور جان لیوا سانحات کی بھیانک شبِ تاریک میں مستور ہو جاتاہے
تو اُس وقت محبت چراغِ طُور کی صورت خضرِ راہ بنتی ہے اور یوں دشتِ محبت کے
آبلہ پا مُسافر سرابوں میں بھٹکنے اور تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیے مارنے سے بچ
جاتے ہیں ۔سلیم کوثر کی شاعری میں محبت کی یہ معجز نما اثر آفرینی قلب اور
روح کی گہرائیوں میں اُترتی چلی جاتی ہے ۔
محبت اپنے لیے جِن کو منتخب کر لے
وہ لوگ مر کے بھی مرتے نہیں محبت میں
محبت میں کہاں تم دُنیا داری کو اُٹھا لائے
کہ نفّع اس طرح ہونا خِسارہ اِس طرح مِلنا
یہاں جو فرض کرنا ہے اُسے کھونا ہی کھونا ہے
محبت میں نہ ہونا کچھ نہیں ہے صرف ہونا ہے |