حضور مجاہدِ ملت قدس سرہٗ اہل
سنت و جماعت کی ایک ایسی ممتازترین شخصیت کا نام ہے ۔ جنھوں نے اپنا شب و
روز دین و سنیت کے تحفظ و بقا اوراستیصالِ باطل میں بسر فرمایا ۔ آپ
’’مجاہدِ ملت ‘‘ کے علاوہ’’ رئیسِ اڑیسہ ‘‘ بھی کہلاتے تھے ۔ اللہ عزو جل
نے آپ کو دینی رعب و دبدبہ کے ساتھ ساتھ دنیوی دولت و ثروت سے بھی مالا
مال فرمایا تھا ۔ آپ نے اپنا تن من دھن سب اہل سنت و جماعت کی ترویج
واشاعت کے لیے وقف کررکھا تھا۔نیز غریبوں ، مسکینوں ، بیواوں اور مظلوموں
کی ہر طریقے سے مدد فرمانا آپ کے پسندیدہ مشاغل میں شامل تھا ۔
افکارِ حق کے استحکام وبقاکے تئیں آپ کی مجاہدانہ خدمات سے پوری دنیاے
سنیت واقف ہے۔ حضور مجاہدِ ملت قدس سرہٗ نے دشمنانِ دین و سنیت سے کئی
کامیاب مناظروںکی سرپرستی اور صدارت بھی فرمائی اور کئی ایسے علما کی تربیت
فرمائی جنھوں نے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل میں نمایاں کارنامے انجام دئیے
۔ اس ضمن میں تنہا پاسبانِ ملت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ کا نام
لینا بھی کافی ہوگا ۔
۱۹۸۶ء میں سرکار مجاہدِ ملت نے جب حجِ بیت اللہ سے فراغت کے بعد جب روضۃ
الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی تو وہاں بدعقیدہ امام
کی اقتدا کی بجاے آپ نے نمازِ پنجگانہ کے لیے علاحدہ سے جماعت قائم
فرمائی۔ چناں چہ آپ کا یہ فعل نجدی حکومت کے کارندوں کو ایک آنکھ نہ
بھایا ۔ اور آپ کو وہاں کی پولس نے گرفتار کرکے حرم کے قاضی القضاۃ کے پاس
لے گئی ۔ جہاں آپ نے ایک تاریخی مناظرہ اُس وہابی قاضی سے فرمایا۔ حضور
مجاہدِ ملت کے ایمان افروز باطل شکن دلائل سُن کر حرم کا قاضی دم بہ خود رہ
گیا۔ حضور مجاہدِ ملت کے اس تاریخی مناظرے کو حضرت مولانا محمد تواب حبیبی
قادری (بانی جامعہ فیاض العلوم ، پکسرواں ) نے ’’ قصرِ نجدیت میں سرکار
مجاہدِ ملت کا اعلانِ حق‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کی ۔ حضرت مولانا
محمد تواب حبیبی قادری صاحب کی فرمایش پر ہماری جماعت کے ایک بہترین شاعر
جناب محمد ہارون ایاز حبیبی قادری صاحب نے مذکورہ مباحثے کو منظوم ’’اعلانِ
حق‘‘ کے نام سے قلم بند فرمایا۔
محمد ہارون ایاز حبیبی قادری صاحب نے بڑی کامیابی کے ساتھ اس پورے تاریخی
مناظرے کو مثنوی کے فارم میںبڑی سلیقہ مندی ، سلاست و روانی اور شگفتہ و
سلیس انداز میں پیش کیا ہے ۔ پوری نظم میں کہیں بھی نہ سلاست متاثر ہوئی ہے
نہ شعریت۔ فن کے اعتبار سے یقینا یہ ایک کامیاب ترین پیش کش ہے۔ نظم کا
آغاز حمد باریِ تعالی اور نعتِ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے ۔ اس
کے بعد حضور مجاہدِ ملت کے روشن اور تاب ناک رُخِ حیات کی جھلکیاں بڑے احسن
پیرایے میں ہمارے شاعرِ محترم نے بیان کی ہیں ۔اس میںصداقت بھی ہے اور
عقیدت کی والہیت بھی۔ بعد ازاںحرم کے قاضی القضاۃ سے سرکار مجاہدِ ملت علیہ
الرحمہ کے کامیاب ترین تاریخی مناظرے کی منظوم روداد ہے ۔ جس میں تصویریت
کا حُسن بھی ہے اور منظر کشی کا جمال بھی۔ پوری نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی
ہے۔ ناچیز نے جان بوجھ کر ’’اعلانِ حق‘‘ سے بہ طورِ مثال کوئی شعر نقل نہیں
کیا ہے اور اپنے تبصرے میں اختصار سے کام لیا ہے تاکہ اصل کتاب اور ناچیز
کے تاثر کے درمیان زیادہ وقت حائل نہ ہوسکے ۔
راقم جناب محمد ہارون ایاز حبیبی قادری کو اس بہترین کاوش پر مبارک باد پیش
کرتا ہے ۔ ’’اعلانِ حق‘‘ کی اشاعت کے لیے اپنا نمایاں کردار ادا کرنے والے
عزیزِ محترم محمد تنویررضا برکاتی اور برکاتی مشن ، برہان پور کے جملہ
اراکین کو اللہ رب العزت جل جلالہٗ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ
وطفیل دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور فرمائے اور دین و سنیت کی مزید خدمت کا
مخلصانہ جذبہ عطا فرمائے ۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم ) |