نصابی کتابوں کا مسئلہ

مارچ کا قدرے ٹھنڈا ، مگر گرم مہینا بیت گیا ۔(اصل لفظ "مہینا" ہو تا ہے ۔)یہ مہینا جوں ہی شروع ہوتا ہے ، پھولوں جیسے بچے پرندوں کی مثل امتحانات کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔یہ مہینا آتے ہیں "بڑے امتحانات" کی منادی کر دیتا ہے ۔اسی مہینےمیں ہی بچے امتحانات دیتے ہیں ۔جو پاس ، وہ ایک سال آگے ۔ جو فیل ، اس کا ایک سال برباد ۔ناکام بچے کے والدین ادھر بھٹکیں گے ، ادھر بھاگیں گے ۔پرنسپل صاحب کا در کھٹکائیں گے ۔ میڈم صاحبہ کی سخت باتیں سنیں گے ۔کوشش کریں گے کہ کچھ سخت و تند جملے سن کر بدلے میں اپنے نا لائق بچے کو پروموشن کر الیں ۔مگر جس کے نصیب میں ایک سال ضائع ہونا لکھا ہو ، اسےبھلا کون مٹا سکتا ہے !

اب اپریل آگیا ہے ۔ مارچ کی نسبت قدرے گرم ، مگر پھر بھی ٹھنڈا ۔یہ مہینا نونہالوں کی اصطلاح میں "نتیجے کا مہینا" کہلاتا ہے ۔اب جب کہ اس مہینے کا ایک عشرہ بیت گیا ، دوسرا پوری آن بان شان سے جاری ہے ، پرائیویٹ اسکولوں کے کام یاب بچے نئی کاپیاں اور کتابیں خرید کر اپنی نئی سال کی پڑھائی کا آغاز کر چکے ہیں ۔

گورنمنٹ اسکولوں کی حالت ، مگر اس سے مختلف ہے ۔ یہاں پڑھنے والے بچے غریب ہوتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ ان کی غربت کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے انھیں مفت کتابیں مہیا کرتی ہے ۔(یہاں سندھ حکومت کی بات ہو رہی ہے ۔ باقی صوبوں کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے ۔)گورنمنٹ کے اس انقلابی اقدام کو میں سراہتاہوں کہ وہ کم از کم غریب بچوں کے والدین کو کتابوں کے خرچے سے تو بچا لیتی ہے ۔مگر مسئلہ ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے یہ ساری تمہید باندھنی پڑی ۔۔۔۔یہ ہے کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی گورنمنٹ اسکولوں میں صوبائی حکومت کی طرف سے بچوں کو نصابی کتابوں کی فراہمی کا سلسلہ تاخیر کا شکا ر ہے ۔ بہت سارے اسکولوں کے بچوں کو ہنوز کتابیں نہیں ملی ہیں ۔خبر ہے کہ اس دفعہ تاخیر کی وجہ نصابی نصاب میں کی گئی تبدیلیاں ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہو اہے کہ بہت ساری نصابی کتابیں ہنوز پبلشرز کے پاس "تشنہ ِ اشاعت" ہیں ۔اب اپریل کا مہینا ہے ، جو تقریبا آدھا گزر چکا ہے ۔ پھر مئی آئے گا ۔ اور پھر جون جولائی کی چھٹیا ں ۔ نتیجتا بچوں کی پڑھائی ہر سال کی طرح اس سال بھی اگست سے شروع ہو گی ۔

صوبائی محکمہ ِ تعلیم نے نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی ہیں ۔ یہ اچھی بات ہے ۔ کیوں کہ نصاب وہ ہی اچھا ہوتا ہے ، جو جدید سے جدید معلومات سے ہم آہنگ ہو ۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کے بارے میں دو تین مہینے پہلے کیوں نہیں سوچا گیا ؟ تاکہ بچوں کو وقت پر کتابیں مل جاتیں ۔اور اب وہ لہک لہک کر کتابوں سے استفادہ کر رہے ہوتے ۔پھر یہ بات بھی ملحوظ ہو کہ کتابوں میں تبدیلیاں یک سر نہیں ہو جایا کرتیں ۔ یہ بڑا جان جوکھوں میں ڈال دینے والا کام ہے ۔اگر صوبائی محکمہ تعلیم اس کام کو اگلے سال تک کے لیے چھوڑ دیتا تو آج میں اس مضمون کی بہ جائے کچھ اور لکھ رہا ہوتا !

سندھ کا محکمہ ِ تعلیم اگر اپنی کتابوں کی اشاعت قدرے جلدی کرے ، تاکہ نئے تعلیمی سال کے آغاز میں ہی بچوں کو کتابیں مل سکیں ، تو اس کے اس عمل سے پرایئویٹ اسکولوں کی اکثریت اس کی کتابیں خریدے گی ، یوں یہ محکمہ مالی طور پر مزید مستحکم ہو سکتا ہے ۔اگرچہ پرائیویٹ اسکولوں کے اکثر مالکا ن کو سندھ کی نصابی کتابوں کے معیار پر تحفظات ہیں ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان محض اس وجہ سے اپنے اسکولوں میں سندھ کی نصابی کتابیں نہیں پڑھاتے کہ یہ سال کے ابتدا میں مارکیٹوں سے مفقود ہو جاتی ہیں ۔

سندھ کے محکمہ ِ تعلیم کو نئے تعلیمی سال کے آغاز میں ہی اپنی کتابوں کی فراہمی کے لیے کچھ "انقلابی " اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159134 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More