پرویزبھائی کی رحلت ۔۔۔۔۔ ایک اور دکھ

7 اپریل کو رات ڈیڑھ بجے میں اپنے آفس میں معمول کے فرائض انجام دے رہا تھا کہ موبائل فون بجنے لگا۔ ہیلو۔ وقار میں طارق بولداں…… میں نے کہا جی پا جی۔ ’’پرویز فوت ہو گیا ہے‘‘ فون بند ہو جاتا ہے۔ میں اپنے ہاتھ سے اس کی موت اور سپردخاک کرنے کی خبر لکھتے ہوئے ماضی میں جا پہنچتا ہوں۔ وہ میرے بڑے ماموں کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ ہم سب اسے ’’پرویز بیر‘‘ کہتے تھے۔ وہ بہت مخلص‘ صاف گو‘ حسد ،بغض سے پاک اور ہمدرد شخص تھا۔ میری قربت اس سے بہت زیادہ تھی۔ وہ مجھے ’’توشہ‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ محبت کرتا تھا۔ خلوص نچھاور کرتا تھا۔ میں گاؤں جب بھی جاتا اس کے گھر ضرور جاتا تھا۔ آخری بار بھی ہم دونوں ’’پکوڑے اور چائے‘‘ سے سجی میز پر اکٹھے تھے۔ وہ میرے بیٹوں سے بھی بہت محبت کرتا تھا،, جب بھی ملتا ضرورپوچھتا،, ایک دفعہ محمد آفاق احمد کو گھنٹوں اٹھائے رکھا۔ پیار کیا‘ میرے رہن سہن‘گزر اوقات بارے ضرورپوچھتا۔ اس کی موت کے دکھ سے قلم کی روانی رک گئی ہے۔ اس کی خودداری پر لکھوں‘ خلوص پر لکھوں‘ مہمان نوازی پر لکھوں کوئیگوشہ ایسا نہیں جسے لفظوں کا لباس نہ دیا جا سکے۔۔۔ وہ چند سالوں سے دکھی تھا۔ اس کا دکھ بجا تھا مگر انسانی رویئے جب المیے کا روپ دھار جائیں تو کچھ بھی نہیں بچتا اور جب کوئی اسی تڑپ میں آنکھیں بند کر لے تو پھر مداوا کیسے……
’’تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے‘‘

وہ میرے ساتھ دکھ بانٹتا تھا۔ ایک بار زیارت والی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد بھی ڈھیر ساری باتیں کیں۔ اس نے کبھی اپنے بیٹوں کی نوکری ‘ ملازمت یا کسی اور خواہش کا اظہار تک نہیں کیا۔ میرے کہنے کے باوجود بھی وہ موضوع بدل دیتا تھا۔ میری کہی بات پر ’’اﷲ مالک ہے‘‘ کا تالا لگا دیتا تھا۔ زلزلہ کے بعد پرویز بھائی کی والدہ محترمہ کو راقم اسلام آباد لے آیا تھا‘ شدید زخمی تھیں‘ کولہے کی ہڈی متاثر ہوئی تھی۔۔۔ اڑھائی ماہ میرے پاس رہیں۔ اپنی بساط کے مطابق وہ سب کچھ کیا جو کر سکتا تھا۔۔۔۔ اس کی دعاؤں بھرے جملے آج بھی یاد آتے ہیں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ پرویز بھائی اس خدمت کو احسان سمجھتے تھے اور ہمیشہ اس بات کا تذکرہ کرتے۔۔۔

مجھے محتاط ڈرائیونگ کی تلقین کرتے۔ ترقی کے لئے دعا دیتے ۔۔۔ درویش انسان تھا‘ اپنی کٹیا میں مست رہتا تھا نہ کسی کے محل کو دیکھتا نہ کسی کے کلف لگے کپڑوں پر نظر ہوتی۔ لالہ خوشحال سے ان کی قربت زیادہ تھی۔ وہ بھی اداس ہیں پہلے حاجی حبیب گئے اور اب پرویز پیجو بھی۔۔۔ ہر دکھ‘ درد، الم ،غم کا مرہم ضرور ہے لیکن کسی اپنے کی جدائی کا دکھ کلیجہ چیر دیتا ہے۔ وہ مان تھا‘ میرے قبیلے کا وہ جنگجو تھا جو بغیر لڑی کوئی بھی جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کو رویئے چاٹ گئے۔ اپنوں کے دیے دکھ راکھ کر گئے‘ آج وہ اس دنیا میں نہیں…… منصور جواں ہے‘ تیمور جواں ہے۔۔۔ سلسلہ ہائے زندگی رکے گا نہیں۔۔۔ وہ ٹرک ڈرائیور ہونے کے باوجود اپنی اولاد کو تعلیم کی دولت سے مالا مال کر گیا ہے۔۔۔۔ پرویز بھائی میرا پڑوسی بھی تھا۔ محسن بھی‘ ہمدرد بھی۔۔۔ اس نے ہر سو محبتیں بانٹیں……کسی سے توقعات نہ باندھیں، اسے قوی امید تھی کہ جب اسے جھولی پھیلانا پڑی تو لوگ درد ہی ڈالیں گے ۔وہ صوفیوں کا خدمت گار تھا،صوفی ازم اس کا اوڑھنا بچھونا تھا،اس نے موتکو بھی ہنس کر گلے لگایا……دل کا درد تو ایک بہانہ تھا……سوچتا ہوں اب کی بار جاؤں گا تو اسے دیکھ نہ پاؤں گا‘ مل نہ پاؤنگا۔۔۔ کوئی توشہ کہنے والا نہ ہوگا۔ شاید فیض احمد فیض نے ایسے کسی لمحے کے لئے کہا تھا کہ……
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے

حاجی پرویز منوں مٹی تلے آخری آرام گاہ میں ہے۔۔۔ خدائے بزرگ و برتر اس کی تمام منزلیں آسان فرمائے اور ہمیں بھی اس کی طرح بغض ‘ کینے‘ حسد سے دور رکھے۔ اس کے اہل و عیال کو یہ سانحہ جانگداز سہنے کے لئے صبر کی دولت دے۔ میں سب کچھ داؤ پر لگا کر اپنوں کے قریب جا بسا تھا۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ مگر وہ بہت دور جا بسا ہے۔ اتنا دور کہ جہاں ہم زندہ پہنچ ہی نہیں سکتے۔ میری آنکھوں سے رواں دواں آنسو پرویز پیجو کے نام جو ہمارا اپنا تھا‘ اپنا رہے گا……
وہ جو آ جاتے تھے‘ آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

دکھ کی اس گھڑی میں کوسوں دور ہونے کے باوجود بھی میں سو نہیں سکا ،اس کی چمکتی آنکھیں ، مسکراتاچہرہ میرے سامنے ہے ……نیند تو جیسے روٹھ گئی ہے ……بالکل اسی طرح جیسے وہ۔
یہ تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ مر جائے گا
چاند اک قبر کے سینے میں اتر جائے گا
دیکھنا ایک نہ ایک دن تیری خوشبو کا جمال
درد کی طرح رگ جاں میں اتر جائے گا
Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 70821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.