مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم میں 2 سال میں لوڈ شیدنگ کے خاتمے کا
وعدہ کیا تھا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے
اب حکمران یہ کہہ رہے کہ آئندہ 4 سال میں بھی لوڈ شیڈنگ کا عذاب ختم نہیں
ہوسکتا جس کا اعتراف وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی نے کرلیا
ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں ہر سیاسی جماعت نے عوامی مسائل کے حل کے لئے
بلند و بانگ دعوے کئے لیکن طرح طرح کے بیانات دے ڈالے یہاں تک کہ میاں
شہباز شریف نے تو 2 سال میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہ ہونے پر اپنا نام ہی
بدل ڈالنے کا اعلان کردیا لیکن جب حکومت میں آئے تو انہیں پتہ چلا کے سو
میں کنے بیس ہوتے ہیں ، حالات کی سنگینی دیکھ کر تیسری بار وزیر اعظم منتخب
ہونے والے نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی کے اس بیان کو جوش خطابت قرار دے
دیا اس کے علاوہ انہوں نے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا حالات کو ان کے
اندازے سے بھی زیادہ خراب ہیں وہ کوشش کریں گے کہ جلد از جلد اس مسئلے پر
قابو پالیا جائے۔ لیکن اب ان کے ایک اور وزیر موصوف نے یہ بھی اعتراف کرلیا
ہے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ 2017 تک ممکن ہی نہیں۔ ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال
2150 میگاواٹ سے متجاوز کر نے کے بعد بجلی کی غیراعلانیہ بدترین لوڈشیڈنگ
میں مزید تیزی آگئی۔ لاہور سمیت پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی 14 سے 16 گھنٹے
جبکہ دیہاتوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 سے 20 گھنٹے تک پہنچنے کے بعد
عوام کا حکومت اور واپڈاکیخلاف شدید احتجاج اور لاہور‘ فیصل آباد سمیت
پنجاب کے کئی علاقوں میں بجلی کی غیراعلانیہ بدتر ین لوڈشیڈنگ کیخلاف
احتجاجی مظاہروں میں بھی شدت آگئی۔ وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف
کی ٹویٹ کے مطابق ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال 2150 میگاواٹ رہا جبکہ بجلی
کی مجمو عی پیدوار 9650 اور ڈیمانڈ 11800میگاواٹ رہی اور ہائیڈرل کے ذریعے
1780‘ تھر مل کے ذریعے 1250 اور آئی پی پپیز کے ذریعے 6620 میگاواٹ بجلی
حاصل کی گئی۔ شارٹ فال میں اضافے کے بعد بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ میں
گر میوں کے آغاز میں ہی تیز ی آگئی ہے۔جیسے جیسے ملک کے زیادہ تر حصوں میں
درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ کی جانب بڑھ رہا ہے اور آبپاشی میں کمی
کی وجہ سے ملک کے دو بڑے ڈیموں سے پانی کا اخراج کم ہوگیا ہے، اسی کے ساتھ
ساتھ ہی کو بجلی کی قلت بھی بڑھتی جارہی ہے، گزشتہ روز بجلی کی کمی چھ ہزار
میگاواٹ تک جا پہنچی تھی، جس سے حکام کو بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ
پر مجبور ہونا پڑ گیا ہے۔پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے حکام کے
مطابق یہ بجلی قلت کا یہ تعین پچھلے دو دنوں میں کیا گیا ہے۔اس تاریک
صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پانی کے اخراج میں کمی آئی ہے،
درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے اور دوہزار سات سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے
والے پاور پلانٹس ایندھن کی قلت کی وجہ سے بند کردییگئے ہیں۔ طویل عرصے سے
جاری دو اہم مسئلوں نے آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے بلوں
کی وصولی صرف چھیاسی فیصد تک رک گئی ہے، چنانچہ تقریباً تیس کروڑ روپے
روزانہ کے حساب سے بقایا جات پھنسے ہوئے ہیں۔سرِ فہرست حکومت کی جانب سے
سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر ہے۔ بتیس ارب روپے کے بقایاجات میں سے صرف دس
ارب روپے حکومت کی جانب سے تقریباً دس دن پہلے ادا کیے گئے تھے، اور بائیس
ارب روپے باقی رہ گئے ہیں۔ گزشتہ دس دنوں میں آٹھ ارب روپے کی رقم اس بل
میں مزید شامل ہوگئی ہے، چنانچہ کل رقم تیس ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔یہی دو
عوامل ہیں، جن کی وجہ سے بجلی کے منصوبہ ساز یہ پلانٹس چلانے کے قابل نہیں
ہیں۔تقریباً تین ہزار میگاواٹ کی تھرمل پاور کی پیداواری صلاحیت میں سے
جمعرات کے روز پیپکو صرف تیرہ سو پچاس میگاواٹ بجلی پیدا کررہی تھی۔
انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی جانب سے چھ ہزار چار سو میگاواٹ
کی پیدوار رہ گئی ہے اور ہائیڈل پاور پروجیکٹ سترہ سو میگاواٹ بجلی پیدا
کررہے ہیں، یوں کل پیداوار تقریباً نو ہزار پانچ سو میگاواٹ ہے۔پیپکو کے
ایک سابق سربراہ نے کہا کہ ’’حکومت سمیت ہر ایک یہ بات جانتا ہے اور تسلیم
بھی کرتا ہے کہ آنے والا موسمِ گرما نہایت سخت ہوگا۔ پھر بھی گرمیوں سے
پہلے معاملات کو درست کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔پورا شعبہ ایڈہاک
بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔‘‘گزشتہ تیرہ مہینوں کے دوران حکومت کی توجہ
بجلی کی پیداوار کے شعبے میں سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے پر مرکوز تھی،
جبکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ ایک طویل مدتی عمل ہے۔ چنانچہ حکام کی
توجہ اس جانب مرکوز رہی اور سسٹم کی کارکردگی کے حوالے سے منصوبہ بندی پر
توجہ ہٹ گئی۔حکومت بھول گئی کہ کارکردگی کو بہتر بنا کر مسائل کا جزوی حل
نکالا جاسکتا ہے۔ یوں کاکردگی کو بری طرح نظرانداز کردیا گیا۔ان تیرہ
مہینوں کے دوران اس شعبے کی سولہ اہم کمپنیوں میں سے کسی کو بھی مستقل
سربراہ نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ ڈیپارٹمنٹس کے سربراہوں کا بھی مسلم لیگ
نون کی حکومت کی جانب سے ایڈہاک، اضافی یا پھر قائم مقام کے چارج کے ساتھ
تقررکیا گیا۔پیپکو کے سابق سربراہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر
حکومت ان پالیسیوں کو ہی جاری رکھنا چاہتی ہے، جن کی وجہ سے پہلے مسائل
پیدا ہوتے رہے ہیں، تو وہ کس طرح بہتر نتائج کی توقع کرسکتی ہے۔پاکستان اور
چینی کنسورشیم میں1320 میگا واٹ منصوبے کی دستاویزات کا تبادلہ ہوا
وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ جلد مکمل ہونے والے منصوبے پاکستان کے
لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ سنیا میں وزیر اعظم محمد نواز شریف سے چینی
سرمایہ کاروں کی ملاقات ہوئی۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت چینی سرمایہ
کاروں کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔ منصوبے کے مطابق چینی کنسورشیم
ساہیوال میں 660 میگا واٹ کے دو بجلی کے کارخانے لگائے جائیں گے۔جلد مکمل
ہونے والے منصوبے پاکستان کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ منصوبے کی بروقت تکمیل
سے معیشت کوفروغ ملے گا۔پاکستان میں چینی سرمایہ کاری سے ملک کو ترقی ملے
گی۔ چین ،ساہیوال پاور پلانٹ میں سرمایہ کاری کے لیے احسن مند ہو گیا ہے۔
منصوبہ کے دو پاور پلانٹ ہوں گے اور ان کی تعمیر مئی میں شروع ہو گی منصوبہ
سے 1320 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔وزارت پانی و بجلی کے ذیلی ادارے پی پی
آئی بی اور ایس کے ہائیڈرو کے درمیان 870 میگا واٹ پن بجلی منصوبے پر دستخط
کر دیئے گئے۔وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا ہے چین پاکستان میں 20
ہزار میگا واٹ کے پاور منصوبے لگائے گا۔ پی پی آئی بی اور ایس کے ہائیڈرو
کے درمیان 870 میگا واٹ پن بجلی منصوبے پر دستخط کی تقریب میں وفاقی وزیر
پانی و بجلی خواجہ آصف بھی شریک ہوئے۔مانسہرہ میں دریائے کنہار پر واقع پن
بجلی منصوبہ 6 سال میں مکمل ہوگا، جس پر کل لاگت کا تخمینہ 1 ارب 75 کروڑ
ڈالر ہے، منصوبہ سالانہ 3 ارب یونٹ سے زیادہ بجلی بنائے گا۔ وفاقی وزیر
پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اگلے ماہ اس منصوبے کا سنگ
بنیاد رکھیں گے،منصوبے سے سستی بجلی آئے گی،پن بجلی کے داسو ،بھاشا اور
بونجی پر بھی کام کریں گے،جس سے 20 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔موجودہ
حکمران 7 ماہ کے دوران لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے وقت کو 2 سال سے بڑھا کر 4
برسوں پر تو لے آئے کہیں ایسا نہ ہو کہ 2018 کے انتخابات میں ایک بار پھر
یہی لوگ عوام سے ایک اور وعدہ کریں کہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ بس چند ہی قدم
دور ہے ہمیں ووٹ دیں وعدہ کرتے ہیں کہ اس بار ضرور کامیاب ہوجائیں گے
کیونکہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ |