نرالا روزگار اپنانے والے نوجوان کی دلچسپ روداد

کہا جاتا ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ اگر یہ بات سمجھ لی جائے تو ہمیں ’’قطار بنائیں‘‘ اس حکم نما
درخواست کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ بل کی ادائیگی سے لے کر ریلوے، جہاز اور سنیما ٹکٹس کے حصول تک کتنے ہی کاؤنٹر ایسے ہیں جہاں ہمیں قطار کے بہ جائے ہجوم نظر آتا ہے۔ اسی ہجوم کی وجہ سے منٹوں میں ہونے والا کام گھنٹوں تک پھیل جاتا ہے لیکن صبر کرلیا جائے، قطار بنا لی جائے تو کام بھی آسانی سے ہوجائے لیکن کیا کیجیے کہ صبر مشکل سے آتا ہے!! نظم و ضبط کا یہ بنیادی نکتہ جس قوم نے بھی سمجھ لیا ان کے روز مرہ کے کام بہ آسانی نمٹ جاتے ہیں، اس لیے وہاں ہر آدمی قطار لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ لیکن دن کے چوبیس گھنٹے نہ جانے اتنے کیوں سکُڑ گئے ہیں کہ ہر جگہ معاملہ وہی وقت کا ہے۔ وہاں بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے پاس وقت نہیں لیکن اس عذر کی بنا پر قطار توڑنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ وقت کی کمی کا شکار ایسے بہت سے لوگوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے نیویارک کے ایک نوجوان نے نرالا حل نکالا ہے، جس سے ’’قیمتی وقت‘‘ والوں کا مسئلہ بھی حل ہوگیا اور اس کے روزگار کا بھی۔ ملاحظہ فرمائیے وہ حل کیا ہے۔
 

image


نیویارک سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں میں جب بھی کوئی نئی پراڈکٹ بازار میں متعارف کروائی جاتی ہے تو اسے سب سے پہلے حاصل کرنے والے اسٹورز کا رُخ کرتے ہیں۔ کسی نئی پراڈکٹ کی خریداری میں برتری کا یہ خیال کسی ایک شخص کے دل میں نہیں آتا بلکہ شہر کا شہر ہی امڈا پڑتا ہے۔ رابرٹ سیموئل نامی نوجوان نیویارک کا ایک شہری ہونے کے ناتے اپنے شہر والوں کی اس کمزوری سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ گزشتہ برس جب آئی فون فائیو متعارف کراویا گیا تو حسب روایت نیویارک کے کئی اسٹورز کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگیں۔ رابرٹ کا گھر ایپل کے اسٹور سے چند بلاک کے فاصلے پر ہی تھا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ دوسروں کی جگہ انتظار کیا جائے۔ جب وہ اسٹور کے پاس پہنچا تو ایک صاحب نے اسے اپنی جگہ انتظار کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہونے کے لیے کہا اور اس کے عوض اسے سو ڈالر دینے کی پیش کش کی۔ بعد میں ان صاحب نے آئی فون خریدنے کا ارادہ ترک کردیا لیکن رابرٹ سے پیسے واپس نہیں لیے۔

رابرٹ نے قطار میں وہی جگہ ایک اور شخص کو سو ڈالر میں ’’فروخت‘‘ کردی۔ یہ منافع بخش کام دیکھتے ہوئے اس نے اپنے دیگر دوستوں کو بھی وہیں بلا لیا اور انھیں قطار میں کھڑا کردیا۔ جب اس کے دوست تھک ہار کے گھروں کو لوٹنے لگے تو اس نے قطار میں اپنے ان دوستوں کی جگہیں بھی مختلف قیمتوں میں فروخت کرڈالیں۔ ساتھ ہی وہ اپنے گھر سے دودھ کی بوتلوں کا ایک کریٹ بھی اٹھا لایا اور گھنٹوں قطار میں انتظار کی کوفت اٹھانے والوں کو پانچ ڈالر فی بوتل کے حساب سے دودھ بیچ ڈالا۔ اس ایک دن کی کمائی ساڑھے تین سو ڈالر سے بھی زیادہ ہوگئی جو ایک بڑی رقم ہے۔ بس کیا تھا، رابرٹ کو ایک نئے کاروبار کا آئیڈیا مل گیا اور اس نے ’’سیم او آئی لائن ڈیوڈز ان کارپوریٹ‘‘ کے نام سے ایک ’’کمپنی‘‘ شروع کردی، جو دوسروں کے لیے قطار میں کھڑے ہوکر انتظار کرنے کی خدمات فراہم کرتی ہے۔
 

image

رابرٹ کی کمپنی کی ایک باقاعدہ ویب سائٹ بھی ہے اور اس کے علاوہ ٹوئٹیر، فیس بک جیسی معروف سماجی رابطہ کاری کی سائٹس پر اس کی کمپنی کے پیجز بھی ہیں جہاں سے اسے آرڈر موصول ہوتے ہیں۔ مغرب میں ’’بے بی سٹر‘‘ کا پیشہ نیا نہیں، جس میں والدین گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کسی کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور اس کے لیے رقم بھی ادا کرتے ہیں۔ رابرٹ نے اسی طرز پر ’’لائن سٹر‘‘ کا پیشہ متعارف کروایا ہے۔

رابرٹ کا کاروبار اچھا چل رہا ہے اور ایک جرمن ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے اس کی یہ وجہ بتائی: ’’ہمارے شہریوں کو ایک خوف ہے، جب بھی کوئی نئی پراڈکٹ متعارف کروائی جاتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید دنیا کی آخری شے ہے، اور انھیں یہ ضرور خریدنا چاہیے۔ اس خوف کو میں "fear of missing out" کا نام دیتا ہوں۔ لوگ ایک بیکری آئٹم ’’کورنیٹ‘‘ کے لیے گھنٹوں انتظار کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ جب میں ایک ہاتھ میں سلیپنگ بیگ لیے اور دوسرے ہاتھ میں ان کی پسندیدہ شے خرید کے ان لوگوں کے پاس پہنچتا ہوں، جو میری خدمات حاصل کرتے ہیں تو انھیں اپنا پیسہ ضائع ہونے کا خیال تک نہیں آتا۔ کیوں کہ کوئی شے حاصل کرنے کی ان کی شدید ترین خواہش انھیں کچھ اور سوچنے کے قابل ہی نہیں چھوڑتی۔‘‘

رابرٹ بتاتے ہیں کہ ان سے پہلے بھی بعض افراد انفرادی سطح پر یہ کام کرتے تھے۔ لیکن وہ کئی ضابطوں کی بھی خلاف ورزی کیا کرتے تھے، مثلاً وہ کوئی ایسی شے جس کی خریداری کے لیے لمبی قطاریں لگی ہوتی تھیں، بڑی تعداد میں خرید کر انھیں زاید قیمت میں فروخت کیا کرتے تھے۔ جسے ہمارے ہاں ’’بلیک‘‘ کرنا کہا جاتا ہے۔ رابرٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے کچھ ضوابط بنائے ہیں۔ اس کے کچھ امیر ترین کلائنٹ جب بھی اس کی خدمات حاصل کرنے کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو وہ کم از کم اسٹور کھلنے سے تین گھنٹے پہلے پہنچ جاتا ہے۔ رابرٹ کے ساتھ ایک پورٹ ایبل چارجر، دو آئی فون اور ایک منی آئی پیڈ ہوتا ہے۔ سردی ہونے کی صورت میں ایک ہینڈ وارمر بھی اس کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹی سے کرسی جو آسانی سے طے کر کے کہیں بھی رکھی جاسکتی ہے۔ موبائل اور آئی پیڈ رکھنے کی وجہ رابرٹ یہ بتاتا ہے کہ طویل انتظار میں اکتاہٹ سے بچنے کے لیے وہ ان پر کوئی فلم دیکھ لیتا ہے یا موسیقی سنتا رہتا ہے۔ کئی مرتبہ اسے بہت طویل انتظار بھی کرنا پڑتا ہے۔
 

image

نوجوانوں کے ملبوسات بنانے والے ایک برانڈ کی نمائش کے موقعے پر تو وہ اپنے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹینٹ اور سلیپنگ بیگ بھی اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔ لیکن اسے طویل ترین انتظار آئی فون کے لیے ہی کرنا پڑا تھا۔ ’’میں 19گھنٹے قطار میں لگا رہا تھا۔ وہ میرا پہلا تجربہ تھا، اس طویل انتظار کی وجہ سے میری ایک چھوٹی سی نوکری بھی میرے ہاتھ سے گئی تھی جس کی وجہ سے میں نے قطار میں انتظار کو ایک باقاعدہ کاروبار بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘

رابرٹ کے ماتحت اس وقت سات ویٹرز(منتظر) ہیں جب کہ مزید 15افراد اس کے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ جن کی ’’سی وی‘‘ اس ملازمت کے لیے زیر غور ہے۔ رابرٹ کا کہنا ہے کہ ہم کسی سے یہ وعدہ نہیں کرتے کہ ہر بار آپ کے لیے قطار میں پہلا نمبر حاصل کر کے دیں گے۔ ’’ہم تو بس اتنا کہتے ہیں کہ ہم آپ کو قطار میں ایک مناسب جگہ دلادیں گے، وقت کا اندازہ کلائنٹ کو خود ہی لگانا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہمیں بتاتا ہے کہ اسٹور آٹھ بجے صبح کھلے گا تو میں پانچ بجے وہاں پہنچ جاوٗں گا۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ تین گھنٹے پہلے پہنچنے کی وجہ سے میں قطار کے شروع ہی میں کھڑے ہونے والے افراد میں سے ایک ہوں گا تو آرام سے تین گھنٹے اپنی نیند پوری کیجیے اور مقررہ وقت پر پہنچ کر اپنا ’’صحیح مقام‘‘ حاصل کیجیے۔ چاہے بارش ہو، برف پڑ رہی ہو یا طوفان ہی کیوں نہ آ جائے آپ مجھے وہیں کھڑا پائیں گے۔‘‘

یہ منظر تو ہم نے اپنے ہاں بھی دیکھے ہیں کہ جب قطار میں کوئی شخص دوسرے کے لیے جگہ خالی کرتا ہے تو پیچھے کھڑے افراد اس پر اعتراض کرتے ہیں اور نوبت شور شرابے تک پہنچ جاتی ہے۔ رابرٹ کا اس بارے میں کہنا ہے’’ مجھے شروع میں سب سے بڑا خوف اسی بات کا رہتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ مجھے احساس ہوا کہ یہ اپنے کام کی مارکیٹنگ کا بہترین موقع ہے۔ میں قطار میں شامل ہونے والے لوگوں کو پہلے ہی بتا دیتا ہوں کہ میں کرائے پر انتظار کرتا ہوں۔ اس کے بعد انھیں اپنا بزنس کارڈ پیش کرتا ہوں اور انھیں بتاتا ہوں کہ اگلی بار اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی جگہ بھی قطار میں کھڑے ہوکر انتظار کرسکتا ہوں۔ ‘‘ رابرٹ قطار میں کھڑے ہونے کے حوالے سے ساری باتیں پہلے ہی طے کرتا ہے مثلاً اگر وہ کسی کے لیے انتظار کرتا ہے تو اسے واضح کردیتا ہے کہ اس کے ساتھ آنے والوں کی ذمے داری اس کی نہیں ہوگی۔ اگر آپ اپنے ساتھ اپنے کسی دوست کے لیے بھی قطار میں جگہ رکھوانا چاہتا ہے تو اسے ایک اور ویٹر کی خدمات لینا ہوں گی۔ ’’ہم ایک جگہ کے لیے ایک آدمی کی خدمات دیتے ہیں، یہ تو ممکن نہیں کہ آپ قطار میں ایک فرد کھڑا کریں اور اس کی جگہ اپنے چار دوستوں کو اسٹور میں داخل کرنے کی کوشش کریں، اس سے ہمارے کاروبار پر بھی برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔‘‘

ایک اندازے کے مطابق ہر امریکی اوسطاً آٹھ منٹ تک قطار میں انتظار کرتا ہے اور اس کے بعد اکثر افراد قطار سے نکل جاتے ہیں۔ یورپ میں انتظار کا یہ دورانیہ امریکیوں کے مقابلے میں 30سے 45سیکنڈ ہی زیادہ ہے۔ رابرٹ لوگوں کے درپیش وقت کی کمی کا مسئلہ اور بے صبری کا حل فراہم کرتا ہے اور اس کے لیے وہ ان سے وقت ہی کے حساب سے رقم لیتا ہے:’’ہمارے نرخ وقت کے مطابق ہوتے ہیں۔ 25ڈالر پہلے گھنٹے کے لیے اور اس کے بعد ہر 30منٹ شروع ہونے پر دس ڈالر بڑھتے جاتے ہیں۔ بعض مرتبہ بے صبرے افراد اپنے غلط اندازے کی وجہ سے ہماری خدمات حاصل کرتے ہیں۔

مثلاً ملبوسات کے ایک اسٹور کے باہر مجھے انتظار کرنے کے لیے کہا گیا۔ میں پونے چھے بچے صبح وہاں پہنچا اور چھے سات بجے تک وہاں کوئی دوسرا پہنچ ہی نہیں سکا۔ یوں بڑی آسانی سے میں نے اپنا وقت پورا کیا، اپنے دام لیے اور گھر لوٹ آیا۔ اس وقت تو وہ خود بھی انتظار کرسکتے تھے لیکن کیا کیجیے، ’’سب سے پہلے‘‘ کا یہ خبط لوگوں کو کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑتا اور یہی ہمارے کاروبار کی بنیاد ہے۔‘‘ رابرٹ نے یہ راز جان کر ایک پورا کاروبار کھڑا کر لیا ہے۔ ایک رابرٹ ہی کیا، ہمارے ہاں نئی نئی مصنوعات اور خدمات اسی اصول پر اپنا کاروبار چلا رہی ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہیں بے صبری قطاریں تڑوا رہی ہے اور کہیں لمبی قطاروں میں کرائے کے انتظار کرنے والوں کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ تو کیوںنہ تھوڑا صبر ہی کرلیا جائے، کتنی آسانی ہوجائے گی، مگر صبر مشکل سے آتا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

They say good things come to those who wait. But here’s the loophole: what if you could pay someone to do the waiting for you? Same Ol Line Dudes (SOLD Inc.) is a new service in New York that helps people get in line for the latest, hottest and trendiest new products. At $25 for the first hour and $10 for every half hour after that, I think it’s pretty legit.